ورنہ…
نگران حکومت کو بیوروکریسی پر اپنی رٹ کو قائم کرنا ہوگا
جمہوریت کا استحکام شفاف انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوری ممالک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں۔ برطانیہ، بھارت اور کینیڈا وغیرہ میں پارلیمانی نظام ہے۔ اس طرح امریکا میں صدارتی نظام قائم ہے۔
ان تمام ممالک میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہے۔ ان ممالک میں برسر ِاقتدار حکومتیں انتخابات کے اعلان کے ساتھ برقرار رہتی ہیں مگر ان حکومتوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
90 کی دہائی میں شفاف انتخابات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نگراں حکومت کے قیام کا نظریہ مقبول ہوا۔ سیاسی ماہرین کا مفروضہ تھا کہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ منتخب حکومتیں تحلیل ہو جائیں اور غیر جانبدار افراد پر مشتمل مختصر مدت کے لیے نگراں حکومت قائم کی جائے تو پھر انتظامیہ غیر جانبدار ہوگی اور شفاف انتخابات کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔
پہلے بنگلہ دیش میں نگراں حکومت کا تجربہ ہوا پھر پاکستان میں غلام اسحاق خان نے سب سے پہلے 1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر کے قائد حزب اختلاف غلام مصطفی جتوئی کو نگراں وزیر اعظم بنایا، یوں 2008 تک برسر اقتدار صدور، نگراں اور وزیر اعظم مقرر کرتے رہے مگر ہمیشہ رخصت ہونے والی حکومت کے مخالف کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔
2010 میں آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے تحت نگراں حکومت کو آئینی حیثیت دی گئی۔ جس کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کرتے ہیں، ورنہ دوسری صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کو یکساں نمایندگی حاصل ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی میں فیصلہ نہ ہوسکے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کو حکومت اور حزب اختلاف کے پیش کردہ ناموں میں سے ایک کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے چننا ہوتا ہے۔
جب 2013 میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے درمیان نگراں وزیر اعظم بنانے کے نام پر اتفاق نہیں ہوا تھا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تھا مگر اس وقت پارلیمانی کمیٹی کسی نام پر اتفاق نہیں کرسکی تھی تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ 2018 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کو نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے کے لیے کئی نشستیں کرنی پڑیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک خط میں ہدایت کی تھی کہ وہ نگراں وزیر اعظم کا نام روانہ کریں۔ گزشتہ ایک ماہ سے نگراں وزیر اعظم کے لیے مختلف نام گردش کر رہے تھے۔
سب سے پہلے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام آیا تھا جس پر نگراں حکومت کے کردار کے حوالے سے ایک بحث شروع ہوگئی تھی۔ جمہوریت کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے دانشوروں اور صحافیوں کی رائے تھی کہ اسحاق ڈار کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا تو پھر تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوگی اور غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام کا مقصد کہیں کھو جائے گا۔
بہرحال حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام وغیرہ کے اعتراض کے بعد اسحاق ڈار کے نام پر غور نہیں ہوا، پھر بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ ججوں کے نام سامنے آئے۔ گزشتہ ہفتے میاں شہباز شریف اور راجہ ریاض میں ایک اور ملاقات ہوئی۔ میاں شہباز شریف اس ملاقات کے بعد اپنی پہلی اہلیہ نصرت شہباز کی عیادت کے لیے لاہور چلے گئے۔ راجہ ریاض نے اچانک صحافیوں سے بات چیت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام نگراں وزیر اعظم کے لیے پیش کیا۔
انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری کی حکومت کے ترجمان تھے۔ انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے پانچ سال قبل کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طالب علمی کے دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن رہے ہیں اور روشن خیالات کے حامی ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے اگرچہ سینیٹ سے مستعفی ہونے کے ساتھ اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے بھی مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ غیر جانبداری سے فرائض انجام دیں گے مگر انوار الحق کاکڑ پر سب سے پہلا اعتراض پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کیا تھا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کمیٹی کے سامنے پانچ نام دیے۔ ان میں سلیم عباس جیلانی، محمد مالک حسین، تصدیق حسین جیلانی، وغیرہ کے نام شامل تھے مگر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ انور الحق کاکڑ کا نام سینیٹ سے لیا گیا ہے، ہماری اس طرف توجہ نہیں تھی مگر انوار الحق کاکڑ کا نام جہاں سے بھی آیا ہے ان سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ اس پر رد عمل بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل نے کیا۔
