آگے جنگل کا سنّاٹا پیچھے گونج کھڑاؤں کی۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر سائیکل بھی کیا سواری ہے جی! فقیر کی ایک رضائی ماں اسے ’’شیطانی چرخا‘‘ کہتی ہیں
موٹر سائیکل بھی کیا سواری ہے جی! فقیر کی ایک رضائی ماں اسے ''شیطانی چرخا'' کہتی ہیں۔ گھر والے، دوست احباب بھی بہت نالاں ہیں فقیر کے موٹر سائیکل چلانے پر، چلیے یہ کہاں نکل کھڑے ہوئے ہم۔ تو موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی تھی، فقیر ایک ٹائر شاپ پر رُکا ہوا تھا کہ ایک سفید ریش قریب آئے اور بہت اپنائیت سے فرمایا: ''اوہو! آپ کی بائیک پنکچر ہوگئی۔''
فقیر نے کہا: جی! ایسا تو ہوتا رہتا ہے، سڑکوں کی حالت بھی تو بہت ابتر ہے ناں۔
اب بزرگ کا دوسرا سوال فقیر کا منتظر تھا: ''کیا کام کرتے ہیں آپ۔''
بس جی! یہی مزدوری۔ تب بزرگ نے فقیر کے شانے پر بہت اپنائیت سے اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: ''اچھا ہے، اچھا ہے، تن درست رہیے اور بس مصروف رہیے، اب دیکھیے! میں ریٹائرڈ ہوگیا ہوں، ایک ماہ گھر میں رہا تو مجھے احساس ہُوا کہ میں تو بہت مشکل میں آگیا ہوں۔
بچوں کے پاس مجھ سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے اور پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری بات سے بھی وہ مشتعل ہونے لگے ہیں، تو بس پھر میں نے یہ سامنے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی، دن بھر جو بچے آتے ہیں تو ان سے گفت گُو کرکے اپنا جی بہلاتا ہوں۔ تنہائی نے مار ڈالا ہے ہمیں تو، ہر ایک اپنی دھن میں مگن ہے جی، کسی کو کسی سے بات کی فرصت ہی نہیں ہے، غضب خدا کا شادی ولیمہ تو چھوڑیے صاحب! میت میں بھی اب لوگ بات نہیں کرتے، اور اپنے سیل فون پر مگن رہتے ہیں، ابھی کل ہی تو بات ہے کہ میں میت کی تدفین کے سلسلے میں قبرستان گیا تو وہاں بھی سب اپنے سیل فون پر نظریں جمائے ہوئے تھے آخر ایک صاحب نے تلخ ہوکر بہ آواز بلند کہا: اجی! آپ سب کو اگر فرصت ملے تو میت پر مٹی ڈال دیجیے۔''
اسی دوران پنکچر لگ چکا تھا تو فقیر نے ان سے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگے: ''کبھی کبھی آجایا کیجیے، آپ سے بات کرکے جی کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔''
فقیر نے ان سے وعدہ کیا کہ جی ان شاء اﷲ ضرور۔ اب تو کئی مرتبہ فقیر اپنی پوتیوں کو لے کر ان سے ملنے گیا ہے، بہت خوش ہوتے ہیں وہ اور فقیر کی بڑی پوتی گل مینہ جو خود کو ''دادا کی ماما'' کہتی ہے کی باتوں اور شرارتوں سے لطف اندوز بھی۔
بات تو تلخ ہے لیکن یہی ہے حقیقت کہ ہم سب نے خود ساختہ تنہائی اوڑھی ہوئی ہے، فقیر کو بتایا گیا ہے کہ چیزیں انسان کے لیے ضروری ہیں، لیکن انسان تو ان ایجادات کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایجادات ہمارے تابع ہوتیں المیہ یہ کہ ہم ان کے تابع ہوگئے ہیں تو اب اس کا حل کیا ہے۔۔۔۔ ؟ فقیر تو کچھ نہیں جانتا یہ اس پر تو آپ کو خود غور کرنا ہوگا جی۔ دیکھیے! اب فقیر اپنے بچپن کی جانب لوٹ رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ فقیر اب تک بچپنے میں ہی ہے تو چلیے سنیے!
