جیو کے خلاف فیصلے کی راہ میں پیمرا کے حکومتی ارکان رکاوٹ بن گئے
حکومتی ارکان کے رویے کیخلاف اسرار عباسی، میاں شمس نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، وزارت قانون سے رائے طلب۔
قومی سلامتی کے ادارے آئی ایس آئی اوراس کے سربراہ کیخلاف الزام تراشی پر جیو نیوزکی بندش کیلیے دائرکی جانیوالی حکومتی درخواست پر فیصلے کی راہ میں پیمرا کے حکومتی ارکان رکاوٹ بن گئے اور پیمرا کے حکومتی اور پرائیویٹ ممبرز اس معاملے پر تقسیم ہوگئے۔
جمعے کو پیمرا کا اجلاس حکومتی اور پرائیویٹ ممبران کے درمیان طویل بحث و مباحثے کے بعدکسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا، بالآخر اس کیس پر غورو خوص 16مئی تک ملتوی کردیا گیا اور وزارت قانون سے اس پر رائے بھی مانگ لی گئی ہے۔ پیمرا کے 2 ارکان اسرار عباسی اور میاںشمس نے حکومتی ارکان کے رویے کیخلاف اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ بائیکاٹ کے بعد دونوں ارکان نے میڈیا سے گفتگو میں الزام لگایاکہ حکومتی ارکان اس معاملے کو الجھانا چاہتے ہیں تاکہ اس پر پیمرا قوانین کے تحت فیصلہ نہ ہو سکے۔ اسرار عباسی کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان خصوصاً سیکریٹری داخلہ نے پیمرا آرڈیننس اور اس کے قواعد و ضوابط کو ہی غلط قرار دیدیا۔
سیکریٹری داخلہ کا اصرار تھا کہ یہ معاملہ براہِ راست پیمرا کے پاس نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ آئی ایس آئی کو پہلے وزارت قانون کے پاس جانا چاہیے تھا اور اگر یہ معاملہ پیمرا کے پاس آیا بھی تھا تو اسے پہلے شکایات کونسل کے پاس جانا چاہیے تھا۔ جب ارکان کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ شکایات کونسل کو بھیجا گیا تھا لیکن ان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کیونکہ جیوکو شوکاز نوٹس ایشو ہو چکا ہے لہٰذا اتھارٹی خود اس کی سماعت کرے اور اپنی رپورٹ کونسل آف کمپلینٹ (شکایات کونسل) کو بھجوا دے لیکن حکومتی ارکان پہلے سے طے شدہ ایجنڈا کے بجائے پیمرا کے قانون اور اس میں خامیوں کے بارے میں گفتگوکرتے رہے۔ اسرار عباسی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کی گفتگو حکومتی ارکان کر رہے تھے اُس سے ان کی نیت صاف ظاہر تھی کہ وہ کسی کے کہنے پر اس معاملے کو حل نہیں ہونے دے رہے۔
پہلے سے طے شدہ ایجنڈا کو ایک طرف رکھ کر حکومتی ارکان نے غیر ضروری بحث چھیڑ دی۔ اسرار عباسی نے کہا کہ 6 مئی کو فیکٹ فائنڈنگ کیلیے بنائی گئی کمیٹی میں وہ بھی شامل تھے اور انکی تجویز تحریری طور پر موجود ہے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غورکی ضرورت ہے۔ انھوں نے تجویزکیا کہ جیو کا لائسنس معطل کر کے معاملہ شکایات کونسل کو حتمی فیصلے کیلیے بھیج دیا جائے جبکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے دوسرے ارکان نے بھی لائسنس کی معطلی، خاتمے اور جرمانے کی سفارش کی تھی لیکن حکومتی ارکان نے اس رپورٹ کے باوجود اس معاملے کو غیرضروری طور پر الجھانے کی کوشش کی۔ اسرار عباسی نے کہا کہ انھوں نے اپنی تجاویز میں جیو سوپرکا معاملہ بھی اٹھایا کیونکہ ابھی تک اس کیس کو منظوری کیلیے دوبارہ پیش نہیںکیا گیا ہے اور نہ ہی جیو سوپرکے لائسنس کی کنفرمیشن ہوئی ہے تاہم ان کی تجویز پر توجہ نہیں دی گئی۔ پیمرا کے رکن اسرار عباسی نے پیمرا کی3 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے بھی استعفیٰ دیدیا ہے۔
