نوجوانوں کا خون کیا بوڑھے کو جوان بنا سکتا ہے
انسان کے تن بدن میں دوڑتے سرخ سیال کی حیرت انگیز خصوصیات سائنس سامنے لے آئی
انسان سمیت تمام جانداروں کی زندگی رواں دواں رکھنے میں خون کا اہم کردار ہے۔ یہی سیال جاندار کے کھربوں خلیوں تک آکسیجن اور غذائیات (Nutrients) پہنچاتا ہے۔ یوں وہ زندہ رہتے اور ذی حس کو بھی محو حرکت رکھتے ہیں۔ خلیے جو فضلہ بناتے ہیں، خون اسے بھی گردوں تک لاتا ہے تاکہ سارا مائع فضلہ جسم سے نکال باہر کریں۔
انسان اب تک مصنوعی خون تیار نہیں کر سکا لہذا اسے دوسرے انسانوں ہی سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ غرض حیات ِانسانی میں اس سرخ سیال کی بڑی اہمیت ہے۔
تعجب خیز بات یہ کہ اردو زبان میں اس سیّال کو قتل وغارت گری سے تشبیہہ دے دی گئی اور یوں یہ ایک منفی شے بن بیٹھا۔ یہ تو بھلا ہو اردو شاعروں کا کہ انھوں نے خون کو محض منفی چیز نہیں سمجھا اور اس کی اہمیت اجاگر کرتے ایسے شعر کہے جو امر ہو گئے۔ مثال کے طور پہ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
قریب ہے یارو روز ِمحشر ، چُھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چُپ رہے گی زبان ِخنجر، لہو پکارے گا آستین کا
(امیر مینائی )
خون ِناحق کی شہادت کے لیے کافی ہے یہ
دامنِٕ قاتل پہ جو دھبے لہو کے جم رہے
(مرزا منن)
آستین رنگ بدلے آئی، لہو دے نکلی
نہ چُھپا، لاکھ چُھپا حشر میں قاتل میرا
(ریاض خیر آبادی)
اب جدید سائنس وٹیکنالوجی بھی خون کی اہمیت اجاگر کر رہی ہے۔ پچھلے ایک عشرے کے دوران ماہرین طب نے تحقیق و تجربات سے دریافت کیا ہے کہ نوجوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کے جسم میں داخل کیا جائے تو بڑھاپے کے کئی اثرات ماند پڑ جاتے ہیں۔
معنی یہ کہ نوجوان خون نے بوڑھے چوہوں میں بڑھاپے کی علامات ختم کر کے انھیں بھی کسی حد تک جوان بنا دیا۔ انسان پچھلی ایک صدی سے چوہوں کو لیبارٹریوں میں مختلف بیماریاں اور ادویہ پہ تحقیق وتجربات کرتے ہوئے استعمال کر رہا ہے ۔ وجہ یہ کہ چوہے اور انسان کے جسمانی نظاموں میں خاصی مماثلت ہے۔
اسی طرح ان کا خون بھی ملتا جلتا ہے۔ اس لیے اکثر ماہرین طب کو یقین ہے کہ نوجوان انسان کا خون بھی بڑھاپا روک اثرات رکھتا ہے۔ یہ دعوی ثابت کرنے کے لیے امریکا و یورپ میں سیکڑوں سائنس داں مصروف ِتحقیق ہیں۔
گو ابھی ان کی تحقیق سے کوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آیا مگر امریکا میں خصوصاً کئی بوڑھے مرد و زن نوجوانوں سے خون لے کر اپنے جسم میں دوڑانے لگے ۔انھیں یقین ہے کہ اس طرح ان کی مجموعی صحت پہ عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ پہلے سے تندرست و توانا ہو چکے۔
کئی امریکی اپنے بیٹے بیٹیوں سے خون لیتے ہیں جو انھیں مفت پڑتا ہے۔ امیر امریکی بوڑھے نوجوانوں سے خون خرید لیتے ہیں۔ یوں امریکا میں نوجوانوں کا خون منفعت بخش اور قیمتی شے بن چکا۔
دنیا میں صدیوں سے بیماروں اور زخمیوں کو تندرست انسانوں کا خون دینے کا رواج چلا آ رہا ہے۔ اب یہ نئی ریت ہے کہ بوڑھے مرد و زن، نوجوانوں سے خون لینے لگے ہیں۔
