سوال اہم ہوگیا ہے
انوار الحق کاکڑ کا نگراں وزیر اعظم بننا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے
'' سولہ ماہ کی اتحادی حکومت اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ایسے فیصلے کریں کہ آیندہ میرے اور مریم کے لیے سیاست آسان ہو۔ ہمیں رولز آف گیم طے کرنے ہوںگے۔ ''
بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں الوداعی تقریر میں یہ جملے ادا کر کے اپنی سولہ ماہ کی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر مختصر اور جامع تبصرہ کیا۔ انوار الحق کاکڑ کا نگراں وزیر اعظم بننا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور پروپیگنڈہ کے وزراء فواد چوہدری اور شیخ رشید وغیرہ روز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کا راگ الاپتے تھے مگر عمران خان کی حکومت جلد ہی تضادات کا شکار ہوگئی۔
سابقہ حکومت کے ایک طرف راولپنڈی والوں سے تعلقات خراب ہوئے تو دوسری طرف سابقہ حکومت پوری دنیا سے کٹ گئی۔
پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ۔ حکومت برطانیہ نے عمران خان کی قومی سلامتی کے مشیر کو ویزہ دینے سے انکارکیا تھا۔ اسی طرح چین سے معاملات بہتر نہ ہونے پر سی پیک منصوبہ رک گیا تھا۔ حکومت نے اچانک روپیہ کی قیمت کم کردی، یوں مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی۔
آئی ایم ایف معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے پٹرولیم کی مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں کم کردی گئیں۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس مخلوط حکومت میں متضاد مفادات رکھنے والی جماعتوں کے رہنما شامل تھے، یوں میاں شہباز شریف کو اس اتحادی حکومت کی قیادت کرنی پڑی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے تمام اتحادی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے 84 ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ تشکیل دی۔ اتنی بڑی کابینہ پہلے وجود میں نہیں آئی تھی۔ مخلوط حکومت کا پہلا کام ملک کی معیشت کو بہترکرنا اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ کا حصول تھا۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا اور اچھی اور تیز رفتار طرزِ حکومت قائم کرنا تھا۔ مخلوط حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی ملک گلوبل وارمنگ کا شکار ہوا۔
سیلاب اور ریکارڈ بارشوں نے ملک کے 70 فیصد علاقہ کو متاثرکیا تھا۔ میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے امداد دینے والے ممالک کو سیلاب زدگان کی آبادی کے لیے خطیر امداد دینے کے لیے مہم چلائی۔ وزارت خارجہ کی کوششوں کی بناء پر کئی ممالک کے وزراء خارجہ سیلابی علاقوں کے دورے پر آئے۔ جنیوا میں ایک امدادی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
اس کانفرنس میں 9 بلین ڈالر کی امداد کے وعدے کیے گئے۔ ترکی اور دیگر یورپی ممالک کے سربراہوں نے اجلاسوں میں آن لائن شرکت کی مگر بین الاقوامی دنیا نے پاکستان کی اپیل کا مثبت جواب نہیں دیا اور بہت کم رقم جمع ہوئی۔
میاں شہباز شریف کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کچھ آزادانہ فیصلے کیے۔ شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی کارکردگی سے مطمئن تھے مگر لندن میں مقیم میاں نواز شریف ناراض ہوگئے اور مفتاح اسماعیل کو اچانک تبدیل کر کے اپنے رشتہ دار اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ مفتاح اسماعیل کو جس طرح رخصت کیا گیا اس بناء پر مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی مسلم لیگی قیادت سے دور ہوگئے۔
اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو چیلنج کرنا شرو ع کیا جس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف کا رویہ انتہائی سخت ہوگیا۔ میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری اور اسحاق ڈار کے غیر ملکی دوروں کے باوجود آئی ایم ایف نے ناکوں چنے چبوائے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے تیل، پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی اور ان مصنوعات کی قیمتوں کو بین الاقوامی مارکیٹ سے منسلک کیا۔
اس دوران پاکستانی کرنسی روپے کی قیمت اتنی کم ہوگئی کہ افغان کرنسی کے برابر آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ بااثر افراد کروڑوں روپے ملک سے باہر لے گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈالر مسلسل افغانستان اسمگل ہوا، یوں چھ ماہ بعد جب ملک ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ گیا تھا تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا۔ حکومت ریاستی انفرا اسٹرکچر کم کرنے، دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات کم کرنے اور زرعی شعبہ پر انکم ٹیکس عائد کرنے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا گیا جس سے سب سے زیادہ متوسط طبقہ متاثر ہوا۔
