کراچی میں قبر کیلیے پانچ لاکھ روپے تک وصولی کا انکشاف
کراچی کے شہریوں کا مرنا بھی محال ہوگیا ہے اور اپنے لوگوں کیلیے اپنے پیاروں کیلیے قبر تک بھی میسر نہیں ہے
شہر قائد میں مہنگائی کے باعث اب شہریوں کو اپنے پیاروں کی تدفین میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جہاں قبروں کیلیے سرکاری فیس کے ساتھ اضافی پیسے وصول کیے جارہے ہیں۔
کراچی کے شہریوں کا مرنا بھی محال ہوگیا ہے اور اپنے لوگوں کیلیے اپنے پیاروں کیلیے قبر تک بھی میسر نہیں ہے، مہنگائی نے جہاں تمام چیزوں کو متاثر کیا وہاں مرنا بھی مشکل ہو گیا غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کے تدفین کا عمل بھی مشکل اور تکلیف دہ ہوگیا ہے۔
کراچی کے قبرستانوں میں پہلے تو جگہ ہی میسر نہیں اگر مل جائے تو سرکاری فیس کے بجائے اضافی رقم وصول کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے تدفین کا عمل بھی شہریوں کو دشوار ہو گیا ہے کراچی میں مجموعی طور پر 213قبرستان ہے بلد یہ عظمی کراچی کی حدود میں 38قبرستان پے ہرقبرساتوں میں قبر کی الگ الگ قیمتیں ہے بہت سے قبرساتوں پرکچھ عناصر کا قبضہ بھی ہے جہاں قبروں کی من مانی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔
کراچی میں جس طرح مختلف لینڈ کنٹرول ایجنسی ہے اسی طرح قبرستان بھی مختلف لینڈ کنٹرول ایجنسیوں کے پاس ہے، کراچی میں سب سے زیادہ قبرستان بلدیہ عظمی کراچی کے ماتحت ہیں۔
ان قبرستانوں میں عیسی نگری ، سخی حسن ، محمد شاہ ، عظیم پورہ، چکرا گوٹھ، کورنگی ، سوسائٹی ، ماڈل کالونی ، یاسین آباد، میوہ شاہ، پاپوش نگر، لیاقت آباد سمیت متعدد بڑے قبرستان ہے جو کے ایم سی کی حدود میں آ تے ہے تاہم یہاں پر جگہ ختم ہونے کی وجہ سے سالوں سے تدفین پر پابندی عائد ہے۔
کے ایم سی نے نارتھ کر اچی میں شاہ محمد قبرستان بنایا تھا تاہم اب وہ بھی مکمل طور پر بھر چکا ہے، شہر میں قبرستانوں کے فقدان کے سبب اب شہریوں کو پیاروں کے لئے قبر تک بھی میسر نہیں ہے۔
قبرستانوں میں نئے فارمولے کے تحت تدفین ہو رہی ہے اگر کسی عزیز کی قبر وہاں موجود ہے تو اس میں ہی تدفین کی جا رہی ہے لیکن اس کے لئے بھی خطیر رقم وصول کی جا رہی ہے۔
کراچی کے تمام قبرستان مکمل طور پر بھر چکے ہے جہاں اب تدفین کی گنجائش نہیں ہے اس مہنگائی کے دور میں کراچی میں مرنا بھی مشکل ترین مرحلہ ہو گیا قبرستانوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے اس کے لئے کو ئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
کراچی میں اس وقت قبرستان بھی کرپشن گڑھ بن چکا ہے بلدیہ عظمی کر اچی کے قبرستانوں میں قبر کی سرکاری قیمت 14500روپے جبکہ قبرستان کا عملہ 25سے 50ہزار روپے تک وصول کررہا ہے۔
سب سے زیادہ ریٹ سوسائٹی قبرستان میں ہے جہاں ایک سے پانچ لاکھ روپے تک کی قبر فروخت کی جا رہی ہے جبکہ میوہ شاہ اور پاپوش نگر قبرستان مبینہ طور پر مافیاز کے کنٹرول میں ہے جہاں کے ایم سی کا عملہ داخل بھی نہیں ہوسکتا۔
کے ایم سی حکام کے مطابق پاپوش نگر قبرستان میں تو نامعلوم عناصر نے کے ایم سی کے عملے پرفائرنگ بھی کی تھی جبکہ چند سال قبل کر اچی کی بلدیاتی قیادت نے چیف سیکریٹری، ریونیو افسران اور ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ میٹنگ کی تھی اور ہر ضلع میں 1500ایکڑ اراضی یر ضلع میں قبرستان کے لئے مانگی تھی لیکن اس پر صرف ضلع غربی کے ڈپتی کمنشر کی جانب سے 55ایکڑ اراضی قبرستان کے لئے دی گئی تھی لیکن اس پر بھی مبینہ طو رپر لینڈ مافیا نے قبضہ کر لیا۔
کراچی میں کسی قبرستان میں جگہ میسر نہیں ہے اور نا ہی بلدیاتی اداروں ، سندھ حکومت ، یا کسی اور لینڈ کنٹرول ایجنسی نے قبرستانوں کے لئے جگہ مختص کی ہے کر اچی میں کے ایم سی ، انجمنوں ، فلاحی اداروں ، دیگر لینڈ کٹرول ایجنیسوں کے پاس جو قبرستان ہے وہ تمام کے تمام بھر چکے ہیں۔