پیمرا کمیٹی نے اس نکتے پر غور کیا کہ جیوکیخلاف درخواست وصول کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟ اس دوران سرکاری اور پرائیویٹ ارکان کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ سرکاری ارکان نے وزارت دفاع کی درخواست کی مخالفت کی، بعض ارکان کا موقف تھاکہ درخواست کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجنا چاہیے، پرائیویٹ ارکان کا موقف تھا کہ فیصلہ پیمرا میں ہی کیاجائے تاہم سرکاری ارکان اکثریت کے بل بوتے پر معاملہ لٹکانے میںکامیاب رہے اور درخواست دائرکرنے کے طریقہ کار پر وزارت قانون سے رائے مانگ لی۔ اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اسرار عباسی نے کہا کہ 6 مئی کو سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سنے گئے، جس پر آج کے ایجنڈے میں بحث کی گئی لیکن اجلاس میں اصل معاملے پر بات کرنے کے بجائے دیگر پہلوؤں کو چھیڑ دیا گیا،ارکان خودکوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے اور حکومتی دباؤ پر معاملے کو ''کونسل آف کمپلینٹ'' میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ہم اتھارٹی کے کسی بھی متنازع فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
اس لیے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراطلاعات نے سرکاری ارکان کواجلاس میں 2گھنٹے نہیں آنے دیا، ارکان کی اکثریت حکومتی دباؤ کا شکار ہے، وہ اس سے پوچھ کرفیصلے کررہے ہیں اور معاملات طے ہوجائیںگے، معاملہ کونسل میں جانے سے جیوکوفائدہ ہوگا، حکومت خودکش حملہ کرناچاہتی ہے توکچھ کہہ نہیں سکتا۔ میاں شمس نے کہاکہ اجلاس پونے دوگھنٹے تاخیرسے شروع ہوا اورڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا،سرکاری ارکان نے پیمرا قوانین پرتنقیدکی،میں نے جیوکے متعلق قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کوکہا۔اسرارعباسی نے 3 سزائیں تجویزکیں تاہم ہمیں سزائیں تجویزنہ کرنے کاجواب ملاتوہم نے اجلاس کابائیکاٹ کردیا۔ انھوں نے کہا پہلے تو اجلاس ایک گھنٹہ45منٹ لیٹ شروع ہوا اورپہلے ڈیڑھ گھنٹہ روٹین کا اجلاس چلتا رہا، میں نے انھیں کہاکہ دیگرمعاملات اہم نہیں۔
پیمرا پر دنیا کی نظریں لگی ہیں، جیوسے متعلق قانون کے مطابق جوبھی فیصلہ کرنا ہے کرلیں۔ اسرار عباسی نے بتایا کہ وزیراطلاعات نے 2گھنٹے سرکاری ممبرزکو آنے نہیں دیا، جب ہمارے دباؤ پر ایجنڈا میں شامل کیا گیا تو سیکریٹری داخلہ شاہد خان نے کہا کہ پیمرا کا قانون اور قواعد وضوابط درست نہیں ہیں، میں نے جواب دیا کہ کیا آپ پیمرا کو بند کرنا چاہتے ہیں ،آپ کو آج خیال آیاہے؟سیکرٹری داخلہ نے کہا آئی ایس آئی کی درخواست براہ راست پیمرا کی بجائے وزارت قانون کے ذریعے آنی چایئے تھی، یہ کہا گیا کہ اس درخواست پر ہمیں وزارت قانون سے رائے لینی چاہیے۔
یہ نہ ہوکہ ہم کوئی فیصلہ کریں اور عدالت اسے اڑا دے، کیونکہ اس پر طریقہ کار درست استعمال نہیں ہوا ہے۔ اسرار عباسی نے کہا اب سرکاری ممبرزکہہ رہے ہیںکہ معاملے کو پہلے کونسل آف کمپلین کو بھیجیں، میں نے کہا خوشنود علی خان کی اور دیگر درخواستیں سی او پی میںگئی ہیںوہاں سے آپ کو لکھا ہوا آچکا ہے کہ پیمرا خود شوکاز جاری کرچکاہے لہٰذا خود اس شکایت کوبھی دیکھ لیں۔ اب یہ کیس وزارت قانون دیکھے گی جس کا چارج بھی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے پاس ہے اور پیمرا وزارت اطلاعات کے ماتحت ہے۔
