فٹبالر عبدالجبار اورکیپٹن عباس کی یادیں
کیپٹن عباس نے ایس ایم لیاری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان نجی سطح پر پاس کیا ۔۔۔
1976 میں امریکی کلب ٹورناڈو کے خلاف اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز کرنے والے کیپٹن عبدالجبار 69 برس کی عمر میں 25 مارچ کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
عبدالجبار لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین میں 1945 میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے فٹبال کھیل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور بجلی اسپورٹس کلب سے اپنے فٹبال کریئر کا آغاز کیا۔ کیپٹن سادھو نے انھیں پاک پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت پروفیشنل کھلاڑی کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ خداداد صلاحیتوں کی بدولت جلد ہی کراچی کی ٹیم کا حصہ بنے اور ڈھاکا میں پروفیشنل لیگ کھیلنے کی پیشکش کے سبب ڈھاکا وانڈرز سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں ڈھاکا محمڈن، وکٹوریہ اور ای پی آئی ڈی سی کلب کے لیے بھی کھیلتے رہے۔
1967 میں جب امریکی کلب ٹورناڈو نے پاکستان کا دورہ کیا تو پاکستان الیون میں عبدالجبار کو پہلی بار منتخب کیا گیا۔ لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان الیون کو دو، صفر سے شکست ہوگئی تاہم ڈھاکا میں چار، ایک کی کامیابی کے ساتھ سیریز برابر رہی۔ عبدالجبار کی شاندار کارکردگی نے سلیکٹرز کو مجبور کیا کہ وہ انھیں چوتھے ایشین کپ رنگون 1967 میں قومی ٹیم میں شامل کریں۔ انٹرنیشنل فٹبالر تراب علی (جن کا تعلق لیاری سے تھا) کی قیادت میں عبدالجبار نے اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز کیا۔ اسی سال وہ آرسی ڈی ٹورنامنٹ میں بھی قومی ٹیم کا حصہ بنے جس نے ڈھاکا اور کے ایم سی اسٹیڈیم کراچی میں دوستانہ سیریز کھیلی۔ 1968 میں رشین کلب کے خلاف بھی کھیلے۔ 1969 میں رشین سینٹرل آرمی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو عبدالجبار قومی ٹیم میں موجود تھے۔
اسی سال انٹرنیشنل کپ تہران میں محمد یونس رانا کی قیادت میں ایران گئے۔ 1969 میں جب قومی ٹیم نے روس کا دورہ کیا تو مراد بخش مکوا کی قیادت میں عبدالجبار قومی ٹیم کا حصہ تھے۔اسی سال آر سی ڈی چیمپئن شپ انقرہ میں ازمیر (ترکی) کے کلب نے انھیں کھیلنے کی دعوت دی اور وہ مولا بخش گوٹائی کے بعد دوسرے فٹبالر بنے جس نے ترکی میں پروفیشنل لیگ کھیلی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد عبدالجبار نے پی آئی اے جوائن کرلی اور کھیل سے ریٹائرمنٹ تک پی آئی اے کے لیے کھیلتے رہے۔
ابھی عبدالجبار کا کفن میلا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کے مایہ ناز فٹبالر غلام عباس المعروف کیپٹن عباس 4 اپریل کو وفات پاگئے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے پاکستان کی فٹبال دنیا کو صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ کیپٹن عباس نے اکتوبر 1942 میں سیفی لین بغدادی لیاری میں واقع ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور جب کھیلنے کودنے کے قابل ہوا تو علاقے کے دیگر بچوں کی طرح وہ بھی فٹبال کھیلنے لگا، اس وقت کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ بچہ نوجوانی ہی میں فٹبال کی دنیا میں ملک و قوم کے لیے باعث فخر ہوگا۔
