اُن کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا۔۔۔۔۔۔

ہماری تو بس ایک تمنا ہونی چاہیے، ہمیں مدعو کیا جائے، ہم بن بلائے نہ جائیں

فوٹو : فائل

فقیر دیکھتا ہے، شارع فیصل سے گزرتے ہوئے کتنے خُوب صورت لگتے ہیں وہ، گلے میں گلاب کے تازہ پھولوں کے ہار ڈالے، کاندھے پر بیگ لٹکائے، سر منڈائے اور سامانِ تحائف سے لدے پھندے مرد و زن۔ بہت اچھے لگتے ہیں، شانت اور آسودہ، واہ کیا بات ہے اُن کی۔ ہاں! وہ فقیر کو بہت پیارے لگتے ہیں۔

لاکھ سہولتیں سہی، آسائشیں اور آسانیاں بجا، مگر گھر کے سُکھ، چین اور آرام کو تج کر اپنے رب کے حضور پہنچنے والے خاص بندے اور پھر وہاں سے روتے ہوئے، آنسوؤں کی برسات میں پکارنے والے: ''لبیک، لبیک'' میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔

رب تعالی آپ کو بھی وہ منظر ضرور دکھائے، لیکن چلیے آپ یہاں بیٹھے ہوئے بھی تو اسے محسوس کر سکتے ہیں ناں! سوہنے اﷲ جی کے گھر اور دیارِ حبیب کریم ﷺ سے لوٹنے والوں کو مبارک باد دینا چاہیے، ہاں وہ بہت نصیب والے ہیں، بہت نصیب والے۔ یہ تو طے ہے کہ وہاں پہنچنے والا کوئی بھی فرد محروم نہیں رہتا، جھولیاں سب کی بھرتی ہیں۔ اﷲ سب کو سلامت رکھے اور پھر سے طلب بھی فرمائے۔

اچھا تو اب فقیر یہاں سے کسی اور سمت نکل رہا ہے، کہاں۔۔۔۔ ؟ یہ تو وہ بھی نہیں جانتا لیکن ایک بات سن لیجیے، فقیر کی بات سے آپ متفق ہوں یہ ضروری نہیں، بالکل بھی نہیں۔ مانیں نہ مانیں لیکن فقیر تو بس ایک بات کر رہا ہے، سن تو لیجیے! ہاں آپ کا ظرف بہت بڑا ہے، آپ مجھ فقیر کی ہر بات سن لیتے ہیں اور پھر بات آگے چلتی ہے۔

ضروری تو نہیں کہ فقیر کی ہر بات درست ہو بالکل بھی ضروری نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ سراسر لغو بات کر رہا ہو فقیر، سو فقیر آپ سے اپنی بات سے پہلے دست بستہ معافی کا طلب گار اور راہ نمائی کا طالب بھی۔ انسان ہوں، اب دیکھیے ناں کہ کیسا بڑا دعویٰ کر بیٹھا فقیر، ایسا ہوتا ہے کیا انسان مجھ جیسا! بہت بہت زیادہ غلطیاں کی ہیں، کرتا رہا ہوں، کرتا رہوں گا۔

آپ اسے دل پر نہ لے لیجیے گا۔ بس یہ کہہ رہا ہے فقیر کہ معاف کردیا کیجیے، کام کی بات ہو تو اپنے کھیسے میں رکھ لیجیے ورنہ اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیجیے، یہی تو اعلی ظرف اور وسیع القلب انسان کا سب سے بڑا وصف ہے۔

تو فقیر کہہ رہا تھا کہ اس کا ایک پگلے، کملے لیکن واقف اسرار سے بہت گہرا ناتا ہے، ایک دن بہت عجیب سی بات کی تھی اس نے۔ اچھی تو بہت لگی لیکن ڈرا بھی بہت فقیر۔

یہی موسم تھا، سب جا رہے تھے، اپنے رب کے گھر۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے کہا: ''تُو دیکھ رہا ہے ناں! کتنے خوش نصیب ہیں یہ جانے والے، پکارنے والے۔''

تو وہ خاموش ہوگیا۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں، سب سنگی بیلی جا چکے تھے تب فقیر نے اسے پھر کہا: ''کیا بات ہے جانے والوں کی، ہے ناں؟''



پھر بھی خموشی کا سامنا تھا فقیر کو تو میں اس سے الجھ پڑا:

تُو کچھ بولتا کیوں نہیں، کیا ہُوا ہے تجھے؟

تب وہ بولا: ''ہاں! ہاں! بہت نصیب والے ہیں، لیکن۔۔۔۔!''

