پٹرول سستا ہونے کی خوشی
اس سے پہلے بچھلے حکمرانوں نے ملک کو لوٹا اب موجود حکمران لوٹ رہے ہیں۔
کرم نوازش جناب کی ،بہت بہت شکریہ ۔پاکستان کی عوام کیلئے خوشخبری پٹرول 34 پیسے سستا ہوگیا۔ اب پاکستان کی عوام شکر انے کے نوافل ادا کرے کیونکہ حکومت کو بے بس عوام کا خیال آہی گیا ۔پٹرول کو اتنا سستا کردیاکہ اب سائیکلوں والے بھی اس خوشی میں شاید کاریں ہی خرید لیں گے ۔مجھے تو حکمرانوں پر بھی بہت حیرانگی ہوئی کہ اتنا سستا پٹرول توکبھی ہوا نہیں ان حکمرانوں نے اچانک کیسے اتنا سستا پٹرول کردیا؟اف کتنی خوشی کی بات ہے کہ پٹرول 34پیسے سستا ہوگیا۔حکمرانوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔اب لگتا ہے کہ حکمران چٹکی بجاتے اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔
میں اور میرا دوست سلمان ٹی وی پر خبریں سن رہے تھے کہ اچانک خبر آئی کہ پاکستانی عوام کیلئے خوشخبری میں چونک پڑا کہ پتا نہیں کیا خوشخبری ہوگی جب پتا چلا کہ پٹرول 34پیسے سستا ہوگیا تو میں ہنسنے لگ گیا ۔ اور ہسنتے ہوئے ایسی باتیں کرنے لگا۔میرا دوست مجھے ہسنتا دیکھ کر گھورنے لگا جس پر میں نے فورا کہا کہ اس سے تو اچھا تھا کہ اس سے تواچھا تھا کہ پٹرول سستا نہ ہوتا، وہی پرانی قیمت ہی رہتی ۔یہ صرف عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے اور کچھ نہیں ۔ لیکن اس میں حکمرانوں کی غلطی نہیں۔عوام نے شیر کو ووٹ دیا تھا تو شیر بھوکا تو نہیں سوئے گا نا۔ اس نے بھی تو کچھ کھانا ہی ہے نا؟؟
جوابا میرے دوست نے کہا کہ یہ بھی حکمرانوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے 34پیسے سستا کیا ورنہ آج کل جو مہنگائی ہے اس میں تو غریب کو دووقت کی روٹی بھی نہیں ملتی ۔پھر اچانک وہ بولا کہ پٹرول سستا تو ہوگیا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ حکمرانوں نے پٹرول سستا کرکے بجلی کی ریٹ ڈبل کردینا ہے ۔
میں نے کہا کہ ابھی تو تم بڑی تعریف کررہے تھے کہ حکومت نے پیڑول سستا کر کے اچھا کیا۔
وہ کہنے لگاکہ یارمیں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب بھی کوئی چیز سستی ہوتی ہے تو دوسری چیز اس سے بھی ڈبل مہنگی ہوجاتی ہے ۔ پتا نہیں اس بے چارے عوام کا کیا بنے گا؟ یار اس حکومت سے تو اچھی مشرف کی حکومت تھی جس کے دور میں نہ بجلی اتنی جاتی تھی اور نہ ہی مہنگائی تھی۔
اسی طرح ہم دونوں دوستوں میں یہ بات مکالمہ کی شکل اختیار کرگئی اور ہم دونوں پاکستان کے حالات کا جائز ہ لینے لگے ۔
میرا دوست کہنا لگا کہ اس سے پہلے بچھلے حکمرانوں نے ملک کو لوٹا اب موجود حکمران لوٹ رہے ہیں۔
ہماری باتیں چل ہی رہی تھیں کہ ملازم آگیا اورمیرے دوست کو کہا کہ جناب آپکا ایزی لوڈ کروا دیا ہے کیا پہنچ گیا ہے ؟سلمان کہنے لگا کہ چیک کرتاہوں اس نے لوڈ چیک کیا تو اس کے اکاؤنٹ میں صرف75روپے تھے حالانکہ لوڈ 100روپے کا کروایا تھا ۔وہ اچانک غصے سے اٹھااور ملازم کو کہنے لگا کہ آپ نے لوڈ کتنے کا کروایا ہے ملازم بولا صاحب جی 100روپے کا اس نے کہا کہ اتنا کم کیسے آیا، کہیں دوکاندار نے تو کم نہیں کردیا جاکر پتا کرو۔
