اوباما سے پاکستانی سیاست تک
پاکستانی اپوزیشن ابھی تک پیپلزپارٹی کو آیندہ الیکشن میں شکست دینے کے لیے کوئی بڑا ایشو تلاش نہیں کر سکی
گستاخانہ فلم اوباما کو ڈبونے کے لیے کافی ہے۔
اس فلم کو استعمال کر کے جس طرح عالم اسلام کو مشتعل کیا گیا ہے، وہ بتدریج اوباما کی مقبولیت میں کمی اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مِٹ رومنی کے الیکشن جیتنے کے امکانات کو بڑھادینے میں معاون ثابت ہوگی۔
لیبیا سے امریکی سفیر سمیت چار لاشیں اور مختلف مسلمان ملکوں میں نذر آتش کیے گئے سفارتخانے صدارتی الیکشن میں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں گے کہ خود کو عیسائی ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کرنے والے باراک حسین اوباما امریکیوں کی حفاظت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ فلم کی نمائش کی ٹائمنگ بھی قابل غور ہے، رومنی کو ٹیکس ریٹرنز کے حوالے سے تنقید کا سامنا تھا اور وہ مقبولیت میں اوباما سے پیچھے تھے۔
تھوڑے عرصے میں صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی اور رومنی امریکی عوام میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنائیں گے۔ اوباما انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا نے مسلمان ملکوں میں امریکی فوج کی تعیناتی پر غور کرنے کا بیان دے کر اس کا اظہار کر دیا ہے۔ اس بیان سے اشتعال اور بڑھے گا۔ لیون پینٹا ابھی اور گل کھلائیں گے اور اپنی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتے جائیں گے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنے ملک کی سیاست کی طرف آئوں مجھے کافی عرصہ پہلے دیکھی گئی ہالی ووڈ کی ایک فلم یاد آ رہی ہے۔ فلم کا نام یاد نہیں رہا، اس کا مرکزی خیال ابھی ذہن میں تازہ ہے۔ امریکا کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے بنائی گئی اس فلم میں جب ایک سیاہ فام امیدوار اتنا پاپولر ہو جاتا ہے کہ وہ امریکا کا صدر منتخب ہو سکتا ہے تو سی آئی اے کے ایک آپریشن میں اس کی زندگی کا 'دی اینڈ' کر دیا جاتا ہے۔
یہ فلم امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ 2008ء میں اس وقت کے صدر بش کے خلاف نفرت چونکہ انتہائوں کو چھو رہی تھی اس لیے ایک سیاہ فام کی الیکشن میں جیت برداشت کر لی گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ دوسری بار یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگی۔
اوباما کو ہرانے کے لیے اپوزیشن کو ایشو مل گیا ہے۔ پاکستانی اپوزیشن ابھی تک پیپلزپارٹی کو آیندہ الیکشن میں شکست دینے کے لیے کوئی بڑا ایشو تلاش نہیں کر سکی۔ لے دے کر لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ہی دو ایسی دکھتی رگیں ہیں جو حزب اختلاف کے ہاتھ آ سکتی ہیں۔ بیڈ گورننس کا واویلا بھی ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ن لیگ کی پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے۔
کراچی میں قتل و غارت ہو رہی ہے تو پنجاب میں بھی حالات پرسکون نہیں۔ گذشتہ سال ڈنگی اور جعلی ادویات سے ہونے والی اموات الیکشن میں لوگوں کو یاد دلائی جائیں گی۔ لاہور میں مہنگا ترین رپیڈ بس کا منصوبہ بھی ن لیگ کی مخالفت میں اچھالا جائے گا۔ اس کے ثمرات سے لاہور کے شہری ضرور مستفید ہوں گے لیکن آج تک کے حالات یہ ہیں کہ وہ اس منصوبے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔
پنجاب حکومت نے صوبے کے دیگر علاقوںمیں بھی ترقیاتی کام کیے ہیں لیکن مخالفین یہ پراپیگنڈا کرنے میں کامیاب رہیں گے کہ میاں صاحبان نے اپنے گڑھ اور گھر لاہور میں سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ خرچ کیا ہے۔
لاہور کا ذکر ہوا ہے تو میرا دھیان جمعہ کو صدر زرداری کے چند گھنٹوں کے دورے کی طرف چلا گیا ہے۔ صدر صاحب آئے تو تاجروں کی طرف سے تقسیم انعامات کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے تھے لیکن انھوں نے جوتا فیکٹری میں آتشزدگی سے زخمی ہونیوالوں کی میو اسپتال جاکر عیادت بھی کر لی۔ بتایا جاتا ہے کہ زخمیوں کی عیادت ان کے شیڈول میں نہیں تھی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جمعہ کے دن نواز شریف کراچی میں تھے اور انھوں نے اس متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا تھا جس میں ملکی تاریخ کی بد ترین آگ لگی تھی اور سیکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ میرے خیال میں صدر صاحب نے میو اسپتال جا کر میاں صاحب کو یہ پیغام دیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے لیے اس کے اتحادی بھی اہم ہیں۔ نواز شریف صدر صاحب کے اتحادی ایم کیو ایم کے گڑھ میں تھے تو صدر صاحب ن لیگ کے گڑھ کا دورہ کر رہے تھے۔
