درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
دلی کا خونی دروازہ آج ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت قاتل اور مقتول الگ الگ مذہبوں سے تعلق رکھتے تھے ...
محبوب علی خان آصف کا ایک شعر ہے جو ضرب المثل بن چکا ہے۔
لاؤ تو قتل نامہ مرا' میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
فیض صاحب نے بھی اس شعر کو اپنی ایک نظم ''لاؤ تو قتل نامہ مرا'' میں آخری شعر کے طور پر شامل کیا ہے، لیکن اس سے پہلے جو شعر فیض صاحب نے کہا ہے، وہ بھی سن لیجیے۔
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان قاتل و خنجر لگی ہوئی
محبوب علی خاں آصف کا شعر وقت پھانسی بہت سے لوگوں کو یاد آیا ہوگا۔ کہ پھانسی چڑھانے والے یا پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والے عموماً قریبی لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ اقتدار میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننا اور اقتدار ختم ہوجانے کے بعد بدترین دشمن بن کر فائدے حاصل کرنا، برصغیر کی روایت رہی ہے، ٹیپوسلطان سے غداری کرنے والے کون تھے، ان کے اپنے بظاہر وفادار ، میرجعفر اورمیرصادق جنھوں نے ٹیپوسلطان سے غداری کرکے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ بعد میں گورنری کے بجائے انگریزوں نے غداری کا انعام سر قلم کرکے دیا۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ اقتدار کی مسند پہ قدم جمانے کے لیے بیٹوں نے باپ کو زندان میں ڈلوادیا، ملکہ نور جہاں کے کہنے پر جہانگیر نے اپنے بیٹے خسرو کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی تھی۔دلی میں خونی دروازے پر پھانسی گھاٹ انگریزوں نے بنایا تھا، یہی حال چاندنی چوک کا بھی تھا۔ جن کے پیارے ان بازاروں میں پھانسی چڑھے وہ اب بھی وہاں سے گزرتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم اس وقت صرف ان کی بات کر رہے ہیں جو بغیر کسی جرم کے اپنوں کی نشان دہی پر یا مخبری پر پھانسی چڑھائے گئے ۔ انگریزوں کے زمانے میں مقامی باشندوں کی بن آئی۔ انھوں نے سرکار انگلشیہ کی وفاداری میں اپنی اپنی ذاتی دشمنیاں اور مخاصمتیں نمٹائیں۔
یہ ''وفادار'' جس کے بارے میں خبر دیتے تھے کہ وہ باغی ہے۔ انگریز سرکار ترنت اسے بغیر صفائی کا موقع دیے پھانسی چڑھا دیتی تھی۔ ان مخبروں میں دو طرح کے لوگ تھے۔ اول وہ جنھیں ان کی اعلیٰ خدمات اور سرکار سے وفاداری کے عوض، زمینیں، جاگیریں عطا ہوئیں، انھیں ''سر'' اور ''خان بہادر'' کے خطابات دیے گئے۔ خطابات پاکر وہ خود کو غریب ہندوستانیوں کو اپنے پیر کی جوتی سمجھنے لگے، ان کی اولاد ولایت جاکر تعلیم بھی حاصل کرنے لگیں اور واپسی پر ''میم'' ساتھ لانا بھی ان کے عزت و وقار میں اضافے کا سبب بنا۔ انھیں آزادی کے متوالوں نے ''کالے انگریز'' کا خطاب دیا۔ بدنصیبی یہ کہ یہی غلام ابن غلام آج تک ہم پر کسی نہ کسی صورت میں حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔
مخبروں کی دوسری قسم وہ تھی جنھیں انگریز سرکار کے کارندے ان کے گھروں سے بازاروں سے، دکانوں سے اٹھا لاتے تھے۔ اور ان سے ان باغیوں کے بارے میں پوچھتے تھے جو سرکار کے لیے چھلاوہ بنے ہوئے تھے۔ سرکار کی نظر میں یہ باغی تھے، لیکن عوام کے وہ ہیرو تھے۔ انھوں نے وطن کی مٹی کا سودا کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسی لیے باغی کہلاتے تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایسا ہی باغی تھا۔ آزادی کے یہ متوالے اور اپنے وطن سے محبت کرنے والے سرکار کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ سو انگریز فوج کے سپاہی راتوں کی تاریکی میں ان باغیوں کے قریبی دوستوں کو چپ چاپ اٹھالاتے اور ان سے ان وطن پرستوں کے ٹھکانے پوچھتے۔
