دہشت گردی کا خاتمہ اور ملکی استحکام
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہیں جو اندرونی اور بیرونی عوامل کے امتزاج سے جڑی ہیں
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد مارے گئے جب کہ 6 بہادر سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
دوسری جانب کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے، انتہا پسندی کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، معصوم لوگوں کی جانیں لینا کسی طور بھی جائز نہیں۔
قوم سلام پیش کرتی ہے پاک وطن پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے جوانوں کو۔ بلاشبہ ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں، وہ متعدد فوجی آپریشنز اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف ہیں، قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے، تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک آسان کام نہیں ہے۔
خیبر پختون خوا میں جس طرح دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ حالات پھر سے اسی پرانی ڈگر پر جا رہے ہیں، جب خیبر پختونخوا میں پشاور کی کسی نا کسی جگہ پر خودکش حملے ہوتے تھے اور بے گناہ افراد کی شہادت ہوتی تھی، مگر اس دفعہ عام افراد کو ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانے پر ہیں۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی بار بار اپنے بیانات میں کہہ چکی ہے کہ ہمارا ٹارگٹ اس دفعہ سیکیورٹی ادارے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پشاور سمیت صوبہ کے دیگر علاقوں میں صرف پولیس اہلکار ہی اس جنگ میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، مگر گزشتہ دنوں باجوڑ کے دھماکے نے صورت حال تبدیل کردی ہے، جس نے بھی یہ خودکش حملہ کیا ہے، یہ ایک خطرناک نشانی ہے۔
اگر ہم ذرا تاریخ دیکھیں تو دہشت گردی صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے جو ملک کے استحکام، سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران ملک نے انتہا پسندانہ تشدد کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کیا ہے جس نے لاتعداد معصوم جانیں لے لی ہیں اور معاشرے کے مختلف شعبوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ٹھوس کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے جو معاشرے کے تمام طبقات سے مسلسل چوکسی اور اجتماعی کارروائی کا ضامن ہے۔
خیبر پختونخوا میں کسی بھی اہم تہوار یا مذہبی پروگرام کے دوران افغان مہاجرین کے شہری علاقوں میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور انھیں کیمپوں تک محدود رکھنے کا اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے لیکن یہ اقدامات صرف اعلانات تک محدود ہوتے ہیں۔
افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے ہر شہر کے اہم تجارتی مراکز میں کاروبار کرتی ہے۔ غیر قانونی مہاجرین کی بھی سب سے بڑی تعداد پختونخوا بالخصوص پشاور میں مقیم ہیں۔
پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر عرب اور افریقی ممالک کے وہ ہزاروں مجاہدین پاکستان میں ہی رہ گئے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں نے انھیں لینے سے انکار کر دیا۔
پالیسیاں جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی ہوں یا جنرل پرویز مشرف کی، ہماری سرزمین لہو لہان ہوگئی اور آج تک ہم اس سے نکل نہیں پا رہے۔ کوئی قوم پرستی کے نام پر تو کوئی مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور جس کو وہ اپنا مخالف سمجھتا ہے، ہلاک کر دیتا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف محدود وسائل کے ساتھ پوری طاقت و قوت سے جنگ لڑرہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہیں جو اندرونی اور بیرونی عوامل کے امتزاج سے جڑی ہیں۔ بنیادی محرکات میں سے ایک طویل عرصے سے جاری سیاسی عدم استحکام اور کمزور طرز حکمرانی ہے جس نے انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسند گروہوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔
مزید برآں پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے لیے میدان جنگ بننے کے لیے حساس بنا دیا ہے جو دہشت گردی کے پھیلاؤ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں ایک دوست اور ہمدرد حکومت کا قیام ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہم نے یہ نادر خیال 1980 سے گود میں لے رکھا ہے، اور تاحال افغان طالبان کے دوسری بار حکومت میں آنے کے بعد اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
1989میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد ہماری کوشش تھی کہ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے لیکن افغانستان فساد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا، لیکن ہم نے اپنے دوست حکومت کے خیال کو حرز جان بنائے رکھا۔
دوست حکومت کے خیال نے طالبان کو جنم دیا اور دو مرتبہ انھیں اقتدار تک رسائی دلوائی گئی لیکن افغانستان میں ایک دوست حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری شمال مغربی سرحد آج سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ہے۔ افغانستان آج بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں ایک دوست حکومت کا تصور تو درست تھا مگر مسلسل دہشت گردی کے واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ معاملات الٹ ہو گئے۔ طالبان کے افغانستان میں گروہی مفادات مقدم ہیں۔ طالبان مقامی حقیقتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں ان سے ہماری شکایت نہیں بنتی ہے۔
پاکستان میں غالب فکر میں کوئی تبدیلی کی شہادت نہیں مل سکی ہے، اہم بنیادی پہلوؤں کی نسبت سے ریاست کی سطح پر کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔ یہ بھی کسی پاکستان کے شہری کو معلوم نہیں ہے کہ اس نام نہاد پالیسی کا مرکز کہاں ہے۔
نئی نسل نظریاتی انتہا پسندی کا شکار ہے یا سیاسی اور ثقافتی انتہا پسندی کا شکار ہے کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ریاست کی کارکردگی اس حوالے سے صفر ہے، محسوس ہوتا ہے کہ ریاست انتہا پسندی کو قومی سلامتی کے خلاف خطرہ نہیں سمجھ رہی ۔
عالمی مالیاتی اداروں کا ردعمل یقینی طور پر منفی ہو گا۔ معیشت، علاقائی اور ملکی سیاست اور دہشت گردی نے ہماری بقا کے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اس کے بارے میں اہل فکر کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے سرے سے دہشت گردی کے حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کو آسان سمجھنے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اسے جارحانہ اور جنگ و جدل سے نافذ کرنا غیر اسلامی تصور ہے۔
آبادی کے تناسب سے سیکیورٹی اداروں کی نفری بہت کم ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کو بنیادی ذمے داریوں سے ہٹا کر صرف خاص شخصیات کے ذاتی تحفظ اور پروٹوکول پر مامور کردیا جاتا ہے اور عوام کو دہشت گردوں کے لیے نرم شکار کے طور پر بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سیاسی بنیادوں پر انتظامی اداروں اور پولیس اہلکاروں کی بھرتیاں قیام امن میں رکاوٹ ہیں۔ محکمہ پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرکے ایک پیشہ ورانہ تنظیم بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باعث ہم معاشی دباؤ کا بھی شکار ہوئے لیکن ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت گئے۔ ہم نے نہ صرف اپنے ملک کے اندر موجود مختلف دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا بلکہ انھیں پاکستان کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے بھی اقدامات کیے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک طویل اور مشکل ترین سرحد ہے، جو 2640 کلومیٹرہے، دہشت گردوں کے سرغنہ جانتے تھے کہ باڑ لگانے کا کام مکمل ہوگیا تو پاکستان میں کارروائیاں کرنا مشکل ہوجائیں گی۔ انھوں نے باڑ رکوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا جس میں ہمارے کئی افسر اور جوان شہید ہوگئے لیکن کام جاری رہا، اب یہ کام مکمل ہوگیا ہے۔
مقامی خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو بچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کا بھی صفایاکیا جاسکے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کرے جن واقعات و حالات کو دہشت گرد عناصر اپنے ناپاک ایجنڈے کے لیے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا خاتمہ کیا جاسکے۔
اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔
دوسری جانب کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے، انتہا پسندی کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، معصوم لوگوں کی جانیں لینا کسی طور بھی جائز نہیں۔
قوم سلام پیش کرتی ہے پاک وطن پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے جوانوں کو۔ بلاشبہ ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں، وہ متعدد فوجی آپریشنز اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف ہیں، قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے، تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک آسان کام نہیں ہے۔
خیبر پختون خوا میں جس طرح دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ حالات پھر سے اسی پرانی ڈگر پر جا رہے ہیں، جب خیبر پختونخوا میں پشاور کی کسی نا کسی جگہ پر خودکش حملے ہوتے تھے اور بے گناہ افراد کی شہادت ہوتی تھی، مگر اس دفعہ عام افراد کو ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانے پر ہیں۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی بار بار اپنے بیانات میں کہہ چکی ہے کہ ہمارا ٹارگٹ اس دفعہ سیکیورٹی ادارے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پشاور سمیت صوبہ کے دیگر علاقوں میں صرف پولیس اہلکار ہی اس جنگ میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، مگر گزشتہ دنوں باجوڑ کے دھماکے نے صورت حال تبدیل کردی ہے، جس نے بھی یہ خودکش حملہ کیا ہے، یہ ایک خطرناک نشانی ہے۔
اگر ہم ذرا تاریخ دیکھیں تو دہشت گردی صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے جو ملک کے استحکام، سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران ملک نے انتہا پسندانہ تشدد کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کیا ہے جس نے لاتعداد معصوم جانیں لے لی ہیں اور معاشرے کے مختلف شعبوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ٹھوس کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے جو معاشرے کے تمام طبقات سے مسلسل چوکسی اور اجتماعی کارروائی کا ضامن ہے۔
خیبر پختونخوا میں کسی بھی اہم تہوار یا مذہبی پروگرام کے دوران افغان مہاجرین کے شہری علاقوں میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور انھیں کیمپوں تک محدود رکھنے کا اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے لیکن یہ اقدامات صرف اعلانات تک محدود ہوتے ہیں۔
افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے ہر شہر کے اہم تجارتی مراکز میں کاروبار کرتی ہے۔ غیر قانونی مہاجرین کی بھی سب سے بڑی تعداد پختونخوا بالخصوص پشاور میں مقیم ہیں۔
پہلی افغان جنگ کے خاتمے پر عرب اور افریقی ممالک کے وہ ہزاروں مجاہدین پاکستان میں ہی رہ گئے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں نے انھیں لینے سے انکار کر دیا۔
پالیسیاں جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی ہوں یا جنرل پرویز مشرف کی، ہماری سرزمین لہو لہان ہوگئی اور آج تک ہم اس سے نکل نہیں پا رہے۔ کوئی قوم پرستی کے نام پر تو کوئی مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور جس کو وہ اپنا مخالف سمجھتا ہے، ہلاک کر دیتا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف محدود وسائل کے ساتھ پوری طاقت و قوت سے جنگ لڑرہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہیں جو اندرونی اور بیرونی عوامل کے امتزاج سے جڑی ہیں۔ بنیادی محرکات میں سے ایک طویل عرصے سے جاری سیاسی عدم استحکام اور کمزور طرز حکمرانی ہے جس نے انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسند گروہوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔
مزید برآں پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے لیے میدان جنگ بننے کے لیے حساس بنا دیا ہے جو دہشت گردی کے پھیلاؤ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں ایک دوست اور ہمدرد حکومت کا قیام ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہم نے یہ نادر خیال 1980 سے گود میں لے رکھا ہے، اور تاحال افغان طالبان کے دوسری بار حکومت میں آنے کے بعد اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
1989میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد ہماری کوشش تھی کہ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے لیکن افغانستان فساد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا، لیکن ہم نے اپنے دوست حکومت کے خیال کو حرز جان بنائے رکھا۔
دوست حکومت کے خیال نے طالبان کو جنم دیا اور دو مرتبہ انھیں اقتدار تک رسائی دلوائی گئی لیکن افغانستان میں ایک دوست حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری شمال مغربی سرحد آج سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ہے۔ افغانستان آج بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں ایک دوست حکومت کا تصور تو درست تھا مگر مسلسل دہشت گردی کے واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ معاملات الٹ ہو گئے۔ طالبان کے افغانستان میں گروہی مفادات مقدم ہیں۔ طالبان مقامی حقیقتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں ان سے ہماری شکایت نہیں بنتی ہے۔
پاکستان میں غالب فکر میں کوئی تبدیلی کی شہادت نہیں مل سکی ہے، اہم بنیادی پہلوؤں کی نسبت سے ریاست کی سطح پر کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔ یہ بھی کسی پاکستان کے شہری کو معلوم نہیں ہے کہ اس نام نہاد پالیسی کا مرکز کہاں ہے۔
نئی نسل نظریاتی انتہا پسندی کا شکار ہے یا سیاسی اور ثقافتی انتہا پسندی کا شکار ہے کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ریاست کی کارکردگی اس حوالے سے صفر ہے، محسوس ہوتا ہے کہ ریاست انتہا پسندی کو قومی سلامتی کے خلاف خطرہ نہیں سمجھ رہی ۔
عالمی مالیاتی اداروں کا ردعمل یقینی طور پر منفی ہو گا۔ معیشت، علاقائی اور ملکی سیاست اور دہشت گردی نے ہماری بقا کے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اس کے بارے میں اہل فکر کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے سرے سے دہشت گردی کے حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کو آسان سمجھنے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اسے جارحانہ اور جنگ و جدل سے نافذ کرنا غیر اسلامی تصور ہے۔
آبادی کے تناسب سے سیکیورٹی اداروں کی نفری بہت کم ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کو بنیادی ذمے داریوں سے ہٹا کر صرف خاص شخصیات کے ذاتی تحفظ اور پروٹوکول پر مامور کردیا جاتا ہے اور عوام کو دہشت گردوں کے لیے نرم شکار کے طور پر بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سیاسی بنیادوں پر انتظامی اداروں اور پولیس اہلکاروں کی بھرتیاں قیام امن میں رکاوٹ ہیں۔ محکمہ پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرکے ایک پیشہ ورانہ تنظیم بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باعث ہم معاشی دباؤ کا بھی شکار ہوئے لیکن ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت گئے۔ ہم نے نہ صرف اپنے ملک کے اندر موجود مختلف دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا بلکہ انھیں پاکستان کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے بھی اقدامات کیے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک طویل اور مشکل ترین سرحد ہے، جو 2640 کلومیٹرہے، دہشت گردوں کے سرغنہ جانتے تھے کہ باڑ لگانے کا کام مکمل ہوگیا تو پاکستان میں کارروائیاں کرنا مشکل ہوجائیں گی۔ انھوں نے باڑ رکوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا جس میں ہمارے کئی افسر اور جوان شہید ہوگئے لیکن کام جاری رہا، اب یہ کام مکمل ہوگیا ہے۔
مقامی خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو بچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کا بھی صفایاکیا جاسکے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کرے جن واقعات و حالات کو دہشت گرد عناصر اپنے ناپاک ایجنڈے کے لیے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا خاتمہ کیا جاسکے۔
اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