سلطان خلجی کا پاکستان
اگر ہمارے اہل اقتدار تھوڑی دیر کے لیے فکر اور تدبر کریں، تو انکو مسلسل اقتدار میں رہنے کی ترکیب سمجھ میں آ جائے گی۔
آپ ہمارے ملک کے کسی بھی دور کے صدر، وزیر اعظم، یا وزیر اعلیٰ سے مکالمہ کیجیے۔ ان تمام لوگوں میں ایک معصوم سی خواہش مشترک نظر آئیگی۔ یہ کہ ان کی اپنی ذاتی عمر صرف دو تین سو سال ہو اور ان تمام سالوں میں ان کا اقتدار قائم رہے۔ ان لوگوں کے نزدیک میرٹ کی اصل تعریف صرف یہی ہے کہ ان کا حکم صدیوں چلتا رہے اور ان کے خاندان کو دوام حاصل ہو۔ وہ اس شریفانہ سی خواہش کے لیے ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ سرکاری بابو ان کی اس کمزوری کو پہچان چکے ہیں۔ چنانچہ وہ ان کی درازی عمر کے لیے مختلف معجون، کُشتے اور دوائیاں باہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ وہ اس نیک کام کے سر انجام دینے کی قوم سے اربوں کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آج کے دور میں مشیر باتدبیر بننا کتنا آسان اور سہل ہے۔
چند سال پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک افسر سے شدید ناراض ہو کر اسےO.S.D لگا دیا۔ وہ افسر شائد اُس وقت کسی محکمہ کا صوبائی سیکریٹری تھا۔ وہ دفتر میں ہر وقت وزیر اعلیٰ کے نام کی تسبیح پڑھتا تھا۔ شکایت پر اسے پانچ چھ ماہ O.S.D رہنا پڑا۔ اُس عرصہ میں وہ پنجاب سیکریٹریٹ کے ہر دفتر جاتا تھا اور صوبے کے حاکم کے خلاف جو ذہن اور منہ میں آتا تھا تقریر کی طرح بیان کرتا تھا۔ یہ کام وہ بِلا تعطل سارا دن مسلسل کرتا تھا۔ چھ ماہ کے بعد اسکو دربار سے معافی مل گئی۔ اس دن سے آج تک وہ اپنے حکمران کے لیے مدح سرائی میں مصروف ہے۔ دربار اس پر خوش ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں اپنے چند عزیزوں کے نام پر کاروبار کر کے اب وہ ارب پتی ہو چکا ہے یہ ہے انعام و اکرام کی بارش اور ہمارے سیاسی نظام کے اندر حقیقی میرٹ۔
اگر ہمارے اہل اقتدار تھوڑی دیر کے لیے فکر اور تدبر کریں، تو انکو مسلسل اقتدار میں رہنے کی ترکیب سمجھ میں آ جائے گی۔ مگر اس کے لیے انھیں خوشامد کی دیوار کو سچ کی تلوار سے کاٹنا پڑے گا۔ کوئی بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ عام آدمی کی طرح رہنا شروع کر دے۔ تو بہت تھوڑے عرصے میں اسے ملک کے بے سہارا لوگوں کی تکالیف اور مصائب کا ان کی سطح پر ادراک ہو جائے گا۔ اگر وہ ان مصیبتوں میں سے چالیس فیصد بھی حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہیگا۔ اسے ووٹ مانگنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ ہمارے لوگوں کے مسائل کیا ہیں! روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، کھانے پینے کی چیزوں کا غیر معیاری ہونا، عدم تحفظ کا احساس، فوری انصاف کی عدم دستیابی۔ یہ فہرست نامکمل ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو اکثر مسائل انھیں چار عناصر کے اردگرد گھومتے ہیں۔
