جھوٹ پھر بھی پکڑے جاتے ہیں

اقتدار سے ہٹائے جانے پر صبح شام جھوٹ پہ جھوٹ بولے ہوں وہ جھوٹ چھپے تو نہیں رہنے تھے

m_saeedarain@hotmail.com

یوں تو جھوٹ اکثر بولا ہی جاتا ہے اور آج کے دور میں بھی کوئی شخص بہ مشکل ہی ایسا ہوگا جس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔

ایسی توقع فرشتوں سے ہی کی جا سکتی ہے جب کہ اشرف المخلوقات ہونے کا دعویدار جھوٹ کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا اور ہمارے ملک کی سیاست میں جھوٹ سب سے بڑا عنصر ہے جس کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی اور حالیہ 75 سالوں میں کوئی ایسا سیاستدان موجود نہیں جس نے سیاست میں جھوٹ نہ بولا ہو اور ہمیشہ سچ بولا اور لکھا ہو۔

ملک کے نامور سیاستدانوں میں صرف ایک ایسا سابق وزیر اعظم ہے جس نے اپنے جھوٹ چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا اور جھوٹ بولنے، حقیقی اثاثے چھپانے پر قانون کی گرفت میں آ کر سزاوار قرار پایا۔ 1985 کے بعد سے سیاست میں مقام حاصل کرکے وزیر اعظم بننے والے حکمرانوں میں کوئی ایک حکمران ایسا نہیں جس نے زندگی میں جھوٹ نہ بولا ہو، جھوٹے دعوے نہ کیے ہوں اور اپنے اثاثے اور مال و جائیداد نہ چھپائی ہو۔

بانی پاکستان کے بعد بہ مشکل ہی کوئی غیر سیاسی یا سیاسی حکمران ہو جس نے سرکاری وسائل اور قومی خزانہ اپنے لیے، اپنے خاندانوں، عزیزوں اور اپنوں کو نوازنے اور ملک کو لوٹنے کے لیے بے دردی سے استعمال نہ کیا ہو اور قومی خزانے کو لوٹ کر، اپنے مفاداتی فیصلوں اور ملنے والے کمیشنوں کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادیں نہ بنائی ہوں اور پکڑے جانے پر سچائی کا اعتراف کیا ہو۔

اپنے اقتدار میں بیرون ملک بنائی گئی جائیدادوں کی ملکیت کا اعتراف کسی حکمران نے کبھی نہیں کیا کہ سرے محل کا مالک کون تھا، سوئٹزر لینڈ میں جمع کروڑوں ڈالر اور اس کی فائلیں کہاں گئیں، سابق وزرائے اعظم تو کیا کسی سرکاری افسر نے بھی تسلیم نہیں کیا کہ بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار کیسے کیا گیا۔


سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نے بھی اپنے اقتدار میں ایک اعلیٰ افسر کے کرپشن سے مال بنانے کی اسی طرح گواہی اور فتویٰ دیا تھا جیسے انھیں ایک منصف اعلیٰ نے صادق و امین ہونے کا فتویٰ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود دیا تھا کہ اس پلے بوائے نے جھوٹ پر جھوٹ بولا اور اقتدار میں آ کر تو ملک کو لوٹنے، اپنوں کو نوازنے کی اجازت مل گئی تھی کہ مختلف بہانوں سے اس نے توشہ خانہ سے کروڑوں روپے کمائے، اپنے عزیزوں اور جاننے والوں کو بیرون ملک سے بلا کر اہم عہدے دیے، جائیدادیں بنانے میں سرکاری مدد دی۔ یہ واحد حکمران تھا جس نے بیرون ملک سے ملنے والے قیمتی تحائف ہی نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی تصویر والی نایاب گھڑیاں بیچیں۔

ایک سابق صدر اور وزرائے اعظم پر توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں کوڑیوں کے مول خرید کر گاڑیاں رکھ لینے کے الزامات تو ہیں مگر یہ الزام نہیں کہ انھوں نے قیمتی گاڑیاں فروخت کر کے کروڑوں روپے بنائے ہوں۔ سزا پانے والے سابق وزیر اعظم پر تو عدالت میں ثابت ہو گیا ہے کہ وہ جھوٹا ریکارڈ پیش کرنے اور بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عدالت میں ان سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ وہ وزیر اعظم عوام کو خوشحال بنانے کے لیے بنے تھے یا سرکاری تحائف سستے خرید کر مہنگے فروخت کرنے کا کاروبار کر کے کروڑوں روپے بنانے کے لیے۔

سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نے اپنی سیاست کی ابتدا جھوٹ، جھوٹے اعلانات، جھوٹے بلند و بانگ دعوؤں سے کرکے اقتدار حاصل کیا تھا اور اپنے اقتدار میں دھڑلے سے جھوٹ بولے۔ اپنے بیانات سے فخریہ طور یوٹرن لیا کہ میں تو عدالتی صادق و امین ہوں۔

عدالتی بددیانت اور جھوٹا قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم کو صادق و امین قرار دینے والے منصف اعظم پر بھی شدید تنقید ہوئی تھی۔ حصول اقتدار کے لیے جھوٹ اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جھوٹ بولنے کی سزا تو صرف اور صرف قیامت میں ہی ملنی ہے مگر جھوٹ بولنے کے عادی ان افراد کو کیا کہا جائے جو اس کے جھوٹوں پر یقین کرتے رہے جس نے جھوٹ چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولے اور ان لوگوں کی سادگی پر قربان جائیے جنھوں نے یقین کر لیا کہ انھیں اقتدار سے ہٹانا امریکی سازش، سائفر سچا اور آئینی طور پر آنے والی نئی حکومت امپورٹڈ تھی۔

عوام کو دھوکا دے کر ان کے جذبات سے کھیل کر امریکا سے ملکی تعلقات خراب کرانے والے نے بعد میں امریکا سے معافی کے لیے امریکی فرموں کو لاکھوں ڈالر دیے ہوں۔ اقتدار سے ہٹائے جانے پر صبح شام جھوٹ پہ جھوٹ بولے ہوں وہ جھوٹ چھپے تو نہیں رہنے تھے۔ اس نے ایک جھوٹ چھپانے کے لیے دوسرا پھر تیسرا جھوٹ بولا ہو۔ جھوٹ تو پھر جھوٹ ہے جو کبھی چھپتا نہیں ظاہر ہو ہی جاتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اور وہی ہوا، عدالت میں جھوٹوں کے ثبوت پیش ہوئے اور ملزم کو بد دیانت قرار دے کر سزا سنا دی گئی جس کی تصدیق اب اعلیٰ عدالتوں میں ہونی ہے جو مقام نہیں سچائی اور ثبوت دیکھیں گی مگر مکافات عمل ہوتا ہے جو سامنے آ گیا ہے۔
Load Next Story