بہت ساری بلّیاں پالی ہوئی تھیں انھوں نے۔ اکیلے اور تنہا۔۔۔۔ بہت خاموش سے۔۔۔۔ بہت اسرار تھا ان کی شخصیت میں۔ چاروں طرف کھیت اور بیچ میں ایک بڑا سا قطعہ اور قطعے کے کونے میں سرخ اینٹوں سے بنا ہوا چھوٹا سا کمرہ۔۔۔۔ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، چھوٹا سا جستی سیاہ ایک صندوق، ایک گھڑا اور ایلومینیم کا ایک گلاس ۔۔۔۔ جسے انھوں نے ستلی سے گھڑے کے ساتھ باندھا ہُوا تھا۔۔۔۔ کمرے کے باہر تین اینٹوں سے بنا ہوا چولہا اور اس پر ایک میلی سی پتیلی اور بہت ساری بلّیاں ۔۔۔۔ بس یہ کل کائنات تھی ان کی ۔۔۔۔ اپنی دنیا میں مگن مست۔
فقیر نے کبھی ان کے پاس کسی کو بیٹھے نہیں دیکھا۔ بہت عجیب عجیب سی، پراسرار سی باتیں ان سے منسوب تھیں ۔۔۔۔ اسی میدان سے گزر کر میں اسکول جایا کرتا تھا۔ میرے ساتھی سنگی مجھے ہمیشہ منع کرتے کہ اس راستے سے مت جایا کرو۔۔۔۔ میں ہمیشہ کی طرح ضد کرتا: ''کیوں نہیں جاؤں! تم سب دوسرے رستے سے جاؤ، میں تو اسی رستے سے جاؤں گا۔'' اور برسوں میرا معمول یہی رہا۔
ایک دن میں نے اپنے ایک بہت اچھے استاد سے پوچھا:
آپ اس بلّیوں والے بابا کو جانتے ہیں؟
انھوں نے توجہ نہیں دی تو میں نے اپنا سوال دہرایا۔ پہلے تو انھوں نے اپنا عینک اتارا اور اسے میز پر رکھ کر بولے: ''ہاں کیا پوچھ رہے تھے؟''
آپ اس بلّیوں والے بابا کو جانتے ہیں؟
''نہیں۔۔۔۔ میں اسے نہیں جانتا۔''
کیوں۔۔۔۔۔ ؟
انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور پھر مسکرا کر بولے:
''ضروری ہے کہ میں انھیں جانوں؟''
ہاں سر! بہت ضروری ہے۔
ایک اور ''کیوں'' کا مجھے سامنا تھا۔
اس لیے سر! کہ وہ تو تنہا رہتے ہیں، ہیں کون وہ، اکیلے کیوں رہتے ہیں، کام کیا کرتے ہیں، وہ کھاتے پیتے کہاں سے ہیں؟ میں نے تو انھیں ہمیشہ چائے پیتے ہی دیکھا ہے۔
میں ایک ہی سانس میں ڈھیر سارے سوال ان کے آگے رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے:
''ہاں یہ تو تم صحیح کہہ رہے ہو۔ اب ایک آدھ دن میں معلوم کروں گا، پھر تمہیں بتاؤں گا۔''
ٹھیک ہے۔ میں نے کہا اور چلا آیا۔
تیسرا دن تھا جب میں پھر اپنے استاد کے پاس پہنچا:
جی سر! آپ نے معلوم کرلیا؟
''تمہاری سوئی ابھی تک اسی بابا کے پاس اٹکی ہوئی ہے، میں تو سمجھا تم بھول بھال گئے ہو گے۔''
بہت بک بک کی تھی اس دن میں نے اور پھر فیصلہ کیا کہ یہ کام مجھے خود ہی کرنا ہوگا۔ وہ بابا نہیں جن بابا ہیں، ان کی ساری بلّیاں جن ہیں، ان کے پاس بالکل نہیں جانا، وہ تو جادوگر ہیں، کالے جادوگر۔۔۔۔ دیکھی نہیں ان کی آنکھیں، لال انگار، کسی سے بات نہیں کرتے وہ۔۔۔۔ کتنے خموش سے ہیں، تم بالکل بھی ان کے پاس مت جانا۔
لوگوں سے سنگی ساتھیوں سے بہت کچھ سنا میں نے، لیکن اندر کی آگ کبھی سرد نہیں پڑی، بس دہکتی رہی اور اب تک۔
اس دن برسات کی وجہ سے اسکول میں جلدی چھٹی ہوگئی تھی۔ میرے دوستوں نے پکنک کا پروگرام بنا لیا تھا۔ بہت اصرار کیا انھوں نے، میں نہیں مانا۔ ''بس میں نہیں جا رہا تم جاؤ۔'' میری سوئی تو بس ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔
اسکول سے نکلا ہی تھا کہ ہلکی ہلکی رم جھم پھر سے گنگنانے لگی، کھیت بارش میں نہا کر خوش ہو رہے تھے، درخت مسکرا رہے تھے، پرندے چہچہا رہے تھے، آم کے باغ سے گزرتے ہوئے مجھے مالی بابا ملے: ''ہاں بھئی! خیر تو ہے آج جلدی آگیا؟''