جمعے کو پیمرا کا اجلاس حکومتی اور پرائیویٹ ممبران کے درمیان طویل بحث و مباحثے کے بعدکسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا، بالآخر اس کیس پر غورو خوص 16مئی تک ملتوی کردیا گیا اور وزارت قانون سے اس پر رائے بھی مانگ لی گئی ہے۔ پیمرا کے 2 ارکان اسرار عباسی اور میاںشمس نے حکومتی ارکان کے رویے کیخلاف اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ بائیکاٹ کے بعد دونوں ارکان نے میڈیا سے گفتگو میں الزام لگایاکہ حکومتی ارکان اس معاملے کو الجھانا چاہتے ہیں تاکہ اس پر پیمرا قوانین کے تحت فیصلہ نہ ہو سکے۔ اسرار عباسی کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان خصوصاً سیکریٹری داخلہ نے پیمرا آرڈیننس اور اس کے قواعد و ضوابط کو ہی غلط قرار دیدیا۔
سیکریٹری داخلہ کا اصرار تھا کہ یہ معاملہ براہِ راست پیمرا کے پاس نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ آئی ایس آئی کو پہلے وزارت قانون کے پاس جانا چاہیے تھا اور اگر یہ معاملہ پیمرا کے پاس آیا بھی تھا تو اسے پہلے شکایات کونسل کے پاس جانا چاہیے تھا۔ جب ارکان کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ شکایات کونسل کو بھیجا گیا تھا لیکن ان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کیونکہ جیوکو شوکاز نوٹس ایشو ہو چکا ہے لہٰذا اتھارٹی خود اس کی سماعت کرے اور اپنی رپورٹ کونسل آف کمپلینٹ (شکایات کونسل) کو بھجوا دے لیکن حکومتی ارکان پہلے سے طے شدہ ایجنڈا کے بجائے پیمرا کے قانون اور اس میں خامیوں کے بارے میں گفتگوکرتے رہے۔ اسرار عباسی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کی گفتگو حکومتی ارکان کر رہے تھے اُس سے ان کی نیت صاف ظاہر تھی کہ وہ کسی کے کہنے پر اس معاملے کو حل نہیں ہونے دے رہے۔
پہلے سے طے شدہ ایجنڈا کو ایک طرف رکھ کر حکومتی ارکان نے غیر ضروری بحث چھیڑ دی۔ اسرار عباسی نے کہا کہ 6 مئی کو فیکٹ فائنڈنگ کیلیے بنائی گئی کمیٹی میں وہ بھی شامل تھے اور انکی تجویز تحریری طور پر موجود ہے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غورکی ضرورت ہے۔ انھوں نے تجویزکیا کہ جیو کا لائسنس معطل کر کے معاملہ شکایات کونسل کو حتمی فیصلے کیلیے بھیج دیا جائے جبکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے دوسرے ارکان نے بھی لائسنس کی معطلی، خاتمے اور جرمانے کی سفارش کی تھی لیکن حکومتی ارکان نے اس رپورٹ کے باوجود اس معاملے کو غیرضروری طور پر الجھانے کی کوشش کی۔ اسرار عباسی نے کہا کہ انھوں نے اپنی تجاویز میں جیو سوپرکا معاملہ بھی اٹھایا کیونکہ ابھی تک اس کیس کو منظوری کیلیے دوبارہ پیش نہیںکیا گیا ہے اور نہ ہی جیو سوپرکے لائسنس کی کنفرمیشن ہوئی ہے تاہم ان کی تجویز پر توجہ نہیں دی گئی۔ پیمرا کے رکن اسرار عباسی نے پیمرا کی3 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے بھی استعفیٰ دیدیا ہے۔
