فیثا غورث
فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے
ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہوں گے جنہوں نے طالب علمی کے زمانے میں فیثا غورث کا نام سنا ہو گا۔کئی ایک خاص طور پر سائنس کے طالب علموں کو مسئلہ فیثا غورث سمجھنے میں شدید مشکل پیش آئی ہوگی۔
فیثا غورث کا ایک قول بہت جاندار ہے کہ جس سوسائٹی میں انسانوں کے لیے قوانین بنانا لازم ہو جائیں تو وہ سوسائٹی آزادی کے لیے موزوں نہیں رہتی۔یونانی فلسفی اور عظیم ریاضی دان فیثا غورث 570قبل مسیح کے لگ بھگ یونانی جزیرے ساموس میں پیدا ہوا۔فیثا غورث کے والد Mneserchus قیمتی پتھروں اور ہیرے جواہرات پر کندہ کاری میں بڑے ماہر تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں فیثا غورث نے مصر اور بابل و نینوا کا سفر کیا تاکہ وہاں کی علمی و ادبی معاشرت سے مستفید ہو۔ اس زمانے میں یہی علاقے علم و آگہی میں سب سے آگے سمجھے جاتے تھے۔واپس آ کر فیثا غورث اپنے آبائی علاقے میں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔
کہا جاتا ہے کہ اسے پولی کریٹس کی استبدادیت سے نفرت کا اظہار کرنے پر جزیرہ ساموس کو خیرباد کہنا پڑا۔تقریباً 530قبل مسیح میں اس نے جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹا کی طرف ہجرت کی اور وہاں رہائش پذیر ہو گیا۔
اس کے اپنے ہم عصروں کی تحریروں میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔اس کا پہلا ذکر جن مخطوطات میں ملتا ہے وہ اس کی وفات کے کم و بیش ایک سو پچاس سال بعد لکھے گئے۔ فیثا غورث نے کروٹا میں مذہبی، سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد رکھنے والا ایک حلقہ بنایا جسے بعد میں فیثا غورث ازم یا اخوان الفیثا غورث Pythagorus Brotherhoodکہا گیا۔
دیکھنے میں تو یہ ایک مذہبی قسم کا حلقہ لگتا تھا لیکن اس نے علم و ادب اور سائنس و فلسفہ کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔اس حلقے نے ریاضی اور مغربی Rationalفلاسفی کے فروغ میں بڑا کام کیا۔
فیثا غورث نے شاید خود کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔اس کے خیالات و تصورات کو ہم اس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کی تحریروں سے جان سکتے ہیں۔ اس کا مکتبۂ فکر یورپ اور ایشیا کے مختلف فلسفی حلقوں میں زیرِ بحث رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان حلقوں کے خیالات کو بھی فیثا غورث ازم میں سمو دیا گیا اور اصلی فیثا غورث ازم کو الگ سے جاننا مشکل بنا دیا گیا۔
فیثا غورث کے دو بڑے نکات میں ایک تناسخِ ارواح کے متعلق اس کے نظریات اور دوسرا ریاضیاتی مسائل ہیں۔پیراکلوٹس لکھتا ہے کہ فیثا غورث نے اپنے کسی بھی ہم عصر دوسرے انسان سے زیادہ گہرائی میں جا کر ان مسائل پر غورو خوض کیا اور شاندار تحقیق کی۔ہیگل کے خیال میں وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک اور کچھ معجزاتی قوتوں کا مالک انسان تھا۔فیثا غورث کی تعلیمات پر مبنی سلسلہ یا حلقہ بنیادی طور پر نہ تو کوئی مذہبی حلقہ تھا اور نہ ہی یہ کوئی سیاسی تنظیم تھی۔
