ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
ہماری عمر کے لوگ اس بدلتی ہوئی صورت حال سے واقعی بہت پریشان ہیں
استاد قمر جلالوی کا ایک شعر ہے:
دبا کے قبر میں سب چل دیے' دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
یہ شعر تو استاد نے برسوں پہلے کہا تھا، لیکن آج کا زمانہ اس شعرکی تفسیر ہے، بڑا بے حس زمانہ ہے۔
کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، ہماری عمر کے لوگ اس بدلتی ہوئی صورت حال سے واقعی بہت پریشان ہیں، کیونکہ ہم لوگوں نے جس ماحول میں پرورش پائی وہ بہت خوبصورت اور محبت بھرا زمانہ تھا، رشتے داروں میں، ہمسایوں میں، ملنے جلنے والوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت تھی، خلوص تھا، پیار تھا، محلے میں کسی کے گھر موت ہو جاتی تھی تو لوگ ریڈیو تک نہ چلاتے تھے، کسی قریبی عزیز یا ہمسائے میں کسی کی وفات ہو جاتی تھی تو کئی کئی گھروں سے کھانا جاتا تھا۔
کوئی ناشتہ بھیج رہا ہے، کوئی شام کی چائے، کوئی رات کا کھانا خوشی خوشی بھیج رہا ہے۔ تین دن تک میت والے گھر میں چولہا نہ جلتا تھا، عزیز و اقارب آتے رہتے تھے تاکہ گھر کے لوگوں کا دکھ بانٹ سکیں لیکن آج یہ سب کچھ نہیں ہوتا، چند گھرانوں میں سوئم تک یہ رسم باقی ہے۔ باقی میں میت کے پہلے دن کے بعد کوئی پلٹ کر بھی نہیں پوچھتا۔
مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں رشتے دار ہمارے گھر کئی کئی دن اور کئی کئی ہفتوں تک آ کر رہتے تھے اور میری والدہ سے فرمائش کر کے مغلئی بریانی، شامی کباب، اسٹو، دہلی کا دانے دار قورمہ جس کا ڈھکنا اٹھتے ہی خوشبو سے بھوک دوچند ہو جاتی تھی، نہاری گھر میں پکتی تھی صرف تندوری روٹیاں بازار سے آتی تھیں، ملازم بھی مہمانوں کے آگے پیچھے رہتے تھے۔
میرے والد اکلوتے تھے، لیکن ان کا اور میری والدہ کا رویہ میرے والد کے کزن کے ساتھ بہت اچھا تھا، میری پھوپھیاں ہفتوں پوری فیملی کے ساتھ آ کر رہتی تھیں، اتوارکی چھٹی والے دن والدہ زیادہ کھانا پکواتی تھیں، موبائل کا عذاب نہیں تھا، لوگ خوش دلی سے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے، لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے، بس رشتے دار شادی یا غمی کے موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں، تب بھی ان کے ہاتھ میں موبائل ہوتے ہیں جیسے کہیں سے کوئی ارجنٹ کال آنے والی ہے۔
موبائل نے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، آپ کا جی چاہ رہا ہے کسی سے ملنے کا، آپ نے کال کی، دوسری طرف سے جواب ملا کہ '' ممکنہ دن وہ کہیں جا رہے ہیں۔'' موبائل پہ جھوٹ بولنا بہت آسان ہے۔
آپ حیدری پہ شاپنگ کر رہے ہیں، کوئی کال آئی اور ملاقات کو کہا تو آسانی سے جواب دے دیا گیا کہ ''میں تو دو دن کے لیے اسلام آباد جا رہا ہوں'' بے حسی اب بہت عام ہے، بھائی کو بھائی کا احساس نہیں، اپنے غریب رشتے داروں کو اب کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پہلے ڈھکے چھپے طریقے سے لوگ اپنے غریب رشتے داروں کی مدد زکوٰۃ دے کر بھی کر دیا کرتے تھے، عید بقر عید پر کچھ روپیہ، جوڑے اور گوشت دیا جاتا تھا، بچوں کو عیدی کے طور پر روپے دے کر اس خاندان کی مدد کی جاتی تھی، لیکن آج یہ تصور ہی ناپید ہے۔
بقر عید پر صاف ستھرا گوشت ڈیپ فریزر میں کئی کئی ماہ کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور چکنائی بھر بے تکا گوشت بانٹ دیا جاتا ہے۔ جن کے گھر قربانی ہوتی ہے وہ بھی گوشت وہیں بھیجتے ہیں جہاں سے واپس آنے کی امید ہو، مستحق اور غریب رشتے داروں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔
اب آئیے موجودہ سماجی اور معاشرتی صورت حال کی طرف۔ سوشل میڈیا نے جو تباہی مچائی ہے اس سے سبھی واقف ہیں، میں اس صورت حال کی طرف اشارہ نہیں کر رہی جو بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کا شرم ناک اسکینڈل سامنے آیا ہے۔
اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اس یونیورسٹی کے کالے دھندے کی طرف کسی کی توجہ نہ جاتی، کیوں کہ اخبارات اور بڑے چینلز بھی خاموش ہیں ، یہ بیڑا صرف سوشل میڈیا نے اٹھا رکھا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت دیگر ملازمین اور پروفیسرز کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرے۔ اس موضوع پہ بعد میں بات کریں گے۔
اس وقت ہم موبائل فون اور سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں پہ بات کریں گے، ان دو عذابوں نے ہمارے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے، ہمارے بچے بہت جلد بالغ ہوگئے ہیں۔ دیکھنے میں بچہ گیارہ بارہ سال کا ہے، لیکن وہ اس درجہ بالغ ہو چکا ہے کہتمام ازدواجی تعلقات کا بخوبی علم ہے۔ پہلے جو معلومات شادی کے بعد پتا چلتی تھیں، آج دس سال کے بچے سے سب کچھ سن لیں۔
سوشل میڈیا آنے سے پہلے خواتین اپنے بچوں کو کہتی تھیں کہ ان کا بھائی یا بہن اللہ میاں کے ہاں سے آیا ہے۔ آج کا بچہ سب کچھ جانتا ہے۔ اسے یہ معلومات سوشل میڈیا کی ان ویب سائٹ نے دی ہیں جہاں غلاظت بھری پڑی ہے۔ مائیں خود سوشل میڈیا کی اسیر ہیں، انھیں پتا ہی نہیں کہ بعض ویب سائٹس پر جو مواد بھرا پڑا ہے وہ ان کے بچوں کے معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے۔
میری ایک دوست کی بہو پریگنینٹ تھیں۔ وہ اپنے نو سالہ بچے کو اسکول سے لینے گئیں تو وہاں ان کا بیٹا اپنی ایک کلاس فیلو بچی سے کہنے لگا: '' دیکھو بینا! میری ممی پریگنینٹ ہیں، اب ہمارے گھر کوئی بھائی بہن آنے والا ہے۔'' موبائل آنے سے پہلے بچے کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تھے، پھر ٹی وی آیا اور اس پر کارٹون آنے لگے کسی حد تک وہ مناسب تھے، ٹام اینڈ جیری بچوں کا پسندیدہ کارٹون تھا، پھر چینلز کا طوفان آگیا، اب ایسے ایسے کارٹون بچوں کو دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں بہت کچھ شرمناک اور تباہ کن ہے۔
بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کا شرم ناک اسکینڈل جو سامنے آیا ہے اس کا ہر جگہ چرچہ ہے لیکن ہمارے حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کے بھاگنے کا انتظار کر رہے ہیں، اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات دیگر یونیورسٹیوں میں بھی پیش آئے ہیں، جب کسی طالبہ کو اپنے روم میں بلا کر کسی پروفیسر نے اس سے ناجائز رشتہ استوار کرنے کو کہا ہو۔
اس کے بدلے اسے پوزیشن دینے کا وعدہ کیا۔ 1970 میں جب میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ تھی، تو وہاں ایک پروکٹوریل ڈیپارٹمنٹ تھا جسے ایک میجر آفتاب حسن نے قائم کیا تھا، اس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر طلبا و طالبات اور سینئر اساتذہ شامل تھے۔ طلبا و طالبات پر پابندی تھی کہ وہ آپس میں پانچ فٹ کا فاصلہ رکھ کر بات کریں۔
پروکٹر کا کام ان پر نظر رکھنا تھا، اگر کہیں طالب علم اور طالبہ اکٹھے بیٹھے نظر آتے تو متعلقہ پروکٹر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی رپورٹ اپنے انچارج کو کر دیتا تھا، جہاں ان سے فائن لیا جاتا تھا اور تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جاتا تھا۔
اگر کوئی اسٹوڈنٹ سیاہ گاؤن کے بغیر آتا تو اسی وقت اس کی شامت آ جاتی تھی۔ لیکن 70ء کے بعد اچانک پروکٹر ڈیپارٹمنٹ بھی ختم کردیا گیا اور گاؤن بھی۔ ہم نے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ کوئی طالبہ کسی پروفیسر کی منظور نظر ہے اور اس کی پوزیشن بھی آگئی۔
