سانحہ جڑانوالہ
سانحہ جڑانوالہ کا واقعہ بنیادی طور پر ہماری ریاستی ساکھ اور شفافیت پر سوالات کو اٹھاتا ہے
سانحہ جڑانوالہ کا واقعہ بنیادی طور پر ہماری ریاستی ساکھ اور شفافیت پر سوالات کو اٹھاتا ہے اور ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور کیا ہم اقلیتوں کو وہ تحفظ دے رہے ہیں جس کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے ۔ ایسے واقعات نے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہمارے مقدمہ کو کمزور کیا ہے ۔
ہمارے مجموعی طرز عمل میں تضادات ہیں یا الجھاؤ کی کیفیت یا سوچ و فکر کی سطح پر جذباتیت غالب ہے ۔ ریاست کی رٹ کا کمزور ہونا اور ریاست کے مقابلے میں طاقت ورافراد یا انتہا پسندوں کے قائم جتھوں کا بالادست ہونا یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رجحان ہماری ریاستی کمزور ی کے کئی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے ۔
کیونکہ اس طرح کے واقعات میں جہاں درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہو اور اقلیتوں سمیت کمزور طبقات پر مذہب کو بنیاد بنا کر یا اسے ہتھیار سمجھ کر تشدد یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو، سنگین مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
ریاستی رٹ کا قائم نہ ہونا یا ریاست کا سمجھوتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا عمل بنیادی طور پر پرتشدد رجحانات رکھنے والے افراد یا جتھوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ نہ صرف عملاً ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق دین یا مذہب کو اپنے حق میںیا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کریں جو انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ اس وقت کئی طرح کے سیاسی ،سماجی، قانونی، مذہبی، اخلاقی مسائل سے دوچار ہے۔ انتہا پسندی ، عدم برداشت تعصب، غصہ نفرت اور بدلے کی آگ پورے سماجی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا ہونا ایک خطرناک سماجی، سیاسی یا معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتا ہے ۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے آئین و قانون میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت نہیں ۔ ہمارے مقابلے میں بھارت میں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے اور اس میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں زیادہ تشویش کا پہلو ہے۔ کیونکہ بھارت میں جو سلوک اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے اس میں ہمیں صرف بھارت کی انتہا پسند بی جے پی کی حکومت ہی نہیں بلکہ مختلف حوالوں سے اس انتہا پسندی کو ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے اس میں ریاستی ادارے بھی یا خاموش ہیں یا سمجھوتوں کی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں یا وہ خود کو بے بس سمجھتے ہیں ۔لیکن ہم صرف بھارت کو بنیاد بنا کر خود کو نہیں بچاسکیں گے بلکہ ہم کو اپنے اندر موجود ان انتہا پسندانہ رجحانات یا اقلیتوں کے بارے میں موجود تضادات کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے ۔ خاص طور پر ہمارے ریاستی و حکومتی ایکشن میں شفافیت اور غیر جانبداری کا پہلو نمایاں ہونا چاہیے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات یہاں کیوں ہوتے ہیں اور کیوں ہم ان واقعات کو مکمل ختم کرنے میں وہ کردار ادا ہی نہیں کرتے جو ہماری ذمے داری بنتے ہیں ۔کیا ان معاملات کی سرکوبی میں ہماری سیاسی اور قانونی کمٹمنٹ کی کمزوری ہے یا معاملات سے نمٹنے کی ہمارے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ان حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے ۔
دوسرا اقلیتوں کے حوالے سے منفی واقعات کا ہونا لمحہ فکریہ ہے مگر یہ سمجھنا کہ ہماری ریاست یا معاشرے کا مجموعی مزاج اقلیتوں کے خلاف ہے ، درست نہیں ۔ جڑانوالہ واقعہ میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم سے لے کر صوبائی حکومت ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں ، میڈیا، فوجی قیادت ، مذہبی جماعتیں سب نے ہی ذمے دارانہ کردار ادا کیا اور خود کو اقلیتوں کے ساتھ کھڑا کیا۔
خود وہاں پہنچے اورعملی اقدامات کیے گئے ، نقصان کا ازالہ کیا گیا اور ہر ممکن مدد بھی سیاسی ، انتظامی ،قانونی سطح پر دیکھنے کو ملی جو خود اقلیتوں کی اپنی قیادت کے مطابق کافی حوصلہ مند ہے۔اقلیتوں اور مسلم لیڈر شپ کا مل بیٹھ کر ان معاملات کا حل تلاش کرنا اور ان واقعات کو روکنے کے لیے مضبوط کمٹمنٹ کا اظہار بھی درست پہلو ہے ۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو پرجوشیت ہمیں معاشرتی سطح پر دیکھنے کو ملی ہے اس میں دو پہلو اہم ہیں ۔ اول، یہ مستقل بنیاد پر ہونی چاہیے اور ان معاملات کو روکنے کے لیے اقلیتی اور مسلم لیڈر شپ سمیت حکومتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے پہلو کو نمایاں ہونا چاہیے ۔
