عملے پر تشدد اور دھمکیاں دی جاتی ہیں بلدیہ ٹاؤن میں قائم نادرا کا دفتر ایک بار پھر بند

غیرقانونی دستاویزات پر شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش کی جاتی ہے،حکومت حفاظتی انتظامات نہیں کرسکی،ذرائع

غیرقانونی دستاویزات پر شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش کی جاتی ہے،حکومت حفاظتی انتظامات نہیں کرسکی،ذرائع فوٹو: فائل

TAMPA, FL, US:
سیاسی عناصر کی دھمکیوں، عملے کو مارنے پیٹنے اور غیرقانونی دستاویزات پر زبردستی شناختی کارڈ بنوانے کے واقعات پر احتجاج کرتے ہوئے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) نے بلدیہ ٹاؤن کے پٹنی محلہ میں قائم شناختی کارڈ کا دفتر ایک بار پھر بند کردیا۔


سندھ حکومت کی جانب سے حفاظتی انتظامات کا بندوبست نہ کرنے پر نادرا گزشتہ ایک سال میں 3 سینٹرز مستقل طور پر بند کرچکا ہے جبکہ بلدیہ ٹاؤن میں قائم شناختی کارڈ دفتر 8 ماہ قبل بھی بند کیا چکا تھا تاہم عوام کے بے حد اصرار پر چند ماہ قبل ہی کھولا گیا تھا، تفصیلات کے مطابق تارکین وطن کے شناختی کارڈ بنوانے کیلیے بعض سیاسی، لسانی اور کالعدم تنظیموں کے کارکنان نادرا کے مختلف رجسٹریشن سینٹرز پر آدھمکتے ہیں، عملے کو ہراساں، جسمانی طور پر زدوکوب اور اسلحے کی نمائش کرتے ہیں، یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے، حساس علاقوں میں واقع نادرا سینٹرز کا عملہ جان ہتھیلی پر رکھ کر ملازمت کررہا ہے، ذرائع نے بتایا کہ نادرا صوبائی ہیڈکوارٹر نے ان مسائل کے حل کیلیے سندھ حکومت سے درخواست کی تھی کہ نادرا کے لانڈھی ملیر، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن پٹنی محلہ اور چاندنی چوک سینٹرز پر فوری طور پر پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں بصورت دیگر نادرا یہ سینٹرز بند کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال میں ان ہی وجوہات کی بنا پر نادرا انتظامیہ کیماڑی، صفورا گوٹھ اور لیمارکیٹ کے سینٹرز بند کرنے پر مجبور ہوچکی ہے، ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن کے پٹنی محلہ میں جمعہ کو سیاسی جماعت کے کارکنوں نے غیرقانونی دستاویزات کی بنیاد پر شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش کی تاہم عملے کے انکار کرنے پر مسلح افراد نے عملے کو مارا پیٹا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس پر عملے نے احتجاجاً دفتر پر تالے ڈال دیے، ذرائع نے بتایا کہ 2مئی سے نادرا کا دفتر بدستور بند ہے جس کے باعث بلدیہ ٹاؤن میں رہائش پذیر پاکستان کے حقیقی شہری شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بنوانے سے محروم ہوگئے ہیں، نمائندہ ایکسپریس نے نادرا کے متعلقہ افسران سے رابطے کی کوشش کی تاہم انھوں نے فون موصول نہیں کیا۔
Load Next Story