ان کا حلیہ معلوم کرتے اگر وہ لوگ انکار کردیتے یا لاعلمی ظاہر کرتے کہ وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تو انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ ہندو، مسلمان اور سکھوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاتا۔ وہ جب بھی قابو میں نہ آتے تو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر تنبیہہ کی جاتی یا تو ان کی بات مان لی جائے، ورنہ ان کے خاندان کو اور خود ان کو موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔ کہتے ہیں ''مار کے آگے تو بھوت بھی بھاگتا ہے'' سو وہ بدنصیب اتنا سب کچھ سہہ کر کسی انعام کے حقدار بھی نہ ٹھہرے۔ اپنے چہرے نقابوں میں چھپاکر وہ اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں کی نشان دہی کرنے لگے۔ بے گناہ جب پھانسی گھاٹ پر لے جائے جاتے تو چہرے پر سیاہ غلاف چڑھانے سے پہلے جب ان کی نظر مجمع پر پڑتی تو یقینا انھیں یہ شعر یاد آتا ہوگا۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کیا آج کا منظرنامہ کچھ الگ ہے۔ آج بھی دو طرح کے مخبر ہیں۔ ایک وہ جو طاقت ور لوگوں سے مراعات، انعامات اور اعزازات کی خاطر نہ صرف اپنی دشمنیاں نمٹاتے ہیں بلکہ معزز بھی کہلاتے ہیں۔ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں ایک گروہ نے بنگالیوں کو باغی قرار دے کر انھیں بے موت مروا دیا اور خود جائیدادیں اور منصب حاصل کرلیے۔ لکھنے والوں نے سب لکھ دیا ہے کہ باغی بھی مسلمان اور مخبر بھی مسلمان۔ فرق تھا تو زبانوں کا۔ آج بچے کچھے پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ''زبردست کا ٹھینگا سر پر'' کے مصداق دوسری قسم کے مخبر کہیں سے بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔
یہ وہ طالع آزما ہیں جن کا دین ایمان صرف پیسہ ہے۔ یہ اپنی خدمات بعض اوقات طاقت ور لوگوں کو خود پیش کردیتے ہیں۔ جواب میں سرخ اسپورٹس کار سے لے کر محلات میں قیام بھی ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ بس ذرا سی بے ایمانی اپنی قوم سے کرنی پڑتی ہے اور بقیہ ضمیر کا سودا حسب منشا ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کالے برقعے پہن کر، یا چہروں پہ ماسک لگا کر زیادہ سے زیادہ انعام کے لالچ میں اپنے ہی لوگوں کا سودا کردیتے ہیں۔ نشان دہی کیے جانے والوں کو کبھی قوم پرستی کے جرم میں، کبھی لیاری گینگ وار کے نام پر اور کبھی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے الزامات لگا کر بغیر عدالت میں پیش کیے مار دیا جاتا ہے۔
دلی کا خونی دروازہ آج ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت قاتل اور مقتول الگ الگ مذہبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن آج یہ فرق بھی مٹ گیا ہے۔ سروں کی فصلیں کٹنے کا موسم پھر آگیا ہے کہ ان فصلوں کو کاٹنے والے ایک پھر معزز ٹھہریں گے۔ کون غدار ہے اور کون محب وطن؟ اس کا فیصلہ نفرت کی گولی کرے گی۔ محبتوں کے زمانے ختم ہوئے، فاختاؤں کا وجود خطرے میں ہے۔ میر جعفر اور میر صادق کے وارث مدعی اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔
لاؤ تو قتل نامہ مرا' میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
فیض صاحب نے بھی اس شعر کو اپنی ایک نظم ''لاؤ تو قتل نامہ مرا'' میں آخری شعر کے طور پر شامل کیا ہے، لیکن اس سے پہلے جو شعر فیض صاحب نے کہا ہے، وہ بھی سن لیجیے۔
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان قاتل و خنجر لگی ہوئی
محبوب علی خاں آصف کا شعر وقت پھانسی بہت سے لوگوں کو یاد آیا ہوگا۔ کہ پھانسی چڑھانے والے یا پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والے عموماً قریبی لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ اقتدار میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننا اور اقتدار ختم ہوجانے کے بعد بدترین دشمن بن کر فائدے حاصل کرنا، برصغیر کی روایت رہی ہے، ٹیپوسلطان سے غداری کرنے والے کون تھے، ان کے اپنے بظاہر وفادار ، میرجعفر اورمیرصادق جنھوں نے ٹیپوسلطان سے غداری کرکے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ بعد میں گورنری کے بجائے انگریزوں نے غداری کا انعام سر قلم کرکے دیا۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ اقتدار کی مسند پہ قدم جمانے کے لیے بیٹوں نے باپ کو زندان میں ڈلوادیا، ملکہ نور جہاں کے کہنے پر جہانگیر نے اپنے بیٹے خسرو کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی تھی۔دلی میں خونی دروازے پر پھانسی گھاٹ انگریزوں نے بنایا تھا، یہی حال چاندنی چوک کا بھی تھا۔ جن کے پیارے ان بازاروں میں پھانسی چڑھے وہ اب بھی وہاں سے گزرتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم اس وقت صرف ان کی بات کر رہے ہیں جو بغیر کسی جرم کے اپنوں کی نشان دہی پر یا مخبری پر پھانسی چڑھائے گئے ۔ انگریزوں کے زمانے میں مقامی باشندوں کی بن آئی۔ انھوں نے سرکار انگلشیہ کی وفاداری میں اپنی اپنی ذاتی دشمنیاں اور مخاصمتیں نمٹائیں۔
یہ ''وفادار'' جس کے بارے میں خبر دیتے تھے کہ وہ باغی ہے۔ انگریز سرکار ترنت اسے بغیر صفائی کا موقع دیے پھانسی چڑھا دیتی تھی۔ ان مخبروں میں دو طرح کے لوگ تھے۔ اول وہ جنھیں ان کی اعلیٰ خدمات اور سرکار سے وفاداری کے عوض، زمینیں، جاگیریں عطا ہوئیں، انھیں ''سر'' اور ''خان بہادر'' کے خطابات دیے گئے۔ خطابات پاکر وہ خود کو غریب ہندوستانیوں کو اپنے پیر کی جوتی سمجھنے لگے، ان کی اولاد ولایت جاکر تعلیم بھی حاصل کرنے لگیں اور واپسی پر ''میم'' ساتھ لانا بھی ان کے عزت و وقار میں اضافے کا سبب بنا۔ انھیں آزادی کے متوالوں نے ''کالے انگریز'' کا خطاب دیا۔ بدنصیبی یہ کہ یہی غلام ابن غلام آج تک ہم پر کسی نہ کسی صورت میں حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔
مخبروں کی دوسری قسم وہ تھی جنھیں انگریز سرکار کے کارندے ان کے گھروں سے بازاروں سے، دکانوں سے اٹھا لاتے تھے۔ اور ان سے ان باغیوں کے بارے میں پوچھتے تھے جو سرکار کے لیے چھلاوہ بنے ہوئے تھے۔ سرکار کی نظر میں یہ باغی تھے، لیکن عوام کے وہ ہیرو تھے۔ انھوں نے وطن کی مٹی کا سودا کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسی لیے باغی کہلاتے تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایسا ہی باغی تھا۔ آزادی کے یہ متوالے اور اپنے وطن سے محبت کرنے والے سرکار کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ سو انگریز فوج کے سپاہی راتوں کی تاریکی میں ان باغیوں کے قریبی دوستوں کو چپ چاپ اٹھالاتے اور ان سے ان وطن پرستوں کے ٹھکانے پوچھتے۔
