الیکشن کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا بدلتا رویہ
سیاست میں ایسی چالیں جائز اور حلال ہوا کرتی ہیں
پاکستان الیکشن کمیشن نے حکومتی فیصلے کے بعد نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کروانے کا جو شیڈول ترتیب دیا ہے، اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں کچھ خدشات اور بے چینی کا اظہارکیا جانے لگا ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل نے جس میں تمام صوبوں کے ارباب اختیارات موجود ہوتے ہیں ابھی حال ہی میں یہ طے کیا تھا کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی ہونگے۔
اس کونسل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی بھر پور نمایندگی موجود تھی، لیکن جب الیکشن کمیشن نے کونسل کے فیصلے کے بعد اپنا پروگرام اناؤنس کیا تو کچھ لوگوں کو الیکشن نوے دنوں میں نہ کروانے پر اعتراضات ہونے لگے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ سرکردہ لیڈران بھی شامل ہیں۔
اس وقت صرف ایک شخص مکمل ذمے داری کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی حمایت کرتا دکھائی دے رہا ہے وہ ہے قمر زمان کائرہ۔ باقی کچھ لوگ جو الیکٹرانک میڈیا پر اکثر سیاسی ٹاک شوز میں اپنے خیالات کا اظہارکیا کرتے ہیں وہ اس فیصلے پراپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہیں۔ پارٹی کی قیادت جس میںآصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو شامل ہیں، اس حوالے سے فی الحال بالکل خاموش ہیں۔
ایسا لگتا ہے انھوں نے اپنی رائے بدلتے حالات کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے محفوظ کر دی ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ابھی کچھ دن پہلے تک آصف علی زرداری یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ آیندہ الیکشن کب ہونگے یہ ہم طے کریں گے، لہٰذا اب اگر الیکشن نوے دنوں میں منعقد نہیں ہو پا رہے ہیں تو کیا یہ قیاس کیا جائے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل ہے۔
ویسے تو الیکشن سے پہلے ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے اورجس طرح چاہے راہ عمل اختیار کرلے، کیونکہ الیکشن جیتنے کی خواہش ہر پارٹی کو ہوا کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی گزشتہ دس سالوں سے مرکز کی حکومت سے دور رہی ہے اور باریوں کے لحاظ سے اب پاکستان پیپلزپارٹی کا ہی حق ہے کہ وہ اسلام آباد میں اپنی حکومت بنا لے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون اپنی اپنی باریاں کھیل چکے ہیں۔ زرداری صاحب اپنے فرزند کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پانچ سال بعد کیا صورت حال ہوتی ہے یہ کسی کو نہیں پتا۔ 16 مہینوں کی عارضی حکومت سنبھال کر شہباز شریف نے اپنی پارٹی کا بہت نقصان کردیا ہے۔ 16 مہینوں میں جو مہنگائی انھوں نے کر دی ہے اس کے بعد عوام اُن کی پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوں گے ۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ کہہ کر مشکل میں ڈال رہے ہیں کہ چالیس سالوں سے وہ اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے انھوں نے یہ بات ازراہ مذاق کی ہے لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے کہ میاں نوازشریف سے زیادہ ہماری اسٹبلشمنٹ کو وہ قابل قبول رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ خوبی ہے کہ اس نے یہ کام کبھی بھی نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ہمیشہ الیکشن جیتنے کی فکر ہوا کرتی ہے ، لیکن وہ اس مقصد کے پورا ہونے کے لیے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کو استعمال نہیں کیا کرتی ہے۔
آصف علی زرداری سیاسی طور پر بہت ہی ذہین اور فطین شخص ہیں، وہ شطرنج کی چالوں کی طرح سیاست کی بساط پر بھی چالیں کھیلتے ہیں۔ کس وقت کسی ایک شخص کو ہٹانا ہے اورکس وقت کسی دوسرے کو عارضی طور پر حکومت میں لانا ہے، یہ کام کوئی اور شخص ایسی تندہی سے نہیں کرسکتا جیسے زرداری کر جاتے ہیں۔
اپریل 2022 میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے خالق اور روح رواں بھی آصف علی زرداری ہی تھے اور پھر اس میں کامیابی کے بعد برباد اور تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کا ٹھیکہ بھی میاں شہباز شریف کے سر تھوپنے کا کارنامہ بھی آصف علی زرداری ہی کا ہے۔ کج شہر دے لوگ وی ظالم سن ۔ کج سانوں مرن دا شوق وی سی کے مصداق شہباز شریف نے بخوشی یہ ذمے داری اپنے ذمے لے لی۔ وہ 16 مہینوں کی وزارت عظمیٰ کے بعد اپنی سیاسی پارٹی کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر گئے ہیں ۔
