جراثیم اور بیکٹیریاکی شناخت کرنے والے مقناطیسی موتی
سپرپیرامیگنیٹک موتیوں پر اینٹی باڈی چڑھائی گئی ہیں جو سالمونیلا جیسے بیکٹیریا کی موجودگی میں روشنی خارج کرتے ہیں
خون کے روایتی ٹیسٹ میں جراثیم یا بیماری کا پتا لگانے میں ایک دن سے ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ یہی ماجرا پانی اور غذائی ٹیسٹ کے لیے بھی ہے۔ تاہم میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے جراثیم کی فوری شناخت کرنے والا یہ ٹیسٹ بنایا ہے۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے آلودہ غذا میں سالمونیلا بیکٹیریا شناخت کیا ہے۔
انہیں 'ڈائنابیڈز' کا نام دیا گیا ہے جس پر اینٹی باڈیز مختلف جراثیم کے سالمات شناخت کرتی ہیں۔ پھر موتیوں کو 'رامن طیف نگاری (اسپیکٹراسکوپی)' سے گزارا جاتا ہے جس میں کچھ آثار اس جراثیم کی تصدیق کرتے ہیں۔
رامن طیف نگاری میں نظرآنے والے آثار(سگنیچرز) کو ایک روشن ٹیگ سے مزید واضح کیا جاسکتا ہے، جو رنگ یا روشنی خارج کرکے ہمیں جراثیم کی اطلاع دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل میں بننے والا سگنیچر ایک گھنٹے سے بھی کم میں نمودار ہوتا ہے۔ لیکن اب تک یہ بیکٹیریا ہی شناخت کرسکتا ہے۔
یہ نظام ابھی بہت بڑا اور پھیلا ہوا ہے جسے چھوٹا کرکے دستی آلے میں سمونے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تاہم اس کی تفصیلات، رامن اسپیکٹرواسکوپی نامی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ نظام کھانے اور پانی میں بیکٹیریا شناخت کرسکتا ہے۔ اسے غریب اور دورافتادہ علاقوں میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اس کا نتیجہ جدید لیبارٹری کی طرح ہے ہوگا۔
تحقیقی ٹیم کی رکن میریسا مک ڈونلڈ کہتی ہے کہ پانی میں جراثیم ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی ایجاد یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے۔ اس میں دنوں کی بجائے چند منٹ ہوتے ہیں۔ ڈائنابیڈز کے لیے بازار میں دستیاب خردبینی مقناطیسی موتی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھرلگی ہوئی اینٹی باڈیزکو ایک ہُک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے جو جراثیم کے سالمات کو گرفت کرلیتےہیں۔
اسی طرح یہ خون میں بھی بیکٹیریا کی نشاندہی کرسکتےہیں۔ تاہم اسے کمرشل ٹیکنالوجی کی صورت دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
انہیں 'ڈائنابیڈز' کا نام دیا گیا ہے جس پر اینٹی باڈیز مختلف جراثیم کے سالمات شناخت کرتی ہیں۔ پھر موتیوں کو 'رامن طیف نگاری (اسپیکٹراسکوپی)' سے گزارا جاتا ہے جس میں کچھ آثار اس جراثیم کی تصدیق کرتے ہیں۔
رامن طیف نگاری میں نظرآنے والے آثار(سگنیچرز) کو ایک روشن ٹیگ سے مزید واضح کیا جاسکتا ہے، جو رنگ یا روشنی خارج کرکے ہمیں جراثیم کی اطلاع دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل میں بننے والا سگنیچر ایک گھنٹے سے بھی کم میں نمودار ہوتا ہے۔ لیکن اب تک یہ بیکٹیریا ہی شناخت کرسکتا ہے۔
یہ نظام ابھی بہت بڑا اور پھیلا ہوا ہے جسے چھوٹا کرکے دستی آلے میں سمونے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تاہم اس کی تفصیلات، رامن اسپیکٹرواسکوپی نامی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ نظام کھانے اور پانی میں بیکٹیریا شناخت کرسکتا ہے۔ اسے غریب اور دورافتادہ علاقوں میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اس کا نتیجہ جدید لیبارٹری کی طرح ہے ہوگا۔
تحقیقی ٹیم کی رکن میریسا مک ڈونلڈ کہتی ہے کہ پانی میں جراثیم ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی ایجاد یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے۔ اس میں دنوں کی بجائے چند منٹ ہوتے ہیں۔ ڈائنابیڈز کے لیے بازار میں دستیاب خردبینی مقناطیسی موتی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھرلگی ہوئی اینٹی باڈیزکو ایک ہُک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے جو جراثیم کے سالمات کو گرفت کرلیتےہیں۔
اسی طرح یہ خون میں بھی بیکٹیریا کی نشاندہی کرسکتےہیں۔ تاہم اسے کمرشل ٹیکنالوجی کی صورت دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