اس پہ کچھ لوگوں نے تو ناک بھوں چڑھائی مگر امریکی معاشرے میں یہ رواج قبول کر لیا گیا۔گو امریکی وزارت صحت اس رواج کے حق میں نہیں، وہ اپنے شہریوں کو متنبہ کرتی رہتی ہے کہ اس نئے چلن سے دور رہیں۔
وجہ یہی کہ طبی سائنس نے ٹھوس طریقے سے اب تک یہ ثابت نہیں کیا کہ نوجوان کا خون بوڑھے انسان میں بڑھاپے کے اثرات ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیز خون لینے دینے کے عمل سے طبی خطرات بھی وابستہ ہیں۔ اس انتباہ کے باوجود لاکھوں امریکی بوڑھے مرد و زن اپنے جسم میں نوجوان خون دوڑانے پہ کمربستہ ہیں۔
ایک بالغ انسان 8 سے 12 پنٹ خون اپنے بدن میں رکھتا ہے۔ ایک پنٹ (یا ایک یونٹ) خون تقریباً 522 ملی میٹر کے برابر ہے۔ ایک بالغ ساٹھ دن میں ایک بار ایک پنٹ خون دے سکتا ہے اور اس کی صحت پہ کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ عام حالات میں عطیہ کردہ خون بیمار و زخمی انسانوں کی جانیں بچانے میں کام آتا ہے۔
تمام بڑے جاندار اپنے اجسام میں خون رکھتے ہیں جس کے تین بنیادی حصے ہیں: پلازما، سرخ خونی خلیے اور سفید خونی خلیے۔ انسان اور دیگر ممالیہ جانور خون کا چوتھا جزو''پلیٹلٹ''بھی رکھتے ہیں۔ پلیٹلٹ زخمی ہونے پہ زخم کی جگہ انجماد (بندش ) پیدا کرتے ہیں تاکہ خون ضائع نہ ہو۔
ایک پنٹ انسانی خون 55 فیصد پلازما اور 45 فیصد سرخ خونی خلیے، سفید خونی خلیے اور پلیٹلٹ رکھتا ہے۔ پلازما مائع ہے جس کا 91 فیصد حصہ پانی ہے۔ سرخ اور سفید خونی خلیے اور پلیٹلٹ اسی مائع میں تیرتے ہیں۔ پلازما میں گلوکوز، پروٹین اور دیگر غذائی عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ خون میں سرخ خونی خلیے زیادہ ملتے ہیں۔
یہ فولاد کا حامل ایک خاص پروٹین، ہیموگلوبن رکھتے ہیں جو آکسیجن کو خون میں جذب ہونے میں مدد دیتا ہے۔ سرخ خونی خلیے ہی پھیپڑوں سے پورے جسم تک آکسیجن لے جاتے ہیں۔ سفید خونی خلیے ہمارے مدافعتی نظام کا حصہ ہیں۔ وہ حملہ آور جراثیم، وائرسوں وغیرہ کو مار کر ہمیں موذی امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ہماری ہڈیوں کے گودے میں موجود بنیادی خلیے (Stem cells) پچانوے فیصد سرخ خونی خلیے پیدا کرتے ہیں۔
خون کے بڑھاپا روک اثرات پہلی بار 2014 ء میں سامنے آئے۔ اس سال امریکا کی سٹنفورڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر اعصاب، پروفیسر ٹونی وائس کورے نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے دو چوہے لیے۔ ایک بوڑھا اور دوسرا نوجوان تھا۔
پھر لیبارٹری میں آپریشن کر کے دونوں کے جسم جوڑ دئیے۔ یوں بوڑھے اور نواجوان چوہوں کا خون ایک دوسرے کے اجسام میں گردش کرنے لگا۔ یہ آپریشن اصطلاح میں پارابئیوس (Parabiosis)کہلاتا ہے۔ اس تجربے کے بعد بوڑھے چوہے کا دماغ زیادہ سرگرمی سے، کسی نوجوان چوہے کے دماغ کی طرح کام کرنے لگا۔