یہ رد عمل ان کی طرف سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں دیا گیا۔ اختر مینگل نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ''میاں صاحب ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ جو آپ لوگوں پر گزری اس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت سے حل تلاش کیا جارہا ہے۔ '' اختر مینگل نے اس خط میں یہ بیانیہ اختیار کیا '' آج کا پیغام 22 جولائی 2022کا تسلسل ہے کیونکہ جن مسائل کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا کاش کہ ان میں کمی آجاتی لیکن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا الزام کسی پر ڈالنے کے بجائے ہم اپنی قسمت کو ذمے دار ٹھہرائیں تو بہتر ہوگا۔
مسلم لیگ ن نے اتحادیوں کو نظرانداز کر کے راتوں رات قانون سازی کی۔'' اختر مینگل کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی ہم سے زیادہ مستقبل میں ن لیگ کے خلاف ہی استعمال کی جائے گی۔ '' اختر مینگل نے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے بجائے براہِ راست میاں نواز شریف کو خط تحریر کرکے پی ٹی آئی مخالف اتحاد سے دوری کا عندیہ واضح طور پر دے دیا۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ PDM کے ترجمان حافظ حمد اﷲ نے انتہائی سنجیدہ تبصرہ کیا۔
ان کا کہنا ہے ''نگراں وزیر اعظم وہی اچھا ہے جو ایک بیگ میں آئے اور وہی بیگ لے کر جائے۔'' عوامی نیشنل پارٹی کو بھی اعتراضات ہیں۔ ہمیشہ پر امید رہنے والے سینئر استاد پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو، جنرل ضیاء الحق کی دریافت تھے مگر انھوں نے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھایا، ایسا معجزہ اب بھی ممکن ہے۔
نگراں حکومت بنتے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ کردیا گیا۔ نگراں حکومت بننے کے فورا بعد پٹرول اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام اور نگراں حکومت کے درمیان فاصلوں کو مزید طویل کر دے گا۔
اس کے ساتھ ہی وزراء یہ دعوے کر رہے ہیں کہ انتخابات 6 ماہ کے لیے ملتوی ہونگے، یوں جنوری یا فروری میں انتخابات ہونگے۔ اس پورے منظر نامہ میں نگران حکومت کے سامنے لاتعداد چیلنج ہیں۔ انھیں مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آئین کے تحت شفاف انتخابات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
عمومی طور پر بیوروکریسی عبوری حکومت کو اہمیت نہیں دیتی۔ نگران حکومت کو بیوروکریسی پر اپنی رٹ کو قائم کرنا ہوگا، اگر اس حکومت نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے ہدف کو پورا کردیا تو تاریخ میں اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ورنہ...
ان تمام ممالک میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہے۔ ان ممالک میں برسر ِاقتدار حکومتیں انتخابات کے اعلان کے ساتھ برقرار رہتی ہیں مگر ان حکومتوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
90 کی دہائی میں شفاف انتخابات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نگراں حکومت کے قیام کا نظریہ مقبول ہوا۔ سیاسی ماہرین کا مفروضہ تھا کہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ منتخب حکومتیں تحلیل ہو جائیں اور غیر جانبدار افراد پر مشتمل مختصر مدت کے لیے نگراں حکومت قائم کی جائے تو پھر انتظامیہ غیر جانبدار ہوگی اور شفاف انتخابات کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔
پہلے بنگلہ دیش میں نگراں حکومت کا تجربہ ہوا پھر پاکستان میں غلام اسحاق خان نے سب سے پہلے 1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر کے قائد حزب اختلاف غلام مصطفی جتوئی کو نگراں وزیر اعظم بنایا، یوں 2008 تک برسر اقتدار صدور، نگراں اور وزیر اعظم مقرر کرتے رہے مگر ہمیشہ رخصت ہونے والی حکومت کے مخالف کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔
2010 میں آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے تحت نگراں حکومت کو آئینی حیثیت دی گئی۔ جس کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کرتے ہیں، ورنہ دوسری صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کو یکساں نمایندگی حاصل ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی میں فیصلہ نہ ہوسکے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کو حکومت اور حزب اختلاف کے پیش کردہ ناموں میں سے ایک کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے چننا ہوتا ہے۔
جب 2013 میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے درمیان نگراں وزیر اعظم بنانے کے نام پر اتفاق نہیں ہوا تھا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تھا مگر اس وقت پارلیمانی کمیٹی کسی نام پر اتفاق نہیں کرسکی تھی تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ 2018 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کو نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے کے لیے کئی نشستیں کرنی پڑیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک خط میں ہدایت کی تھی کہ وہ نگراں وزیر اعظم کا نام روانہ کریں۔ گزشتہ ایک ماہ سے نگراں وزیر اعظم کے لیے مختلف نام گردش کر رہے تھے۔
