منفی اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے توڑ کی ضرورت
نگراں وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی حکومت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے
ملک میں سیاست سے زیادہ منفی، جھوٹا، بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا عروج پر ہے اور سوشل میڈیا پر ان عناصر کو مکمل اور ایسی آزادی ملی ہوئی ہے جس آزادی کا مطالبہ اب پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اقتدار سے برطرفی کے بعد شروع کیا تھا۔
جھوٹی خبریں پھیلانے، مخالفین کے خلاف الزام تراشی، حکومت اور مخالف سیاستدانوں بلکہ اپنے مخالف ججوں کی تذلیل اور ان پر بے بنیاد الزام تراشی کی مہم جو سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہے اس مادر پدر آزادی کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ ایسی آزادی ہے جس پر حکومت کے کسی ادارے کی بھی گرفت نہیں ہے اور اس مذموم مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا دیکھنے والے سر پکڑ لیتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹ اور سچ کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق ان خبروں پر یقین کر لیتا ہے اور اپنی مرضی کے معنی پھیلا دیتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور نیوز پیپرز کے لیے تو سرکاری ادارے موجود ہیں مگر بے لگام سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کا کوئی ادارہ ہے نہ ذریعہ، وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔
سوشل میڈیا کا جارحانہ استعمال پی ٹی آئی کے چیئرمین نے شروع کیا تھا اور اس کے سابق وزیر اعظم نے جتنے اجلاس اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اسے چلانے والوں کے ساتھ منعقد کیے اتنے انھوں نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھی منعقد نہیں کیے تھے کیونکہ کابینہ میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اتحادی وزیر موجود ہوتے تھے۔
جن کے سامنے وزیر اعظم وہ باتیں کر سکتے تھے نہ ہدایات دے سکتے تھے جیسی وہ اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ کر لیتے تھے اور سابق وزیر اعظم اپنے وفاقی وزیر اطلاعات کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے جتنے اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر نازاں تھے۔
سابق وزیر اعظم نے ایسے شخص کو وزیر اطلاعات بنایا جو ہر وقت ان کی تعریف اور مخالفین کے خلاف بولتا رہے مگر اس کے باوجود ان کا وزیر اعظم مطمئن نہیں تھا جس کی وجہ سے وزارت اطلاعات میں چار پانچ بار تبدیلیاں بھی کی گئیں مگر وزیر اعظم نے کبھی محکمہ اطلاعات کی کارکردگی کو نہیں سراہا حالانکہ ان کے پسندیدہ وزیر اطلاعات نے میڈیا پر نہ صرف غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ کر رکھی تھی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے اتفاق نہ کرنے اور ان پر جائز تنقید کرنے والے صحافیوں اور اینکروں کو ملازمتوں تک سے فارغ کرکے بے روزگار کرا دیا تھا۔
اس وقت کے سیاہ دور میں جو اخبارات بند ہوئے وہ اب تک بند ہیں مگر پی ٹی آئی کی بدقسمتی کہ ان کی حکومت میں بے روزگار کرائے گئے صحافیوں اور اینکروں کو اتحادی حکومت میں نہ صرف روزگار ملا بلکہ آج ایسا شخص نگراں وفاقی وزیر اطلاعات جسے نہ صرف ملازمت سے نکلوایا گیا تھا بلکہ اسے کہیں اور ملازمت بھی نہیں کرنے دی گئی تھی۔
نگراں وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی حکومت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشترکہ یوٹیوب چینل پر حقائق کی نشان دہی جاری رکھی تھی بلکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل اور ان کی حکومت کے گمراہ کن بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کا اپنے طور پر موثر طور پر توڑ بھی کیا تھا۔
اٹک جیل میں قید سابق وزیر اعظم کی بہادری اور حوصلہ مندی کی ایسی خبریں جو ان کی گرفتاری کے بعد چلائی گئیں کہ لاکھوں افراد مبینہ طور پر اٹک جیل کے باہر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور ان میں بعض کو درختوں پر چڑھ کر یا خواب میں اسیر چیئرمین کی حوصلہ مندی بھی نظر آگئی کہ وہ کتنی دلیری سے جیل میں سزا بھگت رہے ہیں۔
ایک جج کے لندن کے سرکاری تربیتی دورے میں غیر ملک میں پی ٹی آئی والوں نے جو شرم ناک حرکتیں کیں اس کا کسی مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے مگر اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں، وزیروں اور اب ججوں کے ساتھ بھی غیر ملک میں شرم ناک رویہ اور احتجاج کرکے اپنے ملک کو دنیا میں بدنام کر رہے ہیں۔
ایسی حرکتوں سے جن کے خلاف مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ تو خوف زدہ ہوتے ہی ہیں مگر بدنامی پاکستان کی ہوتی ہے کہ یہ کیسے پاکستانی ہیں جنھیں بیرون ملک اپنے ملک کی عزت کا کوئی خیال نہیں۔ ایک شرم ناک حرکت برطانیہ میں پی ٹی آئی کے ملک دشمن حامیوں نے کی جنھوں نے پاکستانی دفتر سے اپنا قومی پرچم اتار کر وہاں پی ٹی آئی کا جھنڈا لگا دیا تھا۔
کیا ایسے لوگوں کو محب وطن کہا جاسکتا ہے جو بیرون ملک اپنی ملک دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب کہ لاڑکانہ میں چالیس قوم پرستوں نے اپنی ملک مخالف سرگرمیاں ترک کرکے قومی پرچم ہاتھوں میں لے کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی حمایت اور سیاسی مخالفت میں پی ٹی آئی مخالف سیاسی رہنماؤں اور اب اتحادی حکمرانوں کے بعد نگراں حکمرانوں کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر غلط گمراہ کن مخالفانہ مہم شروع کردی گئی ہے جب کہ اور اب ایک عدالت سے سزا پانے والے سابق وزیر اعظم کے ملک دشمن مجرمانہ کردار کو نظرانداز کرکے اسے جعلی ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اسے پاکستان کا مستقبل کہا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کو سزاؤں سے بچانے کے لیے عدلیہ پر دباؤ کی مذموم کوشش ان کی اہلیہ کی ڈائری سے بے نقاب ہو چکی ہے۔
(ن) لیگی سابق وزیر اطلاعات نے سوشل میڈیا پر جاری جھوٹے پروپیگنڈے پر توجہ ہی نہیں دی تھی جب کہ نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی پہلے سے ہی اپنے طور پر اس کے توڑ کی کوشش کر رہے تھے اور نگراں وزیر اطلاعات بن کر انھیں موقعہ ملا ہے کہ اب وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی چیئرمین کی حمایت میں کیے جانے والے جھوٹے، گمراہ کن اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے موثر اقدامات کریں جس کی فوری اور اشد ضرورت ہے تاکہ قوم کو سچ اور جھوٹ کا پتا چل سکے۔
جھوٹی خبریں پھیلانے، مخالفین کے خلاف الزام تراشی، حکومت اور مخالف سیاستدانوں بلکہ اپنے مخالف ججوں کی تذلیل اور ان پر بے بنیاد الزام تراشی کی مہم جو سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہے اس مادر پدر آزادی کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ ایسی آزادی ہے جس پر حکومت کے کسی ادارے کی بھی گرفت نہیں ہے اور اس مذموم مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا دیکھنے والے سر پکڑ لیتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹ اور سچ کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق ان خبروں پر یقین کر لیتا ہے اور اپنی مرضی کے معنی پھیلا دیتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور نیوز پیپرز کے لیے تو سرکاری ادارے موجود ہیں مگر بے لگام سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کا کوئی ادارہ ہے نہ ذریعہ، وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔
سوشل میڈیا کا جارحانہ استعمال پی ٹی آئی کے چیئرمین نے شروع کیا تھا اور اس کے سابق وزیر اعظم نے جتنے اجلاس اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اسے چلانے والوں کے ساتھ منعقد کیے اتنے انھوں نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھی منعقد نہیں کیے تھے کیونکہ کابینہ میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اتحادی وزیر موجود ہوتے تھے۔
جن کے سامنے وزیر اعظم وہ باتیں کر سکتے تھے نہ ہدایات دے سکتے تھے جیسی وہ اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ کر لیتے تھے اور سابق وزیر اعظم اپنے وفاقی وزیر اطلاعات کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے جتنے اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر نازاں تھے۔
سابق وزیر اعظم نے ایسے شخص کو وزیر اطلاعات بنایا جو ہر وقت ان کی تعریف اور مخالفین کے خلاف بولتا رہے مگر اس کے باوجود ان کا وزیر اعظم مطمئن نہیں تھا جس کی وجہ سے وزارت اطلاعات میں چار پانچ بار تبدیلیاں بھی کی گئیں مگر وزیر اعظم نے کبھی محکمہ اطلاعات کی کارکردگی کو نہیں سراہا حالانکہ ان کے پسندیدہ وزیر اطلاعات نے میڈیا پر نہ صرف غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ کر رکھی تھی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے اتفاق نہ کرنے اور ان پر جائز تنقید کرنے والے صحافیوں اور اینکروں کو ملازمتوں تک سے فارغ کرکے بے روزگار کرا دیا تھا۔
اس وقت کے سیاہ دور میں جو اخبارات بند ہوئے وہ اب تک بند ہیں مگر پی ٹی آئی کی بدقسمتی کہ ان کی حکومت میں بے روزگار کرائے گئے صحافیوں اور اینکروں کو اتحادی حکومت میں نہ صرف روزگار ملا بلکہ آج ایسا شخص نگراں وفاقی وزیر اطلاعات جسے نہ صرف ملازمت سے نکلوایا گیا تھا بلکہ اسے کہیں اور ملازمت بھی نہیں کرنے دی گئی تھی۔
نگراں وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی حکومت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشترکہ یوٹیوب چینل پر حقائق کی نشان دہی جاری رکھی تھی بلکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل اور ان کی حکومت کے گمراہ کن بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کا اپنے طور پر موثر طور پر توڑ بھی کیا تھا۔
اٹک جیل میں قید سابق وزیر اعظم کی بہادری اور حوصلہ مندی کی ایسی خبریں جو ان کی گرفتاری کے بعد چلائی گئیں کہ لاکھوں افراد مبینہ طور پر اٹک جیل کے باہر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور ان میں بعض کو درختوں پر چڑھ کر یا خواب میں اسیر چیئرمین کی حوصلہ مندی بھی نظر آگئی کہ وہ کتنی دلیری سے جیل میں سزا بھگت رہے ہیں۔
ایک جج کے لندن کے سرکاری تربیتی دورے میں غیر ملک میں پی ٹی آئی والوں نے جو شرم ناک حرکتیں کیں اس کا کسی مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے مگر اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں، وزیروں اور اب ججوں کے ساتھ بھی غیر ملک میں شرم ناک رویہ اور احتجاج کرکے اپنے ملک کو دنیا میں بدنام کر رہے ہیں۔
ایسی حرکتوں سے جن کے خلاف مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ تو خوف زدہ ہوتے ہی ہیں مگر بدنامی پاکستان کی ہوتی ہے کہ یہ کیسے پاکستانی ہیں جنھیں بیرون ملک اپنے ملک کی عزت کا کوئی خیال نہیں۔ ایک شرم ناک حرکت برطانیہ میں پی ٹی آئی کے ملک دشمن حامیوں نے کی جنھوں نے پاکستانی دفتر سے اپنا قومی پرچم اتار کر وہاں پی ٹی آئی کا جھنڈا لگا دیا تھا۔
کیا ایسے لوگوں کو محب وطن کہا جاسکتا ہے جو بیرون ملک اپنی ملک دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب کہ لاڑکانہ میں چالیس قوم پرستوں نے اپنی ملک مخالف سرگرمیاں ترک کرکے قومی پرچم ہاتھوں میں لے کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی حمایت اور سیاسی مخالفت میں پی ٹی آئی مخالف سیاسی رہنماؤں اور اب اتحادی حکمرانوں کے بعد نگراں حکمرانوں کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر غلط گمراہ کن مخالفانہ مہم شروع کردی گئی ہے جب کہ اور اب ایک عدالت سے سزا پانے والے سابق وزیر اعظم کے ملک دشمن مجرمانہ کردار کو نظرانداز کرکے اسے جعلی ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اسے پاکستان کا مستقبل کہا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کو سزاؤں سے بچانے کے لیے عدلیہ پر دباؤ کی مذموم کوشش ان کی اہلیہ کی ڈائری سے بے نقاب ہو چکی ہے۔
(ن) لیگی سابق وزیر اطلاعات نے سوشل میڈیا پر جاری جھوٹے پروپیگنڈے پر توجہ ہی نہیں دی تھی جب کہ نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی پہلے سے ہی اپنے طور پر اس کے توڑ کی کوشش کر رہے تھے اور نگراں وزیر اطلاعات بن کر انھیں موقعہ ملا ہے کہ اب وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی چیئرمین کی حمایت میں کیے جانے والے جھوٹے، گمراہ کن اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے موثر اقدامات کریں جس کی فوری اور اشد ضرورت ہے تاکہ قوم کو سچ اور جھوٹ کا پتا چل سکے۔