موبائل اسکرین جب آنکھیں تھکا دے
انسان کے قیمتی عضو کو ترو تازہ اور صحت مند رکھنے میں مدد دیتے سہل مشورے
رضوان کو موبائل فون کے سامنے بیٹھنے کی ایسی لت پڑی کہ کھانے پینے سے بھی بے پروا ہو گیا۔
گھر والے چیختے چلاتے رہتے کہ کچھ تو کھا لو مگر وہ انٹرنیٹ میں مگن رہتا یا گیمز سے چپکا رہتا۔ ہر چیز کی زیادتی جلد یا بدیر رنگ ضرور لاتی ہے لہٰذا رضوان کے سر اور آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ عموماً چکر بھی آجاتے۔
اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تواس نے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ یہ بیماری موبائل سکرین کی پیداکردہ ہے' سردرد کی وجہ آنکھوں پر پڑنے والاوہ ناگواردباؤ ہے جو سکرین پہ مسلسل نظریں جمائے رکھنے سے جنم لیتا ہے۔
آج کل کروڑوں لوگ موبائل فون ،کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس سے وابستہ امراض چشم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین نے انہیں ''کمپیوٹر بصری خلل'' (Computer Vision Syndrome)کا مجموعی نام دیا ہے۔ ماہرین امراض چشم کے پاس اب ایسے سیکڑوں مریض آتے ہیںجو آشوب چشم یا کندھے کے اعصاب کی اکڑن کا شکار ہوتے ہیں۔
کمپیوٹر سے وابستہ امراض چشم کا آغاز1980 ء کے عشرے میں ہوا۔ جدیدٹیکنالوجی میں تبدیلی کے سبب ان میں بھی معمولی سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب ہرسال دنیا میں پچاس سے نوے لاکھ انسان موبائل یا کمپیوٹر کے باعث خراب ہونے والی آنکھیں لیے ماہرین امراض چشم کے پاس آتے ہیں۔ چالیس سال قبل یہ تعداد صرف پندرہ لاکھ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جولوگ باقاعدگی سے دن میں چار گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، وہ آنکھوں کی کسی نہ کسی خرابی میں مبتلاہوسکتے ہیں۔ عینکیں بنانے والے مشہور ادارے بوش اینڈ لومب کے ماہرین کا تو دعوی ہے کہ موبائل وکمپیوٹر سکرینوںکے باعث ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ اپنی آنکھیں خراب کر بیٹھتے ہیں۔
ایک عام بیماری
ماہرین کے مطابق ''ڈیجٹل تناؤ چشم'' (Digital eye strain) یعنی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ سب سے عام شکایت ہے۔ پھر نظر کا دھندلا جانا' آنکھوں کی خشکی اور سر درد کا نمبر آتا ہے۔ جب سر درد مسلسل رہے تو لوگ عموماً ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔
'کمپیوٹر بصری خلل' کے علاج فی الحال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی کیا چیز مجرم ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ مثلاً کئی لوگ درست طریقے سے اسکرین کے سامنے نہیں بیٹھتے' چند لوگوںکی نشستیںآرام دہ نہیں ہوتیں اور کچھ کے مانیٹر پرانے ہیں جن سے پھوٹنے والی شعاعیں زیادہ مضر ہیں۔ مرض دراصل مجموعی طور پر بیٹھنے کے ماحول' کام کی عادات اور دیکھنے کی حالت سے جنم لیتا ہے۔
تکراری دباؤ صدمہ
کمپیوٹر بصری خلل بنیادی طور پر ''تکراری دباؤ صدمہ'' (repetitive stress injury)ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے عضلات دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اسکرین پر ابھرنے والے اعداد' تصاویر وغیرہ پر انہیں بار بار مرتکز کیا جاتا ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے پکسل (Pixels) دراصل وہ تقابل (Contrast) نہیں رکھتے جو طبع شدہ صفحہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اسکرین پر کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
عجیب بات یہ کہ آنکھوں پر سب سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب کوئی اپنے کام میں محو ہو ۔کیونکہ انسان جب کسی چیز مثلاً کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے رکھے تو وہ آنکھیں کم جھپکتا ہے۔
انسان روزمرہ کام کی حالت میں فی منٹ بائیس بار آنکھ جھپکتا ہے۔ اگرکتاب پڑھے تو یہ تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔ موبائل یاکمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تو عام فردایک منٹ میں صرف سات بار جھپکتا ہے۔ نتیجتاً آنکھیں خشک ہو کر درد کرنے لگتی ہیں کیونکہ جھپکنے سے آنکھوں میں موجود پانی پھیلتا اور انہیں نم رکھ کر تازہ دم رکھتا ہے۔
ماہرین امراض چشم آنکھوں کی بیماری و سردرد سے بچنے کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موبائل وکمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ کر تین نکاتی منصوبے پر عمل کیجیے ...آنکھیں جھپکائیے' گہرے سانس لیجیے اور وقفہ کیجیے۔ کام کے دوران سانس لینا بہت ضروری ہے تاکہ آنکھوں کو آکسیجن ملتی رہے۔ بار بار جھپکیئے اور کام کا وقفہ کیجیے۔
اس ضمن میں 'بیس بٹا بیس' کا اصول فائدے مند ہے یعنی ہر بیس منٹ بعد وقفہ کیجیے اور بیس فٹ دور کسی چیز کو بیس سیکنڈ تک دیکھیے۔ یوں آنکھوں کو آرام ملتا ہے اور وہ کسی خرابی کا نشانہ نہیں بنتیں۔
یاد رکھیے' اگر کسی کی آنکھیں خراب ہیں تو موبائل و کمپیوٹر سکرین استعمال کرنے سے وہ زیادہ خراب ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر جونزدیک کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتے' وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انسان میں یہ خلل بڑھتی عمر کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ کم روشنی اور مانیٹر کی درست پوزیشن نہ ہونے سے بھی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔
اس ضمن میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اسکرین دیکھنے کی سطح سے اونچی یا نیچی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین کی درمیانی سطح آنکھوں سے چار پانچ انچ نیچے ہونی چاہیے۔
جب آنکھیں کسی چیز کو تھوڑا نیچے دیکھیںتو نہ صرف بہترین حالت میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر کم سے کم دباؤ پڑتا ہے۔اگر سکرین اس طرح رکھی جائے کہ دیکھنے کے لیے گردن اٹھانی پڑے تو کندھوں اور گردن کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے' نتیجتاً آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مانیٹر اچھا خریدیئے
امراض چشم سے بچاؤ کے لیے اب مارکیٹ میں خاص قسم کے چشمے آگئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی عینک استعمال کیجیے۔ ماہرین کے مطابق چشمے خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں جس کی شرح تھرتھراہٹ (Flicker rate)کم ہو کیونکہ اسکرین کی زیادہ تھرتھراہٹ آنکھوں کو تھکا دیتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مانیٹر کو آنکھوں سے کم از کم بیس تیس انچ دور رکھیے۔ اسی طرح موبائل کی سکرین بھی اپنے چہرے سے کم از کم سولہ انچ دور رکھیے۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکرین چہرے کے نزدیک ہو تو ہماری آنکھوں کو توجہ مرکوز کرنے کی خاطر زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
طبی معائنہ کروائیے
کئی لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ آنکھوں کی بہت سی خرابیوں کا تعلق موبائل یا کمپیوٹر سے بھی ہے۔ اگر اسکرین کو دیکھتے ہوئے آپ کو سردرد محسوس ہو یا آنکھوں میں تکلیف رہے تو بہتر ہے کہ اپنے کام کا ماحول بدلیے اور فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے آنکھوں کا معائنہ کروائیے۔
آنکھ نہایت حساس عضوہے اورانسان اپنے اسّی فیصدکام اسی کے ذریعے کرتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی سے ان کی دیکھ بھال کیجیے' یہ بہت بڑی نعمت ہیں۔
مانیٹر کون سا بہتر ؟
جو لوگ کمپیوٹر اسکرین پر دیکھتے ہوئے آنکھوںمیںدرد محسوس کریں' وہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں۔ بڑی سکرین والے مانیٹروں کی ایجاد کے بعد درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو کافی آسانی ہو گئی ہے۔
بہترین قسم کا مانیٹر وہ ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ (یا ریفریش ریٹ ) فی سیکنڈ ساٹھ سائیکل (یعنی ساٹھ ہرٹز) ہو۔مطلب یہ کہ ہر سیکنڈمیں اسکرین ساٹھ بار تھرتھرا کر اپنے آپ کو تازہ رکھے ۔گو وہ مانیٹر سب سے بہتر ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ ستر سے پچاسی ہرٹز ہو۔
مفید مشورے
بینائی کی اچھی صحت کے سلسلے میں چند مشورے حاضر ہیں خصوصاً ان کے لیے جو امراض چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود مہنگا مانیٹر یاچشمہ نہیں خرید سکتے۔ اس سلسلے میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ کام کے دوران کم از کم بیس منٹ بعد وقفہ کریں تاکہ آنکھوں پر کم دباؤ پڑے۔ دیگر یہ ہیں:
٭...سکرین پہ دو گھنٹے نظرین جمائے رکھنے کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ضرور کیجیے۔
٭... آنکھیں نم رکھنے کے لیے بار بار جھپکیے۔
٭... اگر آنکھوں میں تکلیف ہو اور وہ خشک ہو جائیں' تو ان میں پانی ڈال لیجیے۔
٭...کوشش کیجیے کہ اسکرین پر بلب' ٹیوب یا کھڑکی کی روشنی کا عکس نہ پڑے۔ بلبوں کو دوسری طرف لگائیے اور کھڑکی پر پردہ ڈالیے۔ تاہم موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے کمرے میں روشنی ہونی چاہیے۔اندھیرے میں سکرین دیکھنے سے آنکھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
٭... مانیٹر کو اس اندازمیں رکھیے کہ اس کا درمیانی حصہ آنکھوں کی سطح سے چار پانچ انچ نیچے اور بیس سے تیس انچ دور ہو۔
٭...اسکرین پر پس منظر سفید اور کردار (عدد'آئکون وغیرہ) سیاہ رکھیے۔ پس منظر (بیک گراؤنڈ) سیاہ اور گہرا نہ رکھیے۔
٭...زیادہ سے زیادہ ریزولیشن حاصل کرنے کے لیے تقابل (کونٹراسٹ) کو ہم آہنگ رکھیے۔
٭... متن(ٹیکسٹ) کو بڑا رکھیے تاکہ ضرورت پڑے' تو آپ دور سے بھی اسے پڑھ سکیں۔
گھر والے چیختے چلاتے رہتے کہ کچھ تو کھا لو مگر وہ انٹرنیٹ میں مگن رہتا یا گیمز سے چپکا رہتا۔ ہر چیز کی زیادتی جلد یا بدیر رنگ ضرور لاتی ہے لہٰذا رضوان کے سر اور آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ عموماً چکر بھی آجاتے۔
اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تواس نے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ یہ بیماری موبائل سکرین کی پیداکردہ ہے' سردرد کی وجہ آنکھوں پر پڑنے والاوہ ناگواردباؤ ہے جو سکرین پہ مسلسل نظریں جمائے رکھنے سے جنم لیتا ہے۔
آج کل کروڑوں لوگ موبائل فون ،کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس سے وابستہ امراض چشم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین نے انہیں ''کمپیوٹر بصری خلل'' (Computer Vision Syndrome)کا مجموعی نام دیا ہے۔ ماہرین امراض چشم کے پاس اب ایسے سیکڑوں مریض آتے ہیںجو آشوب چشم یا کندھے کے اعصاب کی اکڑن کا شکار ہوتے ہیں۔
کمپیوٹر سے وابستہ امراض چشم کا آغاز1980 ء کے عشرے میں ہوا۔ جدیدٹیکنالوجی میں تبدیلی کے سبب ان میں بھی معمولی سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب ہرسال دنیا میں پچاس سے نوے لاکھ انسان موبائل یا کمپیوٹر کے باعث خراب ہونے والی آنکھیں لیے ماہرین امراض چشم کے پاس آتے ہیں۔ چالیس سال قبل یہ تعداد صرف پندرہ لاکھ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جولوگ باقاعدگی سے دن میں چار گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، وہ آنکھوں کی کسی نہ کسی خرابی میں مبتلاہوسکتے ہیں۔ عینکیں بنانے والے مشہور ادارے بوش اینڈ لومب کے ماہرین کا تو دعوی ہے کہ موبائل وکمپیوٹر سکرینوںکے باعث ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ اپنی آنکھیں خراب کر بیٹھتے ہیں۔
ایک عام بیماری
ماہرین کے مطابق ''ڈیجٹل تناؤ چشم'' (Digital eye strain) یعنی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ سب سے عام شکایت ہے۔ پھر نظر کا دھندلا جانا' آنکھوں کی خشکی اور سر درد کا نمبر آتا ہے۔ جب سر درد مسلسل رہے تو لوگ عموماً ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔
'کمپیوٹر بصری خلل' کے علاج فی الحال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی کیا چیز مجرم ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ مثلاً کئی لوگ درست طریقے سے اسکرین کے سامنے نہیں بیٹھتے' چند لوگوںکی نشستیںآرام دہ نہیں ہوتیں اور کچھ کے مانیٹر پرانے ہیں جن سے پھوٹنے والی شعاعیں زیادہ مضر ہیں۔ مرض دراصل مجموعی طور پر بیٹھنے کے ماحول' کام کی عادات اور دیکھنے کی حالت سے جنم لیتا ہے۔
تکراری دباؤ صدمہ
کمپیوٹر بصری خلل بنیادی طور پر ''تکراری دباؤ صدمہ'' (repetitive stress injury)ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے عضلات دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اسکرین پر ابھرنے والے اعداد' تصاویر وغیرہ پر انہیں بار بار مرتکز کیا جاتا ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے پکسل (Pixels) دراصل وہ تقابل (Contrast) نہیں رکھتے جو طبع شدہ صفحہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اسکرین پر کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
عجیب بات یہ کہ آنکھوں پر سب سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب کوئی اپنے کام میں محو ہو ۔کیونکہ انسان جب کسی چیز مثلاً کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے رکھے تو وہ آنکھیں کم جھپکتا ہے۔
انسان روزمرہ کام کی حالت میں فی منٹ بائیس بار آنکھ جھپکتا ہے۔ اگرکتاب پڑھے تو یہ تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔ موبائل یاکمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تو عام فردایک منٹ میں صرف سات بار جھپکتا ہے۔ نتیجتاً آنکھیں خشک ہو کر درد کرنے لگتی ہیں کیونکہ جھپکنے سے آنکھوں میں موجود پانی پھیلتا اور انہیں نم رکھ کر تازہ دم رکھتا ہے۔
ماہرین امراض چشم آنکھوں کی بیماری و سردرد سے بچنے کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موبائل وکمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ کر تین نکاتی منصوبے پر عمل کیجیے ...آنکھیں جھپکائیے' گہرے سانس لیجیے اور وقفہ کیجیے۔ کام کے دوران سانس لینا بہت ضروری ہے تاکہ آنکھوں کو آکسیجن ملتی رہے۔ بار بار جھپکیئے اور کام کا وقفہ کیجیے۔
اس ضمن میں 'بیس بٹا بیس' کا اصول فائدے مند ہے یعنی ہر بیس منٹ بعد وقفہ کیجیے اور بیس فٹ دور کسی چیز کو بیس سیکنڈ تک دیکھیے۔ یوں آنکھوں کو آرام ملتا ہے اور وہ کسی خرابی کا نشانہ نہیں بنتیں۔
یاد رکھیے' اگر کسی کی آنکھیں خراب ہیں تو موبائل و کمپیوٹر سکرین استعمال کرنے سے وہ زیادہ خراب ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر جونزدیک کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتے' وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انسان میں یہ خلل بڑھتی عمر کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ کم روشنی اور مانیٹر کی درست پوزیشن نہ ہونے سے بھی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔
اس ضمن میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اسکرین دیکھنے کی سطح سے اونچی یا نیچی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین کی درمیانی سطح آنکھوں سے چار پانچ انچ نیچے ہونی چاہیے۔
جب آنکھیں کسی چیز کو تھوڑا نیچے دیکھیںتو نہ صرف بہترین حالت میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر کم سے کم دباؤ پڑتا ہے۔اگر سکرین اس طرح رکھی جائے کہ دیکھنے کے لیے گردن اٹھانی پڑے تو کندھوں اور گردن کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے' نتیجتاً آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مانیٹر اچھا خریدیئے
امراض چشم سے بچاؤ کے لیے اب مارکیٹ میں خاص قسم کے چشمے آگئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی عینک استعمال کیجیے۔ ماہرین کے مطابق چشمے خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں جس کی شرح تھرتھراہٹ (Flicker rate)کم ہو کیونکہ اسکرین کی زیادہ تھرتھراہٹ آنکھوں کو تھکا دیتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مانیٹر کو آنکھوں سے کم از کم بیس تیس انچ دور رکھیے۔ اسی طرح موبائل کی سکرین بھی اپنے چہرے سے کم از کم سولہ انچ دور رکھیے۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکرین چہرے کے نزدیک ہو تو ہماری آنکھوں کو توجہ مرکوز کرنے کی خاطر زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
طبی معائنہ کروائیے
کئی لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ آنکھوں کی بہت سی خرابیوں کا تعلق موبائل یا کمپیوٹر سے بھی ہے۔ اگر اسکرین کو دیکھتے ہوئے آپ کو سردرد محسوس ہو یا آنکھوں میں تکلیف رہے تو بہتر ہے کہ اپنے کام کا ماحول بدلیے اور فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے آنکھوں کا معائنہ کروائیے۔
آنکھ نہایت حساس عضوہے اورانسان اپنے اسّی فیصدکام اسی کے ذریعے کرتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی سے ان کی دیکھ بھال کیجیے' یہ بہت بڑی نعمت ہیں۔
مانیٹر کون سا بہتر ؟
جو لوگ کمپیوٹر اسکرین پر دیکھتے ہوئے آنکھوںمیںدرد محسوس کریں' وہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں۔ بڑی سکرین والے مانیٹروں کی ایجاد کے بعد درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو کافی آسانی ہو گئی ہے۔
بہترین قسم کا مانیٹر وہ ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ (یا ریفریش ریٹ ) فی سیکنڈ ساٹھ سائیکل (یعنی ساٹھ ہرٹز) ہو۔مطلب یہ کہ ہر سیکنڈمیں اسکرین ساٹھ بار تھرتھرا کر اپنے آپ کو تازہ رکھے ۔گو وہ مانیٹر سب سے بہتر ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ ستر سے پچاسی ہرٹز ہو۔
مفید مشورے
بینائی کی اچھی صحت کے سلسلے میں چند مشورے حاضر ہیں خصوصاً ان کے لیے جو امراض چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود مہنگا مانیٹر یاچشمہ نہیں خرید سکتے۔ اس سلسلے میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ کام کے دوران کم از کم بیس منٹ بعد وقفہ کریں تاکہ آنکھوں پر کم دباؤ پڑے۔ دیگر یہ ہیں:
٭...سکرین پہ دو گھنٹے نظرین جمائے رکھنے کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ضرور کیجیے۔
٭... آنکھیں نم رکھنے کے لیے بار بار جھپکیے۔
٭... اگر آنکھوں میں تکلیف ہو اور وہ خشک ہو جائیں' تو ان میں پانی ڈال لیجیے۔
٭...کوشش کیجیے کہ اسکرین پر بلب' ٹیوب یا کھڑکی کی روشنی کا عکس نہ پڑے۔ بلبوں کو دوسری طرف لگائیے اور کھڑکی پر پردہ ڈالیے۔ تاہم موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے کمرے میں روشنی ہونی چاہیے۔اندھیرے میں سکرین دیکھنے سے آنکھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
٭... مانیٹر کو اس اندازمیں رکھیے کہ اس کا درمیانی حصہ آنکھوں کی سطح سے چار پانچ انچ نیچے اور بیس سے تیس انچ دور ہو۔
٭...اسکرین پر پس منظر سفید اور کردار (عدد'آئکون وغیرہ) سیاہ رکھیے۔ پس منظر (بیک گراؤنڈ) سیاہ اور گہرا نہ رکھیے۔
٭...زیادہ سے زیادہ ریزولیشن حاصل کرنے کے لیے تقابل (کونٹراسٹ) کو ہم آہنگ رکھیے۔
٭... متن(ٹیکسٹ) کو بڑا رکھیے تاکہ ضرورت پڑے' تو آپ دور سے بھی اسے پڑھ سکیں۔