کیپٹن عباس نے ایس ایم لیاری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان نجی سطح پر پاس کیا جب کہ ایس ایم کالج سے انٹر، اردو کالج سے بی اے، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لیاری کی تنگ و تاریک گلیوں میں فٹبال کھیلنے والے غلام عباس نے بہت جلد اپنی منفرد کارکردگی کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر کھیلنا شروع کیا تو دنیا حیران رہ گئی۔ برصغیر میں اس جیسے کھلاڑی کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔ فٹبالر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد غلام عباس ''پاکستان فٹ بال فیڈریشن'' کے سیکریٹری رہے۔ علاوہ ازیں وہ سندھ فٹ بال ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے صدر بھی رہ چکے تھے، مرحوم یونین کونسل بغدادی کے ناظم بھی رہے ہیں۔
مارچ 2008 کو میں نے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ غلام عباس کی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
غلام عباس: ''اردگرد فٹبال کے کھلاڑی تھے، بڑے بھائی فٹبال کھیل کے گول کیپر اور چھوٹے بھائی غلام علی اچھے فٹبالر تھے اس لیے شوق قدرتی امر تھا۔
ابتدا اور بعد میں بلوچ الیون، گل محمد لین، سیفی لین کلب، نثار اسپورٹس کلب، پاکستان ٹوبیکو کمپنی، کے پی ٹی، پی آئی اے اور ایسٹ پاکستان میں ڈھاکا محمڈن کے لیے کھیل چکا ہوں۔ 1961 سے 1964 تک قومی ٹیم میں کھیلا ہے، ایران، انڈیا، چین اور سنگاپور میں پاکستان کی نمایندگی کرچکا ہوں، اس کے علاوہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے فرانس، کوریا، سوئٹزرلینڈ، نیپال، سری لنکا، قطر، دبئی، مسقط، یو اے ای، سعودی عرب اور ہانگ کانگ کے دورے کر چکا ہوں۔ یوسف سینئر، غفور، محمد عمر، عبداللہ راہی اور حسین کلر بہترین کھلاڑی اور اچھے ساتھی رہے ہیں۔ ماضی میں لیاری نے بہت بہترین کھلاڑی پیدا کیے تھے، یہاں میں دانستہ طور پر کسی نام کا حوالہ دینا نہیں چاہتا سہواً کسی کا نام رہ جانے سے کسی کی دل شکنی ہوسکتی ہے، جس کسی نے بھی کھیلا، اچھا کھیلا اور خوب داد پائی۔
لیاری کے لوگ اور فٹ بال کا کھیل ایک دوسرے کے لیے لازم، ملزوم ہیں، شائقین اچھے کھلاڑیوں کو داد و تحسین پیش کرتے ہیں اور کمزور کھیلنے والوں کی ہمت باندھتے ہیں۔ حال ہی میں انڈر 14 کی ٹیم میں لیاری سے وابستہ 8 کھلاڑی شامل تھے۔ اس ٹورنامنٹ میں ملیر کا کھلاڑی نمبر ون آیا اور یہی ٹیم ساہیوال میں ونر رہی ہے۔
اگرچہ معروضی حالات کی وجہ سے فٹ بال کا کھیل لیاری میں متاثر ہوا ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں، امید کی شمع دلوں میں روشن ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ایک مرتبہ پھر لیاری میں فٹبال کا کھیل عروج پر ہوگا۔
ایران کے شہر تہران میں کھیل کے دوران ایک یادگار گول کیا تھا۔ اس کے علاوہ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکا سے دور بانگ کے مقام پر میچ کے لیے ایک دن پہلے پہنچنا تھا کسی وجہ سے رات کو نا جاسکے صبح روانہ ہوئے تو لانچ ہمارے پہنچنے سے پہلے روانہ ہوچکی تھی، لہٰذا ہم ایک ہوڑے (چھوٹی کشتی) میں سوار ہوکر روانہ ہوئے، راستے میں تیز بارش شروع ہوگئی، اندھیرا چھا گیا، راستہ بھٹک گئے، بڑی مشکل سے بانگ کی جیٹی پر پہنچ پائے، جہاں سے خشکی کا سفر بذریعہ ٹیکسی ایک گھنٹے کا تھا، لیکن بارش ہونے کی وجہ سے راستہ خراب ہوچکا تھا، اس لیے کلب والوں نے جہاں میچ کھیلنا تھا، وہاں سے ایک جیپ روانہ کی، ہم اس پر سوار ہوئے بڑی مشکل سے گراؤنڈ تک پہنچ پائے، لیکن اس وقت تک میچ ختم ہوچکا تھا، اس طرح ہم یہ میچ کھیل نہ سکے''۔