اس کے دماغ میں نئے دماغی خلیے (نیورون) بھی پیدا ہو گئے جو انقلابی بات تھی۔ یوں بوڑھا چوہا پہلے کی نسبت بہتر انداز میں نئی باتیں سیکھنے لگا اور اس کی یادداشت بھی اچھی ہو گئی۔ تجربے سے عیاں ہوا کہ نوجوان چوہے کا خون بوڑھے چوہے کے دماغ میں مثبت تبدیلیاں لے آیا۔ یہ ایک اہم انکشاف تھا کیونکہ جاندار کے بدن میں دماغ بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر بوڑھا دماغ نوجوان خون پا کر تازہ دم ہو سکتا ہے تو یہ ایک زوردار انکشاف تھا۔
2014ء کے بعد امریکا و یورپ کی دیگر یونیورسٹیوں سے وابستہ سائنس داں بھی نوجوان اور بوڑھے چوہوں کے خون پر تحقیق وتجربات کرنے لگے۔
ان کے تجربوں سے افشا ہوا کہ جب نوجوان چوہوں کے اجسام میں بوڑھے چوہوں کا خون داخل ہوا تو اس نے ان میں بڑھاپے کے اثرات پیدا کر ڈالے۔ جبکہ ضعیف چوہوں کو نوجوانوں کا خون ملا تو ان میں بڑھاپے کے اثرات ماند پڑ گئے۔
تجربات میں دیکھا گیا کہ نوجوان خون ملنے سے بوڑھے چوہوں کی عقل تیز ہو گئی اور وہ زیادہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ ان کا دل بھی بہتر انداز میں دھڑکنے لگا۔ نیز عضلات بھی پہلے کی نسبت مضبوط ہو گئے۔ غرض نوجوان خون نے ان کے بدن میں کئی مثبت تبدیلیاں پیدا کر دیں۔
سوال یہ ہے کہ نوجوان خون بوڑھوں کے جسم میں پہنچ کر حیران کن تبدیلیاں کیونکر لاتا ہے؟ سائنس داں ابھی حتمی جواب نہیں ڈھونڈ سکے، البتہ کچھ نظریات ضرور سامنے آ چکے۔
بنیادی نظریہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جاندار کے بدن میں خلیوں کی شکست و ریخت، ناقص غذاؤں، بری عادات زندگی اور مضر صحت ماحول کی وجہ مختلف اقسام کے زہریلے عناصر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی عناصر جاندار کے خلیوں، غدود، جسمانی نظاموں اور اعضا پہ منفی اثرات ڈال کر اسے بوڑھا کرنے لگتے ہیں۔ ایک دن وہ چل بستا ہے۔
لیکن جب بوڑھے جاندار کے جسم میں نوجوان جاندار کا خون ڈالا جائے تو اس میں زہریلے عناصر بہت کم ہوتے ہیں۔ لہذا نوجوان خون بوڑھے کے جسم میں زہریلے عناصر کی تعداد کم کر دیتا ہے۔ یہی نہیں، نوجوان خون میں ایسے قدرتی عناصر (سالمے یعنی مالیکول، انزائم وغیرہ) موجود ہوتے ہیں جو بوڑھے کے جسمانی خلیوں کو ری پروگرامڈ کر دیتے ہیں ... معنی یہ کہ ان خلیوں کو تقریباً نیا بنا ڈالتے ہیں۔ چناں چہ وہ زیادہ عمدگی سے کام کرنے لگتے اور بوڑھے جسم کو جوان بنا دیتے ہیں۔
مزید براں انسان سمیت ہر بڑے جاندار میں خون سر تا پا دوڑتا ہے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے عضو، غدود اور خلیے تک پہنچتا ہے۔گویا جاندار کا رواں رواں خون سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے، جب بوڑھے جسم کی رگوں میں نوجوان خون دوڑنے لگے تو وہ سبھی جسمانی نظاموں پہ اثرانداز ہوتا اور انھیں مثبت انداز میں بدل دیتا ہے۔ گویا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ایک بوڑھے جاندار کے لیے نوجوان خون آب حیات جیسی اہمیت رکھتا ہے۔
امریکا و یورپ میں جب یہ نظریہ عام ہوا کہ نوجوان خون بوڑھوں کو جوان بنا سکتا ہے تو کئی دولت مند بوڑھے یہ عمل اپنانے لگے۔