علاؤالدین خلجی سلاطین دہلی میںسات سو سال پہلے اس تمام خطہ کا حاکم تھا۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھا۔ مگر اس کا نظام حکومت، اپنے ملک کو غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھنے کی استطاعت اور معاشی کنٹرول بے مثال تھا۔ اُس سے پہلے کسی بادشاہ نے اس مہارت اور ذہانت سے عام لوگوں کے مسائل کا ادراک نہیں کیا تھا۔ ہر بادشاہ کی طرح سلطان بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے مگر اپنی حکومت کو دوام دینے کا جو طریقہ اس نے اپنایا۔ وہ اُس زمانے کے اعتبار سے انتہائی اچھوتا اور کارگر تھا۔ اگر سچ پوچھئے تو اس کا طریقہ حکومت آج کے حکمرانوں کے لیے بھی بہترین سبق ہے۔
سلطان کے زمانے میں منگول فوج ہندوستان پر پے درپہ حملہ کرتی رہتی تھی۔ انکو ہرانا اور شکست دینا انتہائی مشکل تھا۔ منگول، لوگوں کے قتل عام اور لوٹ مار میں خصوصی مہارت کے حامل تھے۔ سلطان نے ان بھیڑیوں کے جتھوں اور لشکروں کو فنا کر کے رکھ دیا۔ آپ یقین فرمائیے، اس کے دور سلطنت میں منگول پیس کر رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ صرف اس لیے کہ سلطان نے عام لوگوں کے لیے بے مثال سہولتیں، مہنگائی کا مکمل خاتمہ اور بیرونی دشمن کے مقابلے کے لیے انتہائی مضبوط فوج ترتیب دی تھی۔
علاؤالدین خلجی سے پہلے دور میں لوگوں کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں حکومتی سطح پر مقرر نہیں تھیں۔ جس تاجر کی جو منشا ہوتی تھی، اسی قیمت پر چیزیں فروخت کرتا تھا۔ اجناس کی ذخیرہ اندوزی عام تھی۔ تاجر یا کاروباری لوگ اشیاء کی قلت خود پیدا کرتے تھے اور اس کے بعد اس کی فروخت میں منہ مانگی قیمت وصول کرتے تھے۔ عام لوگوں کی داد رسی کا کوئی نظام نہیں تھا۔ اس تجارتی لوٹ مار کے سامنے سلطان خلجی سے پہلے اور بعد کے بادشاہ بے بس نظر آتے ہیں۔ مگر اس ذہین سلطان نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اس نے لوگوں کے استعمال کی روز مرہ چیزوں کی سرکاری سطح پر قیمت مقرر کر دی۔ ان قیمتوں کو مقرر کرنے میں تاجر کا جائز منافع بھی ذہن میں رکھا گیا۔ اصل میں اس نے ہر چیز کی قیمت مقرر کر ڈالی۔اس میں غلہ، دالیں،کپڑا،گوشت،مچھلی،پھل،شکر،گنا،سبزیاں،پان،ریشم، جوتے سب کچھ شامل تھا۔ آپ حیرت زدہ رہ جائینگے کہ اس نے سوئی تک کی قیمت مقرر کر دی۔
آپ غلہ اور زرعی اجناس کی طرف نظر دوڑائیے۔ گندم، گھی سے لے کر چاول تک قیمت مقرر کی گئی۔ ان تمام اشیاء کی قیمت ایک سے سات جتل مقرر کی گئی تھی۔ ایک ٹنکہ کا سکہ جو ایک تولہ سونے یا چاندی کے برابر تھا، پچاس جتل کے برابر قرار دیا گیا۔ دو سیر آٹے کی روٹی کی قیمت صرف ایک جتل مقرر کی گئی۔ سلطان کی نظر صرف کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں رہی۔ اس نے کپڑے کو سولہ درجوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ تقسیم ریشمی کپڑوں سے لے کر سوت کے کھردرے کپڑوں تک کا احاطہ کرتی تھی۔ آپ جانوروں کی طرف نظر دوڑائیے۔ اس نے گھوڑوں کی فروخت کے لیے چار درجے بنا دیے۔ بہترین جنگی گھوڑے سے لے کر ادنیٰ نسل کے گھوڑے تمام اس میں شامل تھے۔ گائے اور بھینسوں کی ان کی دودھ دینے کی استطاعت پر درجہ بندی کی گئی۔ گدھے اور خچر تک کی سرکاری قیمت مقرر کی گئی۔
