صدر کا استعفیٰ

یوں ایک قانونی جنگ شروع ہوئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے اقدامات کو مسترد کیا

tauceeph@gmail.com

ملک میں نافذ 1973کے آئین کے تحت صدرِ پاکستان کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہے۔ آئین کے تحت صدر ریاست کے سربراہ تو ہیں اور وہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو منظور کرنے کے پابند ہیں۔ مگر وہ قوانین پر دستخط کرنے سے مسلسل انکاری ہیں۔

صدر صاحب یہ سب کچھ پارلیمنٹ کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی نے گزشتہ ماہ 60 سے زائد قوانین منظور کیے۔ ان میں مختلف نوعیت کے قوانین شامل تھے جن میں سیکیورٹی، ذرایع ابلاغ، اعلیٰ تعلیم اور اراکین اسمبلی کے پیش کردہ قوانین شامل تھے۔ آئین کے مطابق یہ قوانین سینیٹ میں پیش کیے گئے۔

سینیٹ میں اس وقت ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، سماجی شعبوں میں خدمات انجام دینے والے سینئر اور طویل عرصہ سے سیاسی جدوجہد میں مصروف سینیٹرز شامل ہیں، یوں سینیٹروں نے ہر بل کا بغور جائزہ لیا۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کے سینیٹروں نے تو خاص طور پر ایسا تنقیدی رویہ اختیار کیا کہ حزب اختلاف کی کمی دور ہوگئی۔

سینیٹر طاہر بزنجو، سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر وقار مہدی اور سینیٹر عرفان صدیقی وغیرہ کے مسلسل اعتراض کی بناء پر سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو تشدد اور انتہا پسندی کے انسداد کا بل منسوخ کرنا پڑا۔ ان اراکینِ سینیٹ کے پرو ایکٹو Proactive کردار کی بناء پر کئی قوانین میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں۔ حکومت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں اہم تبدیلیاں کرنی پڑیں۔

سینیٹر طاہر بزنجو، سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر وقار مہدی کی کوششوں کی وجہ سے پیمرا قانون میں کچھ تبدیلی ہوئی۔ سابقہ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کو ان سینیٹروں کی مخالفت کی بناء پر ایک وقت پیمرا کے قانون میں ترامیم کے مسودہ کو واپس لینا پڑا، پھر یہ قانون دوبارہ منظور کیا گیا۔ اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قانون اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے ترمیمی قانون میں اہم تبدیلیاں ہوئیں۔

جب میڈیا کی نمایندہ تنظیموں کے رہنماؤں نے ایوانِ صدر میں صدر عارف علوی سے ملاقات کی تو عارف علوی نے پہلے تو اس قانون کی منظوری دی، شہری آزادیوں پر قدغن لگانے والے بلوں پر مقررہ وقت پر اعتراض نہیں کیا، یوں ملٹری ایکٹ اور سیکریٹ انفارمیشن ایکٹ قانون بن گئے تو صدر صاحب کا بیان آیا کہ وہ تو اس قانون کے حق میں نہیں ہیں، یوں ساری ذمے داری اپنے پرنسپل سیکریٹری پر عائد کردی۔

صدر کے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کا مؤقف ہے کہ یہ بل مقررہ دنوں میں صدر کے چیمبر میں موجود رہے اور انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ان قوانین میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ترمیمی بل اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے ترمیمی قوانین شامل ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور ِاقتدار میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خودمختار بنانے کا قانون منظور ہوا تھا۔

تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو ایچ ای سی کی خودمختاری پسند نہیں آئی تھی۔ اس حکومت نے پہلے ایچ ای سی کے سابقہ چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو من مانے احکامات دیے۔

ان احکامات میں ایچ ای سی کی گرانٹ میں کمی کو دور کرنے کے لیے سرکاری یونیورسٹیوں کی قیمتی املاک کو فروخت کرنے کی ہدایات بھی شامل تھیں مگر جب ڈاکٹر طارق بنوری نے ان ہدایات کو نئی بدعنوانی کا پیش خیمہ قرار دیا تو ان کے عہدہ کی میعاد چار سال سے کم کر کے دو سال کر دی گئی۔


یوں ایک قانونی جنگ شروع ہوئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے اقدامات کو مسترد کیا، یوں عرصہ دراز سے یہ مطالبہ تھا کہ ایچ ای سی کے چیئرمین کی ملازمت کی مدت چار سال کی جائے تاکہ ایچ ای سی کے چیئرمین کو یکسوئی کے ساتھ پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کا موقع ملے۔

قومی اسمبلی نے گزشتہ سال ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدت چار سال کرنے کے قانون کو منظور کیا۔ اس قانون میں کچھ خامیوں پر سینیٹ میں رضا ربانی اور طاہر بزنجو نے کئی ترامیم تجویز کیں۔ ان میں سے کچھ پر اتفاق ہوا، اور یہ قانون متفقہ طور پر منظور ہوا۔ ایک اہم قانون وفاقی اردو یونیورسٹی کے قانون میں اہم ترامیم کے بارے میں تھا۔

وفاقی اردو یونیورسٹی ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت 2002 میں قائم ہوئی ۔ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت نے ایل ایف او کے تحت جو قوانین منتخب پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے نافذ کیے تھے اس میں یہ قانون بھی شامل تھا۔ اس قانون کی خامیوں کی بناء پر اردو یونیورسٹی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔

20 کے قریب وائس چانسلر آچکے ہیں صرف ایک وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر ہی اپنی مدت پوری کرسکے تھے۔ صدر عارف علوی اردو یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ ان کے دور میں یونیورسٹی مزید مشکلات کا شکار ہوئی۔ ان کی صدارت کے دور میں 4عارضی وائس چانسلر آئے۔ کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی پروفیسر کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا جنھوں نے پہلے تو مہینوں بعد عہدہ کا چارج سنبھالا اور جب صدر صاحب کی حکومت نے روپے کی قیمت کم کی تو موصوف کو اندازہ ہوا کہ وہ کینیڈا کم رقم بھجوا رہے ہیں۔

لہٰذا وہ وزارت تعلیم کی منظوری کے بغیر کینیڈا چلے گے۔ وزارت تعلیم نے انھیں نوٹس بھجوایا تو وائس چانسلر نے کہا کہ کینیڈا سے Online یونیورسٹی کا نظام سنبھالیں گے ۔ اردو یونیورسٹی کی سینیٹ میں اساتذہ کے نمایندوں نے جب احتجاج کیا تو صدر صاحب نے انھیں مستعفی ہونے کی ہدایت کی۔ گزشتہ ایک سال سے یونیورسٹی شدید بحران کا شکار ہے۔

اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں میں تاخیر ہورہی ہے جب کہ ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن وقت پر نہیں دی جاتی۔ تقریباً 29 کے قریب اساتذہ اور عمال ایسے ہیں جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات نہیں ملے۔ ان میں سے دو اساتذہ انتقال کرگئے ہیں۔

اردو یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سینیٹ، سنڈیکیٹ اور مالیاتی کمیٹی عملاً معطل ہیں۔ وائس چانسلر کی تلاش کی سرچ کمیٹی گزشتہ 6 ماہ سے اپنے کام کا آغاز ہی نہیں کرسکی۔ اردو یونیورسٹی میں سینیٹ کے اجلاس میں راقم الحروف نے تجویز پیش کی تھی کہ اردو یونیورسٹی کے قانون کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جائے۔ صدر عارف علوی نے اس تجویز کو منظور کیا تھا، یوں معروف دانشور ڈاکٹر جعفر احمد، کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد، جناب اے کیو خلیل اور راقم الحروف پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی۔

سینیٹ میں اساتذہ کے نمایندہ ڈاکٹر محمد عرفان عزیز نے اس کمیٹی کی معاونت کی اور مسودہ قانون تیار کیا گیا، مگر صدر عارف علوی کے نامزد کردہ تاجر اراکینِ سینیٹ نے اس مسودہ کو سینیٹ کے ایجنڈا میں بحث اور منظوری کے لیے شامل نہیں ہونے دیا، مگر جب میاں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت قائم ہوئی تو وزارت تعلیم اور ایچ ای سی نے اس قانون میں تبدیلی میں دلچسپی لی اور ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کی گئی۔

اس مسودہ میں اساتذہ کی سنڈیکیٹ میں نمایندگی نہیں تھی مگر سینیٹ کے باشعور ارکان رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب کی کوششوں سے سنڈیکیٹ میں اساتذہ کے تین نمایندے شامل کیے گئے جب کہ سینیٹ میں بھی اساتذہ کی ایک نشست کا اضافہ ہوا۔

اس قانون میں یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں غیر تدریسی عملہ کی نمایندگی نہیں ہے اور یہ نمایندگی ہونا ضروری ہے۔ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تنظیمیں اس قانون کے حق میں ہیں۔ یوں اب صدر صاحب کی حکمت عملی سے اسٹیبلشمنٹ کے قانون بن گئے اور اعلیٰ تعلیم سے متعلق بل کہیں لاپتہ ہوگئے۔ صدر نے ایک طرف علم دشمنی کا ثبوت دیا تو دوسری طرف اپنے عہدہ کے وقار کی توہین کی۔ اب صدر کے پاس سوائے مستعفی ہونے کے کوئی راستہ نہیں ہے۔
Load Next Story