آر ایس ایس نے کیسے نصاب ِ تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل کو انتہا پسند بنایا

بھارت کی شدت پسند تنظیم کے طریق ِعمل کا حیرت انگیز ماجرا جو کروڑوں بھارتی مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا چکا

فوٹو : فائل

آج اسکول کی اہم تقریب ہے۔میدان میں سٹیج لگ چکا۔مہمان جمع ہو رہے ہیں۔تقریب کا مہمان خصوصی بھارتی وفاقی حکومت کا وزیر، ڈاکٹر سدانند گاؤڈے ہے۔

بھارت کے وفاقی علاقے پونڈچری کی گورنر، کیرن بیدی اور بھارتی ریاست کرناٹک کے کئی ریاستی وزیر بھی مہمانوں میں شامل ہیں۔جب میدان مہمانوں سے کھچاکھچ بھر گیا تو تقریب کا آغاز ہوا۔میدان کے وسط میں ایک اونچی سے شے پڑی ہے۔

اس کو پردے نے ڈھانپ رکھا ہے۔جب پردہ ہٹا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایودھیا کی بابری مسجد کا دیوہیکل پوسٹر ہے۔اچانک میدان میں سو کے قریب طلبہ دوڑ لگاتے داخل ہوئے۔وہ اسکول کی وردی میں ملبوس ہیں۔سبھی نویں دسویں جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں۔

کچھ نے زعفرانی رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔یہ سبھی طالب علم بابری مسجد کے پوسٹر کے سامنے جمع ہو گئے۔تب ہی کرناٹکی (کنٹر)زبان میں میزبان لاؤڈاسپیکر پر بڑے جوشیلے انداز میں بولنے لگا:''ان کے ہاتھ جو لگا ، اس کی مدد سے انھوں نے مسجد توڑ دی۔ہنومان کے بھگت جوش وجذبے سے لبریز تھے۔انھوں نے بابری مسجد ملیامیٹ کر کے ہی دم لیا۔''

ایک دلخراش ڈراما

میزبان جیسے ہی خاموش ہوا، طلبہ نے بابری مسجد کے پوسٹر پہ دیوانہ وار حملہ کر دیا۔اس کو ہاتھوں اور ڈنڈوں کی مدد سے پھاڑا جانے لگا۔ تبھی میزبان ، طلبہ اور مہمان نعرے لگانے لگے:''بولو شری رام چندر کی جے!بجرنگ بلی کی جے!!بھارت ماتا کی جے!!! ''ان نعروں کے جلو میں طلبہ نے بابری مسجد کا پوسٹر تہس نہس کر دیا۔کچھ دیر بعد وہاں رام مندر کا پوسٹر نمودار ہو گیا۔

یہ تقریب شری رام ودیا کیندر ہائی اسکول میں منعقد ہوئی جو ریاست کرناٹک کے ضلع دکشن کنڑ میں واقع ہے۔اس ضلع کی تیس لاکھ آبادی میں چھ لاکھ مسلمان ہیں۔

جب بابری مسجد شہید ہوئی تو حقیقتاً ان مسلمانوں کو صدمہ پہنچا تھا۔انھوں نے مسجد شہید کرنے والے ہندو انتہا پسندوں کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔نومبر 2019ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو ''غیر قانونی ''قرار دیا مگر انتہا پسند ہندوؤں کو اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔عالمی عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا عجیب وغریب فیصلہ تھا۔

اس فیصلے سے خوشی و یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے ہی شری رام ودیا کیندر ہائی اسکول میں 13 دسمبر 2019ء کو درج بالا تقریب منعقد ہوئی جس میں بابری مسجد شہید کرنے کا ''ڈراما ''کھیلا گیا۔اس ڈرامے سے فطرتاً ـبھارتی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور انھیں تکلیف پہنچی۔