ہاں بابا! آج جلدی چھٹی ہوگئی۔
کیوں؟
بارش ہو رہی ہے ناں اس لیے۔
''آ کچھ کھا پی لے۔''
نہیں بابا! بس جاؤں گا۔
''واہ واہ آج تو بہت شریف بنا ہوا ہے۔''
میں نے انھیں بھی بہت تنگ کیا ہے، کبھی سناؤں گا ان کی بھی کتھا۔
میرے چاروں طرف مٹی کی سوندھی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ آپ نے بارش میں کھیت دیکھا ہے کبھی؟ نہیں۔ اوہو! کچھ بھی نہیں دیکھا آپ نے۔۔۔۔ کبھی موقع ملے تو ضرور دیکھیے گا۔۔۔۔ اور مٹی کی خوش بُو بھی آپ کو وہاں ملے گی۔ جانتے ہیں آپ بہت مہنگا اور کمیاب عطر کون سا ہوتا ہے۔۔۔ ؟ جی! عطر گِل، مٹی کی سوندھی خوش بُو والا۔۔۔۔ ہنستی، مسکراتی، گدگداتی اور اندر تک سرشار کردینے والی مٹی کی خوش بُو۔
میں بلّیوں والے بابا کو دور سے دیکھنے لگا۔ ویسا ہی اسرار، مکمل سکوت۔۔۔۔ پہلے تو میں بہت ڈرا، لیکن میں آج فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔۔ نہیں، ابھی اور اسی وقت، میں نے ہمت باندھی اور ان کی سمت چلنے لگا۔ پھر وہ مجھے دیکھنے لگے تو میری ہمت جواب دے گئی۔ دوستوں کی باتیں میرے چاروں طرف رقص کرنے لگیں: جن ہیں، جادوگر ہیں، مت جانا، بہت پچھتاؤ گے تم۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے رب کا نام لیا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا، وہی سہارا ہے میرا، پھر میں ان کے سامنے تھا۔
اکیلے بیٹھے ہوئے تھے وہ۔۔۔۔ میں نے سلام کیا۔
''جیتے رہو۔'' میں نے سنا تھا، پھر خاموشی۔
بابا! کیسے ہیں آپ۔۔۔ ؟
''ٹھیک ہوں، ٹھیک ہوں۔ بتاؤ کیا کام ہے مجھ سے۔''
کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی آپ کے پاس آگیا۔
پہلی مرتبہ میں نے انھیں مسکراتا دیکھا۔
''اچھا، اچھا! لیکن تم تو روزانہ یہاں سے مجھے دیکھتے ہوئے گزرتے ہو۔ پہلے کیوں نہیں آئے۔''
اس لیے نہیں آیا کہ آپ جن بابا ہیں۔
وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے: ''کیا میں تمہیں جن لگتا ہوں۔''
نہیں تو، آپ تو جن نہیں لگتے، لیکن سب تو یہی کہتے ہیں۔
''دیکھو بچے! جن کسی کو نظر نہیں آتا، میں تو نظر آتا ہوں ناں۔''
ہاں! یہی تو میں کہتا ہوں اور آپ کی بلیاں۔۔۔ ؟
''بچے! یہ اﷲ کی مخلوق ہیں، پہلے ایک آئی پھر دوسری، اور اب اتنی ساری ہیں۔۔۔۔ یہ تو میرے بچے بچیاں ہیں۔ میں ان سے باتیں کرتا ہوں۔ ان کا خیال رکھتا ہوں۔''
یہ بلیاں آپ کی باتیں سمجھتی ہیں کیا ؟
''ہاں ہاں کیوں نہیں سمجھتیں۔۔۔۔ بہت سمجھ دار ہیں، اﷲ نے سب کو عقل دی ہے۔ اچھا تم اپنا نام بتاؤ۔ تمہارا نام کیا ہے؟ کہاں پڑھتے ہو؟ کیا کھیلتے ہو؟''
میں بہت دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ انھوں نے مجھے ایک ٹافی بھی دی۔ پھر ہماری دوستی ہوگئی۔
میں آپ کے پاس آجایا کروں؟
''ہاں! ہاں! کیوں نہیں۔۔۔۔ جب فرصت ملے تو آ جایا کرو۔''
آپ جادوگر تو نہیں ہیں ناں؟
''نہیں بچے! میں تو بس انسان ہوں، بے ضرر انسان۔''
انھوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں، اور میں رخصت ہو گیا۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنی امی کو بتایا کہ آج میں بلیوں والے بابا سے مل کر آیا ہوں، بہت اچھے ہیں وہ۔ پہلے تو انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا: ''کچھ کھا پی کر تو نہیں آگیا وہاں سے؟''
