پیغام نصیحت اور انتباہ
1947ء سے 2014ء تک پاک فوج کی تاریخ مادر وطن کی خاطر دی جانے والی قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔۔۔
پاکستان نہ صرف دنیا کی پہلی اور واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے بلکہ اس کی مسلح افواج کا شمار بھی دنیا کی دس بہترین فوجی طاقتوں میں کیا جاتا ہے جو اپنی صلاحیت، مہارت، جرأت، بہادری اور پیشہ ورانہ امور پر مکمل دسترس رکھنے کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بات دشمن سے مقابلہ کرنے کی ہو یا اندرون و بیرون وطن زمینی و قدرتی، ارضی و سماوی آفات اور ہنگامہ خیز صورت حال سے نمٹنے کی پاک فوج کا ایک ایک سپاہی جذبہ ایمانی و حب الوطنی سے سرشار ہو کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے ہر چٹان سے ٹکرا جانے کا عزم و حوصلہ اور جذبہ صادق رکھتا ہے یہی وجہ ہے عالمی قوانین کے تحت دنیا کے مختلف خطوں میں پاک فوج کے دستے خدمات سر انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
1947ء سے 2014ء تک پاک فوج کی تاریخ مادر وطن کی خاطر دی جانے والی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ فوج کے ہر شہید نے راہ حق میں جان نثار کر کے ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر اور ہماری آیندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بلاشبہ سراہے جانے کے قابل ہے بالخصوص گزشتہ ایک عشرے سے پاک فوج کے سپاہی اندرون وطن دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کی خاطر مشکل ترین صورت حال میں اپنے ملک اور قوم کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں اس عرصے میں تقریباً پانچ ہزار جوان مادر وطن پر اپنی جاں نثار کر چکے ہیں۔ ان شہدا وطن کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں شہدا کے لواحقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں اور امکانی خطرات کے تناظر میں صاف لفظوں اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے خلاف سرگرم تمام عناصر غیر مشروط طور پر ملکی آئین و قانون کی مکمل پابندی کرنا قبول کرکے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں ورنہ ریاست کے باغیوں سے نمٹنے میں کسی کو غلط فہمی اور شک میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ پاک فوج اندرونی و بیرونی خطرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام کے تعاون سے وطن دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے مزید کہا کہ فوج جمہوریت کے استحکام و آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ اور میڈیا کی آزادی و ذمے دار صحافت کی حامی ہے۔ انھوں نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا پائیدار حل ناگزیر ہے۔ آرمی چیف نے مادر وطن پر جاں نثار کردینے والے شہدا کو زبردست انداز سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم شہدا درحقیقت یوم تجدید وفا بھی ہے۔ قوم اپنے ہم وطنوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دینے والے فوجیوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
آرمی چیف کا خطاب قومی و علاقائی حالات کے تناظر میں قطعی مناسب، دو ٹوک اور نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں پیغام بھی ہے، نصیحت بھی ہے اور انتباہ بھی ان تمام وطن دشمن عناصر کے لیے جو ملک کی نظریاتی اساس، جغرافیائی سرحدوں اور قومی دفاع کو نقصان پہنچانے کی خاطر پاک فوج کی صلاحیتوں، قوت، جذبہ ایمانی، حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت کو چیلنج کرنے کے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں۔
اس امر میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کی خاطر حکومت کی مذاکراتی کوششوں کے ثمر آور ہونے کی امیدیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، توقع کے عین مطابق، دم توڑتی نظر آرہی ہیں کیونکہ مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے فریقین کے درمیان کوئی باقاعدہ میٹنگ نہیں ہوسکی جس کے باعث حکومتی حلقوں میں بھی مایوسی کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔
جس کا اندازہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، جو مذاکرات کے پرجوش حامی ہیں کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کمیٹی کے بعض ارکان نے طے کردہ امور کے برعکس سربازار تماشہ لگایا اور کھینچا تانی کے موجودہ ماحول میں طالبان سے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے گویا حکومت کی طرف سے مذاکرات کا دفتر تقریباً بند کر دیا گیا ہے اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ''آخری اقدام'' کے طور پر ان عناصر کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے تاہم حتمی قدم اٹھانے سے قبل آرمی چیف نے ایک موقع دیتے ہوئے ریاست مخالف عناصر کو گویا ''آخری وارننگ'' دی