لیکن صرف قیمتیں مقرر کرنا میری نظر میں کوئی کارنامہ نہیں تھا۔ اس نے ایک نظام تشکیل دیا کہ لوگوں کو پورے ملک میں حکومتی مقرر کردہ قیمتوں پر اشیاء دستیاب ہوں۔ اس نے قیمتوں کو مکمل کنٹرول کرنے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ تشکیل دیا۔ اس کا نام "دیوانِ ریاست" رکھا گیا۔ اس کے ماتحت منڈیوں کا ایک بھر پور اور مکمل جال بچھایا گیا جن کو "سرائے عدل" کا نام دیا گیا۔ سلطان کی نظر میں لوگوں کو سستے داموں چیزیں مہیا کرنا انصاف اور عدل کا بلند ترین مظاہرہ تھا۔ ان تمام منڈیوں میں تاجر اپنا سامان لے کر آتے تھے اور لوگوں کو سرکاری قیمت پر فروخت کرنے کے پابند ہوتے تھے۔
سلطان نے اشیاء کو سرکاری سطح پر فروخت کرنا قانوناً لازم قرار دیا تھا۔ زیادہ قیمت پر فروخت کرنے والے کے لیے انتہائی سخت سزا رکھی گئی تھی۔ اس نے منڈیوں پر جج مقرر کر دیے۔ یہ جج انتہائی سخت گیر فیصلے کرتے تھے۔ یہ جج، فیصلے ہماری عدالتوں کی طرح سالوں یا مہینوں میں صادر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ فیصلہ فوری کر دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی تاجر کسی بھی چیز کو کم تولتا تھا یعنی اس کا وزن پورا نہیں ہوتا تھا تو اسکو سزا فوری دی جاتی تھی۔ وہ سزا تھی کہ اس تاجر کے جسم کا اتنا ہی گوشت کاٹ لیا جاتا تھا جتنا اس نے صارف کو اس چیز کے وزن میں کمی دی۔
آج ہم ایک ناقص یوٹیلٹی اسٹور کے نظام کو ٹھیک نہیں کر پا رہے مگر سلطان نے ہر محلہ میں ایک یا دو سرکاری دکانیں کھلوا دی تھیں جس میں ہر چیز مقرر کردہ نرخ پر موجود تھی۔ اس نے سرکاری گوداموں کا نظام بنایا جن میں سرکاری اجناس ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ صرف اس لیے کہ اس کے ملک میں اگر قحط آجائے تو لوگوں کے لیے ہر چیز بہم موجود ہوں۔ سلطان کے چودہ سالہ دور حکومت میں اس کی سلطنت میں ایک بار بھی قحط نہیں آیا۔ سلطان نے ایک اور عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے صارف اور کسان کے درمیان سے "منافع خور" کو ختم کر ڈالا۔ اس اقدام سے لوگوں کو چیزیں اتنی سستی ملنے لگیں کہ باہر کے ملکوں سے لوگوں نے اس کی سلطنت میں ہجرت شروع کر دی۔ سلطان نے قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے کا نظام ترتیب دیا۔ اس نے جاسوسی کے کئی محکمہ بنائے جو اسے منڈیوں کے احوال فوری اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہر دم بتاتے تھے۔