اس انٹرویو میں کیپٹن عباس نے لیاری کے نوجوان فٹبالروں کے لیے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ : '' محنت و لگن اور سینئرز کا احترام کامیابی کی دلیل ہے''۔ آج یہ عظیم فٹبالر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا شاندار کھیل آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ، تابندہ ہے۔
عبدالجبار لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین میں 1945 میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے فٹبال کھیل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور بجلی اسپورٹس کلب سے اپنے فٹبال کریئر کا آغاز کیا۔ کیپٹن سادھو نے انھیں پاک پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت پروفیشنل کھلاڑی کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ خداداد صلاحیتوں کی بدولت جلد ہی کراچی کی ٹیم کا حصہ بنے اور ڈھاکا میں پروفیشنل لیگ کھیلنے کی پیشکش کے سبب ڈھاکا وانڈرز سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں ڈھاکا محمڈن، وکٹوریہ اور ای پی آئی ڈی سی کلب کے لیے بھی کھیلتے رہے۔
1967 میں جب امریکی کلب ٹورناڈو نے پاکستان کا دورہ کیا تو پاکستان الیون میں عبدالجبار کو پہلی بار منتخب کیا گیا۔ لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان الیون کو دو، صفر سے شکست ہوگئی تاہم ڈھاکا میں چار، ایک کی کامیابی کے ساتھ سیریز برابر رہی۔ عبدالجبار کی شاندار کارکردگی نے سلیکٹرز کو مجبور کیا کہ وہ انھیں چوتھے ایشین کپ رنگون 1967 میں قومی ٹیم میں شامل کریں۔ انٹرنیشنل فٹبالر تراب علی (جن کا تعلق لیاری سے تھا) کی قیادت میں عبدالجبار نے اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز کیا۔ اسی سال وہ آرسی ڈی ٹورنامنٹ میں بھی قومی ٹیم کا حصہ بنے جس نے ڈھاکا اور کے ایم سی اسٹیڈیم کراچی میں دوستانہ سیریز کھیلی۔ 1968 میں رشین کلب کے خلاف بھی کھیلے۔ 1969 میں رشین سینٹرل آرمی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو عبدالجبار قومی ٹیم میں موجود تھے۔
اسی سال انٹرنیشنل کپ تہران میں محمد یونس رانا کی قیادت میں ایران گئے۔ 1969 میں جب قومی ٹیم نے روس کا دورہ کیا تو مراد بخش مکوا کی قیادت میں عبدالجبار قومی ٹیم کا حصہ تھے۔اسی سال آر سی ڈی چیمپئن شپ انقرہ میں ازمیر (ترکی) کے کلب نے انھیں کھیلنے کی دعوت دی اور وہ مولا بخش گوٹائی کے بعد دوسرے فٹبالر بنے جس نے ترکی میں پروفیشنل لیگ کھیلی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد عبدالجبار نے پی آئی اے جوائن کرلی اور کھیل سے ریٹائرمنٹ تک پی آئی اے کے لیے کھیلتے رہے۔
ابھی عبدالجبار کا کفن میلا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کے مایہ ناز فٹبالر غلام عباس المعروف کیپٹن عباس 4 اپریل کو وفات پاگئے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے پاکستان کی فٹبال دنیا کو صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ کیپٹن عباس نے اکتوبر 1942 میں سیفی لین بغدادی لیاری میں واقع ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور جب کھیلنے کودنے کے قابل ہوا تو علاقے کے دیگر بچوں کی طرح وہ بھی فٹبال کھیلنے لگا، اس وقت کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ بچہ نوجوانی ہی میں فٹبال کی دنیا میں ملک و قوم کے لیے باعث فخر ہوگا۔
کیپٹن عباس نے ایس ایم لیاری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان نجی سطح پر پاس کیا جب کہ ایس ایم کالج سے انٹر، اردو کالج سے بی اے، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لیاری کی تنگ و تاریک گلیوں میں فٹبال کھیلنے والے غلام عباس نے بہت جلد اپنی منفرد کارکردگی کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر کھیلنا شروع کیا تو دنیا حیران رہ گئی۔ برصغیر میں اس جیسے کھلاڑی کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔ فٹبالر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد غلام عباس ''پاکستان فٹ بال فیڈریشن'' کے سیکریٹری رہے۔ علاوہ ازیں وہ سندھ فٹ بال ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے صدر بھی رہ چکے تھے، مرحوم یونین کونسل بغدادی کے ناظم بھی رہے ہیں۔
مارچ 2008 کو میں نے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ غلام عباس کی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
غلام عباس: ''اردگرد فٹبال کے کھلاڑی تھے، بڑے بھائی فٹبال کھیل کے گول کیپر اور چھوٹے بھائی غلام علی اچھے فٹبالر تھے اس لیے شوق قدرتی امر تھا۔
ابتدا اور بعد میں بلوچ الیون، گل محمد لین، سیفی لین کلب، نثار اسپورٹس کلب، پاکستان ٹوبیکو کمپنی، کے پی ٹی، پی آئی اے اور ایسٹ پاکستان میں ڈھاکا محمڈن کے لیے کھیل چکا ہوں۔ 1961 سے 1964 تک قومی ٹیم میں کھیلا ہے، ایران، انڈیا، چین اور سنگاپور میں پاکستان کی نمایندگی کرچکا ہوں، اس کے علاوہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے فرانس، کوریا، سوئٹزرلینڈ، نیپال، سری لنکا، قطر، دبئی، مسقط، یو اے ای، سعودی عرب اور ہانگ کانگ کے دورے کر چکا ہوں۔ یوسف سینئر، غفور، محمد عمر، عبداللہ راہی اور حسین کلر بہترین کھلاڑی اور اچھے ساتھی رہے ہیں۔ ماضی میں لیاری نے بہت بہترین کھلاڑی پیدا کیے تھے، یہاں میں دانستہ طور پر کسی نام کا حوالہ دینا نہیں چاہتا سہواً کسی کا نام رہ جانے سے کسی کی دل شکنی ہوسکتی ہے، جس کسی نے بھی کھیلا، اچھا کھیلا اور خوب داد پائی۔
لیاری کے لوگ اور فٹ بال کا کھیل ایک دوسرے کے لیے لازم، ملزوم ہیں، شائقین اچھے کھلاڑیوں کو داد و تحسین پیش کرتے ہیں اور کمزور کھیلنے والوں کی ہمت باندھتے ہیں۔ حال ہی میں انڈر 14 کی ٹیم میں لیاری سے وابستہ 8 کھلاڑی شامل تھے۔ اس ٹورنامنٹ میں ملیر کا کھلاڑی نمبر ون آیا اور یہی ٹیم ساہیوال میں ونر رہی ہے۔
اگرچہ معروضی حالات کی وجہ سے فٹ بال کا کھیل لیاری میں متاثر ہوا ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں، امید کی شمع دلوں میں روشن ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ایک مرتبہ پھر لیاری میں فٹبال کا کھیل عروج پر ہوگا۔
ایران کے شہر تہران میں کھیل کے دوران ایک یادگار گول کیا تھا۔ اس کے علاوہ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکا سے دور بانگ کے مقام پر میچ کے لیے ایک دن پہلے پہنچنا تھا کسی وجہ سے رات کو نا جاسکے صبح روانہ ہوئے تو لانچ ہمارے پہنچنے سے پہلے روانہ ہوچکی تھی، لہٰذا ہم ایک ہوڑے (چھوٹی کشتی) میں سوار ہوکر روانہ ہوئے، راستے میں تیز بارش شروع ہوگئی، اندھیرا چھا گیا، راستہ بھٹک گئے، بڑی مشکل سے بانگ کی جیٹی پر پہنچ پائے، جہاں سے خشکی کا سفر بذریعہ ٹیکسی ایک گھنٹے کا تھا، لیکن بارش ہونے کی وجہ سے راستہ خراب ہوچکا تھا، اس لیے کلب والوں نے جہاں میچ کھیلنا تھا، وہاں سے ایک جیپ روانہ کی، ہم اس پر سوار ہوئے بڑی مشکل سے گراؤنڈ تک پہنچ پائے، لیکن اس وقت تک میچ ختم ہوچکا تھا، اس طرح ہم یہ میچ کھیل نہ سکے''۔
اس انٹرویو میں کیپٹن عباس نے لیاری کے نوجوان فٹبالروں کے لیے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ : '' محنت و لگن اور سینئرز کا احترام کامیابی کی دلیل ہے''۔ آج یہ عظیم فٹبالر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا شاندار کھیل آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ، تابندہ ہے۔