بے موسم کے اولے
ملک کا امیر ترین طبقہ جو پاکستان کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہے لیکن ملک کی کل آمدنی میں سے نو فیصد اس کے پاس ہے
انوار الحق کاکڑ کا ظہور اچانک ایسے ہوا جیسے بے موسم کے اولے پڑ جائیں'یار لوگ اپنی جھولی میں کئی نام لے کر پھرتے رہے لیکن کیا کریں ڈارک ہارس ہمیشہ سرپرائز دیتا ہے۔
ویسے بھی ہم پدرسری نظام معاشرت میں زندگی گزار رہے ہیں' یہ نظام ہمیں پسند بھی بہت ہے' کیونکہ اس میں ''باپ'' کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ نگران وزیراعظم کا سیاسی رشتہ بھیBAP یعنی باپ پارٹی سے وابستہ ہے۔ ''باپ ''کی عزت کرنا ہم سب کا فرض اولین ہے کیونکہ '' باپ' 'کا نافرمان زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ جناب نگران وزیراعظم نے کامیابی کا جو زینہ چڑھا ہے۔
اس میں '' باپ'' کا سہارا سب سے اہم ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ جس نے ''باپ'' کی خدمت کی 'وہ عملی زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتا' قسمت ہمیشہ اس پر مہربان رہتی ہے' نافرمان کا مقدر پھانسی ہوتا'جیل یاترا کرنا پڑتی ہے یا پھرسعودی عرب تا لندن کی سیر پر جانا پڑتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ''باپ'' اور'' نافرمانی'' کے موضوع کو آگے نہ بڑھایا جائے کیونکہ ڈر ہے کہ میںتلخ ہو جاؤں گا۔جب انسان تلخ نوائی پر اتر آئے تو سمجھو بھیجے سے عقل رفو چکر ہو چکی ہے۔اس لیے بات کو معیشت کی طرف موڑتے ہیں۔
معاش کے بغیر زندگی دکھوں کا گھر بن جاتی ہے' پاکستان نامی دسترخوان 76سال سے بچھا ہوا ہے۔جو اس دسترخوان پر بیٹھ گیا'اسے دھکے دے کر اٹھایا گیا ہے۔عجیب بات ہے کہ کھانے والوں کا پیٹ نہیں بھرتا' یہ تو بھلا ہو چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک اور شراکت داروں کا 'انھوں نے ہمارے خالی دسترخوان پر کھانا دوبارہ سجا دیا ہے۔
اگر وہ ایسا نہ کرتے توہمیں کوئی خیرات دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں تھا۔ اگر یہ ممالک مدد کو نہ آتے تو ڈیفالٹ یقینی تھا کیونکہ آئی ایم ایف اپنی تجوری کھولنے کے لیے تیار نہ تھا۔ پاکستان کی سیاست میں جوکچھ ہوا' اس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
حکمران اشرافیہ کا ایک گروہ اپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرانے میں پیش پیش رہا، کم از کم میرے علم میں تو نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک کی اشرافیہ کے ایک حصے نے اپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہو گا۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ چور ہمارے گھر میں اور ہم ہمسایوں پر چوری کا الزام لگا ئیں'آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ پاک وطن کیسے کیسے سانپ پالتا آیا ہے 'ایسے حالات میں دوست ممالک دست تعاون دراز نہ کرتے تو ہم سری لنکاجیسا اعزاز ضرور حاصل کر لیتے'ایسے میں ہمارے ہیوی مائنڈ پالیسی ساز اس شعر کی تصویربنے نظر آتے ؎
کروں گا کیا جو ہوگیا محبت میں ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