یہ اسکول بھارت کی انتہا پسند تنظیم اور نئے مذہب ''ہندوتوا''کی سب سے بڑی مبلغ، آر ایس ایس کے مقامی رہنما، پربھارکر بھٹ کی ملکیت ہے۔جب سیکولر ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے پہ آر ایس ایس اور بھٹ پر تنقید کی تو وہ سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا:''یہ مسجد نہیں محض ایک عمارت تھی...اس کو ڈھانے کا واقعہ تاریخی ہے۔لہذا اسے دکھانے پر کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔''

آر ایس ایس کے کسی اسکول میں یہ کھیلا جانے والا پہلا مسلم دشمن ڈراما نہیں تھا، بلکہ یہ تنظیم کی باقاعدہ پالیسی ہے کہ اس کے تمام ہزارہا اسکولوں میں نصاب ِتعلیم اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے زیرِتعلیم معصوم بچوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ودشمنی پیدا کر دی جائے۔ان کے دماغ میں یہ بات راسخ کر دی جائے کہ مسلمان دشمن ہے اور اس کو بھارت میں اکثریتی ہندوؤں کا ماتحت بن کر رہنا چاہیے۔

انگریز نے شوشہ چھوڑا

ہندوستان کے بت پرستوں اور مسلمانوں کا ٹکراؤ پچھلے کئی سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ مگر آغاز میں جنگ کی بنیادی وجہ مذہبی اختلافات نہیں جغرافیائی تھی۔

ہندوستانی بت پرستوں نے افغانستان کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔انھیں واپس لینے کی خاطر افغان مسلمان بت پرستوں پہ حملے کرنے لگے۔یوں نہ صرف طویل جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ مسلمان افغان اور ترک جو ہندوستانی علاقے فتح کرتے ، وہاں بس جاتے اور اپنی حکومت قائم کر لیتے۔وہ پھر بت پرست رعایا کی مذہبی روایات میں دخل اندازی نہ کرتے۔شاید ہی کسی مسلم حکمران نے کوشش کی کہ بت پرستوں کو زبردستی مسلمان بنایا جائے۔



اسی لیے مطالعہ تاریخ افشا کرتا ہے کہ ماضی کے ہندوستان میں اسلام اور ہندومت کا کھلا تصادم نہیں ہوا...کیونکہ تب ہندومت کا وجود ہی نہ تھا۔مقامی بت پرست باشندے مختلف مذہبی فرقوں مثلاً وشنومت، شیومت، شکتی مت ، لنگایت وغیرہ میں تقسیم تھے۔

مسلم حکمران روادار تھے اور انھوں نے وسیع پیمانے پر بت پرستوں کو ملازمتیں دیں۔حتی کہ قدامت پسند مغل بادشاہ ، اورنگ زیب عالمگیر کے مشیر وگورنر بت پرست تھے۔مسلمانوں اور بت پرستوں کی جنگیں ہوئیں مگر قبل ازیں بتایا گیا کہ اکثر کی نوعیت عموماً مذہبی نہیں سیاسی وجغرافیائی تھی۔

جب انگریز نے حکومت سنبھالی تو اس نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ مسلم حکمرانوں نے بت پرستوں پہ مظالم ڈھائے اور انھیں غربت، جہالت و بیماری کا نشانہ بنائے رکھا۔

لہذا بت پرستوں کو متحد ہو کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہیے۔اب مسمانوں کو لاچاری و بے بسی کی زندگی گذارنی چاہیے۔

اس ساری سازش کا مدعا یہ تھا کہ مقامی اقوام ایک دوسرے سے لڑنے لگیں اور انگریز اطمینان سے حکومت کریں۔اس نظریے کو برہمن طبقے میں بہت مقبولیت ملی جو ہندوستان میں اپنا کھویا ہوا اقتدار بحال کرنا چاہتا تھا۔مگر پہلے ضروری تھا کہ تمام بت پرست فرقے اس کی قیادت تسلیم کر لیں۔ان فرقوں کو متحد کرنے کی خاطر ہی انگریز وبرہمن گٹھ جوڑ نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا۔

