تخریب کاروں کو انعامات

چلیے باقی سب کچھ تو رہنے دیجیے لیکن عمارت پر خرچ کی گئی رقم تو یقینا معمار کو دینا پڑے گی

barq@email.com

کسی گزشتہ کالم میں ہم نے ایک بات شروع کی تھی مگر بقول سیف دین بیچ میں کسی اوربات نے دم ہلاکر اصل بات کو نختر بود کردیاتھا، اورہم کسی اورطرف نکل گئے، اصل بات ہم یہ کرناچاہتے تھے کہ گزشتہ 76 برس میں ہم نے جو ''سفید ہاتھی''پالے تھے، انھوں نے ہمیں دیا کیا؟خیروہ تو ہم کو معلوم ہے کہ انھوں نے ہمیں ''آئی ایم ایف''دیا ہے جس کے ہوتے ہوئے اب ہمیں کسی بھی چیزکی ضرورت نہیں رہی۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

ہمارے ہاں تو حساب کتاب کرنے کارواج نہیں لیکن پڑوسی ملک میں کبھی کبھی حساب کتاب کی بات ہوجاتی ہے مثلاً انھوں نے یہ حساب لگایاہے کہ انگریز دوسوسال میں جتنا کچھ ہم سے لے گئے تھے، اس سے دگنا ہمارے اپنے پینتیس سال میں لے جاچکے ہیں اوراب تو 76 سال ہوگئے ہیں، اس لیے کہاجاسکتاہے کہ اگر انگریز دوسوسال اوربھی رہتے تو ہمارا اتنا کچھ نہ لے جاپاتے۔

خیرجوکچھ لے جایاگیا وہ تو گیا کہ اس کاکوئی حساب کتاب کہیں بھی درج نہیں ہے لیکن جو کچھ مراعات اورتنخواہوں کی صورت میں ہڑپاگیا اور ہڑپا جارہاہے، اس کے بارے میں تو پتہ لگایا جاسکتاہے کہ کب کب کتنے وزیر رہے، کتنے مشیررہے اور وزیروں مشیروں کے پھر کتنے ''ہمشیر'' رہے اور وہ کیاکیاکچھ لے گئے اور بدلے میں اس بدنصیب ملک کو کیاکیاکچھ دے گئے۔اس حساب کتاب کے لیے تو بہت سے کمپیوٹردرکار ہوں گے اورکم سے کم چالیس مہینوں کاعرصہ بھی درکار ہوگا لیکن اگر ہم انگلیوں پر ذرا کچاکچاحساب بھی کرلیں تو وہ کچھ یوں ہوں۔


انگریزوں کے جانے کے بعد جو بچت اور برکت ہوئی ، پچاسی فی صد عوام کے انڈوں ،اون، کھالوں، دودھ، دہی سے جو کمائی ہوئی، دس پندرہ کروڑ تیل کے کنوئوں سے جو تیل نچوڑا گیا، کشکول کی جو برکات حاصل ہوئیں، ان سب کو اگر اکٹھا جوڑ دیاجائے تو اس رقم سے افریقہ یاصحرائے اعظم یا قطب شمالی وجنوبی میں پاکستان سے تقریباً دگنا رقبہ خریدا بھی جاسکتا اور اسے امریکا اورکینیڈا یا برطانیہ فرانس بنایاجاسکتاتھا کیوں کہ یہ تو ایک دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے محنت کش کسی فرہاد سے کم نہیںصرف تیشے کی مدد سے بھی دودھ کی نہریں نکال سکتے ہیں لیکن یہاں نیاکیا ہے؟ایک بہت بڑا ساکشکول۔

داستان امیر حمزہ کاایک کردار یاد آیا ،معدی کرب ایک پہلوان تھا جو ناشتے میں اکیس سو اونٹ کے بچے تناول کرتاتھا، اس کے لیے جس دیگ میں کھانا بنتا تھا وہ اتنا بڑا تھا کہ دولوہار اگر اس میں کام کررہے ہوتے تو ایک دوسرے کے ہتھوڑے کی آواز نہیں سنتے تھے ، ہماراکشکول بھی الا ماشاء اللہ شاید اس دیگ کا اوپری کنارہ کاٹ کر بنایاگیاہے کہ ایک کونے سے جو کچھ آرہاہوتاہے دوسرے کونے سے تقریباً اس کادگنا جارہاہوتاہے ۔

بات دوسری طرف مڑنے والی ہے ،اس لیے سیدھے سادے الفاظ میں ایک مرتبہ پھر کہنا ہے کہ ان خاندانی سفید ہاتھیوں نے ملک سے اتنا کچھ لیا ہے لیکن بدلے میں دیاکیا ہے ، قرض ، سود، آئی ایم ایف اورکشکول، بے شمار نامکمل منصوبے لاتعداد خسارے والے محکمے اورادارے ، بے پناہ نکھٹو ، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور جرائم اور طرح طرح کے سبزکالے نیلے پیلے اور سرخ باغ۔ اورہاں۔۔۔ ریاست مدینہ ، صادق وامین اور نظام مصطفی۔ اورکیاچاہیے نظر کے لیے۔

مشہورمقنن بادشاہ حمورابی (اکیسویں قبل مسیح) کے قوانین کا جومجموعہ مرتب کیاتھا، اس میں ایک آرٹیکل یہ تھا کہ اگر کوئی معمار یا ٹھیکیدار کوئی مکان یا عمارت تیارکرے اوروہ ناقص نکلے تو اس کا تاوان اس معمار کو دیناپڑے گا، بلکہ اس قانون میں تو اتنی سختی تھی کہ اگر اس مکان کے گرنے کی صورت میں مالک مکان دب کر مرجائے تو معمار کو سزائے موت دی جائے گی، اگر اس کی بیوی مرگئی تو معمار کی بیوی ماری جائے گی اور اگر بال بچے مرگئے تو معمار کے بال بچے مارے جائیں گے ۔

چلیے باقی سب کچھ تو رہنے دیجیے لیکن عمارت پر خرچ کی گئی رقم تو یقینا معمار کو دینا پڑے گی، چنانچہ ہمارے سامنے یہ جو مکان ہے جس کا ایک کونہ بھی درست نہیں، روزانہ اس کے ملبے تلے لوگ مرتے رہتے ہیں اس کاتاوان کس پر واجب الاداہے ؟جب معمار کوئی ''تعمیر'' کرتے ہی نہیں اورہرطرف تخریب ہی تخریب ہو تو۔

لیکن یہاں تخریب کرنے والے معماروں کو انعامات دیے جارہے ہیں۔
Load Next Story