وہ اپنے جسم سے بوڑھا خون نکلوا کر اس میں نوجوان خون ڈالنے لگے۔ یہ ایک مہنگا عمل ہے، اس لیے صرف امیر بوڑھوں ہی نے اسے اپنایا۔ تاہم امریکی وزارت صحت نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا کہ یہ ایک خطرناک عمل ہے اور اس کے خوفناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
لہذا نوجوان خون اپنے جسم میں بھرنے سے گریز کیجیے۔اس انتباہ کی وجہ یہ ہے کہ فی الوقت چوہوں پہ کیے گئے تجروں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نوجوان خون بوڑھے جانداروں میں پہنچ کر انھیں جوان بنا سکتا ہے۔
اس قسم کا کوئی تجربہ ابھی انسانوں پہ نہیں کیا گیا۔ لہذا سائنس داں نہیں جانتے کہ کسی نوجوان آدمی کا خون ایک بوڑھے کے جسم میں دوڑنے لگے تو خصوصاً طویل المعیاد طور پہ اس کے بدن میں کیسی اچھی یا بری تبدیلیاں آئیں گی۔
امریکی ویورپی سرکاری طبی اداروں کے انتباہ کے باجود وہاں ہزارہا بوڑھے باقاعدگی سے ہر دو ماہ بعد اپنا خون نکلواتے اور نوجوان خون اپنے بدن میں دوڑا دیتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ عمل انجام دینے کے بعد وہ جسمانی و ذہنی طور پہ چستی ومستعدی محسوس کرتے ہیں۔
ان کے اعضا طاقتور ہو جاتے ہیں اور انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جوان ہو چکے۔ مثال کے طور پر برائن جانسن (Bryan Johnson) کو لیجیے جو امریکا کا سرمایہ کار اور کاروباری ہے۔ یہ 45 سالہ امریکی پچھلے تین سال سے نوجوان خون خرید کر اپنے جسم میں انڈیل رہا ہے۔ اب تو اس کا نوجوان بیٹا اسے خون دیتا ہے۔
نیز وہ ملٹی وٹامن گولیاں کھاتا، ورزش کرتا اور مخصوص کھانے تناول کرتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ برائن نے اس لیے تشکیل دیا کہ خود کو تادیر جوان و تندرست رکھ سکے۔ اس منصوبے پہ وہ سالانہ بیس لاکھ ڈالر (پانچ کروڑ چھیاسٹھ لاکھ روپے) خرچ کرتا ہے۔ برائن کا دعوی ہے کہ وہ اپنے مصوبے پہ عمل کر کے خود کو 28 سالہ نوجوان تصور کرتا ہے۔
ماہرین طب اب نوجوان چوہوں ہی نہیں نوجوان انسانوں کے خون میں بھی ایسے قدرتی عناصر دریافت کرنے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کررہے ہیں جو ایک بوڑھے میں بڑھاپے کے اثرات کم کرتے ہیں۔ مقصد یہ کہ مطلوبہ عناصر کا کھوج لگا کر ان پہ مبنی دوا بنائی جا سکے۔
ظاہر ہے، یہ دوا دے کر پھر ہر بوڑھے انسان میں بڑھاپے کے عموماً تکلیف دہ اور پریشان کن اثرات دور کیے جا سکیں گے۔ یہی نہیں، اس کی روزمرہ زندگی آسان ہو جائے گی اور وہ اپنا عرصہ حیات خوش باش طریق سے گذار سکے گا۔
ایک حالیہ تجربے سے افشا ہوا ہے کہ بوڑھے چوہے کے بدن میں جب نوجوان چوہے کا خون گیا تو اس کے وہ بنیادی خلیے بھی دوبارہ سرخ خونی خلیے پیدا کرنے لگے جو ناکارہ ہو چکے تھے۔گویا نوجوان خون میں موجود عناصر نے ان بیکار بنیادی خلیوں کو صحت مند بنا کر پھر مفید اور کام کے قابل بنا دیا۔ سو محقق نوجوان خون میں ان عناصر کو بھی تلاش کر رہے ہیں جو ناکارہ بنیادی خلیوں کی مرمت کر سکتے ہیں۔