ہے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کی پاسداری قبول کریں وگرنہ ان سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا کوئی شک و غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل ملک کے دور اندیش مبصرین و تجزیہ نگار مسلسل اسی خدشے اور تحفظات کا اظہار کرتے رہے کہ حکومت کی مذاکراتی کوششوں کا کوئی مثبت و تعمیری نتیجہ نہیں نکلے گا یہ محض وقت کا زیاں ہیں لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بعض رفقا مذاکرات سے بحالی امن کے اپنے کمزور موقف پر جمے رہے تاہم اب حکومتی سطح پر مایوسی و ناامیدی کے واضح اظہار کے بعد مبصرین و تجزیہ نگاروں کے خدشے درست ثابت ہوئے اور معاملات اب آپریشن کی طرف جا رہے ہیں۔
آرمی چیف نے ملک میں جمہوریت کے استحکام، آئین کی بالادستی اور ذمے دارانہ صحافت کی حمایت کا یقین دلاکر قوم اور فوج کے مورال کو بلند کر دیا ہے جو جمہوری قوتوں اور جمہوریت دوست حلقوں کے لیے خوش آیند بات ہے۔ درحقیقت گزشتہ چند ماہ کے دوران بعض اندرونی و بیرونی معاملات کے حوالے سے جن میں پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ سرفہرست ہے حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان رہا، یہ کیفیت اب بھی برقرار ہے۔
اس ضمن میں بعض وزراء صاحبان کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تو فوج کے وقار کو ہر صورت برقرار رکھنے کی بازگشت سنائی دینے لگی اور ملک میں ایک اور 12 اکتوبر آنے کے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا۔ ابھی یہ دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ معروف ٹی وی اینکر حامد میر پر ہونیوالے قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا کے ایک بڑے گروپ نے ملک کے دفاع میں بنیادی کردار ادا کرنیوالی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جس سے ماحول دوآتشہ ہو گیا حکومت اور فوج کے درمیان مزید غلط فہمیوں نے جنم لے لیا کیونکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے حامد میر قضیے پر ''آزاد میڈیا'' کو اپنے دیش میں مزید ''آزاد'' کر کے خوب اچھالا نتیجتاً فوج، حکومت اور میڈیا ایک دوسرے کے مقابل آ گئے جو یقینا اہل وطن کے لیے افسوس ناک اور تشویش کا باعث ہے۔
ادھر بھارتی انتخابات کے نتیجے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی انتہا پسند نریندر مودی کے آتش فشاں بیانات کے باعث خطے میں امن کو دھچکا لگنے اور پاک بھارت کشیدگی کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں ملک کے دانشور، مبصرین اور صائب الرائے حلقے آرمی چیف کے خطاب کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اندرونی استحکام کے بغیر بیرونی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لازم ہے کہ آزاد میڈیا اور ریاست کے تمام ادارے قومی مفاد میں ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں لیکن پوری سچائی و ایمانداری کے ساتھ۔
1947ء سے 2014ء تک پاک فوج کی تاریخ مادر وطن کی خاطر دی جانے والی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ فوج کے ہر شہید نے راہ حق میں جان نثار کر کے ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر اور ہماری آیندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بلاشبہ سراہے جانے کے قابل ہے بالخصوص گزشتہ ایک عشرے سے پاک فوج کے سپاہی اندرون وطن دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کی خاطر مشکل ترین صورت حال میں اپنے ملک اور قوم کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں اس عرصے میں تقریباً پانچ ہزار جوان مادر وطن پر اپنی جاں نثار کر چکے ہیں۔ ان شہدا وطن کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں شہدا کے لواحقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں اور امکانی خطرات کے تناظر میں صاف لفظوں اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے خلاف سرگرم تمام عناصر غیر مشروط طور پر ملکی آئین و قانون کی مکمل پابندی کرنا قبول کرکے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں ورنہ ریاست کے باغیوں سے نمٹنے میں کسی کو غلط فہمی اور شک میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ پاک فوج اندرونی و بیرونی خطرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام کے تعاون سے وطن دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے مزید کہا کہ فوج جمہوریت کے استحکام و آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ اور میڈیا کی آزادی و ذمے دار صحافت کی حامی ہے۔ انھوں نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا پائیدار حل ناگزیر ہے۔ آرمی چیف نے مادر وطن پر جاں نثار کردینے والے شہدا کو زبردست انداز سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم شہدا درحقیقت یوم تجدید وفا بھی ہے۔ قوم اپنے ہم وطنوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دینے والے فوجیوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
