UFOs کی کہانی
امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں سماعت کے سبب اب یہ معلومات کانگریس ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں
دو ہفتے پہلے امریکی ایوانِ نمائندگان )کانگریس(کی ایک کمیٹی نے یو ایف اوزUFOs کے بارے میں ایک سماعت Hearingکا انعقاد کیا جس میں ایک سابق انٹیلی جنس آفیسر ڈیوڈ گرش اور دو سابق ایئر فورس پائلٹ پیش ہوئے۔
یہ خیال کہ امریکی انتظامیہ زمین سے باہر کی زندگی سے بخوبی آگاہ ہے، اب کوئی معمہ نہیں رہا۔اس سماعت سے یہ پتا چل گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور خاص کر امریکی افواج سے منسلک افراد کو انUFOsسے براہِ راست واسطہ پڑا ہے۔
یہ بات اب تک تو قصے کہانیوں اور سازشی تھیوریوں کے زمرے میں تھی لیکن امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں سماعت کے سبب اب یہ معلومات کانگریس ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں اور پبلک ڈومین میں بھی آ گئی ہیں۔
امریکی انتظامیہ پر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ غیر زمینی مخلوق کے بارے میں ضروری معلومات کو عام کرے تاکہ اس بارے میں بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں۔جولائی کے آخری ہفتے کی بدھ کو یہ سماعتی سیشن دو گھنٹے تک جاری رہا۔
یو ایف اوز کیا ہیں،کیایہ انسانیت کے لیے کسی خطرے کا موجب بن سکتے ہیں یا یہ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی میں ہمارے مدد گار ہو سکتے ہیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے ایک لمبے عرصے سے ہمارے بہترین دماغوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔آسمان میں تیرتے ایسے Objects اشیائ،جن کو کسی طرح بھی انسانی ایجاد سے نہ جوڑا جا سکے یا جن کی کوئی توجیح نہ پیش کی جا سکے انھیں یو ایف اوزUFOsکہا جاتا ہے۔ان کے نظر آنے کے بہت سے مشاہدات کو جہاں فریبِ نظر کہہ کر ذہن کے پردے سے جھٹکا جا سکتا ہے وہیں ان کی موجودگی کی بے شمار شہادتوں اور ثبوتوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔
رپورٹوں کے مطابق ان اشیاء کا فلائٹ پیٹرن انتہائی غیر معمولی اور غیر روایتی ہوتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ objects ہمارے تیز ترین اور جدید ترین سول و ملٹری ہوائی جہازوں کے فلائٹ پیٹرن سے ہٹ کر حیران کن پیٹرن دکھاتے ہیں۔ان کی عمومی رفتار ہمارے کسی بھی ہوائی جہاز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
کسی بھی سول یا ملٹری ہوائی جہاز کو اپنا رخ تبدیل کرنے کے لیے جس طرح مڑنا پڑتا ہے ان objectsکو ایسا کچھ کرنے کی بالکل ضرورت نہیں پڑتی اور یہ پلک جھپکتے میں کسی بھی رخ پرواز کر جاتے ہیں یا پھر سیدھے اوپر اُٹھ کر آسمان کی وسعتوں مں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ اشیاء کسی ایک مقام پر زمین سے اوپر بہت دیر تک ساکت حالت میںمعلق رہ سکتی ہیں۔ان کی روشنیاں بھی حیرت میں ڈالنے والی ہوتی ہیں ۔ایسی بے شمار رپورٹس ملی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کسی ایسے ہی objectنے زمین سے کسی فرد کو اغوا کیا اور کسی دوسری دنیا میں لے جا کر اس فرد پر مختلف تجربات کیے۔جب ان کا مقصد پورا ہو گیا تو اسے لا کر واپس چھوڑ دیا گیا۔UFOsدکھائی دینے کے جہاں بے شمار ثبوت ہیں وہیں اس Phenomenonکو کئی طرح سے سمجھا بھی جا سکتا ہے۔
ایک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھmisidentificationکی وجہ سے ہوتا ہے۔آسمان میں تیرتے کسی بھی جہاز،ایئر بیلونair baloon یا شہابِ ثاقب کو غلط پہچان کی بنیاد پر یو ایف او سمجھ لیا جاتا ہے۔