بھارتی حکومت پر برہمنوں کا قبضہ

برہمنوں کا یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا۔ آج برہمن ہی بھارت کی سیاست، افواج ، افسر شاہی، عدلیہ اور صنعت وتجارت پہ چھائے ہوئے ہیں۔ اصل اقتدار ان کے قبضے میں ہے۔

البتہ دنیا والوں کو دھوکا دینے اور یہ بتانے کے لیے کہ بھارت تو جمہوری ریاست ہے، ایک شودر (نریندر مودی)کو وزیراعظم بنا دیا اور ایک بے ضرر قبائلی خاتون کو رسمی صدارتی عہدہ دے ڈالا۔شودر مودی بھی وزیراعظم صرف اس لیے بنایا گیا کہ وہ اسلام، پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کا کٹر دشمن ہے۔نفرت و شرانگیزی کے برہمنی نظریات کا جنگجو پرچارک (مبلغ )ہے۔

بھارت پہ برہمن قبضے کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت کی بری، ٖفضائی اور بحری فوج کے کمانڈر اور سینئر عہدے دار ہمیشہ برہمن یا کھشتری ہوتے ہیں۔بھارتی بری فوج کا موجودہ چیف، منوج پانڈے برہمن ہے۔اسی طرح موجودہ چیف جسٹس ، دھننجے یشنت چندراچوڑ برہمن ہے۔

عدلیہ کے بیشتر جج برہمن یا کھشتری ہیں۔بھارت میں کیبنٹ سیکرٹری بھارتی سول سروس(افسر شاہی)کا سربراہ ہوتا ہے۔کیبنٹ سیکرٹری ، راجیو گوبا برہمن ہے۔افسر شاہی کے بیشتر اعلی افسر دو اعلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

مودی کے سبھی اہم دست راست مثلاً امیت شاہ، نرملا سیتارمن، ایس جے شنکر، نیتن گڈکری برہمن ہیں جبکہ وزیردفاع، راج ناتھ کھشتری ہے۔آر ایس ایس کے سیاسی روپ، بی جے پی کا صدر، جے پی نڈا اور جنرل سیکرٹری، دونوں برہمن ہیں۔آر ایس ایس اور بی جے پی میں اعلی عہدے برہمنوں کی گرفت ہیں ۔اسی طرح بھارت میں چوٹی کے اکثر صنعت کار، تاجر اور کاروباری برہمن یا کھشتری ہیں۔

غرض بھارت میں حقیقی حکمران برہمن و کھشتری ہیں جنھوں نے پہلے انیسویں صدی میں انگریز کی مدد سے نیا مذہب''ہندو مت''تخلیق کیا ۔اور پھر زیادہ سے زیادہ طاقت، دولت و عزت پانے کی خاطر اسے متشدد روپ''ہندوتوا'' دے ڈالا۔ہندوتوا کے بانیوں میں دیانند سرسوتی، بنکم چٹرجی، اروند گھوش، بال گنگا دھرتلک، مدن موہن مالویہ، ساروکر، ڈاکٹر مونجے، ڈاکٹر ہیڈگوار کے نام نمایاں ہیں اور یہ سبھی برہمن تھے۔

انھوں نے پہلے بت پرستوں کو ہندوؤں کا روپ دیا اور پھر ان میں سے جو نفرت پہ مبنی نظریات قبول کر کے مسلم دشمن بن گئے ، انھیں ''ہندوتوی'' کہنا مناسب ہے۔

آج بھارت میں آباد بیشتر ہندتوی آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے زیراہتمام چلنے والے ان اسکولوں کی پیداوار ہیں جہاں اسلام، پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے والا نصاب ِتعلیم پڑھایا جاتا ہے۔گویا اسی نصاب ِتعلیم نے ہندوتوا مذہب کی ترقی ، اشاعت و ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے، اب بھارت میں حکومت سنبھال کر ہندوتوی لیڈر قومی و ریاستی سطح پر جماعت اول سے لے کر اعلی جماعتوں تک کے نصاب میں اتنی بڑی اور انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔

نفرت کا مبلغ واحد مذہب

حقیقی مذہب وہ ہے جس کی تعلیم اپنے پیروکاروں کو دوسرے انسانوں سے پیار محبت کرنا سکھائے۔پیروکاروں کو ان کے خلاف نہ بھڑکائے اور انھیں دوسرے مذہبوں کے پیروکاروں سے نفرت کرنے کی تلقین نہیں کرے۔''ہندوتوا''واحد مذہب ہے جس کے پیروکاروں کو باقاعدہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے۔

انھیں تعلیم دی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو ہر ممکن نقصان پہنچاؤ اور ان کے لیے خیر کا کوئی کام مت کرو۔اسی لیے ہندوتوا سے متاثر بھارتی مسلمانوں کو پسند نہیں کرتے اور انھیں تنگ ودق کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

ہندوتوا ہے کیا؟مغربی ماہرین آج بھی ڈنڈی مارتے ہوئے اسے سیاسی نظریہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک نیا مذہب ہے،ایک طرز زندگی جس کی تشکیل میں انگریز، جرمن و ولندیزی مفکرین(مستشرقین)نے بھی حصّہ لیا۔اس کی رو سے ہندومت دنیا کا پہلا اور عظیم ترین مذہب ہے۔ہندوؤں ہی نے انسانی تہذیب وتمدن وثقافت کی بنیاد رکھی۔سائنس وٹکنالوجی کے وہی موجد ہیں۔ہندوؤں ہی نے چین اور وادی دجلہ فرات کو آباد کیا۔عربوں کے جد بھی ہندو تھے۔

آج بھارت پہ حکمرانی کرنے کا حق صرف ہندوؤں کو حاصل ہے۔مسلمان و عیسائی ان کے ماتحت بن کر ہی رہ سکتے ہیں۔ اور جو مسلمان ہندوؤں کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتا، وہ واجب القتل ہے۔ان نظریات سے عیاں ہے کہ ہندوتوا ، ہندومت کی جنگجویانہ و انتہا پسندانہ شکل ہے۔ہندوتوا کے لیڈروں کو مسلمانوں سے خاص دشمنی ہے کہ وہ ماضی میں ان کے آقا رہ چکے۔اور پھر زیادہ سے زیادہ ہندوؤں و بت پرستوں کو اپنی چھتری تلے لانے کی خاطر انھوں نے مسلمانوں کو خاص ٹارگٹ بھی بنا رکھا ہے۔

علامہ اقبال ؒ پہ حملہ

27 مئی 2023ء کو انکشاف ہوا کہ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، یوگیش سنگھ نے بی اے کے نصاب سے شاعر مشرق، علامہ اقبال ؒ کے سیاسی نظریات پہ مبنی نصاب ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے تجویز قبول کر لی۔اب اس کی ایگزیکٹیو کونسل نے منطوری دینی ہے جو وہ دے ڈالے گی۔وجہ یہ کہ وائس چانسلر سمیت یونیورسٹی کی دونوں کونسلوں کے بیشتر رکن آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس تنظیم نے ''ہندوتوا ''کی ترویج و اشاعت کے لیے اسلام، پاکستان اوربھارتی مسلمانوںکو خصوصی ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔نفرت وشرانگیزی پر مبنی یہ مہم انجام دینے کے لیے نصاب تعلیم اس کا خاص ہتھیار بن چکا۔قائدین آر ایس ایس جانتے ہیں کہ بچے کا ذہن صاف سلیٹ کے مانند ہوتا ہے...اس پہ جو کچھ لکھا جائے ، وہ بچے کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔

اس باعث نفرت کے یہ ہرکارے ہندو بچوں کے ذہنوں میں آغاز ِتعلیم ہی سے اسلام ، پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف شر انگیز مواد ٹھونس دیتے ہیں تاکہ انھیں اپنے منفی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا سکے۔