ہر شکایت پر فوری عمل کیا جاتا تھا۔ اول تو کسی میں ہمت ہی نہیں تھی کہ مہنگی اشیاء بیچ سکے۔ اگر کوئی ایسی غلطی کرتا تھا تو اس کی بقیہ تمام زندگی قید خانہ میں گزرتی تھی۔"شاہانِ منڈی" وہ محکمہ تھا جو ہر وقت ہر منڈی پر نظر رکھتا تھا۔ جو تاجر باہر کے ملک سے چیزیں لاتے تھے، انھیں قرضے سے لے کر محفوظ راستے تک، ہر سہولت حکومت کی جانب سے دی جاتی تھی۔ سلطان علاؤالدین خلجی کی موت کے بعد بھی عام لوگ اس کے مزار پر جا کر اپنی مشکلات کم کرنے کی دعا مانگتے ہیں۔ وہ سات سو سال پہلے مرنے کے باوجود آج تک زندہ ہے۔
مجھے اپنے ملک کے حکمرانوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ میں جب سرکاری خرچ پر بلائی گئی خلقت کے سامنے ان کے بلند و بانگ دعوے سنتا ہوں تو ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ ملک کے عام شہری مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب چکے ہیں مگر انھیں زندہ بچانے کے لیے کوئی ملاح موجود نہیں ہے! کم تولنا اور ذخیرہ اندوزی اب ہمارے تجارتی نظام کا ایمان بن چکی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں! اصل اور خالص چیز اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی! لوگ روزمرہ کی اشیاء کی ہوشربا قیمتوں سے بے بس ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں! حکومتی عمال ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ ملکر لوگوں پر زندگی تنگ کر چکے ہیں۔
سات سو سال پہلے ایک اَن پڑھ حاکم نے جو کارنامہ کر ڈالا وہ ہماری آج کی حکومت کے لیے صرف ایک خواب ہو سکتا ہے! کیسی ترقی اور کیسی معیشت! اگر آج سلطان علاؤالدین خلجی دوبارہ زندہ ہو کر الیکشن میں حصہ لے۔ تو محض اپنے کارناموں کی وجہ سے دوبارہ اس ملک کا حاکم بن سکتا ہے۔ شائد اسی طرح لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں۔ مگر مجھے دور دور تک کہیں سلطان نظر نہیں آتا۔ سرکاری درباری ہمارے رہنماؤں کو خوشامد کے قلعہ میں قید کر چکے ہیں۔ انھیں ان جھوٹی فصیلوں سے باہر نکل کر عام آدمی کے مسئلے ہر قیمت پر حل کرنے چاہیے۔ لوگوں کو تو صرف اپنے مصائب ختم ہونے سے غرض ہے۔ عام آدمی کو چاہیے، صرف اور صرف سلطان خلجی کا پاکستان!
چند سال پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک افسر سے شدید ناراض ہو کر اسےO.S.D لگا دیا۔ وہ افسر شائد اُس وقت کسی محکمہ کا صوبائی سیکریٹری تھا۔ وہ دفتر میں ہر وقت وزیر اعلیٰ کے نام کی تسبیح پڑھتا تھا۔ شکایت پر اسے پانچ چھ ماہ O.S.D رہنا پڑا۔ اُس عرصہ میں وہ پنجاب سیکریٹریٹ کے ہر دفتر جاتا تھا اور صوبے کے حاکم کے خلاف جو ذہن اور منہ میں آتا تھا تقریر کی طرح بیان کرتا تھا۔ یہ کام وہ بِلا تعطل سارا دن مسلسل کرتا تھا۔ چھ ماہ کے بعد اسکو دربار سے معافی مل گئی۔ اس دن سے آج تک وہ اپنے حکمران کے لیے مدح سرائی میں مصروف ہے۔ دربار اس پر خوش ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں اپنے چند عزیزوں کے نام پر کاروبار کر کے اب وہ ارب پتی ہو چکا ہے یہ ہے انعام و اکرام کی بارش اور ہمارے سیاسی نظام کے اندر حقیقی میرٹ۔