آئی ایم ایف کا اصول ''ایک جمع ایک برابر دو'' میتھیمیٹکل کلیے پر استوار ہے جب کہ ہم ''ایک جمع ایک برابر گیارہ'' پڑھتے آئے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میںہمارے حکمرانوں کا جگاڑ چلتا رہا ، آئی ایم ایف اور امریکا ہماری نرالی جمع و تفریق کو ''درست'' ہے ،کی مہر لگا دیتے تھے لیکن اب من مرضی کا میتھمیٹکس نہیں چل رہا'، اب لازم ہے کہ میتھ کو میتھ سمجھ کر پڑھا اور لکھا جائے کیونکہ ''گریس مارکس'' کا دور ختم ہوچکا ہے۔
ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیاہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام آسان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے کے لیے سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہوگا۔سبکدوش حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کتنا قائم کیا؟ اس کے اعدادوشمار تو میرے پاس نہیں لیکن ''منی بجٹ'' ضرور یاد ہے جس میں مزید ٹیکس عائد کیے گئے تھے، پھر پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیے گئے۔
عوام چیختے چلاتے رہے لیکن اتحادی حکومت بجلی اور گیس صارفین پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ ڈال کر رخصت ہو گئے۔ اب نگران ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں؟یہ بھی چل جائے گا 'تاہم ماضی کا رزلٹ کارڈ دیکھیں تو عوام کے لیے چیخیں ہی بچتی ہیں۔
غیرملکی قرضوں کا حجم غیرمعمولی سے آگے بڑھ کر خطرناک زون میں چلا گیا ہے، اتحادی حکمران ڈیڑھ برس اقتدار انجوائے کرکے گھر چلے گئے ہیں لیکن سسٹم میں کوئی اصلاح نہیں کرسکے۔ بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ہوا، سرکاری افسروں کے لیے چمچاتی نئی گاڑیاں بھی خریدی گئیں۔
ارکان اسمبلی کوترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے جاری کیے گئے اور سرکاری پروٹوکول بھی انجوائے ہوتا رہا، سبکدوش ہونے والوں نے آخری فیز میں بیوروکریٹس کو ترقیاں دیں اور من مرضی کی قانون سازی بھی کی۔اگر کچھ نہیں دیا تو وہ مزدور اور کسان ہیں۔
سرمایہ دار طبقے نے توریاست کے لیے مالی قربانی دینے کا جھوٹے منہ بھی اعلان نہیں کیا، مینوفیکیچرز ، ریٹلرز، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز یک زبان ہوکر یہی راگ الاپتے رہے، خسارہ خسارہ اور بس خسارہ،ادھر پوش رہائشی کالونیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، ایک ایک بنگلے میں چار چار چھ چھ لگژری گاڑیاں کھڑی ہیں، کوٹھیوں اور بنگلوں کی تعمیر پرکروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
ان کی تزنین وآرائش کے لیے انٹیرئیر ڈیزائنرز کو کروڑوں روپے معاوضہ دیا جارہا ہے، ٹیکس دینے کی باری آئے تو ہاتھ اور جیب خالی ہوتے ہیں، ایسی مکاراوربے حس حکمران اشرافیہ ملک اور عوام کا کوئی فائدہ نہیں کرسکتی۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کا بالادست طبقہ خیراتی اداروں کے نام پربھی اپنی اپنی سلطنت چلا رہا ہے۔
خیراتی اداروں کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، خیراتی ادارے مہنگے اسپتال چلاتے ہیں، سب سے مہنگی میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریز خیراتی اداروں کی ہیں، خیراتی اداروں کے نام پر لگژری گاڑیاں خریدی جاتی ہیں، ان پر کسٹمز اور دیگر ٹیکس معاف کرائے جاتے ہیں، یہ گاڑیاں خیراتی اداروں کے مالکان اور افسران کے استعمال میں رہتی ہیں لیکن ٹیکس دینا حرام ہے بلکہ سرکار نے ہی انھیں تحفظ دے رکھا ہے، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں...