اس سلسلے کا بنیادی مقصد اپنے فالورز کے لیے ریاستی مذہب کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں مذہبی اطمینان حاصل کرنا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ فلاسفر 532قبل مسیح میں کروتا منتقل ہوا جہاں اس نے اپنا علمی ادارہ یا اکیڈمی بنائی۔اکیڈمی میں ابتدائی داخلہ لینے والوں کو انتہائی راز داری کا حلف لینا ہوتا تھا۔ابتدائی طلباء کو کیمونٹی کی شکل میں سخت اور کڑے زہد کی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
فیثا غورث نے مخصوص خوراک کھانے اور کچھ خوراک سے پرہیز کرنے پر ابھارا۔اس نے جانوروں کے گوشت سے مکمل پرہیز کی تعلیم دی۔
ہاں اس کے پیرو کار دیوتاؤں کی قربان گاہ پر چڑھایا گیا گوشت کھا لیتے تھے۔ارسطو کہتا ہے کہ فیثا غرث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا۔پیراکلیٹس کے نزدیک سائنسی تحقیق میں اس کے زمانے میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔فیثا غورث کے مطابق سب سے بڑی پاکیزگی بے غرض سائنس ہے اور اسے مقصد حیات بنانے والا شخص حقیقی فلسفی ہے۔وہ اس شخص کی بہت تعریف کرتا ہے جس نے خود کو پیدائش کے چکر سے موثر طور پر آزاد کرا لیا ہو۔
فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ اور اسے ایک قابلِ تحقیق علم کی صورت دی۔جب ارسطو ان لوگوں کی بات کرتا ہے جو مثلث اور مربع جیسی اشکال میں اعداد کو لے کر آئے تو اس کا اشارہ دراصل فیثا غورث ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا لوگوں کی طرف ہے۔فیثا غورث اور اس کی تعلیمات کو آگے بڑھانے والوں کے چند بنیادی نظریات کا تعلق تناسخِ ارواح،اعداد اور فلکیات سے ہے۔
فیثا غورث Orphic اسرار کو مانتا تھا۔اس نے اطاعت،رازداری اور مراقبہ، کھانے پینے میں ازحد پرہیز،سادہ ترین لباس اور اپنی ذات پر ہر وقت تنقیدی نظر سے دیکھنے پر بہت زور دیا ہے۔فیثا غورث کے پیروکار لافانیت اور تناسخِ ارواح پر یقین رکھتے تھے۔یہ تعلیمات بہت حد تک ہندو مت کی تعلیمات سے ملتی جلتی ہیں۔ ہندو مت میں پاکیزگی حاصل کرنے سے پہلے کئی جنموں کا بیان ہے۔بدھ مت میں نروان حاصل کرنا مقصدِ حیات ٹھہرتا ہے۔
تناسخِ ارواح کا نظریہ قدیم فارس سے آریا حملہ آوروں کے ساتھ برِصغیر آیا۔اسی طرح متھرا دیوتا کی پوجا کی طرح تناسخِ ارواح کا عقیدہ فارس سے حملہ آوروں کے ساتھ یونان اور مغرب کی طرف گیا۔اس تصور کے مطابق دو مختلف دنیائیں آباد ہیں۔
زمین پر ایک حقیقی دنیا ہے جب کہ زمین سے ماوراء ایک اور دنیا ہے جسے آئیڈیاز کی دنیاThe world of ideasکہتے ہیں۔ورلڈ آف آئیڈیاز میں، زمین پر پائی جانے والی ہر شے بشمول جن و انس ایک آئیڈیاز کی شکل میں موجود ہے۔اُس دنیا میں انسانوں کوایک جوڑ ے کی شکل میں رکھا گیا ہے۔ہر جوڑا ایک پرفیکٹ جوڑا ہے۔
زمین پر بھیجتے ہوئے جوڑے کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے زمینی وجود عطا ہو جانے کے بعد یہ ایک دوسرے کو تلاش کرتے ہیں۔یہ تلاش اسی وقت ختم ہوتی ہے جب دونوں زمین پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔فیثا غورث نے دعویٰ کیا کہ وہ پچھلے کسی جنم میں جنگِ ٹروجن کا جنگجو یوفوربس تھا۔اس جنم میں اسے اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے سابقہ ادوار کی یادداشت اس چوتھی زندگی میں ساتھ لائے۔
