فاطمہ
بہت تیزی سے دھکیلا گیا ہے سندھ کو اندھیروں کی طرف۔ان زمانوں کی طرف جہاں غربت وافلاس کا ڈیرہ ہے
فاطمہ، سندھ کے علاقے رانی پور کے گدی نشین پیروں کی حویلی میں کام کرتی تھی، دس سالہ فاطمہ، غریب دہقان کی بیٹی۔ غریب کسان نے ان پیروں کے جدی پشتی مرید بھی ہیں، اس نے اپنی کمسن بیٹی کو ان کی حویلی میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا۔
غربت کے مارے ہاریوں کے بچے ان پیروں کی حویلیوں میں مشقت کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔انھیں حویلیوں میں کام کرتے کرتے یہ بچے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں۔ ان حویلییوں کے پیر بھی جدی پشتی ہیں اور ان کے مرید بھی۔یہ غلامی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟سندھ کی پچاس سالہ عوامی پارٹی بھی انھیں پیروں اور وڈیروں کی پارٹی ہے۔
اب تک نہ جانے کتنی فاطمائیں ان حویلیوں کے اندر ایسے تشدد نشانہ بنی ہوںگی جن کا پتہ بھی نہ چلا ہوگا،ان کی عصمتیں داغدار ہوئی ہوںگی۔ظلم و تشدد کا نشانہ بنی ہوںگی ، جن کے کمزور اور معصوم ہاتھوں سے مشقت کرائی گئی،مگر ان کی آواز ان حویلیوں کے اندر ہی گھونٹ دی گئی، کئی ایسی بھی ہوںگی جو زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور دنیا سے چلی گئیں اور کسی کو اس کی خبر نہیں ہوئی ۔ایک سرکاری ڈاکٹر کے ذریعے فاطمہ کی لاش کا معائنہ کرایا گیا جس نے فاطمہ کی موت کو فطری قرار دیا۔
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے بھی بچی کی موت کو فطری قرار دیتے ہوئے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ لیکن جب فاطمہ کو غسل دیا تو اس کی ماں نے اس کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے،اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا،اس کے جسم پر جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے مگر وہ چپ رہی کیونکہ آواز اٹھانے سے اس سے بڑی آفت آسکتی ہے لہٰذا فاطمہ کو دفنا دیا گیا۔
مگر اچانک اس کمرے کیCCTV Footage سامنے آتی ہے۔یہ فوٹیج ایک نجی ٹی وی چینل کے ذریعے نشر ہوئی، اس میں دکھایا گیا کہ کس طرح فاطمہ ایک بند کمرے میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہی ہے۔ایک رقت آمیز وڈیو تھی جس نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔نگراں حکومت ہونے کی وجہ سے شاید ان وڈیروں کا اثر ورسوخ بھی کچھ کم تھا۔
عوام کے پریشر پر پولیس نے اس بات کا نوٹس لیا اور کارروائی کی گئی۔ایس ایس پی خیر پور نے اس حویلی کے مالک پیر اسد اللہ شاہ کو گرفتار کیا،سرکاری ڈاکٹر کو بھی گرفتار کیا گیا، جس نے فاطمہ کے والدین کو اس فطری موت کا بتا کر، پوسٹ مارٹم کے بغیر بچی کو دفنانے پر مجبور کیا۔ ایس ایچ او بھی اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے۔اب کورٹ نے بھی فاطمہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت دے دی ہے۔
کمسن بچی کے لرزہ خیز قتل نے ہمارے سندھ کی اصلیت کھول دی ہے،فاطمہ نے اس دنیا سے جاتے جاتے ، بتادیا ہے کہ پورا سندھ پیروں اور وڈیروں کی ایک بند حویلی ہے، جس میں فاطمہ جیسی کہانیاں مدفون ہیں۔آج کے جدید دور میں بھی کہاں بدلا ہے سندھ۔ پیروں اور وڈیروں کی حویلیوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا، ان مریدوں کی عورتوں کے ساتھ ان حویلیوں کے اندر۔ وہ ہی پیری مریدی کے نام پر انسانی غلامی کا نظام، وہ ہی وڈیرے اور ان کے غلام ہاری، وہ ہی بیل گاڑیاں،وہ ہی پرانے اور گھسے پٹے طریقہ پیداوار اور ذرایع پیداوار۔بہتری تو نہیں البتہ مزید بدتری ضرور آئی ہے۔
انگریزوں کے زمانے میں سندھ میں اسکول بھی تھے ، اسپتال بھی اور بہتر نظام ِآبپاشی بھی۔اب نہ اسکول رہے،نہ اسپتال، نہ پینے کا صاف پانی، اور نہ ہی کوئی نظام۔بدترین اری گیشن سسٹم اور پچاس سالوں سے سندھ کے عوام انھی پیروں ، وڈیروں اور شرفاء کو ووٹ دے رہے ہیں، جو پیپلز پارٹی میں شمولیت رکھتے ہیں۔ یہی اشرافیہ ، وڈیرے اور پیر پیپلز پارٹی کی تخلیق ہیں۔ کوئی ٹاٹا اور برلا نہیں اس پارٹی میں۔بلکہ اس معاشرے میں ہی نہیں! ہاںمگر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ پارٹی'' اسٹیٹس کو'' کی پارٹی ہے یعنی جہاں جیسا ہے ویسا ہی رہے۔
کراچی کو مرتضیٰ وہاب جیسا میئر اور باقی ماندہ سندھ کو پیر، گدی نشین اور وڈیرے! جب مڈل کلاس ہی ویسی نہیں تو پھر مرتضیٰ وہاب جیسا لیڈر کیوں؟ان پیروں اور سجادہ نشینوں کو ووٹ دینے والے بھی فاطمہ کے والدین جیسے لوگ ہیں۔تو کیا یہ لوگ دل سے ان وڈیروں اور پیروں کو ووٹ دیتے ہوںگے؟ ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے، فاطمہ کی اماں نے جب دیکھا کہ انصاف اس کے حق میں جاگ پڑا ہے تو اس نے بھی اپنے سلے ہوئے لب کھول دیے۔
فاطمہ کی موت کے بعد اچانک بیداری کی ایک لہر آئی ہے سندھ میں مگر ان میں سے کوئی حیدر بخش جتوئی نہیں جن کا تعلق اور جڑیں سندھ کے غریب لوگوں اور دہقانوں سے جڑی ہوئی ہوں۔اس وقت ہماری سول سوسائٹی ہے یا پھر شہری مڈل کلاس ہے جن کی بیداری اور احتجاج سوشل میڈیا تک محدود ہے ۔ان میں سے کوئی ایسا نہیں جوبلاواسطہ طور پر سندھ کے لوگوں سے جڑا ہوا ہو،جس کا تعلق سندھ کے غریب عوام سے ہو۔ دیر نہ ہو اب پیاس ہے بہت، وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اب کوئی پیاس بجھائے اس کی مگر ہم نے غیر فطری طریقوں سے اپنے سیاسی رویوں کو خراب کیا۔
لوگوں کا اعتبار اور عقیدہ آج بھی ان پیروں ، وڈیروں اور ان کی نمایندہ سیاسی پارٹیوں پر ہے، خصوصاً پیپلز پارٹی پر کیونکہ ان کے مد ِ مقابل کوئی نہیں۔ سندھ کے وڈیرے اورگدی نشین غریبوں کو جیلوں میں ڈلواکر پھر ان کے مسیحا بھی بن جاتے ہیں ،ان کو پولیس سے پٹواتے ہیں اور بعد میں جیلوں سے رہا کراتے ہیں،جو مرید اور دہقان ان کے دربار کے بہتر آداب جان لیتا ہے وہ ان کے قریب رہتا ہے۔اب گاوًں کے اسکولوں کے استاد بھی انھیں کی اوطاق کی زینت ہیں۔
استادوں کی حاضری اسکولوں میں کم اور ان کی اوطاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ان پیروں اور وڈیروں کی اوطاقیں ان کے اقتدار کا محور ہیں۔یہ اپنے علاقوں میں تھانیدار سے لے کر ہر سرکاری ملازم کا تقرر اور تبادلہ اپنی مرضی سے کراتے ہیںاور سندھ کی سب سے طاقتور اور عوامی پارٹی سندھ میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتی۔ہاں! اگر تبدیلی ناگزیر ہے تو وہ تبدیلی دیکھ کر تبدیلی کی طرفداری کرسکتے ہیں بھرم کی خاطر ۔
فاطمہ کی شہادت کے بعد سندھ کے لوگوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے، ایک بیداری کی لہر ہے،پورا سندھ سوگوار ہے ۔پچھلے سال آفت زدہ بارشیں برسیں،مہینوں تک لوگوں کے گھر پانی میں ڈوبے رہے، مٹی کے گھر مسمار ہو گئے۔شمالی سندھ تو اب قبائلی روایتوں کی طرف لوٹ چلا ہے۔ڈاکوئوں نے پورے کے پورے گاوًں تباہ کر دیے ہیں۔ان کا پھیلائو اس قدر ہو چکا ہے کہ اس وقت ان کے خلاف آپریشن میں ہیلی کاپٹرز استعمال ہوئے۔ان ڈاکوئوں کے تانے بانے وزیرستان اور افغانستان کے دہشت گردوں سے جڑتے ہیں جو ان کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں بھی ڈاکوئوں کا ایک بہت بڑا گروہ ہے، ان کا تعلق بھی ان ہی دہشت گردوں سے ہے۔کچھ دن قبل ہی سکھر کے ایک بہت بڑے صحافی اسی جنگ کا شکار ہوئے۔ جیکب آباد ، گھوٹکی اور دیگر علاقوں سے ہندولڑکیوں کے اغواء کی وارداتیں کم نہیں ہوئی ہیں، جبرا مسلمان بنانے کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے۔
بہت تیزی سے دھکیلا گیا ہے سندھ کو اندھیروں کی طرف۔ان زمانوں کی طرف جہاں غربت وافلاس کا ڈیرہ ہے۔ فاطمہ اور اس کی جیسی سیکڑوں بچیوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے سندھ کو۔ اب پیری، مریدی کے نام پر غلامی، وڈیروں اور دہقان والا سندھ نہیں چل سکتا۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیامبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
غربت کے مارے ہاریوں کے بچے ان پیروں کی حویلیوں میں مشقت کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔انھیں حویلیوں میں کام کرتے کرتے یہ بچے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں۔ ان حویلییوں کے پیر بھی جدی پشتی ہیں اور ان کے مرید بھی۔یہ غلامی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟سندھ کی پچاس سالہ عوامی پارٹی بھی انھیں پیروں اور وڈیروں کی پارٹی ہے۔
اب تک نہ جانے کتنی فاطمائیں ان حویلیوں کے اندر ایسے تشدد نشانہ بنی ہوںگی جن کا پتہ بھی نہ چلا ہوگا،ان کی عصمتیں داغدار ہوئی ہوںگی۔ظلم و تشدد کا نشانہ بنی ہوںگی ، جن کے کمزور اور معصوم ہاتھوں سے مشقت کرائی گئی،مگر ان کی آواز ان حویلیوں کے اندر ہی گھونٹ دی گئی، کئی ایسی بھی ہوںگی جو زخموں کی تاب نہ لا سکیں اور دنیا سے چلی گئیں اور کسی کو اس کی خبر نہیں ہوئی ۔ایک سرکاری ڈاکٹر کے ذریعے فاطمہ کی لاش کا معائنہ کرایا گیا جس نے فاطمہ کی موت کو فطری قرار دیا۔
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے بھی بچی کی موت کو فطری قرار دیتے ہوئے کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ لیکن جب فاطمہ کو غسل دیا تو اس کی ماں نے اس کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے،اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا،اس کے جسم پر جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے مگر وہ چپ رہی کیونکہ آواز اٹھانے سے اس سے بڑی آفت آسکتی ہے لہٰذا فاطمہ کو دفنا دیا گیا۔
مگر اچانک اس کمرے کیCCTV Footage سامنے آتی ہے۔یہ فوٹیج ایک نجی ٹی وی چینل کے ذریعے نشر ہوئی، اس میں دکھایا گیا کہ کس طرح فاطمہ ایک بند کمرے میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہی ہے۔ایک رقت آمیز وڈیو تھی جس نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔نگراں حکومت ہونے کی وجہ سے شاید ان وڈیروں کا اثر ورسوخ بھی کچھ کم تھا۔
عوام کے پریشر پر پولیس نے اس بات کا نوٹس لیا اور کارروائی کی گئی۔ایس ایس پی خیر پور نے اس حویلی کے مالک پیر اسد اللہ شاہ کو گرفتار کیا،سرکاری ڈاکٹر کو بھی گرفتار کیا گیا، جس نے فاطمہ کے والدین کو اس فطری موت کا بتا کر، پوسٹ مارٹم کے بغیر بچی کو دفنانے پر مجبور کیا۔ ایس ایچ او بھی اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے۔اب کورٹ نے بھی فاطمہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت دے دی ہے۔
کمسن بچی کے لرزہ خیز قتل نے ہمارے سندھ کی اصلیت کھول دی ہے،فاطمہ نے اس دنیا سے جاتے جاتے ، بتادیا ہے کہ پورا سندھ پیروں اور وڈیروں کی ایک بند حویلی ہے، جس میں فاطمہ جیسی کہانیاں مدفون ہیں۔آج کے جدید دور میں بھی کہاں بدلا ہے سندھ۔ پیروں اور وڈیروں کی حویلیوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا، ان مریدوں کی عورتوں کے ساتھ ان حویلیوں کے اندر۔ وہ ہی پیری مریدی کے نام پر انسانی غلامی کا نظام، وہ ہی وڈیرے اور ان کے غلام ہاری، وہ ہی بیل گاڑیاں،وہ ہی پرانے اور گھسے پٹے طریقہ پیداوار اور ذرایع پیداوار۔بہتری تو نہیں البتہ مزید بدتری ضرور آئی ہے۔
انگریزوں کے زمانے میں سندھ میں اسکول بھی تھے ، اسپتال بھی اور بہتر نظام ِآبپاشی بھی۔اب نہ اسکول رہے،نہ اسپتال، نہ پینے کا صاف پانی، اور نہ ہی کوئی نظام۔بدترین اری گیشن سسٹم اور پچاس سالوں سے سندھ کے عوام انھی پیروں ، وڈیروں اور شرفاء کو ووٹ دے رہے ہیں، جو پیپلز پارٹی میں شمولیت رکھتے ہیں۔ یہی اشرافیہ ، وڈیرے اور پیر پیپلز پارٹی کی تخلیق ہیں۔ کوئی ٹاٹا اور برلا نہیں اس پارٹی میں۔بلکہ اس معاشرے میں ہی نہیں! ہاںمگر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ پارٹی'' اسٹیٹس کو'' کی پارٹی ہے یعنی جہاں جیسا ہے ویسا ہی رہے۔
کراچی کو مرتضیٰ وہاب جیسا میئر اور باقی ماندہ سندھ کو پیر، گدی نشین اور وڈیرے! جب مڈل کلاس ہی ویسی نہیں تو پھر مرتضیٰ وہاب جیسا لیڈر کیوں؟ان پیروں اور سجادہ نشینوں کو ووٹ دینے والے بھی فاطمہ کے والدین جیسے لوگ ہیں۔تو کیا یہ لوگ دل سے ان وڈیروں اور پیروں کو ووٹ دیتے ہوںگے؟ ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے، فاطمہ کی اماں نے جب دیکھا کہ انصاف اس کے حق میں جاگ پڑا ہے تو اس نے بھی اپنے سلے ہوئے لب کھول دیے۔
فاطمہ کی موت کے بعد اچانک بیداری کی ایک لہر آئی ہے سندھ میں مگر ان میں سے کوئی حیدر بخش جتوئی نہیں جن کا تعلق اور جڑیں سندھ کے غریب لوگوں اور دہقانوں سے جڑی ہوئی ہوں۔اس وقت ہماری سول سوسائٹی ہے یا پھر شہری مڈل کلاس ہے جن کی بیداری اور احتجاج سوشل میڈیا تک محدود ہے ۔ان میں سے کوئی ایسا نہیں جوبلاواسطہ طور پر سندھ کے لوگوں سے جڑا ہوا ہو،جس کا تعلق سندھ کے غریب عوام سے ہو۔ دیر نہ ہو اب پیاس ہے بہت، وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اب کوئی پیاس بجھائے اس کی مگر ہم نے غیر فطری طریقوں سے اپنے سیاسی رویوں کو خراب کیا۔
لوگوں کا اعتبار اور عقیدہ آج بھی ان پیروں ، وڈیروں اور ان کی نمایندہ سیاسی پارٹیوں پر ہے، خصوصاً پیپلز پارٹی پر کیونکہ ان کے مد ِ مقابل کوئی نہیں۔ سندھ کے وڈیرے اورگدی نشین غریبوں کو جیلوں میں ڈلواکر پھر ان کے مسیحا بھی بن جاتے ہیں ،ان کو پولیس سے پٹواتے ہیں اور بعد میں جیلوں سے رہا کراتے ہیں،جو مرید اور دہقان ان کے دربار کے بہتر آداب جان لیتا ہے وہ ان کے قریب رہتا ہے۔اب گاوًں کے اسکولوں کے استاد بھی انھیں کی اوطاق کی زینت ہیں۔
استادوں کی حاضری اسکولوں میں کم اور ان کی اوطاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ان پیروں اور وڈیروں کی اوطاقیں ان کے اقتدار کا محور ہیں۔یہ اپنے علاقوں میں تھانیدار سے لے کر ہر سرکاری ملازم کا تقرر اور تبادلہ اپنی مرضی سے کراتے ہیںاور سندھ کی سب سے طاقتور اور عوامی پارٹی سندھ میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتی۔ہاں! اگر تبدیلی ناگزیر ہے تو وہ تبدیلی دیکھ کر تبدیلی کی طرفداری کرسکتے ہیں بھرم کی خاطر ۔
فاطمہ کی شہادت کے بعد سندھ کے لوگوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے، ایک بیداری کی لہر ہے،پورا سندھ سوگوار ہے ۔پچھلے سال آفت زدہ بارشیں برسیں،مہینوں تک لوگوں کے گھر پانی میں ڈوبے رہے، مٹی کے گھر مسمار ہو گئے۔شمالی سندھ تو اب قبائلی روایتوں کی طرف لوٹ چلا ہے۔ڈاکوئوں نے پورے کے پورے گاوًں تباہ کر دیے ہیں۔ان کا پھیلائو اس قدر ہو چکا ہے کہ اس وقت ان کے خلاف آپریشن میں ہیلی کاپٹرز استعمال ہوئے۔ان ڈاکوئوں کے تانے بانے وزیرستان اور افغانستان کے دہشت گردوں سے جڑتے ہیں جو ان کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں بھی ڈاکوئوں کا ایک بہت بڑا گروہ ہے، ان کا تعلق بھی ان ہی دہشت گردوں سے ہے۔کچھ دن قبل ہی سکھر کے ایک بہت بڑے صحافی اسی جنگ کا شکار ہوئے۔ جیکب آباد ، گھوٹکی اور دیگر علاقوں سے ہندولڑکیوں کے اغواء کی وارداتیں کم نہیں ہوئی ہیں، جبرا مسلمان بنانے کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے۔
بہت تیزی سے دھکیلا گیا ہے سندھ کو اندھیروں کی طرف۔ان زمانوں کی طرف جہاں غربت وافلاس کا ڈیرہ ہے۔ فاطمہ اور اس کی جیسی سیکڑوں بچیوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے سندھ کو۔ اب پیری، مریدی کے نام پر غلامی، وڈیروں اور دہقان والا سندھ نہیں چل سکتا۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیامبر کی امت، زلیخا کی بیٹی