ہاں بول! رُک کیوں گیا، لیکن کیا۔۔۔۔ ؟

''یار! بات بہت بڑھ جائے گی۔''

''تو بڑھنے دے۔۔۔۔ بول تو۔''

تب وہ کہنے لگا: ''مسئلہ کچھ اور ہے۔ سب طلب نہیں کیے جاتے۔''

فقیر نے حیرت سے پوچھا: کیا مطلب سب طلب نہیں کیے جاتے! تو پھر کیا ہے یہ سب کچھ ۔۔۔۔ ؟

''ہاں! یہ ہے اصل بات۔ دیکھ خالقِ کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں، لیکن اکرام سب کا کرتا ہے، رحمت کی بارش سب پر ہوتی ہے، کوئی محروم نہیں رہتا داتا کے گھر میں۔''

فقیر تو ویسے بھی کوڑھ مغز ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے چلا جا رہا ہے، آپ کو بھی الجھن سی ہو رہی ہوگی کہ آخر یہ کیا ہے پھر۔

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا:

''دیکھ ہمارے گھر میں کتنے مہمان آتے جاتے رہتے ہیں، روزانہ، کبھی ہفتے میں، کبھی مہینے میں۔۔۔۔ لیکن سب کو تو ہم طلب نہیں کرتے ناں۔''

فقیر نے کہا: ''ہاں! ہاں۔۔۔۔۔ !''

''لیکن سُن، جب کوئی مہمان گھر آ جائے تو ہم کیا کرتے ہیں، یہی ناں کہ ہم چائے کا وقت ہو تو چائے پلاتے ہیں، بسکٹ، کیک جو اہتمام ہو سکتا ہو، ہم کرتے ہیں۔

ہم انھیں کھانا کھلاتے ہیں، بہت عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ ہم اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں کہ وہ خوش ہو کر جائیں، خفا نہ ہوجائیں، ہماری کوشش ہوتی ہے وہ خوش ہوجائیں۔ لیکن ہم انھیں طلب تو نہیں کرتے ناں۔ وہ خود آ جاتے ہیں بن بلائے۔ اچھا! دوسرے مہمان وہ ہوتے ہیں جن سے ہم بہت اصرار کرتے ہیں کہ آپ ضرور آئیے ہمارے گھر۔ ہمارے ساتھ کھانا کھائیے، کچھ دیر قیام کیجیے، ہمیں بھی خدمت کا موقع دیجیے۔ ہم ان سے درخواست کرتے رہتے ہیں اور پھر ہماری امید بر آتی ہے اور وہ وعدہ کرلیتے ہیں۔

ٹھیک ہے ہم ضرور آئیں گے۔ تو ہم بہت بے صبرے ہوکر پوچھتے ہیں: کب آئیں گے آپ؟ تو وہ وقت بتاتے ہیں کہ ہم آئیں گے فلاں دن۔ ہماری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا کہ واہ واہ وہ ہمارا کہا مان گئے۔


کتنی خوشی و مسرت ہوتی ہے ہمیں۔ اور پھر جب وہ دن قریب آنے لگتے ہیں، تب ہماری تیاریاں بھی زور پکڑنے لگتی ہیں: یہ کمرا انھیں دیں گے، یہ سہولت وہ آسائیش، کھانے پینے کی نعمتیں ہم جمع کرنے لگتے ہیں کہ ہماری دعوت پر وہ آ رہے ہیں، اور پھر وہ گھڑی جس کا ہم شدت سے انتظار کرتے ہیں وہ تُو کیا شعر سنا رہا تھا اس دن؟ ہاں یاد آیا

