کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
بڑے بڑے جغادری حیران و پریشان ہیں اور سیاسی نجومی گُم صم بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا پیش گوئی کریں اور کیا نہ کریں
اللہ تعالیٰ نے وطنِ عزیز پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے لیکن اِس کے باوجود یہ ملک طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے یہ مسائلستان بن گیا ہے۔ کم ہونے کے بجائے اِن مسائل میں ہر آنے والے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں۔ حکومت بدلتی رہتی ہے لیکن حالات ہیں کہ بدلتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ تبدیلی سرکار سے عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بد نصیب عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
تبدیلی سرکار نے جو سبز باغ دکھائے تھے اور بلند بانگ وعدے اور دعوے کیے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے پھر اِس کے بعد اِس کی بساط لپیٹ دی گئی اور اب اِس کی جماعت کا جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے:
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
جائیں تو جائیں کہاں۔ امید تھی کہ عام الیکشن ہونگے تو شاید نقشہ بدل جائے اور تبدیلی کا سورج طلوع ہوجائے لیکن:
اے بسا آرزو کہ خاک شُدے
حالات بہتر ہونے کے بجائے گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب کیا ہوجائے۔
بڑے بڑے جغادری حیران و پریشان ہیں اور سیاسی نجومی گُم صم بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا پیش گوئی کریں اور کیا نہ کریں۔ اونٹ کروٹیں لے رہا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کس کروٹ بیٹھے گا؟ ساری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں اور کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ۔
غیر یقینی کے گہرے بادل افق پر چھائے ہوئے ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ملک دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ اکبرؔ الہٰ آبادی یاد آرہے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ:
قوم کے غم میں ڈنرکھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
باتیں عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کی کرتے ہیں لیکن اے سی کے ٹھنڈے ٹھارکمروں میں بیٹھے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کے کاغذی منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں جب کہ دل اپنے ذاتی اور گروہی تقاضہ پورے کرنے میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔بیچاروں کی حالت قابلِ رحم ہے کہ وقفہ وقفہ سے دوروں پہ دورے کرتے رہتے ہیں۔ کبھی چین کا دورہ تو کبھی امریکا کا دورہ۔
بابر بہ عیش کوش
کہ عالم دوبارہ نیست
میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن ملک و قوم کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔
ہر کوئی آتا ہے اور عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک مرچ چھڑک کر رفوچکر ہوجاتا ہے۔ قوم بیچاری آس لگائے بیٹھی رہتی ہے اور اُس کی قسمت کے فیصلہ اندرونِ ملک ہونے کے بجائے بیرونِ ملک کبھی لندن اور کبھی دبئی میں ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاسی جادوگروں پر ترس آتا ہے کہ بیچارے ملک و قوم کی خاطر در بدر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ حب الوطنی کے تقاضہ کتنے عجیب ہوتے ہیں۔
بچپن میں آنکھ مچولی کا کھیل خوب کھیلا کرتے تھے اور اب سیاسی آنکھ مچولی کے کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ایک وہ وقت بھی تھا جب بجٹ کی بجلی سال میں ایک مرتبہ گرا کرتی تھی اور لوگ اِس کے اعلان کو سننے کے لیے دل و جگر کو تھام کر بیٹھا کرتے تھے۔
اُس کے بعد یہ ہونے لگا کہ بجٹ کے بعد منی بجٹ کے آنے کی روایت قائم ہوئی پھر وقت گزرنے کے ساتھ وقفہ وقفہ سے منی بجٹ آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ماہانہ بجٹ آنے لگا۔عوام کے لیے اپنے گھرکا بجٹ بنانا مشکل سے مشکل تر ہوگیا۔
