پاکستان اور اس کے عوام لہو لہو ہے

پولیس ڈپارٹمنٹ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہو چکا ہے۔ ادارے اور حکومت ناکام۔ پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟

nasim.anjum27@gmail.com

اصغر سودائی مرحوم کی ایک نظم میرے سامنے ہے، اپنے کلام کے ذریعے انھوں نے پاکستان کا مطلب بے حد موثر انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

ہادی و رہبر سرورِ دیں

صاحب علم و عزم و یقیں

قرآن کی مانند حسیں

احمد مرسل صلی علیٰ

پاکستان کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلا اللہ

شب ظلمت میں گزاری ہے

اٹھ وقت بیداری ہے

جنگ شجاعت جاری ہے

آتش و آہن سے لڑ جا

پاکستان کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلا اللہ

تجھ میں ہے خالد ؓ کا لہو

تجھ میں ہے طارق کی نمو

شیر کے بیٹے شیر ہے تو

شیر بن اور میدان میں آ


پاکستان کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلا اللہ

پنجابی ہو یا افغان

مل جانا شرط ایمان

ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان

ایک رسول اور ایک خدا

پاکستان کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلا اللہ

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ صاحبانِ اختیارات پاکستان کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ یعنی لا الہ الا اللہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ایک مسلمان پہلا کلمہ پڑھ کر ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ کل کائنات کا مالک و مختار وہی رب ہے جس کے آگے ہم پانچ وقت عبدیت کا حق ادا کرتے ہیں۔ حی علی الصلوۃ، حی الفلاح کی صدا پر لبیک کہتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نماز اور فلاح کی طرف بلا رہا ہے، فلاح کیا ہے؟

نیکی اور بھلائی کے کام، انسان کی خدمت اور مخلوق خدا کے کام آنا، ظلم و جبر اور استحصال کے ہاتھوں جیلوں، زمینداروں اور ظالم آقا کی کوٹھڑیوں سے پابند سلاسل مجبور، فاقہ کش، لوگوں کی مدد کرنا، انھیں آزاد کرنا گویا کلمہ طیب ہمیں ایمان کی روشنی سے منور کرنا ہے نیکی کے راستوں پر چلنے کی تاکید کرتا ہے۔ جب کہ کلمے کا دوسرا حصہ اس بات، اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں، جب ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور قرآن پاک آپ ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے، تو پھر اللہ کی اطاعت اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی مسلمان ہونے کی دلیل ہے، نماز وہ عبادت ہے جو کافر اور مومن میں تفریق کرتی ہے، اب اگر صرف نماز ہی پڑھی جائے اور اسلام کی روح کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر اپنے کشکول کو ہیرے، جواہرات، سونے، چاندی غرض ہر ضرورت کی چیزوں سے بھر لیا جائے پھر تو خودکشی ہر روز ہوگی۔ آج کے حالات کے تناظر میں علامہ اقبال کی تقریر کا ایک ایک لفظ موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

علامہ اقبال نے یکم جنوری 1938 کو آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ایک پیغام میں فرمایا:

''دور حاضر میں سائنس کی ترقی بے مثال ترقی پر فخر ہے کہ انسان نے فطرت کے رازوں کو جان لیا ہے اور حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس تمام ترقی کے باوجود ملوکیت کے جبر و استبداد نے جمہوریت، اشتراکیت، فسطائیت اور نہ جانے کتنے نقاب اوڑھ لیے ہیں، ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا ہے، جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے وہ خون ریزی، سفاکی اور زیرِ دست آزادی کے دیوتا ثابت ہوئے، جن حاکموں کا یہ فرض تھا کہ اخلاقِ انسانی کے نوامیس الٰہیہ کی حفاظت کریں، انسان کو انسان پر ظلم کرنے سے روکیں اور انسانیت کی ذہنی اور علمی سطح کو بلند کریں۔

انھوں نے طاقت کے حصول اور اپنے آپ کو سپر بنانے کے لیے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرلیا ہے، ان میں تفرقہ ڈال کر ان کو خوں ریزی اور آپس میں لڑنے جھگڑنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ وہ غلامی کی افیون سے مدہوش اور غافل رہیں۔''