فاشزم کی نقلچی جماعت

ہندوتوا کے قائدین نے نصابی تعلیم کے ذریعے بچوں میں اپنے نظریات ٹھونسنے کا تصّور اطالوی آمر، بینتو میسولینی سے اخذ کیا۔میسولینی سمجھتا تھا کہ ایک قوم اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اس کے مردوزن کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ سب سے برتر وعظیم ہیں۔اور جو قوم اطالوی قوم کو عظیم ترین نہ سمجھے، وہ قابل نفرت و دشمن ہے۔

اس سے جنگ کرنا جائز ہے۔اور اس جنگ میں ایک طاقتور ڈکٹیٹر کو قوم کی قیادت کرنا چاہیے۔یوں میسولینی نے اپنے لوگوں کو جنگجو اور قوم پرستی کے نام لیوا بنا دیا۔ یہی نظریہ ''فاشزم''کہلاتا ہے۔جرمن آمر، ایڈلف ہٹلر نے بھی فاشزم کے نکات مستعار لے کر اپنے فلسفہ ِعمل''نازی ازم''کی بنیاد رکھی۔

جب میسولینی 1922ء میں اپنے لڑاکا دستوں کی مدد سے برسراقتدار آیا تو اس نے نوجوانوں کی تنظیمیں قائم کر دیں۔ان تنظیموں نے سرکاری سرپرستی میں پورے اٹلی میں شاخیں کھول لیں جہاں بچوں اور لڑکوں کو لاٹھیاں، چاقو، غلیل اور دیگر ہتھیار چلانے کی تربیت دی جانے لگی۔انھیں مارچ پاسٹ کرایا جاتا اور نیم عسکری تربیت دی جاتی۔

ان کا نصاب ِتعلیم بھی فاشزم کے نظریات پہ مبنی تھا۔بچوں اور لڑکوں کو فاشسٹ تعلیم دے کر میسولینی نوجوانوں کی ایسی فورس تیار کرنا چاہتا تھا جو مخالفین کو تہس نہس کر دے اور اس کے اقتدار کو دائمی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ڈاکٹر بی ایس مونجے انتہا پسند ہندو لیڈر اور ہندوتوا کا پرستار تھا۔اسی نے آر ایس ایس کے بانی، ڈاکٹر ہیڈگوار کو پڑھایا لکھایا اور اسے ہندوتوی بنا دیا۔ہیڈگوار نے 1925ء میں ہندوتوا نظریات کی اشاعت کے لیے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔

1927ء میں مونجے تب ہندوتوا کی سب سے بڑی تنظیم، ہندومہاسبھا کا سربراہ بن گیا۔اسی حیثیت سے وہ 1931ء میں لندن کی گول میز کانفرنس میں شریک ہوا۔ہندوستان واپس آتے ہوئے وہ جرمنی میں ٹھہرا اور وہاں میسولینی سے ملاقات کی۔اس نے بچوں ، لڑکوں اور نوجوانوں کو فاشسٹ تعلیم و تربیت دینے والے تعلیمی مراکز کا بھی دورہ کیا۔وہ ان سے بہت متاثر ہوا۔مونجے نے بعد ازاں اپنی ڈائری میں لکھا:

''میسولینی سے پہلے اطالوی قوم جنگ وجدل کے اصولوں سے ناواقف تھی۔وہ لڑنے سے پرہیز کرتی تھی۔میسولینی نے تعلیمی مراکز کھول کر اطالوی قوم کو جنگ کی تعلیم وتربیت دی اور یوں اسے جنگجو ولڑاکا بنا دیا۔یہ ضروری ہے کہ ہندستان میں بھی اس طرز کے تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔وہاں ہندو بچوں اور لڑکوں کو نیم عسکری تعلیم وتربیت دی جائے تاکہ وہ بھی لڑنے کے قابل ہو جائیں۔اس طرح وہ اپنے دشمنوں کا بخوبی مقابلہ کر سکیں گے۔''