پہلی دفعہ سعودی عرب کا دیا گیا حج کوٹہ مکمل طور پر استعمال نہ ہوا۔ حکومت نے سادگی اورکفایت شعاری کے لیے کسی اقدام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ وزراء ٹھنڈے کمروں میں گرمی میں سوٹ پہنے عوام سے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی اپیلیں کرتے رہے۔
تحریک انصاف نے پہلے امریکی سائفر اور پھر مہنگائی کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے بھر پور استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دھرنوں کی بناء پر حکومت کو مدافعتی پالیسی اختیار کرنی پڑی۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومت کی حکمت عملی ناکام ہوئی۔
وفاقی اور صوبائی حکومت نے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے کئی دعوے کیے مگر انٹیلی جنس نیٹ ورک بہتر نہ ہوئے۔ پولیس والوں کی زبوں حالی اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کے درمیان مربوط حکمت عملی قائم نہ ہوسکی۔
سوات کے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کو سابقہ حکومت کے دور میں فری ہینڈ دیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت بھی ان عناصر کی سرکوبی نہ کرسکی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ جمعیت علماء اسلام مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ حکام کے پاس ہر سانحہ کے بعد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرنے سوا کچھ نہ بچا۔ مخلوط حکومت میں ایک اہم شخصیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔ انھوں نے امریکا، یورپ، متحدہ عرب امارات کے درجنوں دورے کیے مگر امریکا نے انسانی حقوق کے حوالے سے سخت بیانات دیے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھارت سے تجارت کھولنے کے لیے حتمی اقدامات کا اعلان کیا تھا، لیکن بھارت سے تجارت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف دنیا بھر میں گھومتے رہے مگر ملک واپس نہ آئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے دبئی کو مذاکرات کا مرکز بنایا، یوں تحریک انصاف کی ان رہنماؤں کے بیرون ملک اثاثوں اور ملک کو اہمیت نہ دینے کے بیانیہ کو تقویت ملی۔
بلاول بھٹو زرداری کے ان ریمارکس سے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے نقصانات کو محسوس کیا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیا جاتا تو سابق وزیر اعظم اسی حالت میں ہوتے جس حالت میں میاں شہباز شریف اس وقت ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں الوداعی تقریر میں یہ جملے ادا کر کے اپنی سولہ ماہ کی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر مختصر اور جامع تبصرہ کیا۔ انوار الحق کاکڑ کا نگراں وزیر اعظم بننا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور پروپیگنڈہ کے وزراء فواد چوہدری اور شیخ رشید وغیرہ روز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کا راگ الاپتے تھے مگر عمران خان کی حکومت جلد ہی تضادات کا شکار ہوگئی۔
سابقہ حکومت کے ایک طرف راولپنڈی والوں سے تعلقات خراب ہوئے تو دوسری طرف سابقہ حکومت پوری دنیا سے کٹ گئی۔
پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ۔ حکومت برطانیہ نے عمران خان کی قومی سلامتی کے مشیر کو ویزہ دینے سے انکارکیا تھا۔ اسی طرح چین سے معاملات بہتر نہ ہونے پر سی پیک منصوبہ رک گیا تھا۔ حکومت نے اچانک روپیہ کی قیمت کم کردی، یوں مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی۔
آئی ایم ایف معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے پٹرولیم کی مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں کم کردی گئیں۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس مخلوط حکومت میں متضاد مفادات رکھنے والی جماعتوں کے رہنما شامل تھے، یوں میاں شہباز شریف کو اس اتحادی حکومت کی قیادت کرنی پڑی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے تمام اتحادی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے 84 ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ تشکیل دی۔ اتنی بڑی کابینہ پہلے وجود میں نہیں آئی تھی۔ مخلوط حکومت کا پہلا کام ملک کی معیشت کو بہترکرنا اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ کا حصول تھا۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا اور اچھی اور تیز رفتار طرزِ حکومت قائم کرنا تھا۔ مخلوط حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی ملک گلوبل وارمنگ کا شکار ہوا۔
