زندگی لوڈشیڈنگ کے سائے میں

کاش ہمارے درمیان لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے بھی ایسی استقامت کا مظاہرہ کر سکتے لیکن لوڈشیڈنگ کے ستم رسیدوں میں ۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

مئی کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ وہی ظالم مہینہ جس کے متعلق اسماعیل میرٹھی کہہ گئے ہیں کہ ؎

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ

ویسے تو ایک شاعر نے اپریل کو بھی ظالم مہینہ بتایا ہے مگر خدا لگتی کہیں گے کہ مہینے بھر تک وقفے وقفے سے چھینٹا پڑتا رہا اور آتی گرمیوں کا دن مرتا رہا۔ سو لوڈشیڈنگ کو یار ہنسی خوشی برداشت کرتے رہے۔ یوں سمجھئے کہ لوڈشیڈنگ بھی چھیڑ چھاڑ کرتی رہی اور چھینٹا بھی پڑتا رہا۔ اپریل کا مہینہ نرم گرم رہا اور خیر و خوبی سے گزر گیا مگر مئی کا مہینہ جوں ہی چڑھا دھوپ میں چٹخی آ گئی اور ساتھ میں لوڈشیڈنگ میں بھی کچھ زیادہ چٹخی آ گئی تو یوں ہوا کہ پہلی ہی چٹخی میں خلقت بولا گئی اور اتنی بولائی کہ جلسے جلوس کی نوبت آ گئی۔ ہم پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے کہ ابتدا یہ ہے تو انتہا کیا ہو گی۔ آخر سڑکوں پر جلانے کے لیے اتنے ٹائر کہاں سے کیسے آئیں گے لیکن خیر ہوئی۔ محترم وزیر اعظم کا بیان بروقت آیا ع

موذن مرحبا بروقت بولا

کیا بولا کہ لوگ تھوڑا صبر کریں۔ صبر کی میعاد بھی مقرر کر دی ہے۔ صبر کی پہلی میعاد تین سال۔ دوسری میعاد دس سال۔ تفصیل ان معیادوں کی یہ ہے کہ پہلے تین سال میں چار ہزار سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہو جائے گا۔ اگلی میعاد تھوڑی لمبی ہے۔ زیادہ نہیں بس آٹھ سال۔ اگر آٹھ سال میں نہیں تو دس سال میں ضرور اکیس ہزار میگاواٹ تک بجلی کا اضافہ ہو جائے گا۔ لو اب خوش ہو جائو کہ لوڈشیڈنگ کے دن تھوڑے ہیں۔ ان بے صبروں کی باتوں پر مت جائو جو تین برس اور دس برس کی بات سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود' مارگزیدہ مردہ شود ع

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

یہ ظالم لوڈشیڈنگ جس رنگ سے زور پکڑ رہی ہے دس سالوں میں تو ہمارا بھرکس نکال دے گی۔

غالبؔ کی جس غزل سے مندرجہ بالا مصرعہ لیا گیا ہے وہ اسی بے صبرے پن کی مثال ہے ؎

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک


عاشقانہ معاملات ہوں یا بجلی کی فراہمی کے

معاملات' دونوں ہی معاملات میں بے صبری دکھانا ناروا ہے۔ ہے یوں کہ عاشقی جتنی صبر طلب ہے اتنی ہی صبر طلب ہمارے گھر بار کی بجلی بھی ہے۔

مگر عشق کے معاملات میں جہاں بے صبرے پن کا اظہار ہوا ہے وہاں ایسے بھی عاشق ہمیں نظر آئیں گے جو صبر کے امتحان میں پورے اترے ہیں۔ ایسا ایسا صابر عاشق گزرا ہے جس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ؎

میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

کاش ہمارے درمیان لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے بھی ایسی استقامت کا مظاہرہ کر سکتے لیکن لوڈشیڈنگ کے ستم رسیدوں میں تو صبر کا مادہ یکسر مفقود ہے۔ وہ قیامت سے پہلے قیامت برپا کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ نے ہمارے گھروں محلوں میں مستقل قیام کرنے کی ٹھانی ہے۔ بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ کپڑے پھاڑ کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اور اس بی بی کو کیا کہئے کہ جو کھجوری پنکھا جھلتے جھلتے تھک گئی تو پنکھے کو الگ پھینکا۔ بولی کہ آگ لگے اس پنکھے کو۔ اس میں سے اتنی ہوا بھی نہیں نکل رہی کہ منہ کی مکھی ہی اڑ جائے۔ پھر دوپٹے کا دامن پھیلا کر بد دعا کی کہ الہی اس لوڈشیڈنگ پر بجلی ٹوٹے۔

غالب کا کیا خوب شعر یاد آیا ؎

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

کیا خوب زمانہ تھا۔ نہ حکومتوں اور ان کے چھوٹے بڑے افسروں سے درد مندانہ اپیلیں کرنی پڑتی تھیں۔ نہ سڑکوں پر آ کر ٹائر جلانے پڑتے تھے۔ گھر میں خیر سے ایک دو لالٹینیں ایک آدھ لیمپ موجود رہتا تھا۔ ایک بوتل مٹی کا تیل بازار سے خرید لائے۔ لیجیے گھر روشن ہو گیا۔ گھر میں مجلس یا میلاد کی تقریب منعقد کرنی ہوئی تو تھوڑی مومی شمعیں روشن کر لیں۔ ان کی جھلملاہٹ میں تقریب کو چار چاند لگ جاتے تھے۔ تقریب بڑے پیمانے پر منعقد کرنی پڑی تو گیس کے ایک دو ہنڈوں کا انتظام کر لیا۔ لیجیے گھر بقعۂ نور بن گیا اور گلی میں اتنی روشنی کہ بجلی کی روشنی اگر اس زمانے میں ہوتی تو گیس کے ہنڈے کے آگے مٹی کے دیے کی روشنی بن کر رہ جاتی۔

مٹی کے دیے پر یاد آیا۔ جھونپڑیوں والے تو اپنی اسی روشنی میں خوش تھے۔ مٹی کے دیے کوڑیوں کے مول مل جاتے تھے۔ بازار سے ڈیڑھ دو پیسے کا کڑوا تیل لے آئے۔ تھوڑی سی روٹی کو بٹ کر بتی بنا لی۔ دیے میں کڑوا تیل انڈیلا۔ اس میں بتی سلیقہ سے رکھی۔ اسے ماچس دکھائی۔ لیجیے دیا ٹمٹمانے لگا۔ ڈیوٹ میسر آ گیا تو واہ واہ۔ ورنہ کسی بھی مناسب گوشے میں دیے کو ٹکا دیا۔

اور پھر مشعلیں۔ ایک مشعل سے پوری گلی جگمگا جاتی تھی۔

اس زمانے میں اتنی روشنی میں خلقت خوش رہتی تھی۔ گھر میں نہ ریڈیو نہ ٹی وی نہ فریج۔ پھر بجلی کی محتاجی کیوں ہوتی۔ لالٹین یا لیمپ کی چمنی چٹخ گئی تو بازار سے نئی چمنی لے آئے۔ وہی مضمون کہ ع

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساری مصیبت اس تقریب سے پڑی کہ جام سفال غائب ہو گیا اور لیکٹرسٹی جام جم کی شان سے ہمارے بیچ نمودار ہوئی۔ اور وہ جو مومی شمعیں اپنی جھلملاہٹ سے رات میں جادو جگاتی تھیں اور رتجگوں کو رونق بخشتی تھیں ان کی بالآخر سحر ہو گئی اور ہماری آپ کی قسمت میں لوڈشیڈنگ لکھی گئی اور اب ایک ضرب المثل سنئے۔ پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان۔ ارے اس بجلی کی روشنی کو اب کیسے سنگھوائیں۔ روشنی سے زیادہ وہ لوڈشیڈنگ سے آلودہ ہے۔ افسوس ہے اس روشنی پر اور اس نااہل انتظامیہ پر جو روشنی کے نام معاشرے کو اندھیروں میں ڈھکیلتی ہے۔
Load Next Story