سب سے پہلے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام آیا تھا جس پر نگراں حکومت کے کردار کے حوالے سے ایک بحث شروع ہوگئی تھی۔ جمہوریت کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے دانشوروں اور صحافیوں کی رائے تھی کہ اسحاق ڈار کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا تو پھر تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوگی اور غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام کا مقصد کہیں کھو جائے گا۔
بہرحال حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام وغیرہ کے اعتراض کے بعد اسحاق ڈار کے نام پر غور نہیں ہوا، پھر بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ ججوں کے نام سامنے آئے۔ گزشتہ ہفتے میاں شہباز شریف اور راجہ ریاض میں ایک اور ملاقات ہوئی۔ میاں شہباز شریف اس ملاقات کے بعد اپنی پہلی اہلیہ نصرت شہباز کی عیادت کے لیے لاہور چلے گئے۔ راجہ ریاض نے اچانک صحافیوں سے بات چیت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام نگراں وزیر اعظم کے لیے پیش کیا۔
انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری کی حکومت کے ترجمان تھے۔ انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے پانچ سال قبل کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طالب علمی کے دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن رہے ہیں اور روشن خیالات کے حامی ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے اگرچہ سینیٹ سے مستعفی ہونے کے ساتھ اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے بھی مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ غیر جانبداری سے فرائض انجام دیں گے مگر انوار الحق کاکڑ پر سب سے پہلا اعتراض پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کیا تھا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کمیٹی کے سامنے پانچ نام دیے۔ ان میں سلیم عباس جیلانی، محمد مالک حسین، تصدیق حسین جیلانی، وغیرہ کے نام شامل تھے مگر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ انور الحق کاکڑ کا نام سینیٹ سے لیا گیا ہے، ہماری اس طرف توجہ نہیں تھی مگر انوار الحق کاکڑ کا نام جہاں سے بھی آیا ہے ان سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ اس پر رد عمل بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل نے کیا۔
یہ رد عمل ان کی طرف سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں دیا گیا۔ اختر مینگل نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ''میاں صاحب ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ جو آپ لوگوں پر گزری اس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت سے حل تلاش کیا جارہا ہے۔ '' اختر مینگل نے اس خط میں یہ بیانیہ اختیار کیا '' آج کا پیغام 22 جولائی 2022کا تسلسل ہے کیونکہ جن مسائل کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا کاش کہ ان میں کمی آجاتی لیکن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا الزام کسی پر ڈالنے کے بجائے ہم اپنی قسمت کو ذمے دار ٹھہرائیں تو بہتر ہوگا۔
مسلم لیگ ن نے اتحادیوں کو نظرانداز کر کے راتوں رات قانون سازی کی۔'' اختر مینگل کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی ہم سے زیادہ مستقبل میں ن لیگ کے خلاف ہی استعمال کی جائے گی۔ '' اختر مینگل نے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے بجائے براہِ راست میاں نواز شریف کو خط تحریر کرکے پی ٹی آئی مخالف اتحاد سے دوری کا عندیہ واضح طور پر دے دیا۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ PDM کے ترجمان حافظ حمد اﷲ نے انتہائی سنجیدہ تبصرہ کیا۔
ان کا کہنا ہے ''نگراں وزیر اعظم وہی اچھا ہے جو ایک بیگ میں آئے اور وہی بیگ لے کر جائے۔'' عوامی نیشنل پارٹی کو بھی اعتراضات ہیں۔ ہمیشہ پر امید رہنے والے سینئر استاد پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو، جنرل ضیاء الحق کی دریافت تھے مگر انھوں نے جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھایا، ایسا معجزہ اب بھی ممکن ہے۔
نگراں حکومت بنتے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ کردیا گیا۔ نگراں حکومت بننے کے فورا بعد پٹرول اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام اور نگراں حکومت کے درمیان فاصلوں کو مزید طویل کر دے گا۔
اس کے ساتھ ہی وزراء یہ دعوے کر رہے ہیں کہ انتخابات 6 ماہ کے لیے ملتوی ہونگے، یوں جنوری یا فروری میں انتخابات ہونگے۔ اس پورے منظر نامہ میں نگران حکومت کے سامنے لاتعداد چیلنج ہیں۔ انھیں مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آئین کے تحت شفاف انتخابات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
عمومی طور پر بیوروکریسی عبوری حکومت کو اہمیت نہیں دیتی۔ نگران حکومت کو بیوروکریسی پر اپنی رٹ کو قائم کرنا ہوگا، اگر اس حکومت نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے ہدف کو پورا کردیا تو تاریخ میں اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ورنہ...