ان کا حلیہ معلوم کرتے اگر وہ لوگ انکار کردیتے یا لاعلمی ظاہر کرتے کہ وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تو انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ ہندو، مسلمان اور سکھوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاتا۔ وہ جب بھی قابو میں نہ آتے تو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر تنبیہہ کی جاتی یا تو ان کی بات مان لی جائے، ورنہ ان کے خاندان کو اور خود ان کو موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔ کہتے ہیں ''مار کے آگے تو بھوت بھی بھاگتا ہے'' سو وہ بدنصیب اتنا سب کچھ سہہ کر کسی انعام کے حقدار بھی نہ ٹھہرے۔ اپنے چہرے نقابوں میں چھپاکر وہ اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں کی نشان دہی کرنے لگے۔ بے گناہ جب پھانسی گھاٹ پر لے جائے جاتے تو چہرے پر سیاہ غلاف چڑھانے سے پہلے جب ان کی نظر مجمع پر پڑتی تو یقینا انھیں یہ شعر یاد آتا ہوگا۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کیا آج کا منظرنامہ کچھ الگ ہے۔ آج بھی دو طرح کے مخبر ہیں۔ ایک وہ جو طاقت ور لوگوں سے مراعات، انعامات اور اعزازات کی خاطر نہ صرف اپنی دشمنیاں نمٹاتے ہیں بلکہ معزز بھی کہلاتے ہیں۔ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں ایک گروہ نے بنگالیوں کو باغی قرار دے کر انھیں بے موت مروا دیا اور خود جائیدادیں اور منصب حاصل کرلیے۔ لکھنے والوں نے سب لکھ دیا ہے کہ باغی بھی مسلمان اور مخبر بھی مسلمان۔ فرق تھا تو زبانوں کا۔ آج بچے کچھے پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ''زبردست کا ٹھینگا سر پر'' کے مصداق دوسری قسم کے مخبر کہیں سے بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔
یہ وہ طالع آزما ہیں جن کا دین ایمان صرف پیسہ ہے۔ یہ اپنی خدمات بعض اوقات طاقت ور لوگوں کو خود پیش کردیتے ہیں۔ جواب میں سرخ اسپورٹس کار سے لے کر محلات میں قیام بھی ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ بس ذرا سی بے ایمانی اپنی قوم سے کرنی پڑتی ہے اور بقیہ ضمیر کا سودا حسب منشا ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کالے برقعے پہن کر، یا چہروں پہ ماسک لگا کر زیادہ سے زیادہ انعام کے لالچ میں اپنے ہی لوگوں کا سودا کردیتے ہیں۔ نشان دہی کیے جانے والوں کو کبھی قوم پرستی کے جرم میں، کبھی لیاری گینگ وار کے نام پر اور کبھی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے الزامات لگا کر بغیر عدالت میں پیش کیے مار دیا جاتا ہے۔
دلی کا خونی دروازہ آج ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت قاتل اور مقتول الگ الگ مذہبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن آج یہ فرق بھی مٹ گیا ہے۔ سروں کی فصلیں کٹنے کا موسم پھر آگیا ہے کہ ان فصلوں کو کاٹنے والے ایک پھر معزز ٹھہریں گے۔ کون غدار ہے اور کون محب وطن؟ اس کا فیصلہ نفرت کی گولی کرے گی۔ محبتوں کے زمانے ختم ہوئے، فاختاؤں کا وجود خطرے میں ہے۔ میر جعفر اور میر صادق کے وارث مدعی اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