کویت کی تباہی کا آنکھوں دیکھا حال

کویت عراق جنگ کی اس رپورٹنگ کے لیے میں سعودی عرب سے اتحادی فوج کے سی ون 130 جہاز کے ذریعے کویت پہنچا

msmrao786@hotmail.com

33 سال پہلے دو اگست 1990 کو عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر فوجی قبضہ کر لیا۔ میں اس جنگ کی رپورٹنگ کے لیے کویت میں تھا۔ تباہ حال کویت کے مناظر میری آنکھوں میں اب بھی ایک فلم کی طرح چل رہے ہیں۔

کویت ملک ہے جب کہ دارالحکومت کا نام بھی یہی ہے۔ سعودی عرب اور عراق کے درمیان خلیج فارس کے کنارے واقع کویت دنیا کا ایک امیر ترین ملک ہے، اس کی خوشحال کا راز تیل کے ذخائر ہیں۔ اس کی کل آبادی 43 لاکھ ہے جب کہ 30 سال پہلے یہ 35 لاکھ سے زائد نہ تھی۔ مقامی باشندوں کی تعداد بمشکل 14 لاکھ ہے جب کہ باقی سب غیر ملکی ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد پاکستانی بھی کویت میں رہتے ہیں۔

بطور ٹی وی رپورٹر جب میں نے کویت پر عراق کے قبضے کی رپورٹنگ کی تو ان ایام میں نہ تو انفرمیشن ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ فوری طور پر وڈیو پاکستان بھیج سکیں اور نہ ہی ڈیجیٹل میڈیا اور سیل فون اتنی ترقی کر چکے تھے کہ آپ اس کے ذریعے Instant رپورٹنگ کر سکیں۔ ان ایام میں بین الاقوامی رپورٹنگ روایتی طور پر ٹیلی فون لائن کے ذریعے سیٹلائٹ کال بک کرا کر کی جاتی تھی۔

اسی طرح اگر اپ نے اپنی وڈیو فلم پاکستان بھیجنی ہو تو بھی سیٹلائٹ سگنل بک کرایا جاتا تھا اور ایک ''ہوپ سسٹم'' کے تحت وڈیو کو کویت ٹی وی سینٹر یا ہمسایہ ممالک کے کسی بھی ٹی وی سینٹر پر جا کر وڈیو ٹیپ پلے کرنے کے بعد اسے پہلے ''Hop'' میں یورپ کے سیٹلائٹ سینٹر بھیجا جاتا تھا وہاں سے اسی لمحے دوسرے ''ہاپ'' کے ذریعے وہ وڈیو ایشیا کے سیٹلائٹ ہوپ پہنچتی تھی اور پھر اسے پاکستان کے سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کراچی یا اسلام آباد بھیج دیا جاتا تھا جہاں سے اسے مقامی ٹی وی اسٹیشن لنک کر دیا جاتا اور پھر نیوز روم اور پروڈکشن اسٹوڈیو میں رپورٹر کی ٹیلی فونک ہدایات کے مطابق تدوین کے بعد اسے نشر کیا جاتا تھا۔

آپ اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں بین الاقوامی تصویری خبروں اور حالات کی رپورٹنگ تکنیکی اعتبار سے کس قدر مشکل اور تکلیف دہ تھی۔ میں نے ان ہی حالات میں اس گلف وار کی رپورٹنگ کی لیکن 13 سال بعد 2003 ''امریکا عراق جنگ'' کی رپورٹنگ کے لیے جب میں بغداد گیا تو اس وقت رپورٹر کو سیٹلائٹ فون کی سہولت موجود تھی لیکن تصویری مواد بھیجنے کا انداز وہی پرانا تھا۔

1990 میں عراق کی معیشت بہت خراب تھی۔سعودی عرب، ایران، شام، مصر، کویت سب سے اس کے تنازعات چل رہے تھے۔ صدام خود کو عربوں کا سب سے بڑا لیڈر تصور کرتا اور خطے کے ممالک کو لیڈ کرنا چاہتا تھا۔امریکا سمیت مغربی ممالک میں بھی اس کی''گڈول'' نہ تھی، اس لیے اسے اپنے تیل کی پیداوار کو فروخت کرنے کے لیے منڈیوں کے حصول میں بھی دقت کا سامنا تھا۔ مالی حالات کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے صدام حسین نے کویت سے مدد کی درخواست کی لیکن کویت کے امیر نے اسے رد کر دیا۔


