مسلم لیگ اور اتحادیوں کا پہلا کامیاب اتحاد
ماضی میں جے یو آئی اور ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں شامل رہیں
اتحادی حکومت نے اپنے اقتدارکی آئینی مدت پوری کر ہی لی او تمام پارٹیوں کا اتحاد برقرار رہا اور باہمی شکایات کے باوجود کوئی پارٹی حکومت سے الگ نہیں ہوئی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بالاتروں نے پی ٹی آئی کو مصنوعی اکثریت دلا کر بڑی توقعات سے حکومت دلوائی تھی مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔ پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت کے بعد پی ٹی آئی نے ملک کی چھوٹی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور آزاد ارکان اسمبلی کی مدد حاصل کرنے کے لیے ان کی تمام شرائط مان لی تھیں۔
بی این پی مینگل اپنی شرائط پر اتحادی بنی تھی مگر اس نے دیگر پارٹیوں کی طرح وفاقی حکومت میں کوئی وزارت نہیں لی تھی اور حکومت کے باقی تمام اتحادیوں نے وزارتیں حاصل کی تھیں۔
اقتدار میں آتے ہی سابق وزیر اعظم نے جنھیں قومی اسمبلی اور ملک میں الیکٹڈ کے بجائے سلیکٹڈ کہا جاتا تھا اور سلیکٹڈ کا خطاب ان کی چڑ بن گیا تھا اور انھیں اسمبلی میں آتے ہی یہ ناپسندیدہ جملہ سننا پڑتا تھا مجبوری میں انھوں نے ایوان میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
بی این پی مینگل ان کی واحد اتحادی تھی جنھوں نے ان کے اقتدار ہی میں وعدے پورے ہونے پر حکومت کی حمایت ترک کردی تھی جب کہ باقی اتحادی وزیر اعظم کے وعدوں کی خلاف ورزی کے باوجود حکومت میں شامل اور وزارتوں سے چمٹے رہے۔
ساڑھے تین سال میں سابق وزیر اعظم نے اپنی من مانیوں سے بالاتروں اور اتحادیوں کو ناراض رکھا اور آمر کی طرح اپنی توجہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے پر مرکوز رکھی۔
سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے امکانات پیدا ہوئے تو اتحادیوں نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی اور سب اپنی شرائط پر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا حصہ بن گئے اور سب باقی 16 ماہ تک حکومت کا حصہ رہے اور ملک میں پہلی بار ایک وسیع التحاد حکومت نے اپنی بقایا آئینی مدت کامیابی سے مکمل کی۔
ماضی میں جے یو آئی اور ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں شامل رہیں۔ اے این پی کے پی میں (ق) لیگ پنجاب اور جماعت اسلامی کے پی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں شامل رہے۔
جے یو آئی بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں شامل رہی اور 2013 میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں (ن) لیگ شامل تھی مگر ججز بحالی کے معاملے پر (ن) لیگ پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی بھی (ن) لیگ حکومت میں شامل رہی مگر ان کے یہ سیاسی اتحاد آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئے تھے۔ پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس نے سیاسی مفاد کے لیے (ق) لیگ تڑوائی اور اپنے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی، ان کے بیٹے مونس اور شیخ رشید کو اپنی حکومتوں میں شامل کیا اور اپنے اعلانات سے یو ٹرن لینے کا ریکارڈ بنایا۔
اپریل 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں بھی نشیب و فراز آئے مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے حکومت کو متحد رکھا۔
ایک دوسرے پر اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیا اور حکومت میں اتحادیوں کی باہمی شکایات رفع کرائیں اور اس طرح ملک میں 13جماعتوں کی اتحادی حکومت نے آئینی مدت پوری کی جس میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے اہم کردار ادا کیا اور کسی ایک چھوٹی جماعت نے بھی اتحادی حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
آصف زرداری نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے جو یو آئی سے کیے اکثر مطالبے پورے کرائے۔ کسی اتحادی کو ناانصافی کے باوجود حکومت سے الگ نہیں ہونے دیا اور اتحادی حکومت نے باہمی اتحاد برقرار رکھ کر ایک اچھی مثال قائم کی۔
وفاقی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے بعد زیادہ وزارتیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ جے یو آئی نے وفاق میں نہ صرف چار وزارتیں بلکہ کے پی کی گورنر شپ حاصل کی اور سب سے زیادہ فائدے میں رہی۔