پیمرا کمیٹی نے اس نکتے پر غور کیا کہ جیوکیخلاف درخواست وصول کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟ اس دوران سرکاری اور پرائیویٹ ارکان کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ سرکاری ارکان نے وزارت دفاع کی درخواست کی مخالفت کی، بعض ارکان کا موقف تھاکہ درخواست کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجنا چاہیے، پرائیویٹ ارکان کا موقف تھا کہ فیصلہ پیمرا میں ہی کیاجائے تاہم سرکاری ارکان اکثریت کے بل بوتے پر معاملہ لٹکانے میںکامیاب رہے اور درخواست دائرکرنے کے طریقہ کار پر وزارت قانون سے رائے مانگ لی۔ اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اسرار عباسی نے کہا کہ 6 مئی کو سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سنے گئے، جس پر آج کے ایجنڈے میں بحث کی گئی لیکن اجلاس میں اصل معاملے پر بات کرنے کے بجائے دیگر پہلوؤں کو چھیڑ دیا گیا،ارکان خودکوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے اور حکومتی دباؤ پر معاملے کو ''کونسل آف کمپلینٹ'' میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ہم اتھارٹی کے کسی بھی متنازع فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
اس لیے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراطلاعات نے سرکاری ارکان کواجلاس میں 2گھنٹے نہیں آنے دیا، ارکان کی اکثریت حکومتی دباؤ کا شکار ہے، وہ اس سے پوچھ کرفیصلے کررہے ہیں اور معاملات طے ہوجائیںگے، معاملہ کونسل میں جانے سے جیوکوفائدہ ہوگا، حکومت خودکش حملہ کرناچاہتی ہے توکچھ کہہ نہیں سکتا۔ میاں شمس نے کہاکہ اجلاس پونے دوگھنٹے تاخیرسے شروع ہوا اورڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا،سرکاری ارکان نے پیمرا قوانین پرتنقیدکی،میں نے جیوکے متعلق قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کوکہا۔اسرارعباسی نے 3 سزائیں تجویزکیں تاہم ہمیں سزائیں تجویزنہ کرنے کاجواب ملاتوہم نے اجلاس کابائیکاٹ کردیا۔ انھوں نے کہا پہلے تو اجلاس ایک گھنٹہ45منٹ لیٹ شروع ہوا اورپہلے ڈیڑھ گھنٹہ روٹین کا اجلاس چلتا رہا، میں نے انھیں کہاکہ دیگرمعاملات اہم نہیں۔
پیمرا پر دنیا کی نظریں لگی ہیں، جیوسے متعلق قانون کے مطابق جوبھی فیصلہ کرنا ہے کرلیں۔ اسرار عباسی نے بتایا کہ وزیراطلاعات نے 2گھنٹے سرکاری ممبرزکو آنے نہیں دیا، جب ہمارے دباؤ پر ایجنڈا میں شامل کیا گیا تو سیکریٹری داخلہ شاہد خان نے کہا کہ پیمرا کا قانون اور قواعد وضوابط درست نہیں ہیں، میں نے جواب دیا کہ کیا آپ پیمرا کو بند کرنا چاہتے ہیں ،آپ کو آج خیال آیاہے؟سیکرٹری داخلہ نے کہا آئی ایس آئی کی درخواست براہ راست پیمرا کی بجائے وزارت قانون کے ذریعے آنی چایئے تھی، یہ کہا گیا کہ اس درخواست پر ہمیں وزارت قانون سے رائے لینی چاہیے۔
یہ نہ ہوکہ ہم کوئی فیصلہ کریں اور عدالت اسے اڑا دے، کیونکہ اس پر طریقہ کار درست استعمال نہیں ہوا ہے۔ اسرار عباسی نے کہا اب سرکاری ممبرزکہہ رہے ہیںکہ معاملے کو پہلے کونسل آف کمپلین کو بھیجیں، میں نے کہا خوشنود علی خان کی اور دیگر درخواستیں سی او پی میںگئی ہیںوہاں سے آپ کو لکھا ہوا آچکا ہے کہ پیمرا خود شوکاز جاری کرچکاہے لہٰذا خود اس شکایت کوبھی دیکھ لیں۔ اب یہ کیس وزارت قانون دیکھے گی جس کا چارج بھی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے پاس ہے اور پیمرا وزارت اطلاعات کے ماتحت ہے۔