نیم عسکری تعلیم وتربیت کا آغاز

جب ڈاکٹر مونجے واپس ہندوستان پہنچا تو وہ ڈاکٹر ہیڈگوار سے ملا۔تب تک بھارت کے مختلف شہروں میں آر ایس ایس کی شاخیں کھل چکی تھیں۔مونجے کی تجویز پر ان شاخوں میں تنظیم سے منسلک لڑکوں اور نوجوانوں اور دیگر مردوں کو نیم عسکری تربیت دی جانے لگی۔

انھیں ہندوتوا کے نظریات پہ مبنی لٹریچر بھی پڑھایا جاتا۔اس طرح آر ایس ایس نے اپنی ترویج و اشاعت کے لیے آمر و فاشسٹ میسولینی سے ملتا جلتا تعلیمی وتربیتی ڈھانچا کھڑا کر لیا تاکہ نوجوان ہندو نسل کے دل ودماغ میں ہندوتوا کے نظریات راسخ کیے جا سکیں۔

1937ء میں ڈاکٹر مونجے نے ناسک، مہاراشٹر میں ایک کیڈٹ اسکول، بھونسلہ ملٹری اسکول کی بنیاد رکھی۔ اس درس گاہ میں لڑکوں کو ہندوتوا کے نصاب پہ مبنی عسکری تعلیم وتربیت دی جانے لگی۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اسی اسکول میں بھارتی مساجد اور مسلم محلوں میں بم حملے کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ بعد ازاں ہندوتوی دہشت گردوں کے حملوں میں کئی مسلمان شہید ہوئے۔یہی بلوائی سمجھوتہ ریل پہ آگ لگانے میں بھی پیش پیش تھے۔

ممبئی کے اعلی پولیس افسر، ہیمنت کرکرے نے اس منصوبے کا کھوج لگا لیا تھا۔ یہ منصوبہ بنانے میں آر ایس آیس اور بی جے پی کے مرکزی لیڈر ملوث تھے۔ کرکرے ان سبھی مجرموں کو سامنے لانا چاہتے تھے، اس لیے 2008ء میں پُراسرار ممبئی حملے کے دوران انھیں قتل کر دیا گیا۔

آر ایس ایس کے اسکول

مسلمانانِ ہند نے جب آزاد وطن، پاکستان حاصل کرنے کی خاطر تحریک چلا رکھی تھی تو آر ایس ایس نے 1946ء میں ریاست ہریانہ کے شہر، کوروکیشتر میںاپنا پہلا اسکول کھولا۔ جلد ہی دیگر شہروں میں بھی اسکول کھلنے لگے۔تاہم 1948ء میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے منسلک دہشت گردوں نے گاندھی جی کو مار ڈالا تو حکومت نے اسکول بند کر دئیے۔

حالات معمول پر آئے تو آر ایس ایس 1952ء سے پھر اسکول قائم کرنے لگی۔مختلف شہروں میں کھلے اسکولوں کی سرگرمیاں منظم کرنے کی خاطر آر ایس ایس نے 1977ء میں ایک قومی تنظیم''ودیا بھارتی اکھل بھارتیہ شکشھا سنستھان''قائم کر دی۔ یہ مختصر ودیا بھارتی کہلاتی ہے۔

1977ء میں ودیا بھارتی کے زیراہتمام ستر اسکول کام کر رہے تھے۔ان میں بیس ہزار طلبہ پڑھ رہے تھے۔آج ان اسکولوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہو چکی اور ان میں تیس لاکھ طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں۔ان اسکولوں میں روایتی نصاب کے علاوہ آر ایس ایس کی اپنی مرتب کردہ نصابی کتب بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ان میں ہندوتوا کے نظریات بھرے پڑھے ہیں۔مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