سب سے بڑی مصیبت محدود آمدنی والے طبقوں کے لیے کھڑی ہوگئی جس میں تنخواہ دار طبقہ سرِفہرست تھا اور اب تو عالم یہ ہے کہ روز بروز بجٹ آنے لگا ہے اور بیچارے تنخواہ دار بالخصوص درمیانہ اور نچلے درجہ کے لوگ پریشان ہیں کہ گزر اوقات کیسے کریں اور اپنی سفید پوشی کا بھرم کیوں کر قائم رکھیں۔
صورتحال یہ ہے کہ چادر سکڑتے سکڑتے اتنی تنگ ہوگئی ہے کہ سر ڈھانپتے ہیں تو پیر کھلے رہ جاتے ہیں اور پیر ڈھانپتے ہیں تو سر کھلا رہ جاتا ہے۔
اِس کے علاوہ ٹیکسوں کا بوجھ اِس قدر بڑھ گیا ہے کہ عوام کا کچومر نکل گیا ہے۔ کچھ ٹیکس تو بلواسطہ ہیں اور بعض بلاواسطہ۔ اِن میں کچھ کی ادائیگی تو نظر آتی ہے اور کچھ کی ادائیگی اوجھل ہے۔ بجٹ کے گورکھ دھندے میں کچھ واضح نہیں ہوتا۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھُلا
عوام سے بجٹ پیش کرتے وقت کہا تو جاتا کہ نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے اور عقدہ یہ کھلتا ہے کہ مزید جیبیں کاٹ لی گئی ہیں۔
سرکاری ملازمین کو جھانسہ دیا جاتا ہے کہ اُن کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کردیا گیا ہے جس کا اطلاق نئے مالی سال کی ابتدا یعنی جولائی کے مہینہ سے شروع ہوتا ہے جب کہ اِس سے پہلے مہنگائی دگنی تگنی ہوچکی ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی محکمہ ایسا ہو جو کرپشن سے پاک ہو۔ مثال کے طور پر اینٹی کرپشن کے محکمہ کو لے لیجیے جس کا کام کرپشن کی روک تھام لیکن اِس محکمہ میں بھی آخر انسان ہی تو کام کرتے ہیں فرشتے تو نہیں اور پھر اُن بیچاروں کے بھی پیٹ تو لگا ہوا ہے۔
جہاں تک صنعت کاروں اور تاجروں کا سوال ہے تو اول تو یہ لوگ ٹیکس چوری کرنے میں ماہر ہیں اور واجب الادا ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ٹیکس وصولی کے محکمہ میں موجود کالی بھیڑیں اِن کا کام کردیتی ہیں جس کے لیے اُن کا محنتانہ ادا کردیا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں یہ سہولت موجود ہے کہ کوئی کام ناممکن یا مشکل نہیں ہے بشرطیکہ متعلقہ محکمہ یا اُس کے کرتا دھرتی کی مُٹھی گرم کردی جائے۔ یہ سہولت کسی بیرونی ملک میں حاصل نہیں ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لے کے رشوت پھنس گیا
تو دے کے رشوت چھوٹ جا
عدلیہ کا محکمہ بھی کچھ کم بد نام نہیں ہے۔ انصاف ملتا نہیں بِکتا ہے۔
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں۔ حکومت بدلتی رہتی ہے لیکن حالات ہیں کہ بدلتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ تبدیلی سرکار سے عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بد نصیب عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
تبدیلی سرکار نے جو سبز باغ دکھائے تھے اور بلند بانگ وعدے اور دعوے کیے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے پھر اِس کے بعد اِس کی بساط لپیٹ دی گئی اور اب اِس کی جماعت کا جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے:
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
جائیں تو جائیں کہاں۔ امید تھی کہ عام الیکشن ہونگے تو شاید نقشہ بدل جائے اور تبدیلی کا سورج طلوع ہوجائے لیکن:
اے بسا آرزو کہ خاک شُدے
حالات بہتر ہونے کے بجائے گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب کیا ہوجائے۔
بڑے بڑے جغادری حیران و پریشان ہیں اور سیاسی نجومی گُم صم بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا پیش گوئی کریں اور کیا نہ کریں۔ اونٹ کروٹیں لے رہا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کس کروٹ بیٹھے گا؟ ساری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں اور کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ۔
غیر یقینی کے گہرے بادل افق پر چھائے ہوئے ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ملک دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ اکبرؔ الہٰ آبادی یاد آرہے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ:
قوم کے غم میں ڈنرکھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
