نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مضمرات سے کیسے بچایا جائے

بچے جس تیزی کے ساتھ انٹرنیٹ کی طرف راغب ہورہے ہیں یہ ہم سب کےلیے لمحہ فکریہ ہے

سوشل میڈیا استعمال کرنے کےلیے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔ (فوٹو: فائل)

نئی نسل کے ہاتھ سے موبائل فون چھیننا ایسا ہی ہے جیسے مرتے ہوئے شخص کے چہرے سے آکسیجن ماسک اتارنا۔ ایسی صورت حال میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مضمرات سے محفوظ رکھنے کےلیے بہت سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے تو والدین، ٹیچرز اور سرپرستوں کو اپنے بچوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے دورانیہ کو کم کریں اور آہستہ آہستہ مزید کم کرتے جائیں۔ اس کےلیے بہت ضروری ہے کہ ان کے پاس انٹرنیٹ کے متبادل کیا ہے، کیونکہ بچوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے دور رکھنے میں اچھی خاصی جدوجہد کرنا پڑے گی۔


یہ بلاگ بھی پڑھیے: نوجوان نسل اور سوشل میڈیا کے اثرات


جو والدین اپنے خاندان اور بچوں کو وقت نہیں دے پاتے انہیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے خاندان کو وقت دیجیے۔ بچوں کی پڑھائی میں ان کی مدد کیجیے، ان کی پروگریس رپورٹ چیک کیجیے، ان کے اسکول ٹیچرز اور ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچرز سے ملیے اور بچے کی وقتاً فوقتاً پروگریس چیک کرتے رہیں۔ ٹیچرز سے گزارش کریں کہ آن لائن اسٹڈی کے بجائے اسکولوں میں ہی پڑھایا جائے تاکہ بچوں کے پاس موبائل فون استعمال کرنے کا بہانہ ہی ختم ہوجائے۔


بچوں کے موبائل استعمال کرنے کے اوقات کار مقرر کردیں تاکہ بچوں کی صحت متاثر نہ ہو اور خاص طور پر رات کے وقت موبائل فون استعمال کرنے سے منع کریں۔ آپ اپنے بچوں کی موبائل فون کی ہسٹری چیک کرتے رہیں اور ان کے سوشل میڈیا گروپوں کو بھی چیک کریں کہ آپ کے بچوں کے دوستوں کی فہرست میں کون کون شامل ہے۔ اگر کوئی نامعلوم لڑکا یا لڑکی آپ کے بچے کی موبائل فہرست میں ہے تو آپ اپنے بچے سے پوچھیں اور فوری طور پر اس اجنبی کا نمبر ڈیلیٹ کریں یا بلاک کریں۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ٹین ایج میں جب بچے اپنے متعلق خود سے فیصلے نہیں کرسکتے تو اس وقت انہیں علم نہیں ہوتا کہ انہیں دوست کس طرح کے بنانے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے دوستوں، سہیلیوں اور کلاس فیلوز کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔


انٹرنیٹ کے متبادل کے طور پر جب آپ اپنے بچوں کو وقت دیں تو آپ ان کے ساتھ اِن ڈور گیمز کھیلیے، جیسے لڈو، کیرم بورڈ وغیرہ اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے کےلیے ان کی صلاحیت کے مطابق سرگرمیاں ترتیب دیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شاعری کرنا چاہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ کوئی پینٹنگ کرنا چاہتا ہے، کوئی موسیقی کو پسند کرتا ہے تو اسے موقع دیجیے۔ لیکن یہ تمام چیزیں جُز وقتی ہونی چاہئیں تاکہ بچے کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ یاد رکھیے کہ آپ کی طرف سے اجنبیت کا رویہ آپ کے بچے کو آپ سے دور کردے گا اور پھر وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں پناہ لینے کی کوشش کرے گا۔


بچوں کی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آبادی کے تناسب سے ملک میں بچوں کے کھیلنے کےلیے گراؤنڈز نہیں ہیں۔ ملک میں آبادی بڑھنے سے نئی کالونیاں، سوسائٹیاں ضرور بنی ہیں لیکن گراؤنڈ ز نہیں بنائے گئے، جس کی وجہ سے بچے کھیلوں سے دور ہوتے چلے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پوری طرح انٹرنیٹ کے چنگل میں پھنس گئے۔



آپ ماضی میں بچوں کے کھیلوں کو دیکھیں تو یقیناً حیران ہوں گے کہ ماضی کے اُن کھیلوں سے نئی نسل بالکل آشنا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کے کھیل میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سستی، تھکاوٹ، کاہلی اور چڑچڑے پن کا عنصر نمایاں ہے۔ ماضی میں اسکولوں میں بزم ادب کروایا جاتا تھا، جو آہستہ آہستہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ وہ ایک بہتر سرگرمی تھی جس کی وجہ سے بچے نہ صرف غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے بلکہ انہیں اپنی فنی صلاحیتیں نکھارنے کا بھی موقع مل جاتا تھا۔ بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ہی مصروف رکھ کر ان کے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا دورانیہ کم کیا جاسکتا ہے۔


والدین کی ذمے داری تو بنتی ہی ہے لیکن ریاست کی بھی اہم ذمے داری ہے کہ بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے، کیونکہ جس تیزی کے ساتھ بچے انٹرنیٹ کی طرف راغب ہورہے ہیں تو یہ ہم سب کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے کےلیے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں اور کسی کی بھی کردارکشی کرنے پر استعمال کرنے والے کو سزا کا خوف ہونا چاہیے۔


یہ چند تجاویز ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل کی بہتر آبیاری کےلیے بہت ضروری ہیں۔ یاد رکھیے کہ ہم سب کا یہ فرض ہے جس میں والدین، اساتذہ کرام، بہن، بھائی، رشتے دار اور سرپرست، ہم سب اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر بنانے کےلیے پوری کوشش کریں۔ اس ضمن میں ریاست کی بھی اہم ذمے داری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے کہ نوجوانوں کو صحیح معنوں میں مستقبل کا معمار بنایا جاسکے، جو صحتمند، توانا ہو اور نئی سوچ کے ساتھ ترقی یافتہ پاکستان کا ضامن ہو۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story