ٹھیک ہے صاحب جی میں ابھی پتا کرکے آتا ہوں ۔ملازم دوکاندار کے پاس گیا اور دوکاندار سے پوچھ کر آیا اور بتایا کہ صاحب جی لوڈ تو پورا 100روپے کا کیا ہے۔ دوبارہ چیک کریں۔
میرے دوست نے دوبارہ چیک کیا تو لوڈ اور کم ہوگیا۔وہ پھر غصے سے چورچور تھا کہ میں نے اسے بتایا کہ اس نے کوئی پیکج لگوارکھا ہوگا یا پھر ایڈوانس وغیرہ لے رکھا ہوگا ۔تو وہ غصے سے بولا کہ ایک یہ ہمیں نہیں چھوڑتے خود بہ خود پیکج لگادیتے ہیں اور جب لوڈ کرواتے ہیں تو کچھ بھی نہیں آتا۔
پھر میں نے اپنے دوست کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ایک پانی کا گلاس دیا ، پانی پی کر وہ پھر مہنگائی کو کوستے ہوئے کہنے لگا کہ اب یہ پٹرول سستا تو ہوگیا ہے نا تو دیکھنا کچھ دن بعد پھر اس سے ڈبل ریٹ ہوجائیں گے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حکمران ہم سے پہلے ہی انتا ٹیکس وصول کرتے ہیں پھر آئے دن نئے ٹیکس لگا دیتے ہیں آخر یہ تمام ٹیکس جاتے کہاں ہیں؟
میں نے سلمان سے کہا کہ یار میرے پاس تو اس بات کا کائی جواب نہیں۔ پاکستان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔پتانہیں کیا بنے گا ہمارے ملک کا۔ جو کوئی بھی آتا ہے صرف اپنی جیبیں بھرنے کیلئے آتا ہے عوام کی کسی کو فکر نہیں ۔
یہ بات ختم کرتے ہی میں نے اسے کہا کہ یار اب مجھے اجاز ت دو ، جلد کسی نئی خوشخبری کے ساتھ ملاقات ہوگی۔ میں اٹھ کر اپنے دوست کے گھر سے باہر آگیا اور پھر بائیک پیٹرول پمپ کی جانب موڑ لی آخر کار پیٹرول 34 پیسے جو سستا ہوگیا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں اور میرا دوست سلمان ٹی وی پر خبریں سن رہے تھے کہ اچانک خبر آئی کہ پاکستانی عوام کیلئے خوشخبری میں چونک پڑا کہ پتا نہیں کیا خوشخبری ہوگی جب پتا چلا کہ پٹرول 34پیسے سستا ہوگیا تو میں ہنسنے لگ گیا ۔ اور ہسنتے ہوئے ایسی باتیں کرنے لگا۔میرا دوست مجھے ہسنتا دیکھ کر گھورنے لگا جس پر میں نے فورا کہا کہ اس سے تو اچھا تھا کہ اس سے تواچھا تھا کہ پٹرول سستا نہ ہوتا، وہی پرانی قیمت ہی رہتی ۔یہ صرف عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے اور کچھ نہیں ۔ لیکن اس میں حکمرانوں کی غلطی نہیں۔عوام نے شیر کو ووٹ دیا تھا تو شیر بھوکا تو نہیں سوئے گا نا۔ اس نے بھی تو کچھ کھانا ہی ہے نا؟؟
جوابا میرے دوست نے کہا کہ یہ بھی حکمرانوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے 34پیسے سستا کیا ورنہ آج کل جو مہنگائی ہے اس میں تو غریب کو دووقت کی روٹی بھی نہیں ملتی ۔پھر اچانک وہ بولا کہ پٹرول سستا تو ہوگیا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ حکمرانوں نے پٹرول سستا کرکے بجلی کی ریٹ ڈبل کردینا ہے ۔