فیثا غورث کی مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ تعلیمات نے افلاطون اور ارسطو کو کافی متاثر کیا۔فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ فیثا غورثی تھیوریم،پانچ ریگولر سالڈز،صبح اور شام کے ستارے کی ستارہ وینس Venusکے نام سے دریافت۔اس نے پوری روئے زمین کو پانچ موسمیاتی خطوں میں تقسیم کیا۔
اس کے خیال میں تمام کائنات اور اس کے اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور سیارے ایک نظم و ضبط کے پابند ہو کر متحرک ہیں۔یہ اجرامِ فلکی ایک Mathematical Equationکے مطابق گردش کرتے ہیں اور یہ منظم گردش موسیقی کے سروں جیسی ہے۔اسی لیے ان کی گردش ایک غیر صوتی سُر Inaudible symphwny پیدا کرتی ہے۔اس سمفنی کی وجہ سے تمام کائنات محوِگردش رہتے ہوئے نغمہ سرا ہے۔فیثا غورث کا خیال تھا کہ زمین اور آسمان میں ہر شے ایک عدد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ہر شے کا ایک مخصوص عدد ہے۔
فیثا غورث کی اکیڈمی میں سخت رازداری میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے علاقے میں فلاسفر کے خلاف طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور بد گمانیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔آخر کار فسادات پھوٹ پڑے۔
لوگوں نے شر پسند عناصر کے اکسانے پر فیثا غورثی اجلاس گاہوں کو آگ لگا دی اور اکیڈمی کو شدید نقصان پہنچایا۔فیثا غورث کی جان پر بن آئی۔نامساعد حالات سے تنگ آ کر فیثا غورث زندگی میں دوسری مرتبہ بھاگنے پر مجبور ہوا اور اٹلی کے مقام میٹاپونٹمMetapontumمیں جا بسا جہاں تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی وفات ہو گئی۔زندگی میں تو وہ مشکلات میں ہی گھرا رہا لیکن اس نے سائنس اور ریاضی کی بہت خدمت کی۔
فیثا غورث کا ایک قول بہت جاندار ہے کہ جس سوسائٹی میں انسانوں کے لیے قوانین بنانا لازم ہو جائیں تو وہ سوسائٹی آزادی کے لیے موزوں نہیں رہتی۔یونانی فلسفی اور عظیم ریاضی دان فیثا غورث 570قبل مسیح کے لگ بھگ یونانی جزیرے ساموس میں پیدا ہوا۔فیثا غورث کے والد Mneserchus قیمتی پتھروں اور ہیرے جواہرات پر کندہ کاری میں بڑے ماہر تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں فیثا غورث نے مصر اور بابل و نینوا کا سفر کیا تاکہ وہاں کی علمی و ادبی معاشرت سے مستفید ہو۔ اس زمانے میں یہی علاقے علم و آگہی میں سب سے آگے سمجھے جاتے تھے۔واپس آ کر فیثا غورث اپنے آبائی علاقے میں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔
کہا جاتا ہے کہ اسے پولی کریٹس کی استبدادیت سے نفرت کا اظہار کرنے پر جزیرہ ساموس کو خیرباد کہنا پڑا۔تقریباً 530قبل مسیح میں اس نے جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹا کی طرف ہجرت کی اور وہاں رہائش پذیر ہو گیا۔
اس کے اپنے ہم عصروں کی تحریروں میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔اس کا پہلا ذکر جن مخطوطات میں ملتا ہے وہ اس کی وفات کے کم و بیش ایک سو پچاس سال بعد لکھے گئے۔ فیثا غورث نے کروٹا میں مذہبی، سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد رکھنے والا ایک حلقہ بنایا جسے بعد میں فیثا غورث ازم یا اخوان الفیثا غورث Pythagorus Brotherhoodکہا گیا۔