صدر صاحب نے پنجاب میں آیندہ جیالے وزیراعلیٰ کی پیش گوئی کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ اگلا الیکشن ن لیگ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اب الیکشن زیادہ دور نہیں۔ آیندہ انتخابات میں ن لیگ کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ پیپلز پارٹی کو اپنا واحد حریف ثابت کرے۔ ملک کی تیسری بڑی قوت کا سونامی تیزی سے کسی نچلے درجے کے سیلاب میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
الیکشن میں جیتنے کے اہل امیدوار جس تیزی سے پارٹی میں شامل ہوئے تھے اسی رفتار سے واپس جا رہے ہیں۔ کپتان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس طرح کے امیدواروں کو ایک مرتبہ ہی پارٹی سے نکال دیں اور نوجوان امیدواروں کی طرف واپس لوٹ جائیں۔ ورنہ ان کی تحریک انصاف کا نقصان پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذکر کی اس لیے ضرورت نہیں کہ وہ اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کرلیں گی۔
الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی کو جو چیلنج درپیش ہے وہ آج سپریم کورٹ میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی پیشی ہے۔ راجہ صاحب چین کا کامیاب دورہ کرکے آئے ہیں۔ وہاں انھیں پورا پروٹوکول ملا۔ ان کا دورہ گیلانی صاحب کے آخری دورہ برطانیہ سے بالکل مختلف تھا۔ گیلانی موصوف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سزا یافتہ ہونے کے باوجود برطانیہ گئے تھے۔
راجہ صاحب ابھی سزا یافتہ نہیں ہیں ۔ کہتے ہیں خط کے مسئلے پر اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون میں بھی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نرمی نہ برتی تو مشکل ہو جائے گی۔ خط لکھنے کا کوئی راستہ نہ نکالا گیا تو پھر راجہ صاحب کی وزارت عظمیٰ خطرے میں ہوگی۔ زرداری صاحب کو اس سے فرق نہیں پڑے گا' وہ نیا وزیراعظم لے آئیں گے۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست دینی ہے تو کوئی بڑا ایشو تلاش کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن ایسا نہ کر سکی تو زرداری صاحب کے دعوے سچ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس فلم کو استعمال کر کے جس طرح عالم اسلام کو مشتعل کیا گیا ہے، وہ بتدریج اوباما کی مقبولیت میں کمی اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مِٹ رومنی کے الیکشن جیتنے کے امکانات کو بڑھادینے میں معاون ثابت ہوگی۔
لیبیا سے امریکی سفیر سمیت چار لاشیں اور مختلف مسلمان ملکوں میں نذر آتش کیے گئے سفارتخانے صدارتی الیکشن میں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں گے کہ خود کو عیسائی ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کرنے والے باراک حسین اوباما امریکیوں کی حفاظت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ فلم کی نمائش کی ٹائمنگ بھی قابل غور ہے، رومنی کو ٹیکس ریٹرنز کے حوالے سے تنقید کا سامنا تھا اور وہ مقبولیت میں اوباما سے پیچھے تھے۔
تھوڑے عرصے میں صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی اور رومنی امریکی عوام میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنائیں گے۔ اوباما انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا نے مسلمان ملکوں میں امریکی فوج کی تعیناتی پر غور کرنے کا بیان دے کر اس کا اظہار کر دیا ہے۔ اس بیان سے اشتعال اور بڑھے گا۔ لیون پینٹا ابھی اور گل کھلائیں گے اور اپنی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتے جائیں گے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنے ملک کی سیاست کی طرف آئوں مجھے کافی عرصہ پہلے دیکھی گئی ہالی ووڈ کی ایک فلم یاد آ رہی ہے۔ فلم کا نام یاد نہیں رہا، اس کا مرکزی خیال ابھی ذہن میں تازہ ہے۔ امریکا کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے بنائی گئی اس فلم میں جب ایک سیاہ فام امیدوار اتنا پاپولر ہو جاتا ہے کہ وہ امریکا کا صدر منتخب ہو سکتا ہے تو سی آئی اے کے ایک آپریشن میں اس کی زندگی کا 'دی اینڈ' کر دیا جاتا ہے۔
یہ فلم امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ 2008ء میں اس وقت کے صدر بش کے خلاف نفرت چونکہ انتہائوں کو چھو رہی تھی اس لیے ایک سیاہ فام کی الیکشن میں جیت برداشت کر لی گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ دوسری بار یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگی۔