میں نے کہا کہ ابھی تو تم بڑی تعریف کررہے تھے کہ حکومت نے پیڑول سستا کر کے اچھا کیا۔
وہ کہنے لگاکہ یارمیں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب بھی کوئی چیز سستی ہوتی ہے تو دوسری چیز اس سے بھی ڈبل مہنگی ہوجاتی ہے ۔ پتا نہیں اس بے چارے عوام کا کیا بنے گا؟ یار اس حکومت سے تو اچھی مشرف کی حکومت تھی جس کے دور میں نہ بجلی اتنی جاتی تھی اور نہ ہی مہنگائی تھی۔
اسی طرح ہم دونوں دوستوں میں یہ بات مکالمہ کی شکل اختیار کرگئی اور ہم دونوں پاکستان کے حالات کا جائز ہ لینے لگے ۔
میرا دوست کہنا لگا کہ اس سے پہلے بچھلے حکمرانوں نے ملک کو لوٹا اب موجود حکمران لوٹ رہے ہیں۔
ہماری باتیں چل ہی رہی تھیں کہ ملازم آگیا اورمیرے دوست کو کہا کہ جناب آپکا ایزی لوڈ کروا دیا ہے کیا پہنچ گیا ہے ؟سلمان کہنے لگا کہ چیک کرتاہوں اس نے لوڈ چیک کیا تو اس کے اکاؤنٹ میں صرف75روپے تھے حالانکہ لوڈ 100روپے کا کروایا تھا ۔وہ اچانک غصے سے اٹھااور ملازم کو کہنے لگا کہ آپ نے لوڈ کتنے کا کروایا ہے ملازم بولا صاحب جی 100روپے کا اس نے کہا کہ اتنا کم کیسے آیا، کہیں دوکاندار نے تو کم نہیں کردیا جاکر پتا کرو۔
ٹھیک ہے صاحب جی میں ابھی پتا کرکے آتا ہوں ۔ملازم دوکاندار کے پاس گیا اور دوکاندار سے پوچھ کر آیا اور بتایا کہ صاحب جی لوڈ تو پورا 100روپے کا کیا ہے۔ دوبارہ چیک کریں۔
میرے دوست نے دوبارہ چیک کیا تو لوڈ اور کم ہوگیا۔وہ پھر غصے سے چورچور تھا کہ میں نے اسے بتایا کہ اس نے کوئی پیکج لگوارکھا ہوگا یا پھر ایڈوانس وغیرہ لے رکھا ہوگا ۔تو وہ غصے سے بولا کہ ایک یہ ہمیں نہیں چھوڑتے خود بہ خود پیکج لگادیتے ہیں اور جب لوڈ کرواتے ہیں تو کچھ بھی نہیں آتا۔
پھر میں نے اپنے دوست کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ایک پانی کا گلاس دیا ، پانی پی کر وہ پھر مہنگائی کو کوستے ہوئے کہنے لگا کہ اب یہ پٹرول سستا تو ہوگیا ہے نا تو دیکھنا کچھ دن بعد پھر اس سے ڈبل ریٹ ہوجائیں گے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حکمران ہم سے پہلے ہی انتا ٹیکس وصول کرتے ہیں پھر آئے دن نئے ٹیکس لگا دیتے ہیں آخر یہ تمام ٹیکس جاتے کہاں ہیں؟
میں نے سلمان سے کہا کہ یار میرے پاس تو اس بات کا کائی جواب نہیں۔ پاکستان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔پتانہیں کیا بنے گا ہمارے ملک کا۔ جو کوئی بھی آتا ہے صرف اپنی جیبیں بھرنے کیلئے آتا ہے عوام کی کسی کو فکر نہیں ۔
یہ بات ختم کرتے ہی میں نے اسے کہا کہ یار اب مجھے اجاز ت دو ، جلد کسی نئی خوشخبری کے ساتھ ملاقات ہوگی۔ میں اٹھ کر اپنے دوست کے گھر سے باہر آگیا اور پھر بائیک پیٹرول پمپ کی جانب موڑ لی آخر کار پیٹرول 34 پیسے جو سستا ہوگیا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