گلوکارہ نغمہدلوں کو چھو لینے والی آواز
چاہتی ہوں کہ اپنے فن کے ذریعے اپنی زبان اور اپنی مٹی کا قرض اتار دوں
سچ پوچھیے تو ''قدرت نے بنایا ہوگا فرصت سے تجھے میرے یار''والی بات اگر موجودہ دور میں پشتو زبان کی کسی گلوکارہ پرسوفیصد صادق آتی ہے تو وہ نغمہ کے بغیر اور کون ہو سکتی ہے۔
جو بالکل اسم بامسمیٰ اور سراپا نغمہ ہے جسے قدرت نے ایک سریلی میٹھی اور جادو بھری آواز کے علاوہ ایک ایسی خوبصورت قدوقامت بھی بخشی ہے جس کے انگ انگ میں نغمگی ، لے اور سُر بول رہا ہے افغانستان کے صوبہ قندہار میں ایک روایتی پختون گھرانے میں جنم لینے والی اس گائیکہ کا اپنا اصل نام ''خاپیرئی''( پر ی) ہے اور جن آنکھوں نے صرف ایک بار بھی اسے قریب سے دیکھا ہو وہ اعتراف کریں گے کہ نغمہ واقعی کسی پرستان سے آئی ہوئی پری ہے۔
انہیں بچپن ہی سے گلوکاری کا شوق تھا مگر اپنے گھر اور خاندان کے خوف سے خاپیرئی نے اپنے اندر کے'' نغمہ'' کے ہونٹ سی لیے تھے لیکن بقول غالب ''نغمہ پابند نے نہیں ہے'' کے مصداق جس وقت وہ ایف اے کرنے کے بعد افغانستان کی وزارت داخلہ میںخاتون پولیس میں بھرتی ہو گئیں جہاں منگل نامی خوبصورت نوجوان شوقیہ گلوکار بھی ملازمت کر رہا تھا اور صوبہ لغمان کے گاؤں ''گومین'' کے رہنے والے تھے ۔
دونوں کی ایک ساتھ محکمہ پولیس میں ملازمت اور دونوں کا فن گائیکی سے گہرے لگاؤ نے ایک ایسی دوستی کی شکل اختیار کر لی جو چلتی چلتی شادی پر منتج ہوئی اور اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف نغمہ نے اپنے جیون ساتھی کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں کی شادی میں اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب زئی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا ۔
اگر چہ اب دونوں کے مابین طلاق واقع ہوئی ہے اور نغمہ نے دوسری شادی امریکا میں کی ہے اور اب بھی وہاں مقیم ہیں ۔ افغانستان میں روسی فوج کی آمد سے دیگر افغانیوں کی طرح یہ گائیک جوڑی بھی وہاں سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئی ، کچھ عرصہ پشاور گزارا اور بعد میں اسلام آباد منتقل ہو گئے ، یہاں بھی دونوں میاں بیوی نے ریڈیو پاکستان پشاور کے علاوہ پشاور ٹیلی وژن اور دیگر مشہور آڈیو سنٹروں کے لیے اپنی آواز میں کئی البم تیار کیے ۔
یہاں کافی عرصہ گزارنے کے بعد امریکہ چلے گئے جہاں اپنے چار بچوں کے ساتھ (جن میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں) زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں سے نغمہ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد پختونوں کی خصوصی دعوت پر پروگراموں میں شرکت کرنے آتی جاتی ہیں ۔
گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں نغمہ افغانستان کے موجودہ طالبان کے امیر اور حکمران ملا برادر سے مخاطب تھیں کہ خدارا افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر سے لگائی ہوئی پابندی ہٹا دیں ۔ ہمیں آپ کی حکمرانی سے اور کچھ لینا دینا نہیں بس صرف یہی ایک گزارش ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم سے منع مت کریں ۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک گیت بھی گایا ہے جس کے بول یہ ہیں کہ خدارا ان آزاد پرندوں (لڑکیوں) کو پرواز کرنے دو ۔ ان کے پروں کو مت باندھیں ۔
نغمہ ایک خوبصورت گلوکارہ کے علاوہ پشتو زبان کی ایک بہترین شاعرