انتہاپسندی اور دہشت گردی

جس تنظیم یا سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو، اس کی قیادت پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے

جس تنظیم یا سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو، اس کی قیادت پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ فوٹو: ٹوئٹر

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے جمعہ کو اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کیا، اس خطاب میں انھوں نے خاصی حد تک اپنی حکومت کی پالیسی کے خدوخال واضح کر دیے ہیں، انھوں نے 9 مئی کے واقعات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فوجی تنصیبات پر حملہ پورے نظام پر حملے کے مترادف ہے، ہم نہ صرف اس کی مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ جس نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، اس سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

وزیراعظم نے جڑانوالہ واقعہ کے بارے میں کہا کہ ریاست اقلیتوں کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ قدامت پسندی خواہ مذہبی ہو یا سیکولر یا کسی اور شکل میں ہو، اس کا خیر مقدم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنی ہے اور اس سے قانون کے مطابق نمٹنا ہے۔ اقلیتوں کا مکمل تحفظ کیا جائے گا، اکثریت کو اقلیت کا خیال رکھنا ہوگا اور قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پاکستان تمام مذاہب کے لوگوں کا ملک ہے۔ ہم قدامت پسندرجحانات کی کسی شکل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔

وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات ونشریات مرتضی سولنگی نے کہا کہ ان کی چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان سے ملاقات ہوئی ہے جس میں انھیں ملک میں آزادانہ انتخابات کے انعقاد میں معاونت اور ضروری تقرر و تبادلوں کے لیے الیکشن کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے عزم سے آگاہ کیا ہے۔

نگران حکومت کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، جب بھی انتخابات ہوں گے نگران حکومت آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت کرے گی۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ انتخابات کے دن پہلا ووٹ نگران وزیراعظم اور پھر ان کے بعد کابینہ کے ارکان ڈالیں گے۔

انھوں نے کہا کہ غربت اور مہنگائی ایک حقیقت ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے مہنگائی ہوئی ہے۔لیکن زائد قیمتوںپر پٹرول خرید کرسستا نہیں دے سکتے۔آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے بھی حکومت اشیا پر سبسڈی نہیں دے سکتی۔کابینہ نے ملک میں جاری معاشی صورتحال کے پیش نظر سرکاری اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

نگران حکومت کے لیے چیلنجز نئے نہیں ہیں بلکہ یہ پہلے کا ہی تسلسل ہے۔ نگران وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں جن معاملات کا ذکر کیا ہے، ان کے حوالے سے ریاست اور حکومت کو واقعی غیرمعمولی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ 9 مئی کے واقعات نے پاکستان کا عالمی سطح پر امیج متاثر کیا ہے۔ اس امیج کا براہ راست تعلق پاکستان کی عسکری قوت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

فوجی تنصیبات پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوامی احتجاج کے نام پر جو حملے کرائے گئے، اس سے اقوام عالم کے ایوانوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے عوام اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان تصادم ہو رہا ہے۔

جن لوگوں نے بھی یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی اور اس کے نتیجے میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے اور فوجی شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا، انھیں بہرحال قانون کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ ابھی ان واقعات کی گونج کم نہیں ہوئی تھی کہ جڑانوالہ کا واقعہ ہو گیا۔ اس واقعے نے بھی عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کیا اور دنیا میں یہ تاثر گیا کہ پاکستان میں انتہاپسندی کا غلبہ ہے۔

یہ سارے وہ چیلنجز ہیں جن سے نگران وزیراعظم اور ان کی کابینہ بھی آگاہ ہے، سبکدوش ہونے والی حکومت کے کرتادھرتا بھی پوری طرح آگاہ ہیں، پی ٹی آئی حکومت کو چلانے والے بھی ان چیلنجز سے آگاہ تھے اور ہیں۔ پاکستان کی نوکرشاہی کے لیے بھی یہ چیلنجز نئے نہیں ہیں۔ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو بھی ان چیلنجز کا بخوبی پتہ ہے۔


پاکستان میں جڑانوالہ واقعے سے پہلے بھی کئی واقعات گزر چکے ہیں۔ اقلیتوں کے تحفظ کا ایشو تو برسوں سے چلا آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان بھی تفرقہ بازی ہزاروں جانیں لے چکی ہے۔ ہجوم کی نفسیات کسی قانون کے تابع نہیں ہوتی اور نہ ہی ہجوم کسی ڈسپلن میں رہ سکتا ہے۔ ہجوم کی ہینڈلنگ ایک سائنس ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں اس پر بہت کام ہوا ہے۔

پاکستان میں پولیس ہجوم ہینڈلنگ کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ٹریننگ کی کمی، وسائل کی عدم دستیابی اور قانونی اور ضابطہ کاری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موقع پر موجود پولیس اہلکار صورت حال کے مطابق ایکشن لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ انتہاپسندی کو قانونی تحفظ کی بناء پر پولیس ہجوم کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے، سیدھی سی بات ہے انتظامیہ اور پولیس مفلوج ہو جاتی ہے تو ہجوم اپنی من مانی کرتا ہے۔ جڑانوالہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

اگر پاکستان میں پولیسنگ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہوتا، انتہاپسند نظریات کو قانونی تحفظ حاصل نہ ہوتا تو کسی بھی ہجوم کو کنٹرول کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پولیس کے پاس ہوائی فائرنگ کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ حربہ بھی کارگر نہ ثابت ہو تو پانی کے پریشر کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ آنسو گیس استعمال کی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ایکشن لینے والے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

افسروں کو سب سے پہلی فکر اپنی نوکری بچانے کی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی نوکری داؤ پر لگا کر کوئی سخت اقدام نہیں کرنا چاہتے۔ سیکیورٹی اداروں کی اس کمزوری کا سارا فائدہ قانون شکن لوگوں اور بلوائیوں کو پہنچتا ہے۔ انھیں آزادی مل جاتی ہے۔ واقعات ہونے کے بعد پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس میں ذمے داروں کے علاوہ کئی بے گناہ بھی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ سب سے بڑا نقص ہے جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔

انتہاپسند لوگ صرف پاکستان میں ہی نہیں رہتے، دنیا کے ہر ملک میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اسرائیل میں انتہاپسندی کم نہیں ہے، فلسطینیوں میں بھی انتہاپسند گروپ موجود ہیں۔

سعودی عرب میں بھی موجود ہیں۔ چین، جاپان، امریکا اور یورپ کے اندر بھی کٹر قسم کے مذہبی انتہاپسند موجود ہیں لیکن انھیں ریاست کی طرف سے کسی قسم کی رعایت نہیں ملتی بلکہ کوئی واقعہ ہو جائے تو ذمے داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں انتہاپسندوں کو کسی نہ کسی حوالے سے رعایت ملتی ہے، ان معاشروں میں قتل وغارت روزمرہ کا معمول ہے۔

برما کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہاں بدھ اکثریت اراکانی مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر کتنا برا سلوک کر رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے، بی جے پی حکومت نے کئی ایسے قانون منظور کیے ہیں، جس کی وجہ سے ہندو انتہاپسند تنظیمیں ماضی کی نسبت آج زیادہ طاقتور ہیں اور وہ اقلیتوں کے خلاف کھل کر جرائم کر رہے ہیں۔ افغانستان میں منگول ہزارہ کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

انتہاپسندی ایک ایسی بیماری ہے، جو ریاست میں انتشار، لڑائی جھگڑے اور ماراماری کے لیے راہ ہموار کر دیتی ہے۔ دہشت گردی اس بیماری کی آخری اسٹیج ہے۔ انتہاپسندی چاہے لسانی ہو، نسلی ہو یا مذہبی، اس کی آخری اسٹیج خون خرابہ ہوتی ہے۔ سارا افریقہ نسلی، قبائلی اور مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو گیا ہے۔

نائجیریا، صومالیہ، سوڈان، یوگنڈا اور دیگر کئی ملک مختلف قسم کی عصبیتوں کی بنیاد پر انتہاپسندی میں مبتلا ہوئے اور آخرکار خانہ جنگی کا شکار ہو کر عالمی طاقتوں کا دسترخوان بن گئے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے انتہاپسندی کی جڑیں کاٹنی پڑیں گی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملک کی سیاسی قیادت کو اپنے گروہی مفادات، موقع پرستی اور ہوس پرستی سے نکل کر جمہوری پاکستان کے لیے عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔

ملک کے تعلیمی نصاب میں غیرمعمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آئینی اور قانونی معاملات کو بھی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے بھی ایسے قوانین بنانے چاہئیں جن سے الیکشن کمیشن کو آئینی قوت فراہم ہو سکے جس کی بنیاد پر وہ فرقہ پرست تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن منسوخ کر سکے۔ جس تنظیم یا سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہو، اس کی قیادت پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ اس قسم کے لوگ کوئی دوسری تنظیم یا پارٹی نہ بنا سکیں۔
Load Next Story