کر اچی میں یومیہ اس حوالے سے ڈپٹی مئیر سلمان عبداللہ مراد بلوچ نےایکسپریس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ کراچی میں قبرستانوں کا فقدان ہے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ ابھی ہم نے ضلع غربی میں 200ایکڑ اراضی قبرستان کے مختص کر دی ہے اور یہاں تدفین کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اراضی کو محفوظ بنانے کے لئے قبرستان کے اطراف دیوار بنا رہے ہیں جبکہ ملیر میں 50 ایکڑ اراضی کی زمین پر بھی قبرستان بنا دیا گیا۔
انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اس ان مقامات پر تدفین مکمل طو رپر فری ہے یہاں شہریوں سے قبر کے لئے کو ئی رقم نہیں لی جائیں گی جب ان اس سے سوال کیا کہ دیگر قبرستانوں میں سرکاری فیس 14500 روپے جو زیادہ ہے لیکن قبرستان کا عملہ اس رقم سے بھی زیادہ رقم وصول کررہا ہے تو ڈپٹی میئر کراچی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ قبر کے لئے رقم لی جا رہی ہے تو ان کو بتایا گیا ساڑؑھے چودہ ہزار روپے وصول کئے جار ہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ملیر میں قبر کی کوئی قیمت نہیں ہے یہ فری ہے جبکہ جلد ہزاروں ایکڑ مزید اراضی ملیر میں قبرستان کے لئے فراہم کی جائیں گی جبکہ کراچی کے دیگر اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو کہا گیا ہے کہ قبرستاتوں کے لئے اراضی نکالی جائے تاکہ شہریوں کو تدفین کےعمل میں کوئی دشواری کا سامنا نہ ہو۔
واضح ر ہے کر اچی میں یومیہ مجموعی طور 250سے زائد اموات ہو تی ہے، جن کی مختلف قبرستانوں میں تدفین ہو تی ہے دسمبر ، جنوری ، جون اور جولائی میں اعداد وشمار کے مطابق اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس طرح کر اچی میں سینکڑوں لوگ سال کے 365 دن تدفین کے عمل سے گزرتے ہے اور ان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے حکومت سندھ اور بلدیاتی اداروں اوردیگر لینڈ کنٹرول ایجنسیوں کو سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
کراچی کے شہریوں کا مرنا بھی محال ہوگیا ہے اور اپنے لوگوں کیلیے اپنے پیاروں کیلیے قبر تک بھی میسر نہیں ہے، مہنگائی نے جہاں تمام چیزوں کو متاثر کیا وہاں مرنا بھی مشکل ہو گیا غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کے تدفین کا عمل بھی مشکل اور تکلیف دہ ہوگیا ہے۔
کراچی کے قبرستانوں میں پہلے تو جگہ ہی میسر نہیں اگر مل جائے تو سرکاری فیس کے بجائے اضافی رقم وصول کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے تدفین کا عمل بھی شہریوں کو دشوار ہو گیا ہے کراچی میں مجموعی طور پر 213قبرستان ہے بلد یہ عظمی کراچی کی حدود میں 38قبرستان پے ہرقبرساتوں میں قبر کی الگ الگ قیمتیں ہے بہت سے قبرساتوں پرکچھ عناصر کا قبضہ بھی ہے جہاں قبروں کی من مانی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔
کراچی میں جس طرح مختلف لینڈ کنٹرول ایجنسی ہے اسی طرح قبرستان بھی مختلف لینڈ کنٹرول ایجنسیوں کے پاس ہے، کراچی میں سب سے زیادہ قبرستان بلدیہ عظمی کراچی کے ماتحت ہیں۔
ان قبرستانوں میں عیسی نگری ، سخی حسن ، محمد شاہ ، عظیم پورہ، چکرا گوٹھ، کورنگی ، سوسائٹی ، ماڈل کالونی ، یاسین آباد، میوہ شاہ، پاپوش نگر، لیاقت آباد سمیت متعدد بڑے قبرستان ہے جو کے ایم سی کی حدود میں آ تے ہے تاہم یہاں پر جگہ ختم ہونے کی وجہ سے سالوں سے تدفین پر پابندی عائد ہے۔
کے ایم سی نے نارتھ کر اچی میں شاہ محمد قبرستان بنایا تھا تاہم اب وہ بھی مکمل طور پر بھر چکا ہے، شہر میں قبرستانوں کے فقدان کے سبب اب شہریوں کو پیاروں کے لئے قبر تک بھی میسر نہیں ہے۔
قبرستانوں میں نئے فارمولے کے تحت تدفین ہو رہی ہے اگر کسی عزیز کی قبر وہاں موجود ہے تو اس میں ہی تدفین کی جا رہی ہے لیکن اس کے لئے بھی خطیر رقم وصول کی جا رہی ہے۔