نہیں تو، انھوں نے ایک ٹافی دی تھی، وہ میں نے کھا لی ہے۔
''تو انسان کب بنے گا؟ کب دماغ تیرا ٹھیک ہوگا۔ ہر کسی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جان نہ پہچان۔'' وہ تو ہمیشہ مجھے یہ کہتی رہتی تھیں۔
مغرب کے بعد میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچا۔ تم سب جھوٹے ہو۔ بے پر کی اڑاتے رہتے ہو۔ آج میں جن بابا سے مل کر آیا ہوں۔ وہ تو بہت اچھے انسان ہیں، انھوں نے تو مجھے ٹافی بھی دی تھی۔
سب کا رنگ فق تھا۔ ان کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ بہت سوں نے تو یہ بھی کہا، ٹافی کھا لی ناں تُو نے۔ اب دیکھنا تیرا کیا حشر ہوگا، دَم کی ہوئی ٹافی تھی وہ۔
صبح تک تو مجھے کچھ نہیں ہوا، اسکول جاتے ہوئے جن بابا مجھے نظر نہیں آئے، واپسی پر میں اپنے دو دوستوں کو ان سے ملنے پر آمادہ کر چکا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح ملے، ٹافیاں بھی دیں، باتیں بھی کیں، خوش بھی ہوئے۔
اب میں اکیلا نہیں، تین دوست تھے۔ میں نے بہت اصرار کیا، جن بابا نے اپنی کہانی نہیں سنائی۔ لیکن بہت دانا انسان تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جن بابا کے پاس بچے جانے لگے۔ کسی کو اُردو پڑھاتے تھے، کسی کو حساب، کسی کو معاشرتی علوم، وہ بھی مفت میں۔ ان سے منسوب ساری باتیں گُم ہوگئی تھیں۔ بہت سے بچوں کو انھوں نے پڑھایا، ٹافیاں بھی دیں، مجھے بھی۔ پھر ہم سب اپنے اپنے گھروں سے ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر جانے لگے۔ بہت منع کرتے تھے وہ محلے کے دیگر لوگ بھی ان سے ملنے لگے۔
وہ تو ہر ایک کے لیے چشم بہ راہ تھے۔ بہت ہی دانا۔ ہمیں بہت سی باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں۔ انھوں نے آسانی سے سمجھا دیں۔ میں انھیں ہمیشہ جن بابا کہا کرتا تھا۔ چائے بہت پیتے تھے۔ میرے جن بابا کہنے پر بہت خوش ہوتے۔ جب ہم بہت شرارت کرتے تو کہتے ''میں جن بن جاؤں گا'' اور پھر خود ہی ہنستے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے تھے تو ہمارے ڈاکٹر چاچا نے ان کا علاج کیا۔ ہم سب نے مل کر ان کی تیمارداری کی۔ میں نے کبھی کبھی انھیں روتے بھی دیکھا۔ بہت پوچھا: ''بتائیے کیا ہوا؟''
''کچھ نہیں ہُوا، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔''
مجھے بعد میں پتا چلا کہ خوشی کے بھی آنسو ہوتے ہیں۔ بہت لمبی ہوگئی ناں کہانی۔ کچھ بھی نہیں ہے اس میں۔ ہمارے آس پاس بھی کچھ تنہا لوگ رہتے ہیں۔ مجھے تو بہت ملتے ہیں۔ ملتے رہتے ہیں۔ ان کے متعلق عجیب عجیب سی باتیں بھی مشہور ہوتی ہیں، ان سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا، نہ جانے کیوں؟ اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں تو انھیں خوشیوں میں شریک کرسکتے ہیں، بہت کام کے بندے ہوتے ہیں وہ۔ بہت اخلاص ہوتا ہے ان میں، بس دو میٹھے بول درکار ہیں انھیں۔ آپ کے ارد گرد بھی کوئی ایسا کردار ہوگا، آپ کو نظر بھی آتا ہوگا۔
مت گھبرائیے، آگے بڑھ کر اس سے بات کیجیے۔ آپ بھی خوش ہوں گے اور وہ بھی۔ یقین مانیے، بہت لعل و جواہر ان لوگوں میں چھپے ہوتے ہیں، کسی کتاب میں نہیں لکھے ہوتے وہ لفظ جو ان سے ہم سنتے اور سیکھتے ہیں، اخلاص میں گندھے ہوئے، دو میٹھے بولوں کے ترسے ہوئے لوگ، ہمارے پیارے لوگ۔