امریکا و یورپ میں وسیع پیمانے پر نوجوان انسانی خون پہ تحقیق وتجربات جاری ہیں۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اگلے ایک عشرے تک نوجوان انسانی خون کی کئی خوبیاں نمایاں ہو جائیں گی۔اور عین ممکن ہے کہ وہ بوڑھوں کو تندرستی ، صحت اور طویل عمر عطا کرنے والا آب حیات بن جائے۔
انسان اب تک مصنوعی خون تیار نہیں کر سکا لہذا اسے دوسرے انسانوں ہی سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ غرض حیات ِانسانی میں اس سرخ سیال کی بڑی اہمیت ہے۔
تعجب خیز بات یہ کہ اردو زبان میں اس سیّال کو قتل وغارت گری سے تشبیہہ دے دی گئی اور یوں یہ ایک منفی شے بن بیٹھا۔ یہ تو بھلا ہو اردو شاعروں کا کہ انھوں نے خون کو محض منفی چیز نہیں سمجھا اور اس کی اہمیت اجاگر کرتے ایسے شعر کہے جو امر ہو گئے۔ مثال کے طور پہ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
قریب ہے یارو روز ِمحشر ، چُھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چُپ رہے گی زبان ِخنجر، لہو پکارے گا آستین کا
(امیر مینائی )
خون ِناحق کی شہادت کے لیے کافی ہے یہ
دامنِٕ قاتل پہ جو دھبے لہو کے جم رہے
(مرزا منن)
آستین رنگ بدلے آئی، لہو دے نکلی
نہ چُھپا، لاکھ چُھپا حشر میں قاتل میرا
(ریاض خیر آبادی)
اب جدید سائنس وٹیکنالوجی بھی خون کی اہمیت اجاگر کر رہی ہے۔ پچھلے ایک عشرے کے دوران ماہرین طب نے تحقیق و تجربات سے دریافت کیا ہے کہ نوجوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کے جسم میں داخل کیا جائے تو بڑھاپے کے کئی اثرات ماند پڑ جاتے ہیں۔
معنی یہ کہ نوجوان خون نے بوڑھے چوہوں میں بڑھاپے کی علامات ختم کر کے انھیں بھی کسی حد تک جوان بنا دیا۔ انسان پچھلی ایک صدی سے چوہوں کو لیبارٹریوں میں مختلف بیماریاں اور ادویہ پہ تحقیق وتجربات کرتے ہوئے استعمال کر رہا ہے ۔ وجہ یہ کہ چوہے اور انسان کے جسمانی نظاموں میں خاصی مماثلت ہے۔
اسی طرح ان کا خون بھی ملتا جلتا ہے۔ اس لیے اکثر ماہرین طب کو یقین ہے کہ نوجوان انسان کا خون بھی بڑھاپا روک اثرات رکھتا ہے۔ یہ دعوی ثابت کرنے کے لیے امریکا و یورپ میں سیکڑوں سائنس داں مصروف ِتحقیق ہیں۔
گو ابھی ان کی تحقیق سے کوئی واضح نتیجہ سامنے نہیں آیا مگر امریکا میں خصوصاً کئی بوڑھے مرد و زن نوجوانوں سے خون لے کر اپنے جسم میں دوڑانے لگے ۔انھیں یقین ہے کہ اس طرح ان کی مجموعی صحت پہ عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ پہلے سے تندرست و توانا ہو چکے۔
کئی امریکی اپنے بیٹے بیٹیوں سے خون لیتے ہیں جو انھیں مفت پڑتا ہے۔ امیر امریکی بوڑھے نوجوانوں سے خون خرید لیتے ہیں۔ یوں امریکا میں نوجوانوں کا خون منفعت بخش اور قیمتی شے بن چکا۔
دنیا میں صدیوں سے بیماروں اور زخمیوں کو تندرست انسانوں کا خون دینے کا رواج چلا آ رہا ہے۔ اب یہ نئی ریت ہے کہ بوڑھے مرد و زن، نوجوانوں سے خون لینے لگے ہیں۔
اس پہ کچھ لوگوں نے تو ناک بھوں چڑھائی مگر امریکی معاشرے میں یہ رواج قبول کر لیا گیا۔گو امریکی وزارت صحت اس رواج کے حق میں نہیں، وہ اپنے شہریوں کو متنبہ کرتی رہتی ہے کہ اس نئے چلن سے دور رہیں۔