1938 سے 2023 تک کا عرصہ تقریباً 85 سالوں پر محیط ہے، پاکستان اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا اور اپنی 76 ویں سالگرہ منا کر ان بزرگوں میں شامل ہو گیا ہے جو اپنی حکمت، منصوبہ بندی، فہم و فراست، طویل تجربات و مشاہدات، دشمنوں کی بیخ کنی اور دوستوں کی دوستی اور منافقت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی رسی ہے اسے وہ مزید دراز کرنا چاہتے ہیں وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کا بھلا چاہتے ہیں، اس طرح وہ دن بہ دن گمراہی اور جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ملک و قوم کے مفاد سے بے گانہ ہو چکے ہیں۔خاص طور پر نوجوان نسل نے اپنے بھرپور جذبے کا اظہار شور وغل سے کیا'چھوٹے بچے بڑے بڑے باجے لے کر سارا دن گلیوں میں بجاتے رہے ۔گزشتہ دنوں پاکستان کا یوم آزادی دھوم دھام اور جوش و خروش سے منایا گیا لیکن اس وقت رنگ میں بھنگ پڑ گیا جب دل والوں نے عقل و شعور سے بے گانہ، علم سے ناآشنا، جہالت کے اندھیروں میں ڈوب کر خوب فائرنگ کی، 79 وہ افراد جو جشن آزادی منانے آئے تھے اپنے ہی خون میں نہا گئے، اسلحے کے بے دریغ استعمال نے تین افراد کی جان لے لی، یہ قوم نہیں ایک بے ہنگم ہجوم جو اپنی منزل سے ناواقف دوڑا بھاگا چلا جا رہا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں۔

قانون کے رکھوالے اپنی ذمے داریوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں، اب بے چارے شہری تالاب میں، کنوؤں یا سمندر میں ڈوب کر جان گنوائیں یا اپنی شہ رگ کٹوا کر سر راہ لاش کی شکل میں نظر آئیں، ڈکیت ہر روز چند ہزار روپوں کے لیے نوجوانوں کو عالم برزخ میں پہنچا دیں، بے قصور اور محب وطن اور پاکستان کا بھلا چاہنے والوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کردیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، محض تفریح کے لیے فائرنگ کرنے والوں کو سزائے موت دے دی جاتی تو پھر کوئی دوسرا مائی کا لعل اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کی ہمت نہ کرتا۔14 اگست کی رونق دیکھنے، آزادی کے ترانے سننے 25 سالہ بسمہ اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گئی تھی۔

مزار قائد کے عقب میں اندھی گولیوں نے اس کی جوانی کی بہاریں چھین لیں، ان مواقع پر ایمبولینس اور پولیس کی نگرانی ضروری ہوتی ہے، لیکن دونوں سرے سے غائب۔ بے چارہ غم زدہ بھائی خون میں لت پت بہن کو جناح اسپتال لے کر گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کردی، اس کی روح پرواز کر گئی، لیکن سر سے خون بہتا رہا، اتنے بڑے اسپتال میں ڈریسر بھی موجود نہیں تھا، لہٰذا نجی اسپتال سے ڈریسر کو بلا کر ٹانکے لگوائے گئے۔ بسمہ جنت کی راہوں کی مسافر بن گئی، اس کے گھرانے پر کیا گزری یہ دکھ گھر والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

پولیس ڈپارٹمنٹ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہو چکا ہے۔ ادارے اور حکومت ناکام۔ پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ انتقام کی سیاست عروج پر ہے۔ پاکستانیوں کا اپنے ملک میں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، لاکھوں نوجوان مایوسی کے عالم میں دوسرے ممالک کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، مزید جانے کو تیار بیٹھے ہیں اور کوشش میں ہیں کہ جلدی اپنے ملک کو چھوڑیں۔ ڈاکوؤں کا راج ہے، لوگ اس قدر مہنگائی میں نان نفقہ کو ترس گئے ہیں جو تھوڑی بہت جمع پونجی یا قیمتی سامان ہے وہ سرِ راہ، گھروں اور چوراہوں پر چور ڈاکو لے اڑتے ہیں۔ حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن تحفظ نہیں دیتی ہے، اسی وجہ سے عوام اور سلطنت میں دوریاں پیدا ہو چکی ہیں، اس کا تدارک ناگزیر ہے۔
Load Next Story