بعض اوقات کسی بیماری یا دوائی کے اثرات کی وجہ سے ذہنی کیفیت بھی مختلف ہیولے بنا لیتی ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔موسموں کے تغیر و تبدل کے طفیل فریبِ نظر optical illusionہونا بہت فطری بات ہے۔
یوں تو غیر زمینی مخلوقات نظر آنے کے واقعات زمانہ قبل از مسیح سے رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن دوسری عالمی جنگ میں فائٹر پائلٹوں نے اس کو زیادہ رپورٹ کیا۔سرکاری سطح پر اس کی پہلی تحقیقات امریکی ایئر فورس نے 1952 میں شروع کی۔یہ پروجیکٹ 17سال چلتا رہا۔بارہ ہزار شہادتیں ریکارڈ ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ غیر زمینی مخلوق ایک حقیقت ہے۔
1969میں اس تحقیقاتی پروجیکٹ کو بغیر وجہ بتائے اور بغیر حتمی رائے سامنے لائے بند کر دیا گیا۔ 9مئی 2001 کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں ڈاکٹر سٹیون نے انٹیلی جنس، انتظامیہ، کارپوریٹ سیکٹر اور سائنس دانوں میں سے اعلیٰ پائے کے 20افراد کو ایک پریس کانفرنس کے لیے جمع کیا۔ اس وقت کے تمام مشہور میڈیا ہاؤسز نے اس کو ریکارڈ بھی کیا۔
اس پریس کانفرنس میں بیس افراد نے اپنے ذاتی تجربات کو بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کا غیر زمینی مخلوق سے براہِ راست واسطہ پڑا۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان یو ایف اوز پر فائر کیے گئے ایٹمی میزائل بھی ناکام رہے۔حال ہی میں 26جولائی 2023 کو ڈیوڈ گرش نے ایوانِ نمائندگان کی اوور سائٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی شہادت ریکارڈ کروائی۔
گرش مسلسل 14سال تک امریکی ایئر فورس میں انٹیلی جنس آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے گرش کے ساتھ دو اور گواہ بھی پیش ہوئے۔گرش اس سال کے شروع تک یو ایف اوز پر تحقیقات کرنے والی امریکی وزاتِ دفاع کی دو ٹاسک فورس کا حصہ رہے ہیں۔
گرش نے کمیٹی کو بتایا کہ اسے غیر زمینی مخلوق کے چند جہازوں کے زمین پر کریش کی اطلاعات دی گئیں کہ ان جہازوں سے پائلٹوں کو نکال لیا گیا اور ملبے کو حاصل کر کے تجربہ گاہ پہنچایا گیا تاکہ ریورس انجینئرنگ کے عمل سے ایسے ہی جہاز بنائے جا سکیں۔گرش کے ساتھf-18کے پائلٹRayan Gravesبھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ریان نے بتایا کہ جب وہ ورجینیا کی ساحلی پٹی پر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا تو اس نے خود اور اس کے اسکواڈرن نے ان غیر زمینی objects کو دیکھنا شروع کیا۔
شدید ترین طوفانی بگولوں میں بھی یہ جہاز زمین سے کچھ اوپر بالکل ساکت رہے اور پلک جھپکتے میں سپر سونک اسپیڈ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ۔کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے تیسرے فردDavid Fraver تھے۔
فریور نے اس بڑےObject کو 2004 میں دیکھ کر اس کی فلم بنا لی تھی جو اب ٹک ٹاک پر وائرل ہو چکی ہے۔فریور نے یو ایف او کے سفید کیپسول کو اپنی نظروں سے دیکھا تھا لیکن یو ایف او نے اس کے جہاز کے ریڈار وغیرہ کو جام کر دیا تھا۔
1989میں مشہور وسل بلوور باب لیزارڈ نے کہا تھا کہ اس نے ناویدا صحرا میں تجربہ گاہ ایریا51 میں کام کرتے ہوئے انسانی قبضے میں لائے گئے12یو ایف اوز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔باب کا کہنا ہے کہ یہ یو ایف اوز ہیوی ایلیمنٹ115 کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کششِ ثقل فیلڈ خود پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یکدم بہت زیادہ اسپیڈ پکڑ سکتے ہیں۔