اے میرے دل کے چین' مرے دل کی روشنی

آ اور صبح کر دے شب انتظار کی

بس اس طرح کی بات۔ اور پھر وہ وقت، وہ گھڑی وہ لمحہ آتا ہے جب وہ آ جاتے ہیں تو لگتا ہے بہار آگئی۔ نسیمِ صبح اترائے پھرتی ہے، ہمیں ہر چیز رقص کرتی نظر آتی ہے، مسرت جھومتی ہے اور مسکراہٹ۔۔۔۔ اس کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔ ہمارا والہانہ پن، جسے تم اپنا پن کہتے ہو، سب کچھ سارے منظر خوش نما اور موسم سہانا لگنے لگتا ہے۔

جب تک وہ رہتے ہیں، ہمیں کوئی تھکن نہیں ہوتی، ہم بے زار نہیں ہوتے، تنگ نہیں پڑتے۔۔۔۔ بلکہ ہنسی خوشی ان کی خدمت کرتے ہیں، بار بار کہتے ہیں: تکلف بالکل مت کیجیے گا، اسے اپنا گھر سمجھیے گا۔

یہ کھا لیجیے، وہ نوشِ جاں کر لیجیے، ہم نے بڑی چاہت سے، بہت محبت سے، بہت ہی خلوص سے یہ بنایا ہے، اور جب وہ کہتے ہیں: کتنا اچھا بنایا ہے آپ نے، کتنا لذیذ ہے، یہ کتنا مزے دار ہے، تو آپ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ پھر تحائف خریدتے ہیں، یہ آپ کے لیے ہے، قبول کر لیجیے، ہماری خوشی کو بڑھا دیجیے۔ ہم اپنی آنکھیں ان کی راہ میں بچھا دیتے ہیں، دل کے دریچے وا کردیتے ہیں: دیکھیے! آپ یہاں قیام پذیر ہیں اور ہم کتنے خوش۔''

یہاں پہنچ کر وہ پھر خاموش ہوگیا، فقیر کو وہ لمحات بہت اذیت پہنچاتے ہیں، جب بات ادھوری اور تشنہ رہ جائے، فقیر بے چین ہو گیا، لیکن اس کی خاموشی ختم نہیں ہو رہی تھی تو فقیر نے کہا: ''آگے بھی تو بول، چُپ کیوں ہوگیا۔۔۔ ؟''

تب وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: ''مجھے معلوم تھا، تُو نرا بے وقوف آدمی اب بھی نہیں سمجھا۔ دیکھ! پھر یہ ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے دن قریب آنے لگتے ہیں اور ہماری بے کلی بڑھنے لگتی ہے، بے چینی ہونے لگتی ہے، ہمیں تھوڑا تھوڑا سا غصہ آنے لگتا ہے۔

ان پر نہیں خود پر، کہ ہم کیسے رہیں گے ان کے بغیر کیا ہوگا، اور ہمارا اہتمام بڑھنے لگتا ہے، ہمیں سمجھ نہیں آتا کیا کچھ کر گزریں ان کے لیے۔ اور پھر وہ لمحہ آ پہنچتا ہے کہ وہ رخصت ہونے لگتے ہیں، ہم پھر بھی ان آخری لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی سعی کرتے ہیں: ہاں اسٹیشن چلیں گے۔

ایئرپورٹ چلیں گے یا ہم انھیں لاری اڈے پر رخصت کرنے جاتے ہیں اور پھر ہماری آنکھیں بے اختیار اشک بار ہو جاتی ہیں۔ ہم کوشش بھی کرتے ہیں لیکن کچھ کام نہیں آتا اور آخری گھڑی ہم التجا کرتے ہیں: ''آپ ضرور آئیے گا دوبارہ، اپ جس عزت و اکرام کے مستحق تھے وہ ہم سے نہ ہو سکا۔ اور وہ کہتے ہیں: نہیں نہیں آپ نے ہمارا دل جیت لیا، ہم تو جا رہے ہیں۔

پر دل تو یہیں چھوڑے جا رہے ہیں، بس اس طرح کی باتیں اور پھر وہ چلے جاتے ہیں اور ہم بجھے بجھے سے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ کچھ اچھا نہیں لگتا ہمیں۔ ابھی کچھ دن پہلے، بلکہ کچھ گھڑیاں پہلے تو سب کچھ سہانا تھا، ہمیں ہر چیز اچھی لگ رہی تھی، ہر موسم سہانا لگ رہا تھا، وہ سب کچھ چند لمحے بعد بے رنگ ہو جاتا ہے اور ہم پھر سے اداس ہو جاتے ہیں، بے کل ہو جاتے ہیں، بس ایسا ہو جاتا ہے، اور پھر ہم انھیں پیغام بھیجتے ہیں "I Miss You" ہم آپ کو بے انتہا چاہتے ہیں، آپ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ حالاں کہ سب کچھ وہی ہوتا ہے، اندر سے بدل جاتا ہے آدمی۔ وہ تُو بتا رہا تھا ناں کہ تیرا ایک دوست یہ بہت گاتا ہے اور پھر روتا بھی ہے۔ وہ کیا تھا ؟ ہاں وہ تھا

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

تو بس ایسا ہو جاتا ہے۔ وہ ہوتے ہیں ہمارے منتخب مہمان۔''

فقیر کو کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ فقیر ایسا محسوس کر رہا تھا، لگتا ہے کہ آپ کو بھی کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا ہوگا۔ بس آپ اسے محسوس کیجیے۔

پھر فقیر کے سامنے ایک روشنی سی ہوئی اور وہ جان پایا: اوہو! تو یہ مسئلہ ہے، پھر فقیر نے اِدھر اُدھر دیکھا، جس کے پاس بھی زادِ راہ ہے، وہ چل پڑتا ہے۔

بعض تو ہر سال جا رہے ہیں، کتنی سہولتیں ہیں، آسائشیں ہیں اور اشتہارات بھی، حج پیکیج، عمرہ پیکیج اور اس میں نوید ہے ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی آپ کو۔ بالکل اپنے گھر جیسا سمجھیے۔ تو بس لوگ جا رہے ہیں، آ رہے ہیں۔ جانا بھی چاہیے، ضرور جانا چاہیے اگر زادِ راہ ہے تو۔

لیکن اب یہ تو فقیر نہیں جانتا، کتنے منتخب ہوتے ہیں، طلب کیے جاتے ہیں، بہت محبت سے مدعو کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں مجھے اقبالؔ یاد آتے ہیں، نہ جانے کس ترنگ میں کتنی محبت سے کہہ دیا انھوں نے۔۔۔۔ یہ ہر ایک تو نہیں کہہ سکتا یہ تو تعلق کا مسئلہ ہے۔

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

اور کتنے ایسے ہیں جو بن بلائے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ تو آپ کو اپنے اندر سے معلوم ہو سکتا ہے، کسے طلب کیا تھا، کون بن بلائے پہنچ گیا۔

ہماری تو بس ایک تمنا ہونی چاہیے، ہمیں مدعو کیا جائے، ہم بن بلائے نہ جائیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ دل آزاری نہیں کر رہا تھا، نہیں، نہیں! بالکل بھی نہیں ایسا تو فقیر کبھی سوچ بھی نہیں سکتا، بس اندر جھانکنے کا کہہ رہا تھا۔ آپ کو بُرا لگا ہو تو معاف کر دیجیے گا۔ بھول جائیے گا۔ یہی تو اعلیٰ ظرفی ہے جی، بڑا پن ہے جی، سخاوت ہے جی۔

اجازت چاہے گا اب فقیر، رب نے چاہا تو ملیں گے ہم۔ ٹھیک ہے باتیں ہوں گی، جھگڑیں گے بھی اور گلے شکوے بھی ہوں گے۔ لیکن رہیں گے ہم ساتھ۔ فقیر کی حاضری کو قبول فرمائیے، سدا خوش رہیے، شاد رہیے اور آباد رہیے۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا اﷲ کا۔

کوئی سایہ تو ملا دھوپ کے زندانی کو

میری وحشت تری چاہت کو دعا دیتی ہے
Load Next Story