آرمی چیف کا خطاب قومی و علاقائی حالات کے تناظر میں قطعی مناسب، دو ٹوک اور نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں پیغام بھی ہے، نصیحت بھی ہے اور انتباہ بھی ان تمام وطن دشمن عناصر کے لیے جو ملک کی نظریاتی اساس، جغرافیائی سرحدوں اور قومی دفاع کو نقصان پہنچانے کی خاطر پاک فوج کی صلاحیتوں، قوت، جذبہ ایمانی، حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت کو چیلنج کرنے کے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں۔
اس امر میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کی خاطر حکومت کی مذاکراتی کوششوں کے ثمر آور ہونے کی امیدیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، توقع کے عین مطابق، دم توڑتی نظر آرہی ہیں کیونکہ مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے فریقین کے درمیان کوئی باقاعدہ میٹنگ نہیں ہوسکی جس کے باعث حکومتی حلقوں میں بھی مایوسی کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔
جس کا اندازہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، جو مذاکرات کے پرجوش حامی ہیں کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کمیٹی کے بعض ارکان نے طے کردہ امور کے برعکس سربازار تماشہ لگایا اور کھینچا تانی کے موجودہ ماحول میں طالبان سے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے گویا حکومت کی طرف سے مذاکرات کا دفتر تقریباً بند کر دیا گیا ہے اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ''آخری اقدام'' کے طور پر ان عناصر کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے تاہم حتمی قدم اٹھانے سے قبل آرمی چیف نے ایک موقع دیتے ہوئے ریاست مخالف عناصر کو گویا ''آخری وارننگ'' دی ہے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کی پاسداری قبول کریں وگرنہ ان سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا کوئی شک و غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل ملک کے دور اندیش مبصرین و تجزیہ نگار مسلسل اسی خدشے اور تحفظات کا اظہار کرتے رہے کہ حکومت کی مذاکراتی کوششوں کا کوئی مثبت و تعمیری نتیجہ نہیں نکلے گا یہ محض وقت کا زیاں ہیں لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بعض رفقا مذاکرات سے بحالی امن کے اپنے کمزور موقف پر جمے رہے تاہم اب حکومتی سطح پر مایوسی و ناامیدی کے واضح اظہار کے بعد مبصرین و تجزیہ نگاروں کے خدشے درست ثابت ہوئے اور معاملات اب آپریشن کی طرف جا رہے ہیں۔
آرمی چیف نے ملک میں جمہوریت کے استحکام، آئین کی بالادستی اور ذمے دارانہ صحافت کی حمایت کا یقین دلاکر قوم اور فوج کے مورال کو بلند کر دیا ہے جو جمہوری قوتوں اور جمہوریت دوست حلقوں کے لیے خوش آیند بات ہے۔ درحقیقت گزشتہ چند ماہ کے دوران بعض اندرونی و بیرونی معاملات کے حوالے سے جن میں پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ سرفہرست ہے حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان رہا، یہ کیفیت اب بھی برقرار ہے۔
اس ضمن میں بعض وزراء صاحبان کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تو فوج کے وقار کو ہر صورت برقرار رکھنے کی بازگشت سنائی دینے لگی اور ملک میں ایک اور 12 اکتوبر آنے کے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا۔ ابھی یہ دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ معروف ٹی وی اینکر حامد میر پر ہونیوالے قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا کے ایک بڑے گروپ نے ملک کے دفاع میں بنیادی کردار ادا کرنیوالی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جس سے ماحول دوآتشہ ہو گیا حکومت اور فوج کے درمیان مزید غلط فہمیوں نے جنم لے لیا کیونکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے حامد میر قضیے پر ''آزاد میڈیا'' کو اپنے دیش میں مزید ''آزاد'' کر کے خوب اچھالا نتیجتاً فوج، حکومت اور میڈیا ایک دوسرے کے مقابل آ گئے جو یقینا اہل وطن کے لیے افسوس ناک اور تشویش کا باعث ہے۔
ادھر بھارتی انتخابات کے نتیجے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی انتہا پسند نریندر مودی کے آتش فشاں بیانات کے باعث خطے میں امن کو دھچکا لگنے اور پاک بھارت کشیدگی کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں ملک کے دانشور، مبصرین اور صائب الرائے حلقے آرمی چیف کے خطاب کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اندرونی استحکام کے بغیر بیرونی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لازم ہے کہ آزاد میڈیا اور ریاست کے تمام ادارے قومی مفاد میں ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں لیکن پوری سچائی و ایمانداری کے ساتھ۔