نئے الیکشن نئی مردم شماری کے تحت کروانے کا اصولی فیصلہ صرف مسلم لیگ نون کا نہیں تھا، بلکہ اس میں پیپلز پارٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکی مرضی ومنشاء شامل تھی لیکن اب اس پر اعتراضات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کو نشانہ بنانا کسی طور درست عمل نہیںہے۔ جب مشترکہ مفادات کونسل میں یہ طے کیا جا چکا تھا تو پھر اسے قبول بھی کرنا چاہیے۔
انکار اگرکرنا تھا تو اسی وقت کردیتے جب یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا، مگر اب سیاسی مقاصد کے لیے پینترا بدلنا، ایک بڑی سیاسی اورجمہوری پارٹی کے شایان شان نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن اس فیصلے میں جس میں پیپلز پارٹی خود بھی شامل رہی ہے یوں اعتراض کرنا ہر گزدرست نہیں ہے۔
الیکشن مہم میں آپ جتناچاہیں اپنے مخالفوں کی پگڑیاں اُچھال لیں، ملک میں بڑھتی مہنگائی کا ذمے دار انھیں قرار دیتے رہیں لیکن جس فیصلے میں آپ خود شامل ہوں اس پر اب اعتراض کرنا درست عمل نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف نے زرداری صاحب کی درخواست پر ہی عنان حکومت سنبھالاتھا، وہ چاہتے تو انکار کرسکتے تھے یا پھر فوراً ہی نئے الیکشن کااعلان بھی کرسکتے تھے لیکن پیپلزپارٹی نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ وہ وقت سے پہلے اپنی صوبائی حکومت قربان کرنے کو تیار نہ تھی۔
ساتھ ہی ساتھ وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ اِن مشکل حالات میں حکومت سنبھالنا اپنی پارٹی کے لیے خود کشی کے مترادف ہوگا، لہٰذا اس نے جوکچھ بھی کیا وہ ملک یا مسلم لیگ نون کی محبت میں نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے کیا۔ سیاست میں ایسی چالیں جائز اور حلال ہوا کرتی ہیں۔
دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ سامنے والا فریق کون ہے، وہ جس کی سیاسی بصیرت اور ذہانت اس قابل بھی ہے کہ وہ زرداری صاحب کی سوچ کو بر وقت بھانپ سکے ۔ میاں شہباز شریف نے ریاست بچانے کے شوق میں ساری پارٹی کی سیاست داؤ پر لگا دی ۔ اب عوام جو بھی فیصلہ کریں اس پر انھیں افسوس نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ اُن کے بقول انھوں نے ریاست بچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا اور وہ یہ سمجھ بھی رہے ہیں کہ انھوں نے عوام پر مہنگائی کے لاتعداد بم گرا کے ریاست کو بچا لیا ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل نے جس میں تمام صوبوں کے ارباب اختیارات موجود ہوتے ہیں ابھی حال ہی میں یہ طے کیا تھا کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہی ہونگے۔
اس کونسل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی بھر پور نمایندگی موجود تھی، لیکن جب الیکشن کمیشن نے کونسل کے فیصلے کے بعد اپنا پروگرام اناؤنس کیا تو کچھ لوگوں کو الیکشن نوے دنوں میں نہ کروانے پر اعتراضات ہونے لگے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ سرکردہ لیڈران بھی شامل ہیں۔
اس وقت صرف ایک شخص مکمل ذمے داری کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی حمایت کرتا دکھائی دے رہا ہے وہ ہے قمر زمان کائرہ۔ باقی کچھ لوگ جو الیکٹرانک میڈیا پر اکثر سیاسی ٹاک شوز میں اپنے خیالات کا اظہارکیا کرتے ہیں وہ اس فیصلے پراپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہیں۔ پارٹی کی قیادت جس میںآصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو شامل ہیں، اس حوالے سے فی الحال بالکل خاموش ہیں۔
ایسا لگتا ہے انھوں نے اپنی رائے بدلتے حالات کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے محفوظ کر دی ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ابھی کچھ دن پہلے تک آصف علی زرداری یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ آیندہ الیکشن کب ہونگے یہ ہم طے کریں گے، لہٰذا اب اگر الیکشن نوے دنوں میں منعقد نہیں ہو پا رہے ہیں تو کیا یہ قیاس کیا جائے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل ہے۔