اوباما کو ہرانے کے لیے اپوزیشن کو ایشو مل گیا ہے۔ پاکستانی اپوزیشن ابھی تک پیپلزپارٹی کو آیندہ الیکشن میں شکست دینے کے لیے کوئی بڑا ایشو تلاش نہیں کر سکی۔ لے دے کر لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ہی دو ایسی دکھتی رگیں ہیں جو حزب اختلاف کے ہاتھ آ سکتی ہیں۔ بیڈ گورننس کا واویلا بھی ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ن لیگ کی پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے۔
کراچی میں قتل و غارت ہو رہی ہے تو پنجاب میں بھی حالات پرسکون نہیں۔ گذشتہ سال ڈنگی اور جعلی ادویات سے ہونے والی اموات الیکشن میں لوگوں کو یاد دلائی جائیں گی۔ لاہور میں مہنگا ترین رپیڈ بس کا منصوبہ بھی ن لیگ کی مخالفت میں اچھالا جائے گا۔ اس کے ثمرات سے لاہور کے شہری ضرور مستفید ہوں گے لیکن آج تک کے حالات یہ ہیں کہ وہ اس منصوبے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔
پنجاب حکومت نے صوبے کے دیگر علاقوںمیں بھی ترقیاتی کام کیے ہیں لیکن مخالفین یہ پراپیگنڈا کرنے میں کامیاب رہیں گے کہ میاں صاحبان نے اپنے گڑھ اور گھر لاہور میں سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ خرچ کیا ہے۔
لاہور کا ذکر ہوا ہے تو میرا دھیان جمعہ کو صدر زرداری کے چند گھنٹوں کے دورے کی طرف چلا گیا ہے۔ صدر صاحب آئے تو تاجروں کی طرف سے تقسیم انعامات کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے تھے لیکن انھوں نے جوتا فیکٹری میں آتشزدگی سے زخمی ہونیوالوں کی میو اسپتال جاکر عیادت بھی کر لی۔ بتایا جاتا ہے کہ زخمیوں کی عیادت ان کے شیڈول میں نہیں تھی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جمعہ کے دن نواز شریف کراچی میں تھے اور انھوں نے اس متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا تھا جس میں ملکی تاریخ کی بد ترین آگ لگی تھی اور سیکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ میرے خیال میں صدر صاحب نے میو اسپتال جا کر میاں صاحب کو یہ پیغام دیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے لیے اس کے اتحادی بھی اہم ہیں۔ نواز شریف صدر صاحب کے اتحادی ایم کیو ایم کے گڑھ میں تھے تو صدر صاحب ن لیگ کے گڑھ کا دورہ کر رہے تھے۔
صدر صاحب نے پنجاب میں آیندہ جیالے وزیراعلیٰ کی پیش گوئی کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ اگلا الیکشن ن لیگ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اب الیکشن زیادہ دور نہیں۔ آیندہ انتخابات میں ن لیگ کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ پیپلز پارٹی کو اپنا واحد حریف ثابت کرے۔ ملک کی تیسری بڑی قوت کا سونامی تیزی سے کسی نچلے درجے کے سیلاب میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
الیکشن میں جیتنے کے اہل امیدوار جس تیزی سے پارٹی میں شامل ہوئے تھے اسی رفتار سے واپس جا رہے ہیں۔ کپتان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس طرح کے امیدواروں کو ایک مرتبہ ہی پارٹی سے نکال دیں اور نوجوان امیدواروں کی طرف واپس لوٹ جائیں۔ ورنہ ان کی تحریک انصاف کا نقصان پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذکر کی اس لیے ضرورت نہیں کہ وہ اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کرلیں گی۔
الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی کو جو چیلنج درپیش ہے وہ آج سپریم کورٹ میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی پیشی ہے۔ راجہ صاحب چین کا کامیاب دورہ کرکے آئے ہیں۔ وہاں انھیں پورا پروٹوکول ملا۔ ان کا دورہ گیلانی صاحب کے آخری دورہ برطانیہ سے بالکل مختلف تھا۔ گیلانی موصوف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سزا یافتہ ہونے کے باوجود برطانیہ گئے تھے۔
راجہ صاحب ابھی سزا یافتہ نہیں ہیں ۔ کہتے ہیں خط کے مسئلے پر اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون میں بھی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نرمی نہ برتی تو مشکل ہو جائے گی۔ خط لکھنے کا کوئی راستہ نہ نکالا گیا تو پھر راجہ صاحب کی وزارت عظمیٰ خطرے میں ہوگی۔ زرداری صاحب کو اس سے فرق نہیں پڑے گا' وہ نیا وزیراعظم لے آئیں گے۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست دینی ہے تو کوئی بڑا ایشو تلاش کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن ایسا نہ کر سکی تو زرداری صاحب کے دعوے سچ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