سیلاب اور ریکارڈ بارشوں نے ملک کے 70 فیصد علاقہ کو متاثرکیا تھا۔ میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے امداد دینے والے ممالک کو سیلاب زدگان کی آبادی کے لیے خطیر امداد دینے کے لیے مہم چلائی۔ وزارت خارجہ کی کوششوں کی بناء پر کئی ممالک کے وزراء خارجہ سیلابی علاقوں کے دورے پر آئے۔ جنیوا میں ایک امدادی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
اس کانفرنس میں 9 بلین ڈالر کی امداد کے وعدے کیے گئے۔ ترکی اور دیگر یورپی ممالک کے سربراہوں نے اجلاسوں میں آن لائن شرکت کی مگر بین الاقوامی دنیا نے پاکستان کی اپیل کا مثبت جواب نہیں دیا اور بہت کم رقم جمع ہوئی۔
میاں شہباز شریف کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کچھ آزادانہ فیصلے کیے۔ شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی کارکردگی سے مطمئن تھے مگر لندن میں مقیم میاں نواز شریف ناراض ہوگئے اور مفتاح اسماعیل کو اچانک تبدیل کر کے اپنے رشتہ دار اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ مفتاح اسماعیل کو جس طرح رخصت کیا گیا اس بناء پر مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی مسلم لیگی قیادت سے دور ہوگئے۔
اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو چیلنج کرنا شرو ع کیا جس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف کا رویہ انتہائی سخت ہوگیا۔ میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری اور اسحاق ڈار کے غیر ملکی دوروں کے باوجود آئی ایم ایف نے ناکوں چنے چبوائے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے تیل، پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی اور ان مصنوعات کی قیمتوں کو بین الاقوامی مارکیٹ سے منسلک کیا۔
اس دوران پاکستانی کرنسی روپے کی قیمت اتنی کم ہوگئی کہ افغان کرنسی کے برابر آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ بااثر افراد کروڑوں روپے ملک سے باہر لے گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈالر مسلسل افغانستان اسمگل ہوا، یوں چھ ماہ بعد جب ملک ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ گیا تھا تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا۔ حکومت ریاستی انفرا اسٹرکچر کم کرنے، دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات کم کرنے اور زرعی شعبہ پر انکم ٹیکس عائد کرنے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا گیا جس سے سب سے زیادہ متوسط طبقہ متاثر ہوا۔
پہلی دفعہ سعودی عرب کا دیا گیا حج کوٹہ مکمل طور پر استعمال نہ ہوا۔ حکومت نے سادگی اورکفایت شعاری کے لیے کسی اقدام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ وزراء ٹھنڈے کمروں میں گرمی میں سوٹ پہنے عوام سے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی اپیلیں کرتے رہے۔
تحریک انصاف نے پہلے امریکی سائفر اور پھر مہنگائی کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے بھر پور استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دھرنوں کی بناء پر حکومت کو مدافعتی پالیسی اختیار کرنی پڑی۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومت کی حکمت عملی ناکام ہوئی۔
وفاقی اور صوبائی حکومت نے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے کئی دعوے کیے مگر انٹیلی جنس نیٹ ورک بہتر نہ ہوئے۔ پولیس والوں کی زبوں حالی اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کے درمیان مربوط حکمت عملی قائم نہ ہوسکی۔
سوات کے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کو سابقہ حکومت کے دور میں فری ہینڈ دیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت بھی ان عناصر کی سرکوبی نہ کرسکی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ جمعیت علماء اسلام مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ حکام کے پاس ہر سانحہ کے بعد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرنے سوا کچھ نہ بچا۔ مخلوط حکومت میں ایک اہم شخصیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔ انھوں نے امریکا، یورپ، متحدہ عرب امارات کے درجنوں دورے کیے مگر امریکا نے انسانی حقوق کے حوالے سے سخت بیانات دیے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھارت سے تجارت کھولنے کے لیے حتمی اقدامات کا اعلان کیا تھا، لیکن بھارت سے تجارت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف دنیا بھر میں گھومتے رہے مگر ملک واپس نہ آئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے دبئی کو مذاکرات کا مرکز بنایا، یوں تحریک انصاف کی ان رہنماؤں کے بیرون ملک اثاثوں اور ملک کو اہمیت نہ دینے کے بیانیہ کو تقویت ملی۔
بلاول بھٹو زرداری کے ان ریمارکس سے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے نقصانات کو محسوس کیا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیا جاتا تو سابق وزیر اعظم اسی حالت میں ہوتے جس حالت میں میاں شہباز شریف اس وقت ہیں۔