اگر ہمارے اہل اقتدار تھوڑی دیر کے لیے فکر اور تدبر کریں، تو انکو مسلسل اقتدار میں رہنے کی ترکیب سمجھ میں آ جائے گی۔ مگر اس کے لیے انھیں خوشامد کی دیوار کو سچ کی تلوار سے کاٹنا پڑے گا۔ کوئی بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ عام آدمی کی طرح رہنا شروع کر دے۔ تو بہت تھوڑے عرصے میں اسے ملک کے بے سہارا لوگوں کی تکالیف اور مصائب کا ان کی سطح پر ادراک ہو جائے گا۔ اگر وہ ان مصیبتوں میں سے چالیس فیصد بھی حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہیگا۔ اسے ووٹ مانگنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ ہمارے لوگوں کے مسائل کیا ہیں! روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، کھانے پینے کی چیزوں کا غیر معیاری ہونا، عدم تحفظ کا احساس، فوری انصاف کی عدم دستیابی۔ یہ فہرست نامکمل ہے، لیکن اگر دیکھا جائے تو اکثر مسائل انھیں چار عناصر کے اردگرد گھومتے ہیں۔
علاؤالدین خلجی سلاطین دہلی میںسات سو سال پہلے اس تمام خطہ کا حاکم تھا۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھا۔ مگر اس کا نظام حکومت، اپنے ملک کو غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھنے کی استطاعت اور معاشی کنٹرول بے مثال تھا۔ اُس سے پہلے کسی بادشاہ نے اس مہارت اور ذہانت سے عام لوگوں کے مسائل کا ادراک نہیں کیا تھا۔ ہر بادشاہ کی طرح سلطان بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے مگر اپنی حکومت کو دوام دینے کا جو طریقہ اس نے اپنایا۔ وہ اُس زمانے کے اعتبار سے انتہائی اچھوتا اور کارگر تھا۔ اگر سچ پوچھئے تو اس کا طریقہ حکومت آج کے حکمرانوں کے لیے بھی بہترین سبق ہے۔
سلطان کے زمانے میں منگول فوج ہندوستان پر پے درپہ حملہ کرتی رہتی تھی۔ انکو ہرانا اور شکست دینا انتہائی مشکل تھا۔ منگول، لوگوں کے قتل عام اور لوٹ مار میں خصوصی مہارت کے حامل تھے۔ سلطان نے ان بھیڑیوں کے جتھوں اور لشکروں کو فنا کر کے رکھ دیا۔ آپ یقین فرمائیے، اس کے دور سلطنت میں منگول پیس کر رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ صرف اس لیے کہ سلطان نے عام لوگوں کے لیے بے مثال سہولتیں، مہنگائی کا مکمل خاتمہ اور بیرونی دشمن کے مقابلے کے لیے انتہائی مضبوط فوج ترتیب دی تھی۔
علاؤالدین خلجی سے پہلے دور میں لوگوں کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں حکومتی سطح پر مقرر نہیں تھیں۔ جس تاجر کی جو منشا ہوتی تھی، اسی قیمت پر چیزیں فروخت کرتا تھا۔ اجناس کی ذخیرہ اندوزی عام تھی۔ تاجر یا کاروباری لوگ اشیاء کی قلت خود پیدا کرتے تھے اور اس کے بعد اس کی فروخت میں منہ مانگی قیمت وصول کرتے تھے۔ عام لوگوں کی داد رسی کا کوئی نظام نہیں تھا۔ اس تجارتی لوٹ مار کے سامنے سلطان خلجی سے پہلے اور بعد کے بادشاہ بے بس نظر آتے ہیں۔ مگر اس ذہین سلطان نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اس نے لوگوں کے استعمال کی روز مرہ چیزوں کی سرکاری سطح پر قیمت مقرر کر دی۔ ان قیمتوں کو مقرر کرنے میں تاجر کا جائز منافع بھی ذہن میں رکھا گیا۔ اصل میں اس نے ہر چیز کی قیمت مقرر کر ڈالی۔اس میں غلہ، دالیں،کپڑا،گوشت،مچھلی،پھل،شکر،گنا،سبزیاں،پان،ریشم، جوتے سب کچھ شامل تھا۔ آپ حیرت زدہ رہ جائینگے کہ اس نے سوئی تک کی قیمت مقرر کر دی۔
آپ غلہ اور زرعی اجناس کی طرف نظر دوڑائیے۔ گندم، گھی سے لے کر چاول تک قیمت مقرر کی گئی۔ ان تمام اشیاء کی قیمت ایک سے سات جتل مقرر کی گئی تھی۔ ایک ٹنکہ کا سکہ جو ایک تولہ سونے یا چاندی کے برابر تھا، پچاس جتل کے برابر قرار دیا گیا۔ دو سیر آٹے کی روٹی کی قیمت صرف ایک جتل مقرر کی گئی۔ سلطان کی نظر صرف کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں رہی۔ اس نے کپڑے کو سولہ درجوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ تقسیم ریشمی کپڑوں سے لے کر سوت کے کھردرے کپڑوں تک کا احاطہ کرتی تھی۔ آپ جانوروں کی طرف نظر دوڑائیے۔ اس نے گھوڑوں کی فروخت کے لیے چار درجے بنا دیے۔ بہترین جنگی گھوڑے سے لے کر ادنیٰ نسل کے گھوڑے تمام اس میں شامل تھے۔ گائے اور بھینسوں کی ان کی دودھ دینے کی استطاعت پر درجہ بندی کی گئی۔ گدھے اور خچر تک کی سرکاری قیمت مقرر کی گئی۔
لیکن صرف قیمتیں مقرر کرنا میری نظر میں کوئی کارنامہ نہیں تھا۔ اس نے ایک نظام تشکیل دیا کہ لوگوں کو پورے ملک میں حکومتی مقرر کردہ قیمتوں پر اشیاء دستیاب ہوں۔ اس نے قیمتوں کو مکمل کنٹرول کرنے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ تشکیل دیا۔ اس کا نام "دیوانِ ریاست" رکھا گیا۔ اس کے ماتحت منڈیوں کا ایک بھر پور اور مکمل جال بچھایا گیا جن کو "سرائے عدل" کا نام دیا گیا۔ سلطان کی نظر میں لوگوں کو سستے داموں چیزیں مہیا کرنا انصاف اور عدل کا بلند ترین مظاہرہ تھا۔ ان تمام منڈیوں میں تاجر اپنا سامان لے کر آتے تھے اور لوگوں کو سرکاری قیمت پر فروخت کرنے کے پابند ہوتے تھے۔
سلطان نے اشیاء کو سرکاری سطح پر فروخت کرنا قانوناً لازم قرار دیا تھا۔ زیادہ قیمت پر فروخت کرنے والے کے لیے انتہائی سخت سزا رکھی گئی تھی۔ اس نے منڈیوں پر جج مقرر کر دیے۔ یہ جج انتہائی سخت گیر فیصلے کرتے تھے۔ یہ جج، فیصلے ہماری عدالتوں کی طرح سالوں یا مہینوں میں صادر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ فیصلہ فوری کر دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی تاجر کسی بھی چیز کو کم تولتا تھا یعنی اس کا وزن پورا نہیں ہوتا تھا تو اسکو سزا فوری دی جاتی تھی۔ وہ سزا تھی کہ اس تاجر کے جسم کا اتنا ہی گوشت کاٹ لیا جاتا تھا جتنا اس نے صارف کو اس چیز کے وزن میں کمی دی۔