وجہ یہی کہ طبی سائنس نے ٹھوس طریقے سے اب تک یہ ثابت نہیں کیا کہ نوجوان کا خون بوڑھے انسان میں بڑھاپے کے اثرات ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیز خون لینے دینے کے عمل سے طبی خطرات بھی وابستہ ہیں۔ اس انتباہ کے باوجود لاکھوں امریکی بوڑھے مرد و زن اپنے جسم میں نوجوان خون دوڑانے پہ کمربستہ ہیں۔
ایک بالغ انسان 8 سے 12 پنٹ خون اپنے بدن میں رکھتا ہے۔ ایک پنٹ (یا ایک یونٹ) خون تقریباً 522 ملی میٹر کے برابر ہے۔ ایک بالغ ساٹھ دن میں ایک بار ایک پنٹ خون دے سکتا ہے اور اس کی صحت پہ کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ عام حالات میں عطیہ کردہ خون بیمار و زخمی انسانوں کی جانیں بچانے میں کام آتا ہے۔
تمام بڑے جاندار اپنے اجسام میں خون رکھتے ہیں جس کے تین بنیادی حصے ہیں: پلازما، سرخ خونی خلیے اور سفید خونی خلیے۔ انسان اور دیگر ممالیہ جانور خون کا چوتھا جزو''پلیٹلٹ''بھی رکھتے ہیں۔ پلیٹلٹ زخمی ہونے پہ زخم کی جگہ انجماد (بندش ) پیدا کرتے ہیں تاکہ خون ضائع نہ ہو۔
ایک پنٹ انسانی خون 55 فیصد پلازما اور 45 فیصد سرخ خونی خلیے، سفید خونی خلیے اور پلیٹلٹ رکھتا ہے۔ پلازما مائع ہے جس کا 91 فیصد حصہ پانی ہے۔ سرخ اور سفید خونی خلیے اور پلیٹلٹ اسی مائع میں تیرتے ہیں۔ پلازما میں گلوکوز، پروٹین اور دیگر غذائی عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ خون میں سرخ خونی خلیے زیادہ ملتے ہیں۔
یہ فولاد کا حامل ایک خاص پروٹین، ہیموگلوبن رکھتے ہیں جو آکسیجن کو خون میں جذب ہونے میں مدد دیتا ہے۔ سرخ خونی خلیے ہی پھیپڑوں سے پورے جسم تک آکسیجن لے جاتے ہیں۔ سفید خونی خلیے ہمارے مدافعتی نظام کا حصہ ہیں۔ وہ حملہ آور جراثیم، وائرسوں وغیرہ کو مار کر ہمیں موذی امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ہماری ہڈیوں کے گودے میں موجود بنیادی خلیے (Stem cells) پچانوے فیصد سرخ خونی خلیے پیدا کرتے ہیں۔
خون کے بڑھاپا روک اثرات پہلی بار 2014 ء میں سامنے آئے۔ اس سال امریکا کی سٹنفورڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر اعصاب، پروفیسر ٹونی وائس کورے نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے دو چوہے لیے۔ ایک بوڑھا اور دوسرا نوجوان تھا۔
پھر لیبارٹری میں آپریشن کر کے دونوں کے جسم جوڑ دئیے۔ یوں بوڑھے اور نواجوان چوہوں کا خون ایک دوسرے کے اجسام میں گردش کرنے لگا۔ یہ آپریشن اصطلاح میں پارابئیوس (Parabiosis)کہلاتا ہے۔ اس تجربے کے بعد بوڑھے چوہے کا دماغ زیادہ سرگرمی سے، کسی نوجوان چوہے کے دماغ کی طرح کام کرنے لگا۔
اس کے دماغ میں نئے دماغی خلیے (نیورون) بھی پیدا ہو گئے جو انقلابی بات تھی۔ یوں بوڑھا چوہا پہلے کی نسبت بہتر انداز میں نئی باتیں سیکھنے لگا اور اس کی یادداشت بھی اچھی ہو گئی۔ تجربے سے عیاں ہوا کہ نوجوان چوہے کا خون بوڑھے چوہے کے دماغ میں مثبت تبدیلیاں لے آیا۔ یہ ایک اہم انکشاف تھا کیونکہ جاندار کے بدن میں دماغ بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر بوڑھا دماغ نوجوان خون پا کر تازہ دم ہو سکتا ہے تو یہ ایک زوردار انکشاف تھا۔