سندھ اور بلوچستان کی گورنر شپ اتحادیوں کو ملی۔ آخر میں آزاد کشمیر اور جی بی کی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف ارکان، پی پی اور (ن) لیگ وہاں کی حکومتوں میں شامل ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے غلط فیصلوں نے ان کی پانچ حکومتیں ختم کرائیں وہ اپنی غلط منصوبہ بندی میں ناکام رہ کر تنہا ہوئے۔ توقع ہے کہ اپنے اپنے منشور پر الیکشن لڑ کر اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد میں آیندہ بھی مل کر حکومتیں بنائیں گی اور ملک کو اس کی ضرورت بھی ہے تنہا کوئی پارٹی مسائل حل نہیں کرسکتی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بالاتروں نے پی ٹی آئی کو مصنوعی اکثریت دلا کر بڑی توقعات سے حکومت دلوائی تھی مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔ پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت کے بعد پی ٹی آئی نے ملک کی چھوٹی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، بی این پی مینگل اور آزاد ارکان اسمبلی کی مدد حاصل کرنے کے لیے ان کی تمام شرائط مان لی تھیں۔
بی این پی مینگل اپنی شرائط پر اتحادی بنی تھی مگر اس نے دیگر پارٹیوں کی طرح وفاقی حکومت میں کوئی وزارت نہیں لی تھی اور حکومت کے باقی تمام اتحادیوں نے وزارتیں حاصل کی تھیں۔
اقتدار میں آتے ہی سابق وزیر اعظم نے جنھیں قومی اسمبلی اور ملک میں الیکٹڈ کے بجائے سلیکٹڈ کہا جاتا تھا اور سلیکٹڈ کا خطاب ان کی چڑ بن گیا تھا اور انھیں اسمبلی میں آتے ہی یہ ناپسندیدہ جملہ سننا پڑتا تھا مجبوری میں انھوں نے ایوان میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
بی این پی مینگل ان کی واحد اتحادی تھی جنھوں نے ان کے اقتدار ہی میں وعدے پورے ہونے پر حکومت کی حمایت ترک کردی تھی جب کہ باقی اتحادی وزیر اعظم کے وعدوں کی خلاف ورزی کے باوجود حکومت میں شامل اور وزارتوں سے چمٹے رہے۔
ساڑھے تین سال میں سابق وزیر اعظم نے اپنی من مانیوں سے بالاتروں اور اتحادیوں کو ناراض رکھا اور آمر کی طرح اپنی توجہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے پر مرکوز رکھی۔
سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے امکانات پیدا ہوئے تو اتحادیوں نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی اور سب اپنی شرائط پر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا حصہ بن گئے اور سب باقی 16 ماہ تک حکومت کا حصہ رہے اور ملک میں پہلی بار ایک وسیع التحاد حکومت نے اپنی بقایا آئینی مدت کامیابی سے مکمل کی۔
ماضی میں جے یو آئی اور ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں شامل رہیں۔ اے این پی کے پی میں (ق) لیگ پنجاب اور جماعت اسلامی کے پی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں شامل رہے۔
جے یو آئی بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں شامل رہی اور 2013 میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں (ن) لیگ شامل تھی مگر ججز بحالی کے معاملے پر (ن) لیگ پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی بھی (ن) لیگ حکومت میں شامل رہی مگر ان کے یہ سیاسی اتحاد آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئے تھے۔ پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس نے سیاسی مفاد کے لیے (ق) لیگ تڑوائی اور اپنے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی، ان کے بیٹے مونس اور شیخ رشید کو اپنی حکومتوں میں شامل کیا اور اپنے اعلانات سے یو ٹرن لینے کا ریکارڈ بنایا۔
اپریل 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں بھی نشیب و فراز آئے مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے حکومت کو متحد رکھا۔
ایک دوسرے پر اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیا اور حکومت میں اتحادیوں کی باہمی شکایات رفع کرائیں اور اس طرح ملک میں 13جماعتوں کی اتحادی حکومت نے آئینی مدت پوری کی جس میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے اہم کردار ادا کیا اور کسی ایک چھوٹی جماعت نے بھی اتحادی حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
آصف زرداری نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے جو یو آئی سے کیے اکثر مطالبے پورے کرائے۔ کسی اتحادی کو ناانصافی کے باوجود حکومت سے الگ نہیں ہونے دیا اور اتحادی حکومت نے باہمی اتحاد برقرار رکھ کر ایک اچھی مثال قائم کی۔
وفاقی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے بعد زیادہ وزارتیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ جے یو آئی نے وفاق میں نہ صرف چار وزارتیں بلکہ کے پی کی گورنر شپ حاصل کی اور سب سے زیادہ فائدے میں رہی۔
سندھ اور بلوچستان کی گورنر شپ اتحادیوں کو ملی۔ آخر میں آزاد کشمیر اور جی بی کی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف ارکان، پی پی اور (ن) لیگ وہاں کی حکومتوں میں شامل ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے غلط فیصلوں نے ان کی پانچ حکومتیں ختم کرائیں وہ اپنی غلط منصوبہ بندی میں ناکام رہ کر تنہا ہوئے۔ توقع ہے کہ اپنے اپنے منشور پر الیکشن لڑ کر اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد میں آیندہ بھی مل کر حکومتیں بنائیں گی اور ملک کو اس کی ضرورت بھی ہے تنہا کوئی پارٹی مسائل حل نہیں کرسکتی۔