آج ہم ایک ناقص یوٹیلٹی اسٹور کے نظام کو ٹھیک نہیں کر پا رہے مگر سلطان نے ہر محلہ میں ایک یا دو سرکاری دکانیں کھلوا دی تھیں جس میں ہر چیز مقرر کردہ نرخ پر موجود تھی۔ اس نے سرکاری گوداموں کا نظام بنایا جن میں سرکاری اجناس ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ صرف اس لیے کہ اس کے ملک میں اگر قحط آجائے تو لوگوں کے لیے ہر چیز بہم موجود ہوں۔ سلطان کے چودہ سالہ دور حکومت میں اس کی سلطنت میں ایک بار بھی قحط نہیں آیا۔ سلطان نے ایک اور عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے صارف اور کسان کے درمیان سے "منافع خور" کو ختم کر ڈالا۔ اس اقدام سے لوگوں کو چیزیں اتنی سستی ملنے لگیں کہ باہر کے ملکوں سے لوگوں نے اس کی سلطنت میں ہجرت شروع کر دی۔ سلطان نے قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے کا نظام ترتیب دیا۔ اس نے جاسوسی کے کئی محکمہ بنائے جو اسے منڈیوں کے احوال فوری اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہر دم بتاتے تھے۔
ہر شکایت پر فوری عمل کیا جاتا تھا۔ اول تو کسی میں ہمت ہی نہیں تھی کہ مہنگی اشیاء بیچ سکے۔ اگر کوئی ایسی غلطی کرتا تھا تو اس کی بقیہ تمام زندگی قید خانہ میں گزرتی تھی۔"شاہانِ منڈی" وہ محکمہ تھا جو ہر وقت ہر منڈی پر نظر رکھتا تھا۔ جو تاجر باہر کے ملک سے چیزیں لاتے تھے، انھیں قرضے سے لے کر محفوظ راستے تک، ہر سہولت حکومت کی جانب سے دی جاتی تھی۔ سلطان علاؤالدین خلجی کی موت کے بعد بھی عام لوگ اس کے مزار پر جا کر اپنی مشکلات کم کرنے کی دعا مانگتے ہیں۔ وہ سات سو سال پہلے مرنے کے باوجود آج تک زندہ ہے۔
مجھے اپنے ملک کے حکمرانوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ میں جب سرکاری خرچ پر بلائی گئی خلقت کے سامنے ان کے بلند و بانگ دعوے سنتا ہوں تو ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ ملک کے عام شہری مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب چکے ہیں مگر انھیں زندہ بچانے کے لیے کوئی ملاح موجود نہیں ہے! کم تولنا اور ذخیرہ اندوزی اب ہمارے تجارتی نظام کا ایمان بن چکی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں! اصل اور خالص چیز اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی! لوگ روزمرہ کی اشیاء کی ہوشربا قیمتوں سے بے بس ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں! حکومتی عمال ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ ملکر لوگوں پر زندگی تنگ کر چکے ہیں۔
سات سو سال پہلے ایک اَن پڑھ حاکم نے جو کارنامہ کر ڈالا وہ ہماری آج کی حکومت کے لیے صرف ایک خواب ہو سکتا ہے! کیسی ترقی اور کیسی معیشت! اگر آج سلطان علاؤالدین خلجی دوبارہ زندہ ہو کر الیکشن میں حصہ لے۔ تو محض اپنے کارناموں کی وجہ سے دوبارہ اس ملک کا حاکم بن سکتا ہے۔ شائد اسی طرح لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں۔ مگر مجھے دور دور تک کہیں سلطان نظر نہیں آتا۔ سرکاری درباری ہمارے رہنماؤں کو خوشامد کے قلعہ میں قید کر چکے ہیں۔ انھیں ان جھوٹی فصیلوں سے باہر نکل کر عام آدمی کے مسئلے ہر قیمت پر حل کرنے چاہیے۔ لوگوں کو تو صرف اپنے مصائب ختم ہونے سے غرض ہے۔ عام آدمی کو چاہیے، صرف اور صرف سلطان خلجی کا پاکستان!