دفتر کے چپڑاسی سے کام یاب اداکار تک

’’ گینگز آف واسع پور 2 ‘‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے نوازالدین صدیقی کی کہانی

اتر پردیش کے ایک دور دراز گاؤں کا گریجویٹ نوجوان پیٹروکیمیکل کمپنی کی بہترین ملازمت چھوڑ کر دہلی آگیا تھا۔ فوٹو : ایکسپریس

1990ء کی دہائی کے وسط میں اتر پردیش کے ایک دور دراز گاؤں کا گریجویٹ نوجوان پیٹروکیمیکل کمپنی کی بہترین ملازمت چھوڑ کر دہلی آگیا تھا۔

اس کی سیمابی طبیعت کو نوکری کا لگا بندھا معمول گوارا نہ تھا۔ اجنبی شہر میں گزراوقات کے لیے بالآخر اسے ایک دفتر میں چپڑاسی کی نوکری کرنی پڑی۔ دفتر کے بعد، وقت گزاری کے لیے اسٹیج ڈرامے دیکھنا اس کا معمول بن گیا۔

اسٹیج ڈراموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس کے دل میں خود اسٹیج پر پرفارم کرنے کی خواہش سر اُبھارنے لگی۔ چند دنوں تک تذبذب میں مبتلا رہنے کے بعد اس نے اپنی خواہش کی تکمیل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ خاصی تگ و دو کے بعد وہ بالآخر ساکشی تھئیٹر گروپ کا حصہ بننے میں کام یاب ہوگیا۔ یہاں اسے منوج باجپائی اور سوربھ شکلا جیسے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

اسٹیج سے منسلک رہتے ہوئے اس نوجوان نے 1996ء میں دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما سے اداکاری میں گریجویشن کرلیا۔ اس وقت تک اس دیہاتی لڑکے کی اداکارانہ صلاحیتیں نکھر گئی تھیں اور اس کا شمار اسٹیج کے باصلاحیت فن کاروں میں ہونے لگا تھا۔

اپنی بے چین طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ 2000ء میں ممبئی آگیا۔ یہاں اس نے بولی وڈ تک رسائی کے لیے کوششیں شروع کردیں اور مِنی اسکرین پر بھی کام کے حصول کے لیے سعی کرنے لگا۔ اسے کچھ ڈراموں اور چند فلموں میں مختصر کردار بھی ملے لیکن بہترین اداکاری کے باوجود وہ کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔

زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے بالآخر 2007 ء میں اسے ڈائریکٹر انوراگ کیشپ نے اپنی فلم '' بلیک فرائیڈے'' میں ایک مختصر مگر جان دار رول میں کاسٹ کیا۔ اس فلم نے عامر خان سمیت بولی وڈ کے فلم سازوں کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ عامر نے اس باصلاحیت اداکار کو اپنی فلم '' پیپلی لائیو'' میں ایک ٹیلی ویژن رپورٹر کے اہم کردار کے لیے منتخب کیا۔ '' پیپلی لائیو'' کی کام یابی نے اس اداکار کو ملک گیر شہرت بخشی اور حال ہی میں '' گینگز آف واسع پور'' کی ریلیز کے بعد نوازالدین صدیقی کا نام بین الاقوامی شہرت اختیار کرگیا ہے۔


'' گینگز آف واسع پور'' کے دونوں حصوں میں نوازالدین کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

نوازالدین کی متاثر کن اداکاری کی بہ دولت اُسے عرفان کا متبادل کہا جانے لگا ہے۔ فلمی مبصرین کا کہنا ہے کہ نوازالدین ہالی وڈ میں عرفان کی بڑھتی ہوئی مصروفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلاء پُر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر خوداس کا خیال ان سے مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے،''ان دنوں میں عرفان بھائی کے ساتھ ہی ایک فلم کی شوٹنگ میں حصہ لے رہا ہوں۔

وہ میرے لیے قابل احترام ہیں اور میں ان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رکھنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ میں کسی کا خلاء پُر کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں اور نہ ہی کسی کی جگہ لینا چاہتا ہوں۔ میرا مطمحِ نظر اچھے اور بامقصد کرداروں کی ادائیگی ہے۔''

'' پیپلی لائیو'' کے بعد بولی وڈ میں نوازالدین کی مصروفیت بڑھ گئی تھی اور '' گینگز آف واسع پور'' کی زبردست کام یابی کے بعد تو اسے سَر کھجانے کی بھی فرصت نہیں۔ رواں برس کے اختتام تک اس کی مزید نو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ ایک فلم ''آتما '' میں بپاشا باسو اس کی ساتھی اداکارہ ہے۔ بپاشا کے بارے میں نواز نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔'' میں نے اب تک جتنی ہیروئنوں کے ساتھ فلمیں کی ہیں۔

ان میں بپاشا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ باصلاحیت ہونے کے ساتھ ایک اچھی ساتھی اداکارہ بھی ہے۔''

نوازالدین صدیقی کی ظاہری شخصیت غیرمعمولی نہیں۔ اس میں روایتی ہیرو والی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی۔ نوازالدین جیسے اداکار صرف اپنے ٹیلنٹ کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں۔ ایک دور تھا جب بولی وڈ میں عام سی شکل و صورت اور شخصیت کے حامل اداکاروں کو جگہ بنانے میں بہت مشکلات پیش آتی تھیں لیکن نواز کے مطابق اب صورت حال بدل چکی ہے۔

وہ کہتا ہے،''جب بچوں کی فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں تو مجھے یقین ہوگیا تھا اب بولی وڈ کے دروازے مجھ جیسے اداکاروں پر کُھل جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ہدایت کار تجربات کرنے لگے ہیں، اور ان کے مزاجوں میں یہ تبدیلی ہمارے لیے خوش آئند ہے۔''
Load Next Story