ادویات کی قیمتوں میں اضافہ

حکومت نے نئی رجسٹر ہونے والی 25 دواؤں کی قیمت مقرر کی ہے، تمام 25 نئی دوائیں ہیں

لوگ علاج کی امید لیے اسپتال آتے تو ہیں مگر مراد کسی خوش نصیب کی ہی بھر آتی ہے—فوٹو: فائل

ڈریپ کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جس کے مطابق کینسر کے علاج کی نئی دوا لوریکا کی قیمت 8 لاکھ 46 ہزار روپے اور دمے کے مرض کی ان ہیلر کی قیمت 1390 روپے، کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والا انجکشن بورٹیزومب کی قیمت 17 ہزار 513 روپے، انفیکشن میں استعمال ہونے والی زیربیکسا کی قیمت 15 ہزار 356 روپے مقرر کی گئی ہے۔

ایک وضاحتی بیان میں ڈریپ نے کہا ہے کہ حکومت نے نئی رجسٹر ہونے والی 25 دواؤں کی قیمت مقرر کی ہے، تمام 25 نئی دوائیں ہیں، اس سے پہلے پاکستان میں رجسٹر ہی نہیں تھیں۔

مہنگائی سے تنگ عوام پر ایک اور بم گرا دیا گیا ہے، قیمتوں میں خوفناک اضافے کا نتیجہ بہت بھیانک نکلے گا اور ادویات خریدنے کی سکت نہ ہونے کے باعث مریض ایڑیاں رگڑ کر مرجائیں گے۔

دوسری جانب پاکستان میں کام کرنے والی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا موقف ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور خام مال کی عالمی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ان پٹ لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، کیونکہ موجودہ حالات فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے کنٹرول سے باہر ہیں اور ادویات کی تیاری اور ان کی دستیابی کو یقینی بنانا مکمل طور پر غیر مستحکم ہوچکا ہے۔

ملک میں موجود ادویات کا بحران 13 جماعتوں کی اتحادی حکومت کے دور میں شروع ہوا۔ 16ماہ کی پی ڈی ایم حکومت میں ادویات کی مصنوعی قلت سب سے بڑا مسئلہ رہا، پاکستان میں ڈالر اور ایل سی کے مسائل کی وجہ سے امپورٹڈ ادویات نایاب رہیں، جگر، شوگر، مرگی، کینسر سمیت دیگر امراض کی ادویات بھی مہنگی اور ناپید رہیں، خاص طور پر میڈیکل ڈیوائسز اسٹنٹز کنولا، بلڈ بیگ اور دیگر طبی آلات پاکستان میں ناپید ہو چکی ہیں۔

ہمارے ملک کی آبادی چوبیس کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، سرکاری اور نجی اسپتالوں کی تعداد انتہائی ناکافی ہے ، بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70 فیصد کے لگ بھگ ہیں) انھی سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

ہماری آبادی کا بیشتر حصہ غربت، بنیادی ضروریات، تعلیم اور علاج کی عدم فراہمی اور بجلی، پانی کے انتہائی بنیادی ترین مسائل سے دوچار ہے اور کوئی بھی حکومت آکر اس کا سدباب نہیں کر پا رہی۔ وجہ یا عوامل کچھ بھی ہوں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنی زندگیاں گھسیٹ رہے ہیں۔ تمام حکومتیں صحت کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کرتی آئی ہیں۔

ہیلتھ سیکٹر میں خرابیوں اور ذمے داروں کے تساہل اور عدم توجہ کا نتیجہ ہے کہ آبادی کا 70 فیصد اپنے علاج معالجہ کے لیے پرائیویٹ کلینکوں اور اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ حکومت کی طرف سے سرکاری اسپتالوں کو عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، لیکن یہ فنڈز خرد برد ہوجاتے ہیں۔

عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان تو کیا، روح وبدن کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر سہولتیں بھی دستیاب نہیں، حکمران طبقات اور ان کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مافیاز میں بلاامتیاز اختیار رکھنے والا ہر طبقہ شامل ہے۔

قابل افسوس حد تک وہ بھی جن کو مسیحا کہا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی نالائقیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے دیہات تو دیہات کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتالوں میں بھی سہولتوں کا فقدان ہے جو عرصہ دراز سے ہے اور کم ہونے کی بجائے اس میں ہر روز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔

بڑے اسپتالوں سمیت تمام سرکاری اسپتالوں میں ادویات دستیاب نہیں۔ ایکسرے، ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین مشینیں خراب رہتی ہیں۔ کسی بھی بڑے سرکاری اسپتال میں بھی ایم آر آئی وغیرہ کے لیے دوا تو دوا یہاں تک کہ سرنج بھی مریض کو خود خرید کر لانا پڑتی ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ کینسر کی دوائیں کس قدر مہنگی ہیں۔


اسی طرح اسپتالوں کے وارڈز میں داخل مریضوں کو بھی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی، اکثر اسپتالوں میں بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے اسٹریچر پر ہی علاج کیا جاتا ہے، بسترکمیاب ہونے کی وجہ سے اکثر اسپتالوں سے مریضوں کے سسک سسک کرزمین پر تڑپنے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ آپریشن کے لیے جو تاریخ دی جاتی ہے اس پر آپریشن نہیں ہوتے، مریض ہر مرتبہ آپریشن کی امید پر رہتے ہیں لیکن اگلی تاریخ دے کر ان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔

جن کے پاس مال و زر ہے ان کے لیے تو تمام سہولتوں سے آراستہ اسپتال موجود ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، عوام چاہے کتنے غریب کیوں نہ ہوں وہ سرکاری اسپتالوں سے زیادہ پرائیویٹ اسپتال میں جانا پسند کرتے ہیں۔

اس کی وجہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار عملہ کی غفلت و لا پر وائی اور گندگی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان اپنے عزیز کی جان سے ہا تھ دھو نا نہیں چاہتا اس لیے بیشک پرائیویٹ اسپتال والے ان کے برسوں کی جمع پونجی ایک جھٹکے سے خرچ کروا دیں لیکن ترجیح پرائیویٹ اسپتال کو ہی دی جاتی ہے جو لوگ پرائیویٹ اسپتال کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں سرکاری اسپتال کی طرف رخ کرتے ہیں۔

مریض اگر غلطی سے سرکاری اسپتال کا رخ کرتا ہے تو اللہ پر بھروسہ کر کے داخل ہوتا ہے ڈاکٹر اور عملہ سے مایوس ہی ہوتا ہے کچھ سرکاری اسپتالوں کی حالت تو اتنی خراب ہے کہ نام سنتے ہی دل برا ہو جاتا ہے۔ اسپتالوں کے آگے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، کچھ اسپتال تو اسپتال سے زیادہ ''بلیوں کے گیسٹ ہاؤس'' کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔

مریضوں سے زیادہ بلیوں کو وہاں سہولتیں ہیں جنرل وارڈ میں 15 سے 20 بلیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں جو مریضوں سے زیادہ تیمار داروں کو تنگ کرتی ہیں اور عیادت کرنے والوں کو دروازے تک چھوڑنے جاتی ہیں۔خیبر پختو نخوا کے چھوٹے اضلاع میں واقع اسپتالوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے، جہاں ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور الٹرا ساؤنڈ کی ضرورت پڑنے والے مریضوں کو فوری طور پر علاج کے لیے کہا جاتا ہے۔

پشاور جیسے بڑے شہر، پہلے سے ہی خراب اسکیننگ سہولیات پر مزید دباؤ ڈال رہے ہیں۔کل آباد ی میں سے 6 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ہر 11 واں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، ہر سال 9700 خواتین زچگی کے دوران موت کا شکار ہوجاتی ہیں، پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے 44 فی صد کی مناسب ذہنی نشوونما نہیں ہو پاتی۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کل آبادی کا تیسرا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

دیہات کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تعلیم نہیں علاج نہیں۔ کیا ریاست اپنے عوام کے علاج و معالجے کی ذمے دار نہیں؟سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج پیسے لے کر کیا جاتا ہے۔ پیسے والے مریض کی سہولیات مختلف ہوتی ہیں جب کہ غریب کی صرف مٹی پلید ہوتی ہے۔

یہ سرکاری اسپتال موت کے جلدی اور انتہائی تکلیف دہ واقع ہونے کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیا ان غریبوں کو دوسرے دیسوں میں بیٹھے ہوئے انجان لوگوں کی امداد آنے تک سسک سسک کے مرنے دینا چاہیے؟ آخر یہ اسپتالوں کی بڑی بڑی عمارات کا مقصد کیا ہے؟ پرائیویٹ سیکٹر الگ سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور گورنمنٹ اسپتال الگ سے۔ بہترین حل تو یہی ہے کہ غریب کو مر ہی جانا چاہیے اسی طرح ہی شاید غربت ختم اور غریب کم ہوں۔صحت کے انفرا اسٹرکچر کی مایوس کن صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ماہر ڈاکٹروں کو تیار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں جو اپنے مقدس پیشہ کا وقار بلند رکھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے میڈیکل کے پیشہ کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بد ترین بد عنوانیوں میں ملوث رہیں۔ ملک کے چند بڑے سرکاری اسپتالوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا رش حد سے تجاوز کر چکا ہے۔

لوگ علاج کی امید لیے اسپتال آتے تو ہیں مگر مراد کسی خوش نصیب کی ہی بھر آتی ہے۔ اسپتالوں میں دوائیاں نہ ٹیسٹ کی سہولیات لیکن مسیحا اپنا رونا رو رہے ہیں، کہتے ہیں روزانہ سیکڑوں مریض علاج کے لیے آتے ہیں لیکن ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔ جڑواں شہروں کے اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ ریاست عوام کی صحت کی سہولیات کی فراہمی سے اب مکمل طور پر دستبردار ہو چکی ہے۔

اگر صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو صوبے میں سرکاری صحت کے مراکز کی تعداد تقریباً اڑھائی ہزار ہے جن میں سے اکثریت عدم توجہ کے باعث کھنڈرات بن چکے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل پر ہی ایمانداری سے توجہ دی جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

انسانی بنیادی ضروریات کے فقدان اور عدم فراہمی پر کسی کی توجہ کیوں نہیں جاتی؟ المیہ یہ ہے کہ ہم نے صرف جھکاؤ کی طرف بہنا سیکھا ہے ہماری سوچ کی کم وسعتی ہمیں رائج چیزوں کی طرف کھینچتی ہے۔ اس سے ہٹ کر سوچنے کا خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آخر انسانی بنیادی ضروریات جو اس وقت پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہیں ان کی فراہمی کو ممکن بنانے میں ہم میں سے ہر کوئی اپنا کیا کیا حصہ ڈال سکتا ہے۔
Load Next Story