ہم اس پر بھی بات کریں گے کبھی، ہم سب اپنے گھروں میں رہ کر بھی تنہا ہوگئے ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہے، کیسے ہوگیا ہے؟ کیا ہمارے اندر کا ریسیور خراب ہو گیا ہے؟
تو ٹھیک کیجیے ناں اسے۔ آپ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سُکھی رہیے سدا۔ ملیں گے گر سانسوں کی ڈور سلامت رہی۔
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم میں کیا، دل کی خانقاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس میں قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا
فقیر نے کہا: جی! ایسا تو ہوتا رہتا ہے، سڑکوں کی حالت بھی تو بہت ابتر ہے ناں۔
اب بزرگ کا دوسرا سوال فقیر کا منتظر تھا: ''کیا کام کرتے ہیں آپ۔''
بس جی! یہی مزدوری۔ تب بزرگ نے فقیر کے شانے پر بہت اپنائیت سے اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: ''اچھا ہے، اچھا ہے، تن درست رہیے اور بس مصروف رہیے، اب دیکھیے! میں ریٹائرڈ ہوگیا ہوں، ایک ماہ گھر میں رہا تو مجھے احساس ہُوا کہ میں تو بہت مشکل میں آگیا ہوں۔
بچوں کے پاس مجھ سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے اور پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری بات سے بھی وہ مشتعل ہونے لگے ہیں، تو بس پھر میں نے یہ سامنے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی، دن بھر جو بچے آتے ہیں تو ان سے گفت گُو کرکے اپنا جی بہلاتا ہوں۔ تنہائی نے مار ڈالا ہے ہمیں تو، ہر ایک اپنی دھن میں مگن ہے جی، کسی کو کسی سے بات کی فرصت ہی نہیں ہے، غضب خدا کا شادی ولیمہ تو چھوڑیے صاحب! میت میں بھی اب لوگ بات نہیں کرتے، اور اپنے سیل فون پر مگن رہتے ہیں، ابھی کل ہی تو بات ہے کہ میں میت کی تدفین کے سلسلے میں قبرستان گیا تو وہاں بھی سب اپنے سیل فون پر نظریں جمائے ہوئے تھے آخر ایک صاحب نے تلخ ہوکر بہ آواز بلند کہا: اجی! آپ سب کو اگر فرصت ملے تو میت پر مٹی ڈال دیجیے۔''
اسی دوران پنکچر لگ چکا تھا تو فقیر نے ان سے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگے: ''کبھی کبھی آجایا کیجیے، آپ سے بات کرکے جی کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔''
فقیر نے ان سے وعدہ کیا کہ جی ان شاء اﷲ ضرور۔ اب تو کئی مرتبہ فقیر اپنی پوتیوں کو لے کر ان سے ملنے گیا ہے، بہت خوش ہوتے ہیں وہ اور فقیر کی بڑی پوتی گل مینہ جو خود کو ''دادا کی ماما'' کہتی ہے کی باتوں اور شرارتوں سے لطف اندوز بھی۔
بات تو تلخ ہے لیکن یہی ہے حقیقت کہ ہم سب نے خود ساختہ تنہائی اوڑھی ہوئی ہے، فقیر کو بتایا گیا ہے کہ چیزیں انسان کے لیے ضروری ہیں، لیکن انسان تو ان ایجادات کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایجادات ہمارے تابع ہوتیں المیہ یہ کہ ہم ان کے تابع ہوگئے ہیں تو اب اس کا حل کیا ہے۔۔۔۔ ؟ فقیر تو کچھ نہیں جانتا یہ اس پر تو آپ کو خود غور کرنا ہوگا جی۔ دیکھیے! اب فقیر اپنے بچپن کی جانب لوٹ رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ فقیر اب تک بچپنے میں ہی ہے تو چلیے سنیے!
