آرمی چیف کشمیر اور ہمارے شہداء
جنرل راحیل شریف نے یومِ شہدائے پاکستان کے مقدس لمحات میں بروقت اور بجا طور پر کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے
جنرل راحیل شریف کو سپہ سالارِ پاکستان کا عہدہ سنبھالے تقریباً چھ ماہ ہوچلے ہیں۔ اس دوران انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جو اقدامات کیے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے جو عملی مظاہرے کیے ہیں اور عالمی فورموں میں جس طرح زبردست اعتماد کے ساتھ پاکستان کی نمایندگی کی ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کا انتخاب اور چناؤ ہر لحاظ سے درست تھا۔ سپہ سالارِ پاکستان نے گذشتہ دنوں سعودی عرب کی دعوت پر وہاں ''شمشیرِ عبداللہ'' کی منفرد فوجی تقریبات میں شریک ہوکر جو اعزاز حاصل کیا ہے، وہ جہاں ایک طرف پاکستان کا بھی اعزاز ہے، وہاں اس بات کا بھی بیّن ثبوت کہ سعودی عرب ایسا طاقتور اور برادر عرب ملک جنرل راحیل شریف اور سپاہِ پاکستان پر گہرا اعتماد بھی رکھتا ہے اور افواج پاکستان سے سعودی حکام نے بلند توقعات بھی وابستہ کررکھی ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف پروفیشنل سولجر ہیں۔ وطن عزیز کے تحفظ کے لیے اپنا خون بے دریغ بہا دینا اور اس کی عظمت کے لیے دشمن کی جان بلا جھجک لے لینے کا درس انھوں نے گھر سے سیکھا ہے کہ ان کے والد گرامی بھی فوجی افسر تھے اور ان کے ایک بھائی اور ماموں نے وطن عزیز کی حرمت و عظمت پر کٹ کر نشان حیدر پائے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ وہ اللہ کے ہاں بھی زندہ ہیں اور اپنے ملک کے ہر شہری کے دل میں بھی دائم حیات ہیں اور حیاتِ جاوداں کے مالک رہیں گے۔
چند روز قبل راولپنڈی میں یومِ شہدائے پاکستان کے عظیم اور متبرک دن پر ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف نے جو مختصر مگر نہایت جامع خطاب کیا، اس نے تو ان کی کمٹمنٹ کو ایک بار پھر عیاں کردیا ہے۔ اسی روز وہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں قائداعظمؒ کے لہجے میں بولے۔ ان کا خطاب جہاں وطن سے ان کی بے پناہ محبت کو ظاہر کرتا ہے، وہاں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ تقریر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اور ان کے لائق ساتھیوں کی محنت کا بھی نتیجہ تھی۔ بلاشبہ میجر جنرل عاصم باجوہ صاحب اور ان کی ٹیم اپنے آرمی چیف کے ذہنی میلانات سے خوب آگاہ ہیں۔ جناب نواز شریف نے بھی 6مئی 2014ء کو جہاں جنرل صاحب کے خطاب کی تعریف کی، وہاں یہ بھی کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات پر بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے یومِ شہدائے پاکستان کے مقدس لمحات میں بروقت اور بجا طور پر کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قائداعظم ؒ نے بستر مرگ پر بھی پڑے پڑے کشمیر کی اہمیت اور حساسیت کو بھانپتے ہوئے کئی بار ارشاد فرمایا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت نے دجل و فریب سے اس شہ رگ پر قبضہ کررکھا ہے۔ جنرل صاحب اپنے عظیم قائد کے الفاظ کو بھولے نہیں؛ چنانچہ بطور یاد دہانی کہا: ''کشمیر بین الاقوامی تنازعہ ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرنا اور یہ حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے۔
کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔'' آرمی چیف کی یہ یاد دہانی ہمارے حکمرانوں کو بھی ہے جو تجارت کی خاطر بھارتی سینے سے اپنا سینہ ملانے کے لیے بیقرار ہیں، یہ الفاظ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے لیے انتباہ بھی ہیں اور جنرل صاحب کا یہ خطاب نریندر مودی کے لیے وارننگ بھی ہے جس نے اپنی آنکھوں سے خود بھی ایک بار پھر دیکھ لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچایا نہیں جاسکا ہے۔
کشمیری عوام نے انتخابات کو سرے سے مسترد کردیا ہے۔ جنرل صاحب کے کشمیر کے بارے بیان کے حوالے سے بھارت کو خاصی مرچیں لگی ہیں۔ زیادہ تکلیف مودی اور بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کو ہوئی ہے۔ سلمان نے چڑ کر کہاکہ پاکستان کشمیر کی بات چھوڑے، پہلے اپنے گھر کو درست کرے جہاں آئے روز دہشت گردی اور خود کش حملوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے جنرل صاحب کے خطاب کے بعد بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو بھی خاصی تکلیف ہوئی ہے۔
ویسے تو 47ء سے 2014ء تک ہمارے جوانوں نے ملکی سلامتی کے لیے ہمیشہ ہی تندہی کا ثبوت دیا ہے لیکن گذشتہ ایک عشرے سے دہشت گردوں نے جہاد کے لبادے میں ہمیں جس طرح پریشان کررکھا ہے، اس کے سامنے بند باندھنے اور ان غیر ملکی ایجنٹوں کے سامنے سدِراہ بننے کے لیے ہمارے فوجی جوانوں نے کچھ زیادہ ہی عزیمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تقریباً چھ ہزار جوان اور افسر اس راہ میں شہادت کے تاج پہن چکے ہیں؛ ضروری تھا کہ انھیں اجتماعی سطح پر سیلوٹ پیش کیا جائے؛ چنانچہ یوم شہدائے پاکستان کے پاکیزہ موقع پر جنرل راحیل شریف نے دل کھول کر قومی شہداء کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔
ان کے ولولہ انگیز الفاظ سے شہداء کے خاندانوں اور حاضرین کی آنکھیں بار بار اشکبار ہوتی رہیں۔ یہ رقت انگیز ماحول بھی تھا اور ولولہ انگیز لمحات بھی۔ جنرل صاحب کا خطاب سننے والوں کے دلوں میں وطن کی مٹی پر نثار ہونے اور بار بار قربان ہونے کی آرزوئیں مچلتی تڑپتی رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قافلہ جاں نثاراں کبھی تھمے گا نہ رکے گا۔ اسی لیے تو جنرل راحیل شریف نے باغیوں اور دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ آئین و قانون کی پابندی اور بالادستی قبول کریں، ورنہ ان سے نمٹ لیا جائے گا۔
بلوچستان سے محبت اور اس صوبے کی ترقی کا خواب بھی جنرل صاحب کے خطاب میں ستاروں کی طرح جھلملاتا اور جھلکتا رہا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ اسی صوبے میں تو انھوں نے آنکھ کھولی تھی۔ وہ اس کی فضائوں اور ہوائوں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟ چنانچہ انھوں نے یہ انکشاف کرکے ہم سب کو حیران کردیا کہ بلوچستان کے بیس ہزار جوان اور افسر پاک فون میں شامل ہوچکے ہیں۔ بحریہ اور فضائیہ میں جو بلوچ جوان گئے اور جارہے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس حوصلہ افزا خبر سے ہم سب کے سینے فخر اور خوشی سے پھول گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کی دی گئی اس خبر سے یقینا پاکستان کے دشمنوں کے سینوں پر سانپ لَوٹ گئے ہیں جو بلوچستان میں بھارت اور بعض مغربی طاقتوں کے تعاون سے اپنا پُر فریب کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ کھیل انشاء اللہ ناکامی اور نامرادی ہی پر منتج ہوگا۔ گذشتہ ہفتے وزیراعلیٰ بلوچستان محترم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بعض شکوے شکایت تو کیے لیکن وطن کے لیے ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ وہ قومی جذبات سے سرشار جس طرح مہذب انداز میں آگے بڑھ کر ناراض بلوچ عناصر سے مصافحہ و معانقہ کرکے انھیں قومی دھارے میں لانے کی جدوجہد کررہے ہیں، اس میدان میں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
شنید ہے کہ وہ اسی مستحسن جذبے کے تحت یکم مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف صاحب کے ساتھ لندن بھی گئے تاکہ وہاں بعض خود ساختہ بلوچ جلا وطن ''احباب'' کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی کوششوں کی دستگیری بھی کی جانی چاہیے اور ان کی معاونت بھی۔ ناراض بلوچ عناصر پر بھی واضح رہنا چاہیے کہ ٹوٹی ہوئی بانہیں بالآخر اپنے ہی گلے کو آتی ہیں اور ناخنوں کو گوشت سے کبھی جدا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ناراض بلوچوں کی بقا، سلامتی اور خوشحالی پاکستان کے وسیع اور قومی دھارے میں شامل ہونے ہی میں پوشیدہ ہے۔ ماما قدیر وغیرہ جن قوتوں کی جو بولی بول رہے ہیں، یہ ماما قدیر صاحب کے مفاد میں ہے نہ بلوچستان کے اجتماعی فائدے میں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف پروفیشنل سولجر ہیں۔ وطن عزیز کے تحفظ کے لیے اپنا خون بے دریغ بہا دینا اور اس کی عظمت کے لیے دشمن کی جان بلا جھجک لے لینے کا درس انھوں نے گھر سے سیکھا ہے کہ ان کے والد گرامی بھی فوجی افسر تھے اور ان کے ایک بھائی اور ماموں نے وطن عزیز کی حرمت و عظمت پر کٹ کر نشان حیدر پائے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ وہ اللہ کے ہاں بھی زندہ ہیں اور اپنے ملک کے ہر شہری کے دل میں بھی دائم حیات ہیں اور حیاتِ جاوداں کے مالک رہیں گے۔
چند روز قبل راولپنڈی میں یومِ شہدائے پاکستان کے عظیم اور متبرک دن پر ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف نے جو مختصر مگر نہایت جامع خطاب کیا، اس نے تو ان کی کمٹمنٹ کو ایک بار پھر عیاں کردیا ہے۔ اسی روز وہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں قائداعظمؒ کے لہجے میں بولے۔ ان کا خطاب جہاں وطن سے ان کی بے پناہ محبت کو ظاہر کرتا ہے، وہاں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ تقریر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اور ان کے لائق ساتھیوں کی محنت کا بھی نتیجہ تھی۔ بلاشبہ میجر جنرل عاصم باجوہ صاحب اور ان کی ٹیم اپنے آرمی چیف کے ذہنی میلانات سے خوب آگاہ ہیں۔ جناب نواز شریف نے بھی 6مئی 2014ء کو جہاں جنرل صاحب کے خطاب کی تعریف کی، وہاں یہ بھی کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات پر بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے یومِ شہدائے پاکستان کے مقدس لمحات میں بروقت اور بجا طور پر کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قائداعظم ؒ نے بستر مرگ پر بھی پڑے پڑے کشمیر کی اہمیت اور حساسیت کو بھانپتے ہوئے کئی بار ارشاد فرمایا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت نے دجل و فریب سے اس شہ رگ پر قبضہ کررکھا ہے۔ جنرل صاحب اپنے عظیم قائد کے الفاظ کو بھولے نہیں؛ چنانچہ بطور یاد دہانی کہا: ''کشمیر بین الاقوامی تنازعہ ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کرنا اور یہ حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے۔
کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔'' آرمی چیف کی یہ یاد دہانی ہمارے حکمرانوں کو بھی ہے جو تجارت کی خاطر بھارتی سینے سے اپنا سینہ ملانے کے لیے بیقرار ہیں، یہ الفاظ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے لیے انتباہ بھی ہیں اور جنرل صاحب کا یہ خطاب نریندر مودی کے لیے وارننگ بھی ہے جس نے اپنی آنکھوں سے خود بھی ایک بار پھر دیکھ لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچایا نہیں جاسکا ہے۔
کشمیری عوام نے انتخابات کو سرے سے مسترد کردیا ہے۔ جنرل صاحب کے کشمیر کے بارے بیان کے حوالے سے بھارت کو خاصی مرچیں لگی ہیں۔ زیادہ تکلیف مودی اور بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کو ہوئی ہے۔ سلمان نے چڑ کر کہاکہ پاکستان کشمیر کی بات چھوڑے، پہلے اپنے گھر کو درست کرے جہاں آئے روز دہشت گردی اور خود کش حملوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے جنرل صاحب کے خطاب کے بعد بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو بھی خاصی تکلیف ہوئی ہے۔