2014ء کے بعد امریکا و یورپ کی دیگر یونیورسٹیوں سے وابستہ سائنس داں بھی نوجوان اور بوڑھے چوہوں کے خون پر تحقیق وتجربات کرنے لگے۔
ان کے تجربوں سے افشا ہوا کہ جب نوجوان چوہوں کے اجسام میں بوڑھے چوہوں کا خون داخل ہوا تو اس نے ان میں بڑھاپے کے اثرات پیدا کر ڈالے۔ جبکہ ضعیف چوہوں کو نوجوانوں کا خون ملا تو ان میں بڑھاپے کے اثرات ماند پڑ گئے۔
تجربات میں دیکھا گیا کہ نوجوان خون ملنے سے بوڑھے چوہوں کی عقل تیز ہو گئی اور وہ زیادہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ ان کا دل بھی بہتر انداز میں دھڑکنے لگا۔ نیز عضلات بھی پہلے کی نسبت مضبوط ہو گئے۔ غرض نوجوان خون نے ان کے بدن میں کئی مثبت تبدیلیاں پیدا کر دیں۔
سوال یہ ہے کہ نوجوان خون بوڑھوں کے جسم میں پہنچ کر حیران کن تبدیلیاں کیونکر لاتا ہے؟ سائنس داں ابھی حتمی جواب نہیں ڈھونڈ سکے، البتہ کچھ نظریات ضرور سامنے آ چکے۔
بنیادی نظریہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جاندار کے بدن میں خلیوں کی شکست و ریخت، ناقص غذاؤں، بری عادات زندگی اور مضر صحت ماحول کی وجہ مختلف اقسام کے زہریلے عناصر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی عناصر جاندار کے خلیوں، غدود، جسمانی نظاموں اور اعضا پہ منفی اثرات ڈال کر اسے بوڑھا کرنے لگتے ہیں۔ ایک دن وہ چل بستا ہے۔
لیکن جب بوڑھے جاندار کے جسم میں نوجوان جاندار کا خون ڈالا جائے تو اس میں زہریلے عناصر بہت کم ہوتے ہیں۔ لہذا نوجوان خون بوڑھے کے جسم میں زہریلے عناصر کی تعداد کم کر دیتا ہے۔ یہی نہیں، نوجوان خون میں ایسے قدرتی عناصر (سالمے یعنی مالیکول، انزائم وغیرہ) موجود ہوتے ہیں جو بوڑھے کے جسمانی خلیوں کو ری پروگرامڈ کر دیتے ہیں ... معنی یہ کہ ان خلیوں کو تقریباً نیا بنا ڈالتے ہیں۔ چناں چہ وہ زیادہ عمدگی سے کام کرنے لگتے اور بوڑھے جسم کو جوان بنا دیتے ہیں۔
مزید براں انسان سمیت ہر بڑے جاندار میں خون سر تا پا دوڑتا ہے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے عضو، غدود اور خلیے تک پہنچتا ہے۔گویا جاندار کا رواں رواں خون سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے، جب بوڑھے جسم کی رگوں میں نوجوان خون دوڑنے لگے تو وہ سبھی جسمانی نظاموں پہ اثرانداز ہوتا اور انھیں مثبت انداز میں بدل دیتا ہے۔ گویا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ایک بوڑھے جاندار کے لیے نوجوان خون آب حیات جیسی اہمیت رکھتا ہے۔
امریکا و یورپ میں جب یہ نظریہ عام ہوا کہ نوجوان خون بوڑھوں کو جوان بنا سکتا ہے تو کئی دولت مند بوڑھے یہ عمل اپنانے لگے۔
وہ اپنے جسم سے بوڑھا خون نکلوا کر اس میں نوجوان خون ڈالنے لگے۔ یہ ایک مہنگا عمل ہے، اس لیے صرف امیر بوڑھوں ہی نے اسے اپنایا۔ تاہم امریکی وزارت صحت نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا کہ یہ ایک خطرناک عمل ہے اور اس کے خوفناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