بہت ساری بلّیاں پالی ہوئی تھیں انھوں نے۔ اکیلے اور تنہا۔۔۔۔ بہت خاموش سے۔۔۔۔ بہت اسرار تھا ان کی شخصیت میں۔ چاروں طرف کھیت اور بیچ میں ایک بڑا سا قطعہ اور قطعے کے کونے میں سرخ اینٹوں سے بنا ہوا چھوٹا سا کمرہ۔۔۔۔ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، چھوٹا سا جستی سیاہ ایک صندوق، ایک گھڑا اور ایلومینیم کا ایک گلاس ۔۔۔۔ جسے انھوں نے ستلی سے گھڑے کے ساتھ باندھا ہُوا تھا۔۔۔۔ کمرے کے باہر تین اینٹوں سے بنا ہوا چولہا اور اس پر ایک میلی سی پتیلی اور بہت ساری بلّیاں ۔۔۔۔ بس یہ کل کائنات تھی ان کی ۔۔۔۔ اپنی دنیا میں مگن مست۔
فقیر نے کبھی ان کے پاس کسی کو بیٹھے نہیں دیکھا۔ بہت عجیب عجیب سی، پراسرار سی باتیں ان سے منسوب تھیں ۔۔۔۔ اسی میدان سے گزر کر میں اسکول جایا کرتا تھا۔ میرے ساتھی سنگی مجھے ہمیشہ منع کرتے کہ اس راستے سے مت جایا کرو۔۔۔۔ میں ہمیشہ کی طرح ضد کرتا: ''کیوں نہیں جاؤں! تم سب دوسرے رستے سے جاؤ، میں تو اسی رستے سے جاؤں گا۔'' اور برسوں میرا معمول یہی رہا۔
ایک دن میں نے اپنے ایک بہت اچھے استاد سے پوچھا:
آپ اس بلّیوں والے بابا کو جانتے ہیں؟
انھوں نے توجہ نہیں دی تو میں نے اپنا سوال دہرایا۔ پہلے تو انھوں نے اپنا عینک اتارا اور اسے میز پر رکھ کر بولے: ''ہاں کیا پوچھ رہے تھے؟''
آپ اس بلّیوں والے بابا کو جانتے ہیں؟
''نہیں۔۔۔۔ میں اسے نہیں جانتا۔''
کیوں۔۔۔۔۔ ؟
انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور پھر مسکرا کر بولے:
''ضروری ہے کہ میں انھیں جانوں؟''
ہاں سر! بہت ضروری ہے۔
ایک اور ''کیوں'' کا مجھے سامنا تھا۔
اس لیے سر! کہ وہ تو تنہا رہتے ہیں، ہیں کون وہ، اکیلے کیوں رہتے ہیں، کام کیا کرتے ہیں، وہ کھاتے پیتے کہاں سے ہیں؟ میں نے تو انھیں ہمیشہ چائے پیتے ہی دیکھا ہے۔
میں ایک ہی سانس میں ڈھیر سارے سوال ان کے آگے رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے:
''ہاں یہ تو تم صحیح کہہ رہے ہو۔ اب ایک آدھ دن میں معلوم کروں گا، پھر تمہیں بتاؤں گا۔''
ٹھیک ہے۔ میں نے کہا اور چلا آیا۔
تیسرا دن تھا جب میں پھر اپنے استاد کے پاس پہنچا:
جی سر! آپ نے معلوم کرلیا؟
''تمہاری سوئی ابھی تک اسی بابا کے پاس اٹکی ہوئی ہے، میں تو سمجھا تم بھول بھال گئے ہو گے۔''
بہت بک بک کی تھی اس دن میں نے اور پھر فیصلہ کیا کہ یہ کام مجھے خود ہی کرنا ہوگا۔ وہ بابا نہیں جن بابا ہیں، ان کی ساری بلّیاں جن ہیں، ان کے پاس بالکل نہیں جانا، وہ تو جادوگر ہیں، کالے جادوگر۔۔۔۔ دیکھی نہیں ان کی آنکھیں، لال انگار، کسی سے بات نہیں کرتے وہ۔۔۔۔ کتنے خموش سے ہیں، تم بالکل بھی ان کے پاس مت جانا۔
لوگوں سے سنگی ساتھیوں سے بہت کچھ سنا میں نے، لیکن اندر کی آگ کبھی سرد نہیں پڑی، بس دہکتی رہی اور اب تک۔
اس دن برسات کی وجہ سے اسکول میں جلدی چھٹی ہوگئی تھی۔ میرے دوستوں نے پکنک کا پروگرام بنا لیا تھا۔ بہت اصرار کیا انھوں نے، میں نہیں مانا۔ ''بس میں نہیں جا رہا تم جاؤ۔'' میری سوئی تو بس ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔
اسکول سے نکلا ہی تھا کہ ہلکی ہلکی رم جھم پھر سے گنگنانے لگی، کھیت بارش میں نہا کر خوش ہو رہے تھے، درخت مسکرا رہے تھے، پرندے چہچہا رہے تھے، آم کے باغ سے گزرتے ہوئے مجھے مالی بابا ملے: ''ہاں بھئی! خیر تو ہے آج جلدی آگیا؟''
ہاں بابا! آج جلدی چھٹی ہوگئی۔
کیوں؟
بارش ہو رہی ہے ناں اس لیے۔
''آ کچھ کھا پی لے۔''
نہیں بابا! بس جاؤں گا۔
''واہ واہ آج تو بہت شریف بنا ہوا ہے۔''