ویسے تو 47ء سے 2014ء تک ہمارے جوانوں نے ملکی سلامتی کے لیے ہمیشہ ہی تندہی کا ثبوت دیا ہے لیکن گذشتہ ایک عشرے سے دہشت گردوں نے جہاد کے لبادے میں ہمیں جس طرح پریشان کررکھا ہے، اس کے سامنے بند باندھنے اور ان غیر ملکی ایجنٹوں کے سامنے سدِراہ بننے کے لیے ہمارے فوجی جوانوں نے کچھ زیادہ ہی عزیمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تقریباً چھ ہزار جوان اور افسر اس راہ میں شہادت کے تاج پہن چکے ہیں؛ ضروری تھا کہ انھیں اجتماعی سطح پر سیلوٹ پیش کیا جائے؛ چنانچہ یوم شہدائے پاکستان کے پاکیزہ موقع پر جنرل راحیل شریف نے دل کھول کر قومی شہداء کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔
ان کے ولولہ انگیز الفاظ سے شہداء کے خاندانوں اور حاضرین کی آنکھیں بار بار اشکبار ہوتی رہیں۔ یہ رقت انگیز ماحول بھی تھا اور ولولہ انگیز لمحات بھی۔ جنرل صاحب کا خطاب سننے والوں کے دلوں میں وطن کی مٹی پر نثار ہونے اور بار بار قربان ہونے کی آرزوئیں مچلتی تڑپتی رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قافلہ جاں نثاراں کبھی تھمے گا نہ رکے گا۔ اسی لیے تو جنرل راحیل شریف نے باغیوں اور دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ آئین و قانون کی پابندی اور بالادستی قبول کریں، ورنہ ان سے نمٹ لیا جائے گا۔
بلوچستان سے محبت اور اس صوبے کی ترقی کا خواب بھی جنرل صاحب کے خطاب میں ستاروں کی طرح جھلملاتا اور جھلکتا رہا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ اسی صوبے میں تو انھوں نے آنکھ کھولی تھی۔ وہ اس کی فضائوں اور ہوائوں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟ چنانچہ انھوں نے یہ انکشاف کرکے ہم سب کو حیران کردیا کہ بلوچستان کے بیس ہزار جوان اور افسر پاک فون میں شامل ہوچکے ہیں۔ بحریہ اور فضائیہ میں جو بلوچ جوان گئے اور جارہے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس حوصلہ افزا خبر سے ہم سب کے سینے فخر اور خوشی سے پھول گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کی دی گئی اس خبر سے یقینا پاکستان کے دشمنوں کے سینوں پر سانپ لَوٹ گئے ہیں جو بلوچستان میں بھارت اور بعض مغربی طاقتوں کے تعاون سے اپنا پُر فریب کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ کھیل انشاء اللہ ناکامی اور نامرادی ہی پر منتج ہوگا۔ گذشتہ ہفتے وزیراعلیٰ بلوچستان محترم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بعض شکوے شکایت تو کیے لیکن وطن کے لیے ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ وہ قومی جذبات سے سرشار جس طرح مہذب انداز میں آگے بڑھ کر ناراض بلوچ عناصر سے مصافحہ و معانقہ کرکے انھیں قومی دھارے میں لانے کی جدوجہد کررہے ہیں، اس میدان میں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
شنید ہے کہ وہ اسی مستحسن جذبے کے تحت یکم مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف صاحب کے ساتھ لندن بھی گئے تاکہ وہاں بعض خود ساختہ بلوچ جلا وطن ''احباب'' کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی کوششوں کی دستگیری بھی کی جانی چاہیے اور ان کی معاونت بھی۔ ناراض بلوچ عناصر پر بھی واضح رہنا چاہیے کہ ٹوٹی ہوئی بانہیں بالآخر اپنے ہی گلے کو آتی ہیں اور ناخنوں کو گوشت سے کبھی جدا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ناراض بلوچوں کی بقا، سلامتی اور خوشحالی پاکستان کے وسیع اور قومی دھارے میں شامل ہونے ہی میں پوشیدہ ہے۔ ماما قدیر وغیرہ جن قوتوں کی جو بولی بول رہے ہیں، یہ ماما قدیر صاحب کے مفاد میں ہے نہ بلوچستان کے اجتماعی فائدے میں۔