لہذا نوجوان خون اپنے جسم میں بھرنے سے گریز کیجیے۔اس انتباہ کی وجہ یہ ہے کہ فی الوقت چوہوں پہ کیے گئے تجروں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نوجوان خون بوڑھے جانداروں میں پہنچ کر انھیں جوان بنا سکتا ہے۔
اس قسم کا کوئی تجربہ ابھی انسانوں پہ نہیں کیا گیا۔ لہذا سائنس داں نہیں جانتے کہ کسی نوجوان آدمی کا خون ایک بوڑھے کے جسم میں دوڑنے لگے تو خصوصاً طویل المعیاد طور پہ اس کے بدن میں کیسی اچھی یا بری تبدیلیاں آئیں گی۔
امریکی ویورپی سرکاری طبی اداروں کے انتباہ کے باجود وہاں ہزارہا بوڑھے باقاعدگی سے ہر دو ماہ بعد اپنا خون نکلواتے اور نوجوان خون اپنے بدن میں دوڑا دیتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ عمل انجام دینے کے بعد وہ جسمانی و ذہنی طور پہ چستی ومستعدی محسوس کرتے ہیں۔
ان کے اعضا طاقتور ہو جاتے ہیں اور انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جوان ہو چکے۔ مثال کے طور پر برائن جانسن (Bryan Johnson) کو لیجیے جو امریکا کا سرمایہ کار اور کاروباری ہے۔ یہ 45 سالہ امریکی پچھلے تین سال سے نوجوان خون خرید کر اپنے جسم میں انڈیل رہا ہے۔ اب تو اس کا نوجوان بیٹا اسے خون دیتا ہے۔
نیز وہ ملٹی وٹامن گولیاں کھاتا، ورزش کرتا اور مخصوص کھانے تناول کرتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ برائن نے اس لیے تشکیل دیا کہ خود کو تادیر جوان و تندرست رکھ سکے۔ اس منصوبے پہ وہ سالانہ بیس لاکھ ڈالر (پانچ کروڑ چھیاسٹھ لاکھ روپے) خرچ کرتا ہے۔ برائن کا دعوی ہے کہ وہ اپنے مصوبے پہ عمل کر کے خود کو 28 سالہ نوجوان تصور کرتا ہے۔
ماہرین طب اب نوجوان چوہوں ہی نہیں نوجوان انسانوں کے خون میں بھی ایسے قدرتی عناصر دریافت کرنے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کررہے ہیں جو ایک بوڑھے میں بڑھاپے کے اثرات کم کرتے ہیں۔ مقصد یہ کہ مطلوبہ عناصر کا کھوج لگا کر ان پہ مبنی دوا بنائی جا سکے۔
ظاہر ہے، یہ دوا دے کر پھر ہر بوڑھے انسان میں بڑھاپے کے عموماً تکلیف دہ اور پریشان کن اثرات دور کیے جا سکیں گے۔ یہی نہیں، اس کی روزمرہ زندگی آسان ہو جائے گی اور وہ اپنا عرصہ حیات خوش باش طریق سے گذار سکے گا۔
ایک حالیہ تجربے سے افشا ہوا ہے کہ بوڑھے چوہے کے بدن میں جب نوجوان چوہے کا خون گیا تو اس کے وہ بنیادی خلیے بھی دوبارہ سرخ خونی خلیے پیدا کرنے لگے جو ناکارہ ہو چکے تھے۔گویا نوجوان خون میں موجود عناصر نے ان بیکار بنیادی خلیوں کو صحت مند بنا کر پھر مفید اور کام کے قابل بنا دیا۔ سو محقق نوجوان خون میں ان عناصر کو بھی تلاش کر رہے ہیں جو ناکارہ بنیادی خلیوں کی مرمت کر سکتے ہیں۔
امریکا و یورپ میں وسیع پیمانے پر نوجوان انسانی خون پہ تحقیق وتجربات جاری ہیں۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اگلے ایک عشرے تک نوجوان انسانی خون کی کئی خوبیاں نمایاں ہو جائیں گی۔اور عین ممکن ہے کہ وہ بوڑھوں کو تندرستی ، صحت اور طویل عمر عطا کرنے والا آب حیات بن جائے۔