اقلیت دشمن نصاب ِتعلیم

٭... ہندو تہذیب وثقافت ایک سمندر کے مانند ہے جس میں سبھی مذاہب کے دھارے آ گرتے ہیں۔دنیا میں کئی مذاہب نے جنم لیا مگر وہ مٹ گئے۔صرف ہندومت ہی زندہ رہے گا کیونکہ دنیا کے پہلے انسان نے ہندوستان ہی میں جنم لیا۔

٭... ہندومت کی نشانیاں یونانی سکوں پہ کندہ ملی ہیں۔ (کھلا جھوٹ) ایران کا قدیم نام آریان ہے جو ہندوستان کے آریاؤں نے اسے دیا۔ پارسیوں کی کتب میں درج ہے کہ وہ آریاؤں کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں(جماعت نہم کی کتاب)

٭... کائنات کو برہما نے پیدا کیا۔چین میں ہندوستانی قوم ہی نے تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی۔یونانیوں کو انھوں نے ہی علوم وفنون سکھائے۔یونانی شاعر، ہومر نے رامائن پڑھ کر ہی اس کا نیا نمونہ ، ایلیڈ اور اوڈیسی تخلیق کیا۔(جماعت ششم)

٭... ماضی میں ہندوستان ''اکھنڈ بھارت''تھا۔پھر ہندوؤں کے دشمنوں (مسلمانوں) نے اس کا بٹوارا کر دیا۔یہ ہم سب (ہندوؤں )کا فرض ہے کہ اکھنڈ بھارت کو دوبارہ وجود میں لائیں جس کی ہم پوجا کرتے ہیں۔(جماعت سوم)

یہ واضح رہے، آر ایس ایس کے اکثر اسکولوں میں کلاس روم میں اکھنڈ بھارت کا بڑا سا نقشہ دیوار پہ نصب ہوتا ہے۔اس نقشے میں پاکستان، بنگلہ دیش،برما، نیپال، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ اور افغانستان اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔اکثر نقشوں میں بھارت ماتا کی نمائندگی کرتی عورت دکھائی جاتی ہے جس نے ہندوتوا کی علامت، زعفرانی جھنڈا پکڑ رکھا ہوتا ہے۔

آر ایس ایس کے اسکولوں میں ہر سال 14 اگست کو'' یوم اکھنڈ بھارت دیوس'' منایا جاتا ہے کیونکہ اس روز اکھنڈ بھارت کی تقسیم ہوئی تھی۔

٭...بھارت میں رہنے والا ہر شہری ہندو ہے۔ اور وہ ہندو صرف اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ اپنے دیس کو مادر ِوطن اور مقدس شے سمجھے۔(جماعت دہم)

اس طرح ہندو بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی محب وطن نہیں ہوتے کیونکہ ان کے مقدس مقامات ہندوستان میں واقع نہیں۔

٭...ہر نصابی کتاب میں سوال جواب دے کر ہندو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ بابر بادشاہ نے ایودھیا میں رام مندر توڑ دیا۔ اس مندر کو دوبارہ تعمیر کرنے کی خاطر اب تک ساڑھے تین لاکھ رام بھگت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے۔بابر نے رام مندر کی جگہ ایک عمارت بنا دی جو مسجد نہیں تھی، کیونکہ وہاں مسلمان نماز نہیں پڑھتے تھے۔

٭...مسلمان جہاں بھی جاتے، ان کے ہاتھوں میں تلوار ہوتی۔ان کی فوج طوفان کی طرح چاروں سمتوں میں پھیلتی جاتی۔ ان کے راستے میں جو بھی ملک آیا ،وہ برباد ہو گیا۔ عبادت گاہیں اور یونیورسٹیاں ملیامیٹ کر دی گئیں۔ لائبریریاں جلا دی گئیں۔ مذہبی کتابیں تباہ کر دی گئیں۔ ماؤں بہنوں کی تذلیل کی گئی۔ رحم اور انصاف ان کے لیے ناآشنا تھا۔(جماعت چہارم)