یہ پالیسی محض کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر ردعمل تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے لیے ہمیں لانگ ٹر م ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم کی سطح پر مضبوط مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اس لیے مسئلہ محض اقلیتوں پر ہونے والے منفی واقعات پر فوری اقدامات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہماری مستقل حکومتی پالیسی سے واضح اور شفاف بنیادوں پر نظر آنا چاہیے ۔
جو لوگ بھی مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں جو کسی دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بنتا ہے ،اسے قانون کی گرفت میںآنا چاہیے ۔جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس کا مجموعی طور پر سیاسی ، قانونی اور سماجی طور پر پوسٹ مارٹم کرنا ہوگا اور تمام کرداروںکا احتسابی عمل ہی ہمیں کسی نتیجہ پر پہنچنے میں مدد دے گا۔مسئلہ ایک دوسرے پر الزام تراشی یا سیاسی اسکورنگ کا نہیں بلکہ ہماری حکمت عملی میں مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہونا چاہیے ۔
بالخصوص اس طرح کے واقعات میں افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، اسے ہر صورت روکنا ہوگا۔خاص طور پر ہمیں اپنے مقامی یا ضلعی یا تحصیل کے انتظامی ڈھانچوں کو بہتر بنانا ہے اور جب بھی مقامی سطح پر اس طرح کے واقعات کا کوئی بھی پہلو قبل ازوقت محسوس کیا جائے تو ہمیں فوری ایکشن کی مدد سے ان واقعات کی روک تھام میں آگے بڑھنا ہوگا۔
مقامی حکومت، مقامی انتظامیہ ، مقامی تنظیمیں ، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور اقلیتوں کی قیادت سمیت میڈیا ان معاملات میں مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ معاملات کو کنٹرول کرسکتا ہے ۔ایسے عناصر کی نشاندہی ہونی چاہیے جو اس طرح کے معاملات میں شدت کو پیدا کرتے ہیں ان کے خلاف بروقت اقدامات درکار ہیں ۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان واقعات میں عمومی طور پر واقعات ذاتی رنجشوں یا دشمنیوں یا لین دین کے ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر اسے مذہبی رنگ دے کر اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار ہی استعمال کرنا لمحہ فکریہ ہے ۔
جب ریاست کے سامنے سماج کی تشکیل نو اور ان کی تعلیم و تربیت سمیت رواداری، اخوت، سماجی بھلائی اور سماجی ، سیاسی و مذہبی ہم آہنگی کے پہلو کی ترجیحات نہیں ہونگی تو پھر پرتشدد معاشرہ ہی سامنے آتا ہے۔ اقلیت ہوں یا اکثریت سب کو ہی پرتشدد رجحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔
ایسے موقع پر دنیا ہم پر نظریں لگائے بیٹھی ہے اور ایسے معاملات پر ہم پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو ہمیں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ہم بطور ریاست انتہا پسندی کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں ، اس پر موثر حکمت عملی درکار ہے ۔
ہمارے مجموعی طرز عمل میں تضادات ہیں یا الجھاؤ کی کیفیت یا سوچ و فکر کی سطح پر جذباتیت غالب ہے ۔ ریاست کی رٹ کا کمزور ہونا اور ریاست کے مقابلے میں طاقت ورافراد یا انتہا پسندوں کے قائم جتھوں کا بالادست ہونا یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رجحان ہماری ریاستی کمزور ی کے کئی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے ۔
کیونکہ اس طرح کے واقعات میں جہاں درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہو اور اقلیتوں سمیت کمزور طبقات پر مذہب کو بنیاد بنا کر یا اسے ہتھیار سمجھ کر تشدد یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو، سنگین مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
ریاستی رٹ کا قائم نہ ہونا یا ریاست کا سمجھوتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا عمل بنیادی طور پر پرتشدد رجحانات رکھنے والے افراد یا جتھوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ نہ صرف عملاً ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق دین یا مذہب کو اپنے حق میںیا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کریں جو انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ اس وقت کئی طرح کے سیاسی ،سماجی، قانونی، مذہبی، اخلاقی مسائل سے دوچار ہے۔ انتہا پسندی ، عدم برداشت تعصب، غصہ نفرت اور بدلے کی آگ پورے سماجی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا ہونا ایک خطرناک سماجی، سیاسی یا معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتا ہے ۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے آئین و قانون میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت نہیں ۔ ہمارے مقابلے میں بھارت میں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے اور اس میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں زیادہ تشویش کا پہلو ہے۔ کیونکہ بھارت میں جو سلوک اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے اس میں ہمیں صرف بھارت کی انتہا پسند بی جے پی کی حکومت ہی نہیں بلکہ مختلف حوالوں سے اس انتہا پسندی کو ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے اس میں ریاستی ادارے بھی یا خاموش ہیں یا سمجھوتوں کی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں یا وہ خود کو بے بس سمجھتے ہیں ۔