کراچی کے تمام قبرستان مکمل طور پر بھر چکے ہے جہاں اب تدفین کی گنجائش نہیں ہے اس مہنگائی کے دور میں کراچی میں مرنا بھی مشکل ترین مرحلہ ہو گیا قبرستانوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے اس کے لئے کو ئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
کراچی میں اس وقت قبرستان بھی کرپشن گڑھ بن چکا ہے بلدیہ عظمی کر اچی کے قبرستانوں میں قبر کی سرکاری قیمت 14500روپے جبکہ قبرستان کا عملہ 25سے 50ہزار روپے تک وصول کررہا ہے۔
سب سے زیادہ ریٹ سوسائٹی قبرستان میں ہے جہاں ایک سے پانچ لاکھ روپے تک کی قبر فروخت کی جا رہی ہے جبکہ میوہ شاہ اور پاپوش نگر قبرستان مبینہ طور پر مافیاز کے کنٹرول میں ہے جہاں کے ایم سی کا عملہ داخل بھی نہیں ہوسکتا۔
کے ایم سی حکام کے مطابق پاپوش نگر قبرستان میں تو نامعلوم عناصر نے کے ایم سی کے عملے پرفائرنگ بھی کی تھی جبکہ چند سال قبل کر اچی کی بلدیاتی قیادت نے چیف سیکریٹری، ریونیو افسران اور ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ میٹنگ کی تھی اور ہر ضلع میں 1500ایکڑ اراضی یر ضلع میں قبرستان کے لئے مانگی تھی لیکن اس پر صرف ضلع غربی کے ڈپتی کمنشر کی جانب سے 55ایکڑ اراضی قبرستان کے لئے دی گئی تھی لیکن اس پر بھی مبینہ طو رپر لینڈ مافیا نے قبضہ کر لیا۔
کراچی میں کسی قبرستان میں جگہ میسر نہیں ہے اور نا ہی بلدیاتی اداروں ، سندھ حکومت ، یا کسی اور لینڈ کنٹرول ایجنسی نے قبرستانوں کے لئے جگہ مختص کی ہے کر اچی میں کے ایم سی ، انجمنوں ، فلاحی اداروں ، دیگر لینڈ کٹرول ایجنیسوں کے پاس جو قبرستان ہے وہ تمام کے تمام بھر چکے ہیں۔
کر اچی میں یومیہ اس حوالے سے ڈپٹی مئیر سلمان عبداللہ مراد بلوچ نےایکسپریس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ کراچی میں قبرستانوں کا فقدان ہے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ ابھی ہم نے ضلع غربی میں 200ایکڑ اراضی قبرستان کے مختص کر دی ہے اور یہاں تدفین کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اراضی کو محفوظ بنانے کے لئے قبرستان کے اطراف دیوار بنا رہے ہیں جبکہ ملیر میں 50 ایکڑ اراضی کی زمین پر بھی قبرستان بنا دیا گیا۔
انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اس ان مقامات پر تدفین مکمل طو رپر فری ہے یہاں شہریوں سے قبر کے لئے کو ئی رقم نہیں لی جائیں گی جب ان اس سے سوال کیا کہ دیگر قبرستانوں میں سرکاری فیس 14500 روپے جو زیادہ ہے لیکن قبرستان کا عملہ اس رقم سے بھی زیادہ رقم وصول کررہا ہے تو ڈپٹی میئر کراچی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ قبر کے لئے رقم لی جا رہی ہے تو ان کو بتایا گیا ساڑؑھے چودہ ہزار روپے وصول کئے جار ہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ملیر میں قبر کی کوئی قیمت نہیں ہے یہ فری ہے جبکہ جلد ہزاروں ایکڑ مزید اراضی ملیر میں قبرستان کے لئے فراہم کی جائیں گی جبکہ کراچی کے دیگر اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو کہا گیا ہے کہ قبرستاتوں کے لئے اراضی نکالی جائے تاکہ شہریوں کو تدفین کےعمل میں کوئی دشواری کا سامنا نہ ہو۔
واضح ر ہے کر اچی میں یومیہ مجموعی طور 250سے زائد اموات ہو تی ہے، جن کی مختلف قبرستانوں میں تدفین ہو تی ہے دسمبر ، جنوری ، جون اور جولائی میں اعداد وشمار کے مطابق اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس طرح کر اچی میں سینکڑوں لوگ سال کے 365 دن تدفین کے عمل سے گزرتے ہے اور ان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے حکومت سندھ اور بلدیاتی اداروں اوردیگر لینڈ کنٹرول ایجنسیوں کو سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