باتیں عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کی کرتے ہیں لیکن اے سی کے ٹھنڈے ٹھارکمروں میں بیٹھے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کے کاغذی منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں جب کہ دل اپنے ذاتی اور گروہی تقاضہ پورے کرنے میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔بیچاروں کی حالت قابلِ رحم ہے کہ وقفہ وقفہ سے دوروں پہ دورے کرتے رہتے ہیں۔ کبھی چین کا دورہ تو کبھی امریکا کا دورہ۔
بابر بہ عیش کوش
کہ عالم دوبارہ نیست
میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن ملک و قوم کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔
ہر کوئی آتا ہے اور عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک مرچ چھڑک کر رفوچکر ہوجاتا ہے۔ قوم بیچاری آس لگائے بیٹھی رہتی ہے اور اُس کی قسمت کے فیصلہ اندرونِ ملک ہونے کے بجائے بیرونِ ملک کبھی لندن اور کبھی دبئی میں ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاسی جادوگروں پر ترس آتا ہے کہ بیچارے ملک و قوم کی خاطر در بدر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ حب الوطنی کے تقاضہ کتنے عجیب ہوتے ہیں۔
بچپن میں آنکھ مچولی کا کھیل خوب کھیلا کرتے تھے اور اب سیاسی آنکھ مچولی کے کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ایک وہ وقت بھی تھا جب بجٹ کی بجلی سال میں ایک مرتبہ گرا کرتی تھی اور لوگ اِس کے اعلان کو سننے کے لیے دل و جگر کو تھام کر بیٹھا کرتے تھے۔
اُس کے بعد یہ ہونے لگا کہ بجٹ کے بعد منی بجٹ کے آنے کی روایت قائم ہوئی پھر وقت گزرنے کے ساتھ وقفہ وقفہ سے منی بجٹ آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ماہانہ بجٹ آنے لگا۔عوام کے لیے اپنے گھرکا بجٹ بنانا مشکل سے مشکل تر ہوگیا۔
سب سے بڑی مصیبت محدود آمدنی والے طبقوں کے لیے کھڑی ہوگئی جس میں تنخواہ دار طبقہ سرِفہرست تھا اور اب تو عالم یہ ہے کہ روز بروز بجٹ آنے لگا ہے اور بیچارے تنخواہ دار بالخصوص درمیانہ اور نچلے درجہ کے لوگ پریشان ہیں کہ گزر اوقات کیسے کریں اور اپنی سفید پوشی کا بھرم کیوں کر قائم رکھیں۔
صورتحال یہ ہے کہ چادر سکڑتے سکڑتے اتنی تنگ ہوگئی ہے کہ سر ڈھانپتے ہیں تو پیر کھلے رہ جاتے ہیں اور پیر ڈھانپتے ہیں تو سر کھلا رہ جاتا ہے۔
اِس کے علاوہ ٹیکسوں کا بوجھ اِس قدر بڑھ گیا ہے کہ عوام کا کچومر نکل گیا ہے۔ کچھ ٹیکس تو بلواسطہ ہیں اور بعض بلاواسطہ۔ اِن میں کچھ کی ادائیگی تو نظر آتی ہے اور کچھ کی ادائیگی اوجھل ہے۔ بجٹ کے گورکھ دھندے میں کچھ واضح نہیں ہوتا۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھُلا
عوام سے بجٹ پیش کرتے وقت کہا تو جاتا کہ نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے اور عقدہ یہ کھلتا ہے کہ مزید جیبیں کاٹ لی گئی ہیں۔
سرکاری ملازمین کو جھانسہ دیا جاتا ہے کہ اُن کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کردیا گیا ہے جس کا اطلاق نئے مالی سال کی ابتدا یعنی جولائی کے مہینہ سے شروع ہوتا ہے جب کہ اِس سے پہلے مہنگائی دگنی تگنی ہوچکی ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی محکمہ ایسا ہو جو کرپشن سے پاک ہو۔ مثال کے طور پر اینٹی کرپشن کے محکمہ کو لے لیجیے جس کا کام کرپشن کی روک تھام لیکن اِس محکمہ میں بھی آخر انسان ہی تو کام کرتے ہیں فرشتے تو نہیں اور پھر اُن بیچاروں کے بھی پیٹ تو لگا ہوا ہے۔
جہاں تک صنعت کاروں اور تاجروں کا سوال ہے تو اول تو یہ لوگ ٹیکس چوری کرنے میں ماہر ہیں اور واجب الادا ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ٹیکس وصولی کے محکمہ میں موجود کالی بھیڑیں اِن کا کام کردیتی ہیں جس کے لیے اُن کا محنتانہ ادا کردیا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں یہ سہولت موجود ہے کہ کوئی کام ناممکن یا مشکل نہیں ہے بشرطیکہ متعلقہ محکمہ یا اُس کے کرتا دھرتی کی مُٹھی گرم کردی جائے۔ یہ سہولت کسی بیرونی ملک میں حاصل نہیں ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لے کے رشوت پھنس گیا
تو دے کے رشوت چھوٹ جا
عدلیہ کا محکمہ بھی کچھ کم بد نام نہیں ہے۔ انصاف ملتا نہیں بِکتا ہے۔
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں