میٹا نے مختلف زبانوں میں تراجم کا نیا ماڈل پیش کردیا
’سیم لیس ایم فورٹی ملٹی لنگول اے آئی ٹرانسلیشن ماڈل‘ 100 زبانوں میں ٹیکسٹ اور آواز کے باہمی تراجم کرسکتا ہے
فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی مرکزی کمپنی میٹا نے دنیا کی 100 زبانوں میں باہمی تراجم کے لیے ایک نیا اور طاقتور ماڈل پیش کیا ہے جسے 'سیم لیس ایم فورٹی ملٹی لینگول اے آئی ٹرانسلیشن ماڈل' کا نام دیا گیا ہے۔
توقع ہے کہ اس طاقتور الگورتھم کی وجہ سے تراجم نگاری میں ایک انقلاب آجائے گا اور ایک سے دوسری زبان میں درست ترین تراجم کی سہولت حاصل ہوسکے گی۔ اس ماڈل کی بدولت ٹیکسٹ اور آواز کو بھی ترجمہ کرنا ممکن ہوگا جس سے کثیرالسان تراجم میں مدد ملے گی۔
میٹا کی خواہش ہے کہ اسے عالمگیر(یونیورسل) ٹرانسلیٹر بنایا جائے۔ تاہم ایک زبان میں گفتگو سے دوسری زبان کی آواز میں ترجمے یا پھر آواز سے ٹیکسٹ کی جدید ترین سافٹ ویئر بھی بہت محدود ہیں۔ اسی تناظر میں میٹا کی کاوش ایک بڑا سنگِ میل ثابت ہوگی۔
'سیم لیس ایم فورٹی ملٹی لنگول اے آئی ٹرانسلیشن ماڈل' واحد الگورتھم کے تحت، کام کرتا ہے جس میں غلطیاں کم ہوں گی اور سست رفتار کو کم کیا گیا ہے۔ اس سے ترجمے کی درست اور معیار بلند ہوگا۔ حقیقی وقت میں لوگ ایک دوسرے سے ایک سے دوسری زبان میں گفتگو کرسکیں گے۔
میٹا نے کہا ہے کہ اس ماڈل کے تحت، 'سائنس فکشن' فلموں کی طرح بہت ہی مؤثر انداز میں زبانوں کے تراجم حاصل ہوسکیں گے۔ اس کے علاوہ آنکھوں پر پہنے جانے والے ہیڈ ڈسپلے کے ٹیکسٹ کو بھی ترجمہ کرنا ممکن ہوگا۔ اس سے باہمی روابط میں انقلاب آجائے گا۔
لیکن اس دوڑ میں میٹا تنہا نہیں، کیونکہ گوگل نے اپنے ترجمے کو بہتر بنانے کےلیے کام شروع کردیا ہے اور خود ایپل پر انہی خطوط پر رواں دواں ہے۔
توقع ہے کہ اس طاقتور الگورتھم کی وجہ سے تراجم نگاری میں ایک انقلاب آجائے گا اور ایک سے دوسری زبان میں درست ترین تراجم کی سہولت حاصل ہوسکے گی۔ اس ماڈل کی بدولت ٹیکسٹ اور آواز کو بھی ترجمہ کرنا ممکن ہوگا جس سے کثیرالسان تراجم میں مدد ملے گی۔
میٹا کی خواہش ہے کہ اسے عالمگیر(یونیورسل) ٹرانسلیٹر بنایا جائے۔ تاہم ایک زبان میں گفتگو سے دوسری زبان کی آواز میں ترجمے یا پھر آواز سے ٹیکسٹ کی جدید ترین سافٹ ویئر بھی بہت محدود ہیں۔ اسی تناظر میں میٹا کی کاوش ایک بڑا سنگِ میل ثابت ہوگی۔
'سیم لیس ایم فورٹی ملٹی لنگول اے آئی ٹرانسلیشن ماڈل' واحد الگورتھم کے تحت، کام کرتا ہے جس میں غلطیاں کم ہوں گی اور سست رفتار کو کم کیا گیا ہے۔ اس سے ترجمے کی درست اور معیار بلند ہوگا۔ حقیقی وقت میں لوگ ایک دوسرے سے ایک سے دوسری زبان میں گفتگو کرسکیں گے۔
میٹا نے کہا ہے کہ اس ماڈل کے تحت، 'سائنس فکشن' فلموں کی طرح بہت ہی مؤثر انداز میں زبانوں کے تراجم حاصل ہوسکیں گے۔ اس کے علاوہ آنکھوں پر پہنے جانے والے ہیڈ ڈسپلے کے ٹیکسٹ کو بھی ترجمہ کرنا ممکن ہوگا۔ اس سے باہمی روابط میں انقلاب آجائے گا۔
لیکن اس دوڑ میں میٹا تنہا نہیں، کیونکہ گوگل نے اپنے ترجمے کو بہتر بنانے کےلیے کام شروع کردیا ہے اور خود ایپل پر انہی خطوط پر رواں دواں ہے۔