ٹرانسپلانٹ اور پاکستانی سرمائے کی منتقلی
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم وہ قوم ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔۔۔
ISLAMABAD:
سر اُٹھا کے چلوں کہ سر جھکا کے جیوں... پاکستان میں اعضا ء ناکارہ ہوجانے کی صورت میں عوام میں آگہی نہ ہونے کے سبب ہر سال ڈیڑھ لاکھ(1,50,000) افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہو جاتے ہیں، جب کہ گردے کے ٹرانسپلانٹیشن نے اُمید کی ایک راہ کھول دی ہے ۔ ایک مستند ادارے میں قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اب تک پانچ ہزار مریضوں کے بالکل مفت ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں جو غریب اور متوسط عوام کے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ اس خدمت کے صلے میں مریض بونس میں مل جانے والی زندگی کے سبب نارمل طریقے سے اپنی اور اپنے خاندان کی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہیں۔ اس احسن عمل سے ٹرانسپلانٹ کے لیے باہر کے ملکوں میں جانے سے جو سرمایہ بیرون ملک جا رہا تھا اسے کافی حد تک روک لگی اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے۔
لیکن دوسری طرف ہیپاٹائٹس جیسے مہلک مرض میں مبتلا افراد کا پاکستان میں جگر کے ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 50ہزار افراد زندگی سے محروم ہورہے ہیں یا دوسری صورت میں بیرون ملک اورخصوصی طور پر ہندوستان جا کرجہاں نہ صرف جگر بلکہ بدن کے دوسرے اعضاء کے بھی کامیابی سے ٹرانسپلانٹ ہو رہے ہیں اور ہم باوجود مستند اداروں و مایہ ناز ماہرین کی موجودگی کے ٹرانسپلانٹ کے میدان کو سَر کرنے کے بجائے باہر کے ڈاکٹرز کی دکانیں سجا رہے ہیں کہ وہ پاکستان آئیں، او پی ڈی میں مریضوں کی نوعیت جانچیں اور پھران مریضوں کے ہندوستان میں مہنگے ترین ٹرانسپلانٹ کیے جائیں، جس کی ادائیگی خواہ مریض خود کریں ، مخیر حضرات کی امداد ہو یا پھر حکومتِ پاکستان اس کی ادائیگی کر رہی ہو! بیرونِ ملک جانے والا یہ سرمایہ ہماری گرتی ہوئی معیشت کے منہ پہ ایک طمانچہ اور ماہرین کی کھلم کھلا تضحیک ہے۔جس کو مِلّی غیرت کے خلاف قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔شاید یہی دل آزاریاں ہیں کہ ہماری زمین ایسی تیکنیکی و پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان نسل کے قدم نہیں روک پا رہی اور ان زرخیز ذہنوں سے دوسرے ملکوں کو فیض پہنچ رہا ہے جب کہ ہماری زمین بنجر ہوتی جارہی ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں، تاہم موت سے بچاؤ کے لیے ایسے اقدامات کرنا کہ باہر سے ڈاکٹر بُلا کر دکانیں کھول دی جائیں جائز نہیں...جب کہ اس کا حل پاک سرزمین پر موجود ہو...یہ عقل سے بالاتر بات ہے کہ حقِ حکمرانی حاصل کرنے کے لیے عوام سے ووٹ لینا ہو تو مہنگے ترین اشتہارات پر مبنی انتخامی مہم جوئیوں پر بڑی رقومات خرچ کی جا سکتی ہیں،اور حکومت میں آجائیں تو ذاتی تشہیر پر... لیکن عوام کو دینے کا وقت آئے یا اسے آگہی دینی ہو تو کسی ایسے پروگرام کو متعارف نہ کرایا جائے جو اُن کے بنیادی حق، صحت اور زندگی سے متعلق ہو۔
یہ تمام تر کوتاہی حکومت کی صحت کے میدان میں ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے،اگر یہی کثیر سرمایہ ہم عوام کی آگہی پر لگا دیں کہ اعضاء عطیہ کرنے کے نتیجے میں ان کی موت کے بعد ،وہ جسم جسے مٹی میں مِل جانا ہے، 17 لوگوں کو زندگی عطا کر سکتا ہے تو کیا اس احسن فیصلے سے انکار کریں گے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم وہ قوم ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے، اس کے جذبوں کو سلام کرنا چاہیے کہ خواہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، زندگیاں بچانے کے لیے جس طرح میدانِ عمل میں اُترتے ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تو کیا یہی قوم ایسے مریضوں کے لیے کہ جو اپنے اعضاء فیل ہونے کی صورت میں قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، انھیں مایوس کریں گے ؟ نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں!!
اگر ایک عام انسان کو معلوم ہو کہ اس کی وصیت کے نتیجے میں عطیہ کردہ اعضاء کتنی ہی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں اور اگر وہ اس عمل کو کر گزرتے ہیں تو ایسے مستند ادارے و تیکنیکی ماہرین جن کے سامنے قطار در قطار ایڑھی رگڑتے مریض ہیں، ان کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ آج اگر عطیہ شدہ اعضاء موجود ہوں تو وہ مستند ادارے جو تمام سہولتوں کے باوجود جمود کا شکار ہیں ،برق رفتاری سے اس عظیم انسانی خدمت کو انجام دینے میں ساری دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں۔
اگر تھوڑا سا ماضی قریب کو پلٹ کر دیکھ لیں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اب تک جگر کے 500ٹرانسپلانٹ ہندوستان میں ہو چکے ہیں جس کا تخمینہ کم و بیش 25لاکھ فی ٹرانسپلانٹ کو مریضوں کی تعداد سے ملٹی پلائی کرنے سے باآسانی سامنے آسکتا ہے جب کہ سفری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
چند برس قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان اسٹیل مِل کی نجکاری کے عمل کو روکنے کے لیے بڑی اچھی مثال دی تھی کہ جب کھانے کو روٹی نہ ہو تو گھر کے برتن بھانڈے بیچ دیے جاتے ہیں یہ بھول کر کہ کچھ پکانا پڑا تو کس میں پکائیں گے؟یہی صورت حال کچھ اس وقت کی پالیسیوں کی نظرآرہی ہے کہ میڈیا پرغیر ملکی ڈرامے، غیر ملکی جہازوں سے اندرونِ ملک پروازیں اور ان میں ڈیوٹیوں پر تعینات غیر ملکی اسٹاف! وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل۔۔۔ مگر خدا کے لیے عوام کی صحت کے معاملات کو ایسی ترجیحات میں شامل نہ کریں جس سے ہمارے اندر کے ادارے تباہ ہو جائیں اور تیکنیکی انرجی کو زنگ لگ جائے یا وہ بھی مایوس ہو کر کُوچ کرنے لگے۔
سر اُٹھا کے چلوں کہ سر جھکا کے جیوں... پاکستان میں اعضا ء ناکارہ ہوجانے کی صورت میں عوام میں آگہی نہ ہونے کے سبب ہر سال ڈیڑھ لاکھ(1,50,000) افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہو جاتے ہیں، جب کہ گردے کے ٹرانسپلانٹیشن نے اُمید کی ایک راہ کھول دی ہے ۔ ایک مستند ادارے میں قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اب تک پانچ ہزار مریضوں کے بالکل مفت ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں جو غریب اور متوسط عوام کے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ اس خدمت کے صلے میں مریض بونس میں مل جانے والی زندگی کے سبب نارمل طریقے سے اپنی اور اپنے خاندان کی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہیں۔ اس احسن عمل سے ٹرانسپلانٹ کے لیے باہر کے ملکوں میں جانے سے جو سرمایہ بیرون ملک جا رہا تھا اسے کافی حد تک روک لگی اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے۔
لیکن دوسری طرف ہیپاٹائٹس جیسے مہلک مرض میں مبتلا افراد کا پاکستان میں جگر کے ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 50ہزار افراد زندگی سے محروم ہورہے ہیں یا دوسری صورت میں بیرون ملک اورخصوصی طور پر ہندوستان جا کرجہاں نہ صرف جگر بلکہ بدن کے دوسرے اعضاء کے بھی کامیابی سے ٹرانسپلانٹ ہو رہے ہیں اور ہم باوجود مستند اداروں و مایہ ناز ماہرین کی موجودگی کے ٹرانسپلانٹ کے میدان کو سَر کرنے کے بجائے باہر کے ڈاکٹرز کی دکانیں سجا رہے ہیں کہ وہ پاکستان آئیں، او پی ڈی میں مریضوں کی نوعیت جانچیں اور پھران مریضوں کے ہندوستان میں مہنگے ترین ٹرانسپلانٹ کیے جائیں، جس کی ادائیگی خواہ مریض خود کریں ، مخیر حضرات کی امداد ہو یا پھر حکومتِ پاکستان اس کی ادائیگی کر رہی ہو! بیرونِ ملک جانے والا یہ سرمایہ ہماری گرتی ہوئی معیشت کے منہ پہ ایک طمانچہ اور ماہرین کی کھلم کھلا تضحیک ہے۔جس کو مِلّی غیرت کے خلاف قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔شاید یہی دل آزاریاں ہیں کہ ہماری زمین ایسی تیکنیکی و پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان نسل کے قدم نہیں روک پا رہی اور ان زرخیز ذہنوں سے دوسرے ملکوں کو فیض پہنچ رہا ہے جب کہ ہماری زمین بنجر ہوتی جارہی ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں، تاہم موت سے بچاؤ کے لیے ایسے اقدامات کرنا کہ باہر سے ڈاکٹر بُلا کر دکانیں کھول دی جائیں جائز نہیں...جب کہ اس کا حل پاک سرزمین پر موجود ہو...یہ عقل سے بالاتر بات ہے کہ حقِ حکمرانی حاصل کرنے کے لیے عوام سے ووٹ لینا ہو تو مہنگے ترین اشتہارات پر مبنی انتخامی مہم جوئیوں پر بڑی رقومات خرچ کی جا سکتی ہیں،اور حکومت میں آجائیں تو ذاتی تشہیر پر... لیکن عوام کو دینے کا وقت آئے یا اسے آگہی دینی ہو تو کسی ایسے پروگرام کو متعارف نہ کرایا جائے جو اُن کے بنیادی حق، صحت اور زندگی سے متعلق ہو۔
یہ تمام تر کوتاہی حکومت کی صحت کے میدان میں ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے،اگر یہی کثیر سرمایہ ہم عوام کی آگہی پر لگا دیں کہ اعضاء عطیہ کرنے کے نتیجے میں ان کی موت کے بعد ،وہ جسم جسے مٹی میں مِل جانا ہے، 17 لوگوں کو زندگی عطا کر سکتا ہے تو کیا اس احسن فیصلے سے انکار کریں گے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم وہ قوم ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے، اس کے جذبوں کو سلام کرنا چاہیے کہ خواہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، زندگیاں بچانے کے لیے جس طرح میدانِ عمل میں اُترتے ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تو کیا یہی قوم ایسے مریضوں کے لیے کہ جو اپنے اعضاء فیل ہونے کی صورت میں قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، انھیں مایوس کریں گے ؟ نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں!!
اگر ایک عام انسان کو معلوم ہو کہ اس کی وصیت کے نتیجے میں عطیہ کردہ اعضاء کتنی ہی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں اور اگر وہ اس عمل کو کر گزرتے ہیں تو ایسے مستند ادارے و تیکنیکی ماہرین جن کے سامنے قطار در قطار ایڑھی رگڑتے مریض ہیں، ان کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ آج اگر عطیہ شدہ اعضاء موجود ہوں تو وہ مستند ادارے جو تمام سہولتوں کے باوجود جمود کا شکار ہیں ،برق رفتاری سے اس عظیم انسانی خدمت کو انجام دینے میں ساری دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں۔
اگر تھوڑا سا ماضی قریب کو پلٹ کر دیکھ لیں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اب تک جگر کے 500ٹرانسپلانٹ ہندوستان میں ہو چکے ہیں جس کا تخمینہ کم و بیش 25لاکھ فی ٹرانسپلانٹ کو مریضوں کی تعداد سے ملٹی پلائی کرنے سے باآسانی سامنے آسکتا ہے جب کہ سفری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
چند برس قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان اسٹیل مِل کی نجکاری کے عمل کو روکنے کے لیے بڑی اچھی مثال دی تھی کہ جب کھانے کو روٹی نہ ہو تو گھر کے برتن بھانڈے بیچ دیے جاتے ہیں یہ بھول کر کہ کچھ پکانا پڑا تو کس میں پکائیں گے؟یہی صورت حال کچھ اس وقت کی پالیسیوں کی نظرآرہی ہے کہ میڈیا پرغیر ملکی ڈرامے، غیر ملکی جہازوں سے اندرونِ ملک پروازیں اور ان میں ڈیوٹیوں پر تعینات غیر ملکی اسٹاف! وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل۔۔۔ مگر خدا کے لیے عوام کی صحت کے معاملات کو ایسی ترجیحات میں شامل نہ کریں جس سے ہمارے اندر کے ادارے تباہ ہو جائیں اور تیکنیکی انرجی کو زنگ لگ جائے یا وہ بھی مایوس ہو کر کُوچ کرنے لگے۔