اس وقت منشیات فروشوں کے لیے تعلیمی ادارے کھلی جنت ہیں، کیوں کہ وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
دبا کے قبر میں سب چل دیے' دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
یہ شعر تو استاد نے برسوں پہلے کہا تھا، لیکن آج کا زمانہ اس شعرکی تفسیر ہے، بڑا بے حس زمانہ ہے۔
کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، ہماری عمر کے لوگ اس بدلتی ہوئی صورت حال سے واقعی بہت پریشان ہیں، کیونکہ ہم لوگوں نے جس ماحول میں پرورش پائی وہ بہت خوبصورت اور محبت بھرا زمانہ تھا، رشتے داروں میں، ہمسایوں میں، ملنے جلنے والوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت تھی، خلوص تھا، پیار تھا، محلے میں کسی کے گھر موت ہو جاتی تھی تو لوگ ریڈیو تک نہ چلاتے تھے، کسی قریبی عزیز یا ہمسائے میں کسی کی وفات ہو جاتی تھی تو کئی کئی گھروں سے کھانا جاتا تھا۔
کوئی ناشتہ بھیج رہا ہے، کوئی شام کی چائے، کوئی رات کا کھانا خوشی خوشی بھیج رہا ہے۔ تین دن تک میت والے گھر میں چولہا نہ جلتا تھا، عزیز و اقارب آتے رہتے تھے تاکہ گھر کے لوگوں کا دکھ بانٹ سکیں لیکن آج یہ سب کچھ نہیں ہوتا، چند گھرانوں میں سوئم تک یہ رسم باقی ہے۔ باقی میں میت کے پہلے دن کے بعد کوئی پلٹ کر بھی نہیں پوچھتا۔
مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں رشتے دار ہمارے گھر کئی کئی دن اور کئی کئی ہفتوں تک آ کر رہتے تھے اور میری والدہ سے فرمائش کر کے مغلئی بریانی، شامی کباب، اسٹو، دہلی کا دانے دار قورمہ جس کا ڈھکنا اٹھتے ہی خوشبو سے بھوک دوچند ہو جاتی تھی، نہاری گھر میں پکتی تھی صرف تندوری روٹیاں بازار سے آتی تھیں، ملازم بھی مہمانوں کے آگے پیچھے رہتے تھے۔
میرے والد اکلوتے تھے، لیکن ان کا اور میری والدہ کا رویہ میرے والد کے کزن کے ساتھ بہت اچھا تھا، میری پھوپھیاں ہفتوں پوری فیملی کے ساتھ آ کر رہتی تھیں، اتوارکی چھٹی والے دن والدہ زیادہ کھانا پکواتی تھیں، موبائل کا عذاب نہیں تھا، لوگ خوش دلی سے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے، لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے، بس رشتے دار شادی یا غمی کے موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں، تب بھی ان کے ہاتھ میں موبائل ہوتے ہیں جیسے کہیں سے کوئی ارجنٹ کال آنے والی ہے۔
موبائل نے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، آپ کا جی چاہ رہا ہے کسی سے ملنے کا، آپ نے کال کی، دوسری طرف سے جواب ملا کہ '' ممکنہ دن وہ کہیں جا رہے ہیں۔'' موبائل پہ جھوٹ بولنا بہت آسان ہے۔
آپ حیدری پہ شاپنگ کر رہے ہیں، کوئی کال آئی اور ملاقات کو کہا تو آسانی سے جواب دے دیا گیا کہ ''میں تو دو دن کے لیے اسلام آباد جا رہا ہوں'' بے حسی اب بہت عام ہے، بھائی کو بھائی کا احساس نہیں، اپنے غریب رشتے داروں کو اب کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پہلے ڈھکے چھپے طریقے سے لوگ اپنے غریب رشتے داروں کی مدد زکوٰۃ دے کر بھی کر دیا کرتے تھے، عید بقر عید پر کچھ روپیہ، جوڑے اور گوشت دیا جاتا تھا، بچوں کو عیدی کے طور پر روپے دے کر اس خاندان کی مدد کی جاتی تھی، لیکن آج یہ تصور ہی ناپید ہے۔
بقر عید پر صاف ستھرا گوشت ڈیپ فریزر میں کئی کئی ماہ کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور چکنائی بھر بے تکا گوشت بانٹ دیا جاتا ہے۔ جن کے گھر قربانی ہوتی ہے وہ بھی گوشت وہیں بھیجتے ہیں جہاں سے واپس آنے کی امید ہو، مستحق اور غریب رشتے داروں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔
اب آئیے موجودہ سماجی اور معاشرتی صورت حال کی طرف۔ سوشل میڈیا نے جو تباہی مچائی ہے اس سے سبھی واقف ہیں، میں اس صورت حال کی طرف اشارہ نہیں کر رہی جو بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کا شرم ناک اسکینڈل سامنے آیا ہے۔
اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اس یونیورسٹی کے کالے دھندے کی طرف کسی کی توجہ نہ جاتی، کیوں کہ اخبارات اور بڑے چینلز بھی خاموش ہیں ، یہ بیڑا صرف سوشل میڈیا نے اٹھا رکھا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت دیگر ملازمین اور پروفیسرز کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرے۔ اس موضوع پہ بعد میں بات کریں گے۔
اس وقت ہم موبائل فون اور سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں پہ بات کریں گے، ان دو عذابوں نے ہمارے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے، ہمارے بچے بہت جلد بالغ ہوگئے ہیں۔ دیکھنے میں بچہ گیارہ بارہ سال کا ہے، لیکن وہ اس درجہ بالغ ہو چکا ہے کہتمام ازدواجی تعلقات کا بخوبی علم ہے۔ پہلے جو معلومات شادی کے بعد پتا چلتی تھیں، آج دس سال کے بچے سے سب کچھ سن لیں۔
سوشل میڈیا آنے سے پہلے خواتین اپنے بچوں کو کہتی تھیں کہ ان کا بھائی یا بہن اللہ میاں کے ہاں سے آیا ہے۔ آج کا بچہ سب کچھ جانتا ہے۔ اسے یہ معلومات سوشل میڈیا کی ان ویب سائٹ نے دی ہیں جہاں غلاظت بھری پڑی ہے۔ مائیں خود سوشل میڈیا کی اسیر ہیں، انھیں پتا ہی نہیں کہ بعض ویب سائٹس پر جو مواد بھرا پڑا ہے وہ ان کے بچوں کے معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے۔
میری ایک دوست کی بہو پریگنینٹ تھیں۔ وہ اپنے نو سالہ بچے کو اسکول سے لینے گئیں تو وہاں ان کا بیٹا اپنی ایک کلاس فیلو بچی سے کہنے لگا: '' دیکھو بینا! میری ممی پریگنینٹ ہیں، اب ہمارے گھر کوئی بھائی بہن آنے والا ہے۔'' موبائل آنے سے پہلے بچے کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تھے، پھر ٹی وی آیا اور اس پر کارٹون آنے لگے کسی حد تک وہ مناسب تھے، ٹام اینڈ جیری بچوں کا پسندیدہ کارٹون تھا، پھر چینلز کا طوفان آگیا، اب ایسے ایسے کارٹون بچوں کو دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں بہت کچھ شرمناک اور تباہ کن ہے۔
بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کا شرم ناک اسکینڈل جو سامنے آیا ہے اس کا ہر جگہ چرچہ ہے لیکن ہمارے حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کے بھاگنے کا انتظار کر رہے ہیں، اس قسم کے چھوٹے موٹے واقعات دیگر یونیورسٹیوں میں بھی پیش آئے ہیں، جب کسی طالبہ کو اپنے روم میں بلا کر کسی پروفیسر نے اس سے ناجائز رشتہ استوار کرنے کو کہا ہو۔
اس کے بدلے اسے پوزیشن دینے کا وعدہ کیا۔ 1970 میں جب میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ تھی، تو وہاں ایک پروکٹوریل ڈیپارٹمنٹ تھا جسے ایک میجر آفتاب حسن نے قائم کیا تھا، اس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر طلبا و طالبات اور سینئر اساتذہ شامل تھے۔ طلبا و طالبات پر پابندی تھی کہ وہ آپس میں پانچ فٹ کا فاصلہ رکھ کر بات کریں۔
پروکٹر کا کام ان پر نظر رکھنا تھا، اگر کہیں طالب علم اور طالبہ اکٹھے بیٹھے نظر آتے تو متعلقہ پروکٹر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی رپورٹ اپنے انچارج کو کر دیتا تھا، جہاں ان سے فائن لیا جاتا تھا اور تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جاتا تھا۔
اگر کوئی اسٹوڈنٹ سیاہ گاؤن کے بغیر آتا تو اسی وقت اس کی شامت آ جاتی تھی۔ لیکن 70ء کے بعد اچانک پروکٹر ڈیپارٹمنٹ بھی ختم کردیا گیا اور گاؤن بھی۔ ہم نے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ کوئی طالبہ کسی پروفیسر کی منظور نظر ہے اور اس کی پوزیشن بھی آگئی۔
اس وقت منشیات فروشوں کے لیے تعلیمی ادارے کھلی جنت ہیں، کیوں کہ وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