میں نے انھیں بھی بہت تنگ کیا ہے، کبھی سناؤں گا ان کی بھی کتھا۔
میرے چاروں طرف مٹی کی سوندھی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ آپ نے بارش میں کھیت دیکھا ہے کبھی؟ نہیں۔ اوہو! کچھ بھی نہیں دیکھا آپ نے۔۔۔۔ کبھی موقع ملے تو ضرور دیکھیے گا۔۔۔۔ اور مٹی کی خوش بُو بھی آپ کو وہاں ملے گی۔ جانتے ہیں آپ بہت مہنگا اور کمیاب عطر کون سا ہوتا ہے۔۔۔ ؟ جی! عطر گِل، مٹی کی سوندھی خوش بُو والا۔۔۔۔ ہنستی، مسکراتی، گدگداتی اور اندر تک سرشار کردینے والی مٹی کی خوش بُو۔
میں بلّیوں والے بابا کو دور سے دیکھنے لگا۔ ویسا ہی اسرار، مکمل سکوت۔۔۔۔ پہلے تو میں بہت ڈرا، لیکن میں آج فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔۔ نہیں، ابھی اور اسی وقت، میں نے ہمت باندھی اور ان کی سمت چلنے لگا۔ پھر وہ مجھے دیکھنے لگے تو میری ہمت جواب دے گئی۔ دوستوں کی باتیں میرے چاروں طرف رقص کرنے لگیں: جن ہیں، جادوگر ہیں، مت جانا، بہت پچھتاؤ گے تم۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے رب کا نام لیا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا، وہی سہارا ہے میرا، پھر میں ان کے سامنے تھا۔
اکیلے بیٹھے ہوئے تھے وہ۔۔۔۔ میں نے سلام کیا۔
''جیتے رہو۔'' میں نے سنا تھا، پھر خاموشی۔
بابا! کیسے ہیں آپ۔۔۔ ؟
''ٹھیک ہوں، ٹھیک ہوں۔ بتاؤ کیا کام ہے مجھ سے۔''
کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی آپ کے پاس آگیا۔
پہلی مرتبہ میں نے انھیں مسکراتا دیکھا۔
''اچھا، اچھا! لیکن تم تو روزانہ یہاں سے مجھے دیکھتے ہوئے گزرتے ہو۔ پہلے کیوں نہیں آئے۔''
اس لیے نہیں آیا کہ آپ جن بابا ہیں۔
وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے: ''کیا میں تمہیں جن لگتا ہوں۔''
نہیں تو، آپ تو جن نہیں لگتے، لیکن سب تو یہی کہتے ہیں۔
''دیکھو بچے! جن کسی کو نظر نہیں آتا، میں تو نظر آتا ہوں ناں۔''
ہاں! یہی تو میں کہتا ہوں اور آپ کی بلیاں۔۔۔ ؟
''بچے! یہ اﷲ کی مخلوق ہیں، پہلے ایک آئی پھر دوسری، اور اب اتنی ساری ہیں۔۔۔۔ یہ تو میرے بچے بچیاں ہیں۔ میں ان سے باتیں کرتا ہوں۔ ان کا خیال رکھتا ہوں۔''
یہ بلیاں آپ کی باتیں سمجھتی ہیں کیا ؟
''ہاں ہاں کیوں نہیں سمجھتیں۔۔۔۔ بہت سمجھ دار ہیں، اﷲ نے سب کو عقل دی ہے۔ اچھا تم اپنا نام بتاؤ۔ تمہارا نام کیا ہے؟ کہاں پڑھتے ہو؟ کیا کھیلتے ہو؟''
میں بہت دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ انھوں نے مجھے ایک ٹافی بھی دی۔ پھر ہماری دوستی ہوگئی۔
میں آپ کے پاس آجایا کروں؟
''ہاں! ہاں! کیوں نہیں۔۔۔۔ جب فرصت ملے تو آ جایا کرو۔''
آپ جادوگر تو نہیں ہیں ناں؟
''نہیں بچے! میں تو بس انسان ہوں، بے ضرر انسان۔''
انھوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں، اور میں رخصت ہو گیا۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنی امی کو بتایا کہ آج میں بلیوں والے بابا سے مل کر آیا ہوں، بہت اچھے ہیں وہ۔ پہلے تو انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا: ''کچھ کھا پی کر تو نہیں آگیا وہاں سے؟''
نہیں تو، انھوں نے ایک ٹافی دی تھی، وہ میں نے کھا لی ہے۔
''تو انسان کب بنے گا؟ کب دماغ تیرا ٹھیک ہوگا۔ ہر کسی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جان نہ پہچان۔'' وہ تو ہمیشہ مجھے یہ کہتی رہتی تھیں۔
مغرب کے بعد میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچا۔ تم سب جھوٹے ہو۔ بے پر کی اڑاتے رہتے ہو۔ آج میں جن بابا سے مل کر آیا ہوں۔ وہ تو بہت اچھے انسان ہیں، انھوں نے تو مجھے ٹافی بھی دی تھی۔