دیکھنے میں تو یہ ایک مذہبی قسم کا حلقہ لگتا تھا لیکن اس نے علم و ادب اور سائنس و فلسفہ کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔اس حلقے نے ریاضی اور مغربی Rationalفلاسفی کے فروغ میں بڑا کام کیا۔
فیثا غورث نے شاید خود کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔اس کے خیالات و تصورات کو ہم اس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کی تحریروں سے جان سکتے ہیں۔ اس کا مکتبۂ فکر یورپ اور ایشیا کے مختلف فلسفی حلقوں میں زیرِ بحث رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان حلقوں کے خیالات کو بھی فیثا غورث ازم میں سمو دیا گیا اور اصلی فیثا غورث ازم کو الگ سے جاننا مشکل بنا دیا گیا۔
فیثا غورث کے دو بڑے نکات میں ایک تناسخِ ارواح کے متعلق اس کے نظریات اور دوسرا ریاضیاتی مسائل ہیں۔پیراکلوٹس لکھتا ہے کہ فیثا غورث نے اپنے کسی بھی ہم عصر دوسرے انسان سے زیادہ گہرائی میں جا کر ان مسائل پر غورو خوض کیا اور شاندار تحقیق کی۔ہیگل کے خیال میں وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک اور کچھ معجزاتی قوتوں کا مالک انسان تھا۔فیثا غورث کی تعلیمات پر مبنی سلسلہ یا حلقہ بنیادی طور پر نہ تو کوئی مذہبی حلقہ تھا اور نہ ہی یہ کوئی سیاسی تنظیم تھی۔
اس سلسلے کا بنیادی مقصد اپنے فالورز کے لیے ریاستی مذہب کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں مذہبی اطمینان حاصل کرنا تھا۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ فلاسفر 532قبل مسیح میں کروتا منتقل ہوا جہاں اس نے اپنا علمی ادارہ یا اکیڈمی بنائی۔اکیڈمی میں ابتدائی داخلہ لینے والوں کو انتہائی راز داری کا حلف لینا ہوتا تھا۔ابتدائی طلباء کو کیمونٹی کی شکل میں سخت اور کڑے زہد کی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
فیثا غورث نے مخصوص خوراک کھانے اور کچھ خوراک سے پرہیز کرنے پر ابھارا۔اس نے جانوروں کے گوشت سے مکمل پرہیز کی تعلیم دی۔
ہاں اس کے پیرو کار دیوتاؤں کی قربان گاہ پر چڑھایا گیا گوشت کھا لیتے تھے۔ارسطو کہتا ہے کہ فیثا غرث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا۔پیراکلیٹس کے نزدیک سائنسی تحقیق میں اس کے زمانے میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔فیثا غورث کے مطابق سب سے بڑی پاکیزگی بے غرض سائنس ہے اور اسے مقصد حیات بنانے والا شخص حقیقی فلسفی ہے۔وہ اس شخص کی بہت تعریف کرتا ہے جس نے خود کو پیدائش کے چکر سے موثر طور پر آزاد کرا لیا ہو۔
فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ اور اسے ایک قابلِ تحقیق علم کی صورت دی۔جب ارسطو ان لوگوں کی بات کرتا ہے جو مثلث اور مربع جیسی اشکال میں اعداد کو لے کر آئے تو اس کا اشارہ دراصل فیثا غورث ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا لوگوں کی طرف ہے۔فیثا غورث اور اس کی تعلیمات کو آگے بڑھانے والوں کے چند بنیادی نظریات کا تعلق تناسخِ ارواح،اعداد اور فلکیات سے ہے۔
فیثا غورث Orphic اسرار کو مانتا تھا۔اس نے اطاعت،رازداری اور مراقبہ، کھانے پینے میں ازحد پرہیز،سادہ ترین لباس اور اپنی ذات پر ہر وقت تنقیدی نظر سے دیکھنے پر بہت زور دیا ہے۔فیثا غورث کے پیروکار لافانیت اور تناسخِ ارواح پر یقین رکھتے تھے۔یہ تعلیمات بہت حد تک ہندو مت کی تعلیمات سے ملتی جلتی ہیں۔ ہندو مت میں پاکیزگی حاصل کرنے سے پہلے کئی جنموں کا بیان ہے۔بدھ مت میں نروان حاصل کرنا مقصدِ حیات ٹھہرتا ہے۔
تناسخِ ارواح کا نظریہ قدیم فارس سے آریا حملہ آوروں کے ساتھ برِصغیر آیا۔اسی طرح متھرا دیوتا کی پوجا کی طرح تناسخِ ارواح کا عقیدہ فارس سے حملہ آوروں کے ساتھ یونان اور مغرب کی طرف گیا۔اس تصور کے مطابق دو مختلف دنیائیں آباد ہیں۔
زمین پر ایک حقیقی دنیا ہے جب کہ زمین سے ماوراء ایک اور دنیا ہے جسے آئیڈیاز کی دنیاThe world of ideasکہتے ہیں۔ورلڈ آف آئیڈیاز میں، زمین پر پائی جانے والی ہر شے بشمول جن و انس ایک آئیڈیاز کی شکل میں موجود ہے۔اُس دنیا میں انسانوں کوایک جوڑ ے کی شکل میں رکھا گیا ہے۔ہر جوڑا ایک پرفیکٹ جوڑا ہے۔
زمین پر بھیجتے ہوئے جوڑے کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے زمینی وجود عطا ہو جانے کے بعد یہ ایک دوسرے کو تلاش کرتے ہیں۔یہ تلاش اسی وقت ختم ہوتی ہے جب دونوں زمین پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔فیثا غورث نے دعویٰ کیا کہ وہ پچھلے کسی جنم میں جنگِ ٹروجن کا جنگجو یوفوربس تھا۔اس جنم میں اسے اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے سابقہ ادوار کی یادداشت اس چوتھی زندگی میں ساتھ لائے۔
فیثا غورث کی مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ تعلیمات نے افلاطون اور ارسطو کو کافی متاثر کیا۔فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ فیثا غورثی تھیوریم،پانچ ریگولر سالڈز،صبح اور شام کے ستارے کی ستارہ وینس Venusکے نام سے دریافت۔اس نے پوری روئے زمین کو پانچ موسمیاتی خطوں میں تقسیم کیا۔
اس کے خیال میں تمام کائنات اور اس کے اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور سیارے ایک نظم و ضبط کے پابند ہو کر متحرک ہیں۔یہ اجرامِ فلکی ایک Mathematical Equationکے مطابق گردش کرتے ہیں اور یہ منظم گردش موسیقی کے سروں جیسی ہے۔اسی لیے ان کی گردش ایک غیر صوتی سُر Inaudible symphwny پیدا کرتی ہے۔اس سمفنی کی وجہ سے تمام کائنات محوِگردش رہتے ہوئے نغمہ سرا ہے۔فیثا غورث کا خیال تھا کہ زمین اور آسمان میں ہر شے ایک عدد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ہر شے کا ایک مخصوص عدد ہے۔
فیثا غورث کی اکیڈمی میں سخت رازداری میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے علاقے میں فلاسفر کے خلاف طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور بد گمانیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔آخر کار فسادات پھوٹ پڑے۔
لوگوں نے شر پسند عناصر کے اکسانے پر فیثا غورثی اجلاس گاہوں کو آگ لگا دی اور اکیڈمی کو شدید نقصان پہنچایا۔فیثا غورث کی جان پر بن آئی۔نامساعد حالات سے تنگ آ کر فیثا غورث زندگی میں دوسری مرتبہ بھاگنے پر مجبور ہوا اور اٹلی کے مقام میٹاپونٹمMetapontumمیں جا بسا جہاں تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی وفات ہو گئی۔زندگی میں تو وہ مشکلات میں ہی گھرا رہا لیکن اس نے سائنس اور ریاضی کی بہت خدمت کی۔