ویسے تو الیکشن سے پہلے ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے اورجس طرح چاہے راہ عمل اختیار کرلے، کیونکہ الیکشن جیتنے کی خواہش ہر پارٹی کو ہوا کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی گزشتہ دس سالوں سے مرکز کی حکومت سے دور رہی ہے اور باریوں کے لحاظ سے اب پاکستان پیپلزپارٹی کا ہی حق ہے کہ وہ اسلام آباد میں اپنی حکومت بنا لے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون اپنی اپنی باریاں کھیل چکے ہیں۔ زرداری صاحب اپنے فرزند کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پانچ سال بعد کیا صورت حال ہوتی ہے یہ کسی کو نہیں پتا۔ 16 مہینوں کی عارضی حکومت سنبھال کر شہباز شریف نے اپنی پارٹی کا بہت نقصان کردیا ہے۔ 16 مہینوں میں جو مہنگائی انھوں نے کر دی ہے اس کے بعد عوام اُن کی پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوں گے ۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ کہہ کر مشکل میں ڈال رہے ہیں کہ چالیس سالوں سے وہ اسٹبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے انھوں نے یہ بات ازراہ مذاق کی ہے لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے کہ میاں نوازشریف سے زیادہ ہماری اسٹبلشمنٹ کو وہ قابل قبول رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ خوبی ہے کہ اس نے یہ کام کبھی بھی نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ہمیشہ الیکشن جیتنے کی فکر ہوا کرتی ہے ، لیکن وہ اس مقصد کے پورا ہونے کے لیے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کو استعمال نہیں کیا کرتی ہے۔
آصف علی زرداری سیاسی طور پر بہت ہی ذہین اور فطین شخص ہیں، وہ شطرنج کی چالوں کی طرح سیاست کی بساط پر بھی چالیں کھیلتے ہیں۔ کس وقت کسی ایک شخص کو ہٹانا ہے اورکس وقت کسی دوسرے کو عارضی طور پر حکومت میں لانا ہے، یہ کام کوئی اور شخص ایسی تندہی سے نہیں کرسکتا جیسے زرداری کر جاتے ہیں۔
اپریل 2022 میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے خالق اور روح رواں بھی آصف علی زرداری ہی تھے اور پھر اس میں کامیابی کے بعد برباد اور تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کا ٹھیکہ بھی میاں شہباز شریف کے سر تھوپنے کا کارنامہ بھی آصف علی زرداری ہی کا ہے۔ کج شہر دے لوگ وی ظالم سن ۔ کج سانوں مرن دا شوق وی سی کے مصداق شہباز شریف نے بخوشی یہ ذمے داری اپنے ذمے لے لی۔ وہ 16 مہینوں کی وزارت عظمیٰ کے بعد اپنی سیاسی پارٹی کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر گئے ہیں ۔
نئے الیکشن نئی مردم شماری کے تحت کروانے کا اصولی فیصلہ صرف مسلم لیگ نون کا نہیں تھا، بلکہ اس میں پیپلز پارٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکی مرضی ومنشاء شامل تھی لیکن اب اس پر اعتراضات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کو نشانہ بنانا کسی طور درست عمل نہیںہے۔ جب مشترکہ مفادات کونسل میں یہ طے کیا جا چکا تھا تو پھر اسے قبول بھی کرنا چاہیے۔
انکار اگرکرنا تھا تو اسی وقت کردیتے جب یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا، مگر اب سیاسی مقاصد کے لیے پینترا بدلنا، ایک بڑی سیاسی اورجمہوری پارٹی کے شایان شان نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن اس فیصلے میں جس میں پیپلز پارٹی خود بھی شامل رہی ہے یوں اعتراض کرنا ہر گزدرست نہیں ہے۔
الیکشن مہم میں آپ جتناچاہیں اپنے مخالفوں کی پگڑیاں اُچھال لیں، ملک میں بڑھتی مہنگائی کا ذمے دار انھیں قرار دیتے رہیں لیکن جس فیصلے میں آپ خود شامل ہوں اس پر اب اعتراض کرنا درست عمل نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف نے زرداری صاحب کی درخواست پر ہی عنان حکومت سنبھالاتھا، وہ چاہتے تو انکار کرسکتے تھے یا پھر فوراً ہی نئے الیکشن کااعلان بھی کرسکتے تھے لیکن پیپلزپارٹی نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ وہ وقت سے پہلے اپنی صوبائی حکومت قربان کرنے کو تیار نہ تھی۔
ساتھ ہی ساتھ وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ اِن مشکل حالات میں حکومت سنبھالنا اپنی پارٹی کے لیے خود کشی کے مترادف ہوگا، لہٰذا اس نے جوکچھ بھی کیا وہ ملک یا مسلم لیگ نون کی محبت میں نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے کیا۔ سیاست میں ایسی چالیں جائز اور حلال ہوا کرتی ہیں۔
دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ سامنے والا فریق کون ہے، وہ جس کی سیاسی بصیرت اور ذہانت اس قابل بھی ہے کہ وہ زرداری صاحب کی سوچ کو بر وقت بھانپ سکے ۔ میاں شہباز شریف نے ریاست بچانے کے شوق میں ساری پارٹی کی سیاست داؤ پر لگا دی ۔ اب عوام جو بھی فیصلہ کریں اس پر انھیں افسوس نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ اُن کے بقول انھوں نے ریاست بچانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا اور وہ یہ سمجھ بھی رہے ہیں کہ انھوں نے عوام پر مہنگائی کے لاتعداد بم گرا کے ریاست کو بچا لیا ہے۔