٭...دہلی کا قطب مینار مسلم حکمران، قطب الدیں ایبک نہیں ایک ہندو راجا نے بنوایا تھا۔اس کا نام سمھودرا گپتا تھا۔(جماعت چہارم )

٭...ہندوسان میں مسلمانوں نے تلوار کی نوک پر لاتعداد ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا۔ تب (ہندوؤں کے لیے )آزادی کی جدوجہد مذہبی جنگ بن گئی۔ انھوں نے دھرم کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ ہم ایک کے بعد ایک جنگ جیتتے چلے گئے۔ ہم نے کبھی غیر ملکی حکمرانوں کو آباد نہیں ہونے دیا لیکن ہم اپنے الگ ہونے والے (مسلمان)بھائیوں کو دوبارہ ہندو مذہب میں تبدیل نہیں کر سکے۔(جماعت پنجم)

٭...بت پرستی کے ہزاروں مخالفین، اسلام کے پیروکار کعبہ میں اسلامی کمیونٹی کی زیارت گاہ میں "پتھر" کی پوجا کرنے جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں سب سے بڑی خواہش اس کالے پتھر کے درشن کی ہوتی ہے۔ (بارہویں جماعت )

٭... ایک سوال بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اس سوال کے جواب کے طور پر خالی جگہ میں ''خون کی ندیاں'' تحریر کریں کہ پیغمبر اسلامﷺ نے اسلام کو کن ذرائع سے پھیلایا۔(بارہویں جماعت کی کتاب)

٭...محمد بن قاسم نعوذ باللہ کتے جیسی موت مرے۔(نہم جماعت)

٭...1947 ء میں بھارت کا ایک حصہ، پاکستان ہمارا دشمن بن گیا۔ وہ کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے قبائلی لڑکوں کے روپ میں غیر اعلانیہ حملہ آور بھیجنے لگا۔ انہیں آزاد کشمیر کے نام پر کچھ کامیابی ملی، لیکن بھارتی افواج نے ان حملہ آوروں کو بھگا دیا۔ (جماعت دہم )

٭...اشوک اعظم کے دور میں اہنسا (امن) کی وکالت ہونے لگی۔ ہر قسم کے تشدد کو جرم سمجھا جانے لگا۔ یہاں تک کہ شکار، یجنوں میں قربانی اور ہتھیاروں کے استعمال کو برا سمجھا جانے لگا۔ اس کا فوج پر بُرا اثر پڑا۔ بزدلی آہستہ آہستہ پوری مملکت میں پھیل گئی۔

ریاست بدھ راہبوں کو کھانا فراہم کرنے کا بوجھ اٹھاتی تھی۔ اس لیے لوگ راہب بننے لگے۔ ہتھیاروں کے ذریعے فتح کو بُرا سمجھا جانے لگا۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سپاہیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ اہنسا کی تبلیغ نے شمالی ہندوستان کو کمزور کر دیا۔(جماعت چہارم )

٭...عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی سازشی پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا۔ آج بھی عیسائی مشنری ہمارے ملک کے ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل، بہار، کیرالہ اور دیگر خطوں میں ملک دشمن رجحانات کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے موجودہ ہندوستان کی سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔(بارہویں جماعت کی کتاب)

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پچھلے چالیس برس کے دوران آر ایس ایس نے اپنے ہزارہا اسکولوں میں پڑھائے گئے نصاب ِتعلیم کی بدولت ہندوتوا نظریات پہ عمل پیرا لاکھوں متشدد نوجوان تیار کر لیے۔ آج بھارت میں کہیں بھی ہندو مسلم فساد ہو یا کوئی مسلمان گائے لے جاتا پکڑا جائے تو یہی ہندوتوی مسلمانوں پہ خوفناک ظلم ڈھاتے ہیں۔اس نوجوان انتہا پسند فوج کے سہارے ہی آر ایس ایس اور بی جے پی جنوبی اور مشرقی بھارت میں قدم جمانے ومقبول ہونے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔
Load Next Story