کچھ عرصہ پہلے ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام اور دیگر امدادی پروگرامز کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتا ہے، یہ رقم کئی ارب ڈالرز بنتی ہے ۔ ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیدار، کاروباری طبقہ اور جاگیردارمراعات کے نام پر یہ رقم ہڑپ کرتے ہیں۔
ملک کا امیر ترین طبقہ جو پاکستان کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہے لیکن ملک کی کل آمدنی میں سے نو فیصد اس کے پاس ہے ، بڑے زمیندار یا جاگیردار آبادی کا صرف ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے لیکن یہ پاکستان کے بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کا مالک ہے ۔
پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں۔ ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں، اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
میں بھی کیا دل کے پھپھولے پھوڑنے لگا ہوں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو شگفتہ آفرینی کے شوقین ہیں اور یہ موصوف دماغ کا دہی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔لہٰذا اجازت چاہتا ہوں ' خوش رہیں' دوسروں کو خوش رکھیںاور نگران حکومتوں کی نگرانی کو انجوائے کریں۔
ویسے بھی ہم پدرسری نظام معاشرت میں زندگی گزار رہے ہیں' یہ نظام ہمیں پسند بھی بہت ہے' کیونکہ اس میں ''باپ'' کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ نگران وزیراعظم کا سیاسی رشتہ بھیBAP یعنی باپ پارٹی سے وابستہ ہے۔ ''باپ ''کی عزت کرنا ہم سب کا فرض اولین ہے کیونکہ '' باپ' 'کا نافرمان زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ جناب نگران وزیراعظم نے کامیابی کا جو زینہ چڑھا ہے۔
اس میں '' باپ'' کا سہارا سب سے اہم ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ جس نے ''باپ'' کی خدمت کی 'وہ عملی زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتا' قسمت ہمیشہ اس پر مہربان رہتی ہے' نافرمان کا مقدر پھانسی ہوتا'جیل یاترا کرنا پڑتی ہے یا پھرسعودی عرب تا لندن کی سیر پر جانا پڑتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ''باپ'' اور'' نافرمانی'' کے موضوع کو آگے نہ بڑھایا جائے کیونکہ ڈر ہے کہ میںتلخ ہو جاؤں گا۔جب انسان تلخ نوائی پر اتر آئے تو سمجھو بھیجے سے عقل رفو چکر ہو چکی ہے۔اس لیے بات کو معیشت کی طرف موڑتے ہیں۔
معاش کے بغیر زندگی دکھوں کا گھر بن جاتی ہے' پاکستان نامی دسترخوان 76سال سے بچھا ہوا ہے۔جو اس دسترخوان پر بیٹھ گیا'اسے دھکے دے کر اٹھایا گیا ہے۔عجیب بات ہے کہ کھانے والوں کا پیٹ نہیں بھرتا' یہ تو بھلا ہو چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک اور شراکت داروں کا 'انھوں نے ہمارے خالی دسترخوان پر کھانا دوبارہ سجا دیا ہے۔
اگر وہ ایسا نہ کرتے توہمیں کوئی خیرات دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں تھا۔ اگر یہ ممالک مدد کو نہ آتے تو ڈیفالٹ یقینی تھا کیونکہ آئی ایم ایف اپنی تجوری کھولنے کے لیے تیار نہ تھا۔ پاکستان کی سیاست میں جوکچھ ہوا' اس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
حکمران اشرافیہ کا ایک گروہ اپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرانے میں پیش پیش رہا، کم از کم میرے علم میں تو نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک کی اشرافیہ کے ایک حصے نے اپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہو گا۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ چور ہمارے گھر میں اور ہم ہمسایوں پر چوری کا الزام لگا ئیں'آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ پاک وطن کیسے کیسے سانپ پالتا آیا ہے 'ایسے حالات میں دوست ممالک دست تعاون دراز نہ کرتے تو ہم سری لنکاجیسا اعزاز ضرور حاصل کر لیتے'ایسے میں ہمارے ہیوی مائنڈ پالیسی ساز اس شعر کی تصویربنے نظر آتے ؎
کروں گا کیا جو ہوگیا محبت میں ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
آئی ایم ایف کا اصول ''ایک جمع ایک برابر دو'' میتھیمیٹکل کلیے پر استوار ہے جب کہ ہم ''ایک جمع ایک برابر گیارہ'' پڑھتے آئے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میںہمارے حکمرانوں کا جگاڑ چلتا رہا ، آئی ایم ایف اور امریکا ہماری نرالی جمع و تفریق کو ''درست'' ہے ،کی مہر لگا دیتے تھے لیکن اب من مرضی کا میتھمیٹکس نہیں چل رہا'، اب لازم ہے کہ میتھ کو میتھ سمجھ کر پڑھا اور لکھا جائے کیونکہ ''گریس مارکس'' کا دور ختم ہوچکا ہے۔
ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیاہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام آسان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے کے لیے سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہوگا۔سبکدوش حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کتنا قائم کیا؟ اس کے اعدادوشمار تو میرے پاس نہیں لیکن ''منی بجٹ'' ضرور یاد ہے جس میں مزید ٹیکس عائد کیے گئے تھے، پھر پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیے گئے۔
عوام چیختے چلاتے رہے لیکن اتحادی حکومت بجلی اور گیس صارفین پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ ڈال کر رخصت ہو گئے۔ اب نگران ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں؟یہ بھی چل جائے گا 'تاہم ماضی کا رزلٹ کارڈ دیکھیں تو عوام کے لیے چیخیں ہی بچتی ہیں۔
غیرملکی قرضوں کا حجم غیرمعمولی سے آگے بڑھ کر خطرناک زون میں چلا گیا ہے، اتحادی حکمران ڈیڑھ برس اقتدار انجوائے کرکے گھر چلے گئے ہیں لیکن سسٹم میں کوئی اصلاح نہیں کرسکے۔ بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ہوا، سرکاری افسروں کے لیے چمچاتی نئی گاڑیاں بھی خریدی گئیں۔
ارکان اسمبلی کوترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے جاری کیے گئے اور سرکاری پروٹوکول بھی انجوائے ہوتا رہا، سبکدوش ہونے والوں نے آخری فیز میں بیوروکریٹس کو ترقیاں دیں اور من مرضی کی قانون سازی بھی کی۔اگر کچھ نہیں دیا تو وہ مزدور اور کسان ہیں۔
سرمایہ دار طبقے نے توریاست کے لیے مالی قربانی دینے کا جھوٹے منہ بھی اعلان نہیں کیا، مینوفیکیچرز ، ریٹلرز، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز یک زبان ہوکر یہی راگ الاپتے رہے، خسارہ خسارہ اور بس خسارہ،ادھر پوش رہائشی کالونیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، ایک ایک بنگلے میں چار چار چھ چھ لگژری گاڑیاں کھڑی ہیں، کوٹھیوں اور بنگلوں کی تعمیر پرکروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
ان کی تزنین وآرائش کے لیے انٹیرئیر ڈیزائنرز کو کروڑوں روپے معاوضہ دیا جارہا ہے، ٹیکس دینے کی باری آئے تو ہاتھ اور جیب خالی ہوتے ہیں، ایسی مکاراوربے حس حکمران اشرافیہ ملک اور عوام کا کوئی فائدہ نہیں کرسکتی۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ پاکستان کا بالادست طبقہ خیراتی اداروں کے نام پربھی اپنی اپنی سلطنت چلا رہا ہے۔
خیراتی اداروں کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، خیراتی ادارے مہنگے اسپتال چلاتے ہیں، سب سے مہنگی میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریز خیراتی اداروں کی ہیں، خیراتی اداروں کے نام پر لگژری گاڑیاں خریدی جاتی ہیں، ان پر کسٹمز اور دیگر ٹیکس معاف کرائے جاتے ہیں، یہ گاڑیاں خیراتی اداروں کے مالکان اور افسران کے استعمال میں رہتی ہیں لیکن ٹیکس دینا حرام ہے بلکہ سرکار نے ہی انھیں تحفظ دے رکھا ہے، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں...
کچھ عرصہ پہلے ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام اور دیگر امدادی پروگرامز کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتا ہے، یہ رقم کئی ارب ڈالرز بنتی ہے ۔ ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیدار، کاروباری طبقہ اور جاگیردارمراعات کے نام پر یہ رقم ہڑپ کرتے ہیں۔
ملک کا امیر ترین طبقہ جو پاکستان کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہے لیکن ملک کی کل آمدنی میں سے نو فیصد اس کے پاس ہے ، بڑے زمیندار یا جاگیردار آبادی کا صرف ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے لیکن یہ پاکستان کے بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کا مالک ہے ۔
پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں۔ ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں، اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
میں بھی کیا دل کے پھپھولے پھوڑنے لگا ہوں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو شگفتہ آفرینی کے شوقین ہیں اور یہ موصوف دماغ کا دہی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔لہٰذا اجازت چاہتا ہوں ' خوش رہیں' دوسروں کو خوش رکھیںاور نگران حکومتوں کی نگرانی کو انجوائے کریں۔