سب کا رنگ فق تھا۔ ان کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ بہت سوں نے تو یہ بھی کہا، ٹافی کھا لی ناں تُو نے۔ اب دیکھنا تیرا کیا حشر ہوگا، دَم کی ہوئی ٹافی تھی وہ۔
صبح تک تو مجھے کچھ نہیں ہوا، اسکول جاتے ہوئے جن بابا مجھے نظر نہیں آئے، واپسی پر میں اپنے دو دوستوں کو ان سے ملنے پر آمادہ کر چکا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح ملے، ٹافیاں بھی دیں، باتیں بھی کیں، خوش بھی ہوئے۔
اب میں اکیلا نہیں، تین دوست تھے۔ میں نے بہت اصرار کیا، جن بابا نے اپنی کہانی نہیں سنائی۔ لیکن بہت دانا انسان تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جن بابا کے پاس بچے جانے لگے۔ کسی کو اُردو پڑھاتے تھے، کسی کو حساب، کسی کو معاشرتی علوم، وہ بھی مفت میں۔ ان سے منسوب ساری باتیں گُم ہوگئی تھیں۔ بہت سے بچوں کو انھوں نے پڑھایا، ٹافیاں بھی دیں، مجھے بھی۔ پھر ہم سب اپنے اپنے گھروں سے ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر جانے لگے۔ بہت منع کرتے تھے وہ محلے کے دیگر لوگ بھی ان سے ملنے لگے۔
وہ تو ہر ایک کے لیے چشم بہ راہ تھے۔ بہت ہی دانا۔ ہمیں بہت سی باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں۔ انھوں نے آسانی سے سمجھا دیں۔ میں انھیں ہمیشہ جن بابا کہا کرتا تھا۔ چائے بہت پیتے تھے۔ میرے جن بابا کہنے پر بہت خوش ہوتے۔ جب ہم بہت شرارت کرتے تو کہتے ''میں جن بن جاؤں گا'' اور پھر خود ہی ہنستے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے تھے تو ہمارے ڈاکٹر چاچا نے ان کا علاج کیا۔ ہم سب نے مل کر ان کی تیمارداری کی۔ میں نے کبھی کبھی انھیں روتے بھی دیکھا۔ بہت پوچھا: ''بتائیے کیا ہوا؟''
''کچھ نہیں ہُوا، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔''
مجھے بعد میں پتا چلا کہ خوشی کے بھی آنسو ہوتے ہیں۔ بہت لمبی ہوگئی ناں کہانی۔ کچھ بھی نہیں ہے اس میں۔ ہمارے آس پاس بھی کچھ تنہا لوگ رہتے ہیں۔ مجھے تو بہت ملتے ہیں۔ ملتے رہتے ہیں۔ ان کے متعلق عجیب عجیب سی باتیں بھی مشہور ہوتی ہیں، ان سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا، نہ جانے کیوں؟ اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں تو انھیں خوشیوں میں شریک کرسکتے ہیں، بہت کام کے بندے ہوتے ہیں وہ۔ بہت اخلاص ہوتا ہے ان میں، بس دو میٹھے بول درکار ہیں انھیں۔ آپ کے ارد گرد بھی کوئی ایسا کردار ہوگا، آپ کو نظر بھی آتا ہوگا۔
مت گھبرائیے، آگے بڑھ کر اس سے بات کیجیے۔ آپ بھی خوش ہوں گے اور وہ بھی۔ یقین مانیے، بہت لعل و جواہر ان لوگوں میں چھپے ہوتے ہیں، کسی کتاب میں نہیں لکھے ہوتے وہ لفظ جو ان سے ہم سنتے اور سیکھتے ہیں، اخلاص میں گندھے ہوئے، دو میٹھے بولوں کے ترسے ہوئے لوگ، ہمارے پیارے لوگ۔
ہم اس پر بھی بات کریں گے کبھی، ہم سب اپنے گھروں میں رہ کر بھی تنہا ہوگئے ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہے، کیسے ہوگیا ہے؟ کیا ہمارے اندر کا ریسیور خراب ہو گیا ہے؟
تو ٹھیک کیجیے ناں اسے۔ آپ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سُکھی رہیے سدا۔ ملیں گے گر سانسوں کی ڈور سلامت رہی۔
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم میں کیا، دل کی خانقاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس میں قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا