معاشی اقتصادی چیلنجز اور نگران حکومت
آئین میں نئی ترامیم کی بدولت موجودہ نگران حکومت معاشی حوالے سے فیصلے بھی کر سکتی ہے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ معاشی چیلنجوں کے باوجود معیشت بحالی کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ معاشرے کے ہر طبقے کے تعاون سے پاکستان کو آگے لے جانا ہے۔
تاجر سے وکلا، کسان سے انجینئر تک اور فنکار سے ڈاکٹر تک معاشرے کا ہر طبقہ پاکستان کے خواب کی تعبیر میں معاونت کر رہا ہے۔ اس متنوع تعاون کے ساتھ ملک کے روشن اور خوش حال مستقبل کے لیے سفر جاری ہے۔
اس وقت نگران حکومت کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں جن میں معیشت کے پہیہ کو رواں رکھنا، آئی ایم ایف کے پروگرام پر کامیابی سے عمل درآمد، بدترین مہنگائی کی روک تھام اور بے روزگاری شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جنرل الیکشن کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر انتخابات کے انعقاد کے انتظامات کرنا شامل ہے۔
ملک کے پاس اب مزید کوئی موقع نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے پہلو تہی کر سکے، اب شواہد موجود ہیں کہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت تمام ریویوز نگران حکومت کے دور ہی میں ہوں گے، جس میں سے پہلا نومبر اور دوسرا فروری میں ہوگا اور ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ اب آیندہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ فروری کی ہی زیر بحث ہے۔
اس وقت ساری قوم کا فوکس معاشی بحالی کی طرف ہوگیا ہے اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ جمہوری معاشرے میں عوام سے رابطہ کرنا ان تک اپنی بات پہنچانا ایک مثبت عمل ہے۔
اس سے عوام کو سیاسی طور پر بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مہنگائی کی شرح بلند ترہے، ڈالرکی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر اوسط مہنگائی30 فی صد پر جا چکی ہے، جو غریب عوام کے لیے ناقابل برداشت سطح ہے، گزشتہ مہینے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کا فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ مطالبہ درست ہے لیکن ایک ارب ڈالر دے کر چار ارب ڈالر امپورٹ کی ادائیگی کرنے کا مطالبہ غیر حقیقی ہے، اگر پاکستان کے پاس اتنے ڈالر ہوتے تو آئی ایم ایف سے کیوں مانگتے؟' نگران معاشی ٹیم اس پر کس طرح قابو پائے گی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے مالی سال کے اختتام پر وفاقی حکومتی اخراجات بجٹ سے تقریباً 18 فیصد زیادہ ہیں۔
آئی ایم ایف کا مسلسل پریشر ہے کہ امپورٹس کھولی جائیں، تو ایسے میں امپورٹ کھولنے سے ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ نگران حکومت کے دوران ایکسچینج ریٹ اور کرنسی مارکیٹ، فری مارکیٹ ہے، اس لیے بھی ڈالر اپنی اصلی قیمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی بھی شرط تھی کہ ڈالر اور روپے کی قیمت کے درمیان شرح مبادلہ کو رکھنا ہوگا۔
بینک ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ ویلیو کے تقریباً 80 فیصد کم شرح سود پر قرض دیتے تھے۔ خبر آ رہی ہے کہ نگران حکومت اسے بھی ختم کر رہی ہے۔
اس سال برآمدات پچھلے سال کی نسبت گری ہیں۔ حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن کاروبار کے لیے مزید مشکلات لائیں گے۔ نئی معاشی ٹیم جانتی ہے کہ ان کے لیے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور وہ ان چیلنجز پر قابو پا سکے گی یا نہیں، یہ آنے والے وقت میں سامنے آجائے گا۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے معاشی حرکیات بہتر ہوجائیں۔
نگران حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے مطابق رکھنا اور سبسڈی نہ دینا آئی ایم ایف معاہدے کا حصہ ہے، اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں ۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو بھی ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے پٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی ہیں، پٹرولیم کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور بجلی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے باعث شرح سود بڑھ جاتی ہے اور ممکنہ طور پر نگران حکومت کو شرح سود بڑھانی پڑ سکتی ہے۔
اس وقت عام پاکستانی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی جب کہ مہنگائی کی شرح میں دگنا سے بھی زائد اضافے کا امکان موجود ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ گزشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب، مہنگائی میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور زرمبادلہ کا بحران ہے۔
اے ڈی بی کی فلیگ شپ اقتصادی رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو سست روی کا شکار ہو کر 0.6 رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ سال چھ فیصد تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت بحالی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ رپورٹ میں معاشی استحکام کی بحالی، اصلاحات کے نفاذ، سیلاب کے بعد کی بحالی اور بیرونی حالات میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2024 میں شرح نمو دو فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس مینوفیکچرنگ ویلیو چین جامع ہے اور اس میں کپاس کی پیداوار سے لے کر اسپننگ، فیبرک مینوفیکچرنگ، رنگنے اور گارمنٹس کی سلائی تک پروسیسنگ کے مختلف مراحل شامل ہیں۔
ان میں چوتھے صنعتی انقلاب کی ٹیکنالوجیز کے لیے مختلف مراحل میں قدر فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا اندازہ ہے کہ موسمی اتار چڑھاؤ سے قطع نظر ٹیکسٹائل مصنوعات قومی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہیں جس میں کپاس کی مصنوعات کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔اس لیے اس سیکٹر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اوسط مہنگائی، مالی سال 2022 میں 12.2 فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال 27.5 فیصد تک دگنی سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ توانائی کی بلند قیمتوں، کمزور کرنسی، سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ، ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں افراط زر 25.4 فیصد تک پہنچ گئی۔
تیل اور گیس کے خالص درآمد کنندہ کی حیثیت سے پاکستان مالی سال 2023 کے باقی ماندہ حصے میں سخت افراط زر کے دباؤ کا سامنا کرتا رہے گا۔ مالیاتی خسارہ تھوڑی سی کمی کے ساتھ 2023 کی جی ڈی پی کے 6.9 فیصد کے مساوی ہونے کا امکان ہے، اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام ٹریک پر رہا تو ممکنہ طور پر خسارہ درمیانی مدت کے دوران کم ہوتا رہے گا کیوں کہ مزید ریونیو حاصل کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ بنانے جیسے اقدامات میں تیزی آئے گی۔
مشکلات کے مقابلے کی صلاحیت اور مضبوط میکرو اکنامک اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ساتھ استحکام کی طرف تیزی سے واپسی پر انحصار کی بدولت، پاکستان تیزی سے واپس آسکتا ہے کیونکہ نگراں حکومت پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
نگران حکومت کے لیے مسائل تو خاصے زیادہ ہیں' تاہم آئین میں نئی ترامیم کی بدولت موجودہ نگران حکومت معاشی حوالے سے فیصلے بھی کر سکتی ہے' اس لیے موجودہ حکومت کا سب سے اولین کام ملک کی معیشت کو متوازن رکھنا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر عام انتخابات کرانا ہے'اس کے علاوہ ملک میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بھی فیصلے کرنے ہوں گے ' پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں موجود انتہا پسندوں کی گرفت کو کمزور کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی بقا کا دارومدار ماڈریٹ طرز حکومت پر ہے۔
اس سلسلے میں نگران حکومت کو دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے' پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا جو کردار ہے ' وہ کسی صورت بھی قابل ستائش نہیں ہے لیکن جمہوری حکومتوں نے بھی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہر سیاسی حکومت نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایسے فیصلے کیے اور قوانین پاس کیے جس کی وجہ سے انتہا پسندی کو مزید مضبوط کیا گیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے منشور میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پروگرام کا اعلان نہیں کیا ' کسی سیاسی جماعت خصوصاً دائیں بازو کی ماڈریٹ سمجھی جانے والی سیاسی قیادت نے بھی انتہا پسندی کے ایشو پر ریشنل اپروچ اختیار نہیں کی'نگران حکومت کو اس حوالے سے جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
تاجر سے وکلا، کسان سے انجینئر تک اور فنکار سے ڈاکٹر تک معاشرے کا ہر طبقہ پاکستان کے خواب کی تعبیر میں معاونت کر رہا ہے۔ اس متنوع تعاون کے ساتھ ملک کے روشن اور خوش حال مستقبل کے لیے سفر جاری ہے۔
اس وقت نگران حکومت کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں جن میں معیشت کے پہیہ کو رواں رکھنا، آئی ایم ایف کے پروگرام پر کامیابی سے عمل درآمد، بدترین مہنگائی کی روک تھام اور بے روزگاری شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جنرل الیکشن کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر انتخابات کے انعقاد کے انتظامات کرنا شامل ہے۔
ملک کے پاس اب مزید کوئی موقع نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے پہلو تہی کر سکے، اب شواہد موجود ہیں کہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت تمام ریویوز نگران حکومت کے دور ہی میں ہوں گے، جس میں سے پہلا نومبر اور دوسرا فروری میں ہوگا اور ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ اب آیندہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ فروری کی ہی زیر بحث ہے۔
اس وقت ساری قوم کا فوکس معاشی بحالی کی طرف ہوگیا ہے اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ جمہوری معاشرے میں عوام سے رابطہ کرنا ان تک اپنی بات پہنچانا ایک مثبت عمل ہے۔
اس سے عوام کو سیاسی طور پر بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مہنگائی کی شرح بلند ترہے، ڈالرکی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر اوسط مہنگائی30 فی صد پر جا چکی ہے، جو غریب عوام کے لیے ناقابل برداشت سطح ہے، گزشتہ مہینے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کا فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ مطالبہ درست ہے لیکن ایک ارب ڈالر دے کر چار ارب ڈالر امپورٹ کی ادائیگی کرنے کا مطالبہ غیر حقیقی ہے، اگر پاکستان کے پاس اتنے ڈالر ہوتے تو آئی ایم ایف سے کیوں مانگتے؟' نگران معاشی ٹیم اس پر کس طرح قابو پائے گی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے مالی سال کے اختتام پر وفاقی حکومتی اخراجات بجٹ سے تقریباً 18 فیصد زیادہ ہیں۔
آئی ایم ایف کا مسلسل پریشر ہے کہ امپورٹس کھولی جائیں، تو ایسے میں امپورٹ کھولنے سے ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ نگران حکومت کے دوران ایکسچینج ریٹ اور کرنسی مارکیٹ، فری مارکیٹ ہے، اس لیے بھی ڈالر اپنی اصلی قیمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی بھی شرط تھی کہ ڈالر اور روپے کی قیمت کے درمیان شرح مبادلہ کو رکھنا ہوگا۔
بینک ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ ویلیو کے تقریباً 80 فیصد کم شرح سود پر قرض دیتے تھے۔ خبر آ رہی ہے کہ نگران حکومت اسے بھی ختم کر رہی ہے۔
اس سال برآمدات پچھلے سال کی نسبت گری ہیں۔ حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن کاروبار کے لیے مزید مشکلات لائیں گے۔ نئی معاشی ٹیم جانتی ہے کہ ان کے لیے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور وہ ان چیلنجز پر قابو پا سکے گی یا نہیں، یہ آنے والے وقت میں سامنے آجائے گا۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے معاشی حرکیات بہتر ہوجائیں۔
نگران حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے مطابق رکھنا اور سبسڈی نہ دینا آئی ایم ایف معاہدے کا حصہ ہے، اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں ۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو بھی ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے پٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی ہیں، پٹرولیم کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور بجلی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے باعث شرح سود بڑھ جاتی ہے اور ممکنہ طور پر نگران حکومت کو شرح سود بڑھانی پڑ سکتی ہے۔
اس وقت عام پاکستانی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی جب کہ مہنگائی کی شرح میں دگنا سے بھی زائد اضافے کا امکان موجود ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ گزشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب، مہنگائی میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور زرمبادلہ کا بحران ہے۔
اے ڈی بی کی فلیگ شپ اقتصادی رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو سست روی کا شکار ہو کر 0.6 رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ سال چھ فیصد تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت بحالی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ رپورٹ میں معاشی استحکام کی بحالی، اصلاحات کے نفاذ، سیلاب کے بعد کی بحالی اور بیرونی حالات میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2024 میں شرح نمو دو فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس مینوفیکچرنگ ویلیو چین جامع ہے اور اس میں کپاس کی پیداوار سے لے کر اسپننگ، فیبرک مینوفیکچرنگ، رنگنے اور گارمنٹس کی سلائی تک پروسیسنگ کے مختلف مراحل شامل ہیں۔
ان میں چوتھے صنعتی انقلاب کی ٹیکنالوجیز کے لیے مختلف مراحل میں قدر فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا اندازہ ہے کہ موسمی اتار چڑھاؤ سے قطع نظر ٹیکسٹائل مصنوعات قومی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہیں جس میں کپاس کی مصنوعات کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔اس لیے اس سیکٹر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اوسط مہنگائی، مالی سال 2022 میں 12.2 فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال 27.5 فیصد تک دگنی سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ توانائی کی بلند قیمتوں، کمزور کرنسی، سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ، ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں افراط زر 25.4 فیصد تک پہنچ گئی۔
تیل اور گیس کے خالص درآمد کنندہ کی حیثیت سے پاکستان مالی سال 2023 کے باقی ماندہ حصے میں سخت افراط زر کے دباؤ کا سامنا کرتا رہے گا۔ مالیاتی خسارہ تھوڑی سی کمی کے ساتھ 2023 کی جی ڈی پی کے 6.9 فیصد کے مساوی ہونے کا امکان ہے، اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام ٹریک پر رہا تو ممکنہ طور پر خسارہ درمیانی مدت کے دوران کم ہوتا رہے گا کیوں کہ مزید ریونیو حاصل کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ بنانے جیسے اقدامات میں تیزی آئے گی۔
مشکلات کے مقابلے کی صلاحیت اور مضبوط میکرو اکنامک اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ساتھ استحکام کی طرف تیزی سے واپسی پر انحصار کی بدولت، پاکستان تیزی سے واپس آسکتا ہے کیونکہ نگراں حکومت پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
نگران حکومت کے لیے مسائل تو خاصے زیادہ ہیں' تاہم آئین میں نئی ترامیم کی بدولت موجودہ نگران حکومت معاشی حوالے سے فیصلے بھی کر سکتی ہے' اس لیے موجودہ حکومت کا سب سے اولین کام ملک کی معیشت کو متوازن رکھنا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر عام انتخابات کرانا ہے'اس کے علاوہ ملک میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بھی فیصلے کرنے ہوں گے ' پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں موجود انتہا پسندوں کی گرفت کو کمزور کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی بقا کا دارومدار ماڈریٹ طرز حکومت پر ہے۔
اس سلسلے میں نگران حکومت کو دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے' پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا جو کردار ہے ' وہ کسی صورت بھی قابل ستائش نہیں ہے لیکن جمہوری حکومتوں نے بھی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہر سیاسی حکومت نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایسے فیصلے کیے اور قوانین پاس کیے جس کی وجہ سے انتہا پسندی کو مزید مضبوط کیا گیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے منشور میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پروگرام کا اعلان نہیں کیا ' کسی سیاسی جماعت خصوصاً دائیں بازو کی ماڈریٹ سمجھی جانے والی سیاسی قیادت نے بھی انتہا پسندی کے ایشو پر ریشنل اپروچ اختیار نہیں کی'نگران حکومت کو اس حوالے سے جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