رد عمل کے طور پر صدام حسین نے دو اگست 1990 کو فوج کشی کر کے چند گھنٹوں میں کویت پر قبضہ کر لیا۔ کویت کا بادشاہ سعودی عرب فرار ہو گیا ۔ عراقی فوجیوں نے کویت کے میوزیم، امیر کویت کے محل، ساحل سمندر پر لنگرانداز بحری بیڑے کو تباہ و برباد کیا ، تیل کے کنوؤں کو بھی آگ لگا دی۔ ایک تحقیق کے مطابق 600 سے زیادہ تیل کے تیل کے کنوؤں کو نذرآتش کیا گیا۔

میں نے اپنی آنکھوں سے تیل کے ان کنوؤں سے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے اور فلم بندی بھی کی، جو پی ٹی وی پر چلائی بھی گئی۔کویت شہر کا واٹر سپلائی سسٹم تباہ ہو چکا تھا۔ سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کا ''ڈی سیلینیشن'' پلانٹ بھی برباد کر دیا گیا۔ مقامی کویتیوں اکثریت سعودی عرب چلی گئی۔ صرف غیرملکی شہری اور فلسطینی کویت میں رہے۔

چند دن بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد پاس کر کے صدام حسین کو حکم دیا کہ وہ فوری کویت خالی کر دے ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ صدام حسین نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو ماننے سے انکار کر دیا۔ نتیجے میں امریکا ، فرانس، جرمنی، شام، مصر اور سعودی عرب اتحاد نے صدام حسین کو الٹی میٹم دیا کہ اگر اس نے 24 گھنٹے کے اندر کویت کو خالی نہ کیا تو اتحادی فوجیں حملہ کر دیں گی۔ جب صدام نہ مانا تو اتحادی افواج نے عراقی فوجوں کا بھرکس نکال دیا۔

یہ وہ وقت تھا کہ اگر امریکا اور اتحادی چاہتے تو صدام کے اقتدار کا خاتمہ ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا، پھر وہ دن آگیا کہ صدام حسین اور امریکا براہ راست آمنے سامنے آگئے۔ امریکا نے اقوام متحدہ اور مغربی اتحادی فوجوں اور عراق کے ہمسایہ عرب ممالک جن میں کویت اور سعودی عرب بھی شامل ہیں، کو ساتھ ملا کر آپریشن ڈیزرٹ سٹروم کیا جس کے نتیجے میں 2003 میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بعدازاں اسے پھانسی دے دی گئی۔

یوں مشرق وسطی کا ''آئرن مین'' تاریخ کے اوراق میں گم ہو گیا لیکن اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ حتمی طور پر تاریخ صدام حسین کو کس مقام پر کھڑا کرتی ہے۔

کویت عراق جنگ کی اس رپورٹنگ کے لیے میں سعودی عرب سے اتحادی فوج کے سی ون 130 جہاز کے ذریعے کویت پہنچا۔ جہاز جب کویت ایئرپورٹ لینڈ کر رہا تھا تو میں نے کویت شہر کے دونوں اطراف سیکڑوں تیل کے کنوؤں سے اٹھنے والی آگ اور دھوئیں کو دیکھا۔ ابتدائی طور پر ہمارا قیام کویت میں پاکستانی سفارت خانے میں تھا۔ وہاں بھی شہری سہولتیں اور پانی کی کمی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ ایام رمضان کے تھے۔ سعودی عرب سے پانی کے ٹینکر اور راشن کویت پہنچتا تھا اور لوگ طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی کی بوتلیں اور راشن وصول کرتے تھے۔ کویت عراق جنگ کی ان یادداشتوں کی وڈیو میں نے اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کی ہے۔ اگر اپ چاہیں تو مزید مناظر وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
Load Next Story