لیکن ہم صرف بھارت کو بنیاد بنا کر خود کو نہیں بچاسکیں گے بلکہ ہم کو اپنے اندر موجود ان انتہا پسندانہ رجحانات یا اقلیتوں کے بارے میں موجود تضادات کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے ۔ خاص طور پر ہمارے ریاستی و حکومتی ایکشن میں شفافیت اور غیر جانبداری کا پہلو نمایاں ہونا چاہیے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات یہاں کیوں ہوتے ہیں اور کیوں ہم ان واقعات کو مکمل ختم کرنے میں وہ کردار ادا ہی نہیں کرتے جو ہماری ذمے داری بنتے ہیں ۔کیا ان معاملات کی سرکوبی میں ہماری سیاسی اور قانونی کمٹمنٹ کی کمزوری ہے یا معاملات سے نمٹنے کی ہمارے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ان حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے ۔
دوسرا اقلیتوں کے حوالے سے منفی واقعات کا ہونا لمحہ فکریہ ہے مگر یہ سمجھنا کہ ہماری ریاست یا معاشرے کا مجموعی مزاج اقلیتوں کے خلاف ہے ، درست نہیں ۔ جڑانوالہ واقعہ میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم سے لے کر صوبائی حکومت ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں ، میڈیا، فوجی قیادت ، مذہبی جماعتیں سب نے ہی ذمے دارانہ کردار ادا کیا اور خود کو اقلیتوں کے ساتھ کھڑا کیا۔
خود وہاں پہنچے اورعملی اقدامات کیے گئے ، نقصان کا ازالہ کیا گیا اور ہر ممکن مدد بھی سیاسی ، انتظامی ،قانونی سطح پر دیکھنے کو ملی جو خود اقلیتوں کی اپنی قیادت کے مطابق کافی حوصلہ مند ہے۔اقلیتوں اور مسلم لیڈر شپ کا مل بیٹھ کر ان معاملات کا حل تلاش کرنا اور ان واقعات کو روکنے کے لیے مضبوط کمٹمنٹ کا اظہار بھی درست پہلو ہے ۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو پرجوشیت ہمیں معاشرتی سطح پر دیکھنے کو ملی ہے اس میں دو پہلو اہم ہیں ۔ اول، یہ مستقل بنیاد پر ہونی چاہیے اور ان معاملات کو روکنے کے لیے اقلیتی اور مسلم لیڈر شپ سمیت حکومتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے پہلو کو نمایاں ہونا چاہیے ۔
یہ پالیسی محض کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر ردعمل تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کے لیے ہمیں لانگ ٹر م ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم کی سطح پر مضبوط مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اس لیے مسئلہ محض اقلیتوں پر ہونے والے منفی واقعات پر فوری اقدامات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہماری مستقل حکومتی پالیسی سے واضح اور شفاف بنیادوں پر نظر آنا چاہیے ۔
جو لوگ بھی مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں جو کسی دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بنتا ہے ،اسے قانون کی گرفت میںآنا چاہیے ۔جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس کا مجموعی طور پر سیاسی ، قانونی اور سماجی طور پر پوسٹ مارٹم کرنا ہوگا اور تمام کرداروںکا احتسابی عمل ہی ہمیں کسی نتیجہ پر پہنچنے میں مدد دے گا۔مسئلہ ایک دوسرے پر الزام تراشی یا سیاسی اسکورنگ کا نہیں بلکہ ہماری حکمت عملی میں مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہونا چاہیے ۔
بالخصوص اس طرح کے واقعات میں افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، اسے ہر صورت روکنا ہوگا۔خاص طور پر ہمیں اپنے مقامی یا ضلعی یا تحصیل کے انتظامی ڈھانچوں کو بہتر بنانا ہے اور جب بھی مقامی سطح پر اس طرح کے واقعات کا کوئی بھی پہلو قبل ازوقت محسوس کیا جائے تو ہمیں فوری ایکشن کی مدد سے ان واقعات کی روک تھام میں آگے بڑھنا ہوگا۔
مقامی حکومت، مقامی انتظامیہ ، مقامی تنظیمیں ، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور اقلیتوں کی قیادت سمیت میڈیا ان معاملات میں مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ معاملات کو کنٹرول کرسکتا ہے ۔ایسے عناصر کی نشاندہی ہونی چاہیے جو اس طرح کے معاملات میں شدت کو پیدا کرتے ہیں ان کے خلاف بروقت اقدامات درکار ہیں ۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان واقعات میں عمومی طور پر واقعات ذاتی رنجشوں یا دشمنیوں یا لین دین کے ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر اسے مذہبی رنگ دے کر اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار ہی استعمال کرنا لمحہ فکریہ ہے ۔
جب ریاست کے سامنے سماج کی تشکیل نو اور ان کی تعلیم و تربیت سمیت رواداری، اخوت، سماجی بھلائی اور سماجی ، سیاسی و مذہبی ہم آہنگی کے پہلو کی ترجیحات نہیں ہونگی تو پھر پرتشدد معاشرہ ہی سامنے آتا ہے۔ اقلیت ہوں یا اکثریت سب کو ہی پرتشدد رجحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔
ایسے موقع پر دنیا ہم پر نظریں لگائے بیٹھی ہے اور ایسے معاملات پر ہم پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو ہمیں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ہم بطور ریاست انتہا پسندی کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں ، اس پر موثر حکمت عملی درکار ہے ۔