باب نے مزید بتایا کہ ریورس انجینرنگ کی بدولت تجربہ گاہ میں بنائے گئے UFOs کی ٹیسٹ فلائٹ کو اس نے خود دیکھا ہے۔ان تمام گواہیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر زمینی مخلوق کا وجود ایک حقیقت ہے لیکن ان سے پکڑے گئے جہازوں کی ریورس انجینئرنگ کے طفیل ہمارے ماہرین نے بھی ایسے جہاز بنانے میں ضرور کامیابی حاصل کر لی ہے۔
یہ خیال کہ امریکی انتظامیہ زمین سے باہر کی زندگی سے بخوبی آگاہ ہے، اب کوئی معمہ نہیں رہا۔اس سماعت سے یہ پتا چل گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور خاص کر امریکی افواج سے منسلک افراد کو انUFOsسے براہِ راست واسطہ پڑا ہے۔
یہ بات اب تک تو قصے کہانیوں اور سازشی تھیوریوں کے زمرے میں تھی لیکن امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں سماعت کے سبب اب یہ معلومات کانگریس ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں اور پبلک ڈومین میں بھی آ گئی ہیں۔
امریکی انتظامیہ پر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ غیر زمینی مخلوق کے بارے میں ضروری معلومات کو عام کرے تاکہ اس بارے میں بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں۔جولائی کے آخری ہفتے کی بدھ کو یہ سماعتی سیشن دو گھنٹے تک جاری رہا۔
یو ایف اوز کیا ہیں،کیایہ انسانیت کے لیے کسی خطرے کا موجب بن سکتے ہیں یا یہ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی میں ہمارے مدد گار ہو سکتے ہیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے ایک لمبے عرصے سے ہمارے بہترین دماغوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔آسمان میں تیرتے ایسے Objects اشیائ،جن کو کسی طرح بھی انسانی ایجاد سے نہ جوڑا جا سکے یا جن کی کوئی توجیح نہ پیش کی جا سکے انھیں یو ایف اوزUFOsکہا جاتا ہے۔ان کے نظر آنے کے بہت سے مشاہدات کو جہاں فریبِ نظر کہہ کر ذہن کے پردے سے جھٹکا جا سکتا ہے وہیں ان کی موجودگی کی بے شمار شہادتوں اور ثبوتوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔
رپورٹوں کے مطابق ان اشیاء کا فلائٹ پیٹرن انتہائی غیر معمولی اور غیر روایتی ہوتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ objects ہمارے تیز ترین اور جدید ترین سول و ملٹری ہوائی جہازوں کے فلائٹ پیٹرن سے ہٹ کر حیران کن پیٹرن دکھاتے ہیں۔ان کی عمومی رفتار ہمارے کسی بھی ہوائی جہاز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
کسی بھی سول یا ملٹری ہوائی جہاز کو اپنا رخ تبدیل کرنے کے لیے جس طرح مڑنا پڑتا ہے ان objectsکو ایسا کچھ کرنے کی بالکل ضرورت نہیں پڑتی اور یہ پلک جھپکتے میں کسی بھی رخ پرواز کر جاتے ہیں یا پھر سیدھے اوپر اُٹھ کر آسمان کی وسعتوں مں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ اشیاء کسی ایک مقام پر زمین سے اوپر بہت دیر تک ساکت حالت میںمعلق رہ سکتی ہیں۔ان کی روشنیاں بھی حیرت میں ڈالنے والی ہوتی ہیں ۔ایسی بے شمار رپورٹس ملی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کسی ایسے ہی objectنے زمین سے کسی فرد کو اغوا کیا اور کسی دوسری دنیا میں لے جا کر اس فرد پر مختلف تجربات کیے۔جب ان کا مقصد پورا ہو گیا تو اسے لا کر واپس چھوڑ دیا گیا۔UFOsدکھائی دینے کے جہاں بے شمار ثبوت ہیں وہیں اس Phenomenonکو کئی طرح سے سمجھا بھی جا سکتا ہے۔
ایک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھmisidentificationکی وجہ سے ہوتا ہے۔آسمان میں تیرتے کسی بھی جہاز،ایئر بیلونair baloon یا شہابِ ثاقب کو غلط پہچان کی بنیاد پر یو ایف او سمجھ لیا جاتا ہے۔
بعض اوقات کسی بیماری یا دوائی کے اثرات کی وجہ سے ذہنی کیفیت بھی مختلف ہیولے بنا لیتی ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔موسموں کے تغیر و تبدل کے طفیل فریبِ نظر optical illusionہونا بہت فطری بات ہے۔
یوں تو غیر زمینی مخلوقات نظر آنے کے واقعات زمانہ قبل از مسیح سے رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن دوسری عالمی جنگ میں فائٹر پائلٹوں نے اس کو زیادہ رپورٹ کیا۔سرکاری سطح پر اس کی پہلی تحقیقات امریکی ایئر فورس نے 1952 میں شروع کی۔یہ پروجیکٹ 17سال چلتا رہا۔بارہ ہزار شہادتیں ریکارڈ ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ غیر زمینی مخلوق ایک حقیقت ہے۔
1969میں اس تحقیقاتی پروجیکٹ کو بغیر وجہ بتائے اور بغیر حتمی رائے سامنے لائے بند کر دیا گیا۔ 9مئی 2001 کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں ڈاکٹر سٹیون نے انٹیلی جنس، انتظامیہ، کارپوریٹ سیکٹر اور سائنس دانوں میں سے اعلیٰ پائے کے 20افراد کو ایک پریس کانفرنس کے لیے جمع کیا۔ اس وقت کے تمام مشہور میڈیا ہاؤسز نے اس کو ریکارڈ بھی کیا۔
اس پریس کانفرنس میں بیس افراد نے اپنے ذاتی تجربات کو بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کا غیر زمینی مخلوق سے براہِ راست واسطہ پڑا۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان یو ایف اوز پر فائر کیے گئے ایٹمی میزائل بھی ناکام رہے۔حال ہی میں 26جولائی 2023 کو ڈیوڈ گرش نے ایوانِ نمائندگان کی اوور سائٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی شہادت ریکارڈ کروائی۔
گرش مسلسل 14سال تک امریکی ایئر فورس میں انٹیلی جنس آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے گرش کے ساتھ دو اور گواہ بھی پیش ہوئے۔گرش اس سال کے شروع تک یو ایف اوز پر تحقیقات کرنے والی امریکی وزاتِ دفاع کی دو ٹاسک فورس کا حصہ رہے ہیں۔
گرش نے کمیٹی کو بتایا کہ اسے غیر زمینی مخلوق کے چند جہازوں کے زمین پر کریش کی اطلاعات دی گئیں کہ ان جہازوں سے پائلٹوں کو نکال لیا گیا اور ملبے کو حاصل کر کے تجربہ گاہ پہنچایا گیا تاکہ ریورس انجینئرنگ کے عمل سے ایسے ہی جہاز بنائے جا سکیں۔گرش کے ساتھf-18کے پائلٹRayan Gravesبھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ریان نے بتایا کہ جب وہ ورجینیا کی ساحلی پٹی پر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا تو اس نے خود اور اس کے اسکواڈرن نے ان غیر زمینی objects کو دیکھنا شروع کیا۔
شدید ترین طوفانی بگولوں میں بھی یہ جہاز زمین سے کچھ اوپر بالکل ساکت رہے اور پلک جھپکتے میں سپر سونک اسپیڈ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ۔کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے تیسرے فردDavid Fraver تھے۔
فریور نے اس بڑےObject کو 2004 میں دیکھ کر اس کی فلم بنا لی تھی جو اب ٹک ٹاک پر وائرل ہو چکی ہے۔فریور نے یو ایف او کے سفید کیپسول کو اپنی نظروں سے دیکھا تھا لیکن یو ایف او نے اس کے جہاز کے ریڈار وغیرہ کو جام کر دیا تھا۔
1989میں مشہور وسل بلوور باب لیزارڈ نے کہا تھا کہ اس نے ناویدا صحرا میں تجربہ گاہ ایریا51 میں کام کرتے ہوئے انسانی قبضے میں لائے گئے12یو ایف اوز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔باب کا کہنا ہے کہ یہ یو ایف اوز ہیوی ایلیمنٹ115 کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کششِ ثقل فیلڈ خود پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یکدم بہت زیادہ اسپیڈ پکڑ سکتے ہیں۔
باب نے مزید بتایا کہ ریورس انجینرنگ کی بدولت تجربہ گاہ میں بنائے گئے UFOs کی ٹیسٹ فلائٹ کو اس نے خود دیکھا ہے۔ان تمام گواہیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر زمینی مخلوق کا وجود ایک حقیقت ہے لیکن ان سے پکڑے گئے جہازوں کی ریورس انجینئرنگ کے طفیل ہمارے ماہرین نے بھی ایسے جہاز بنانے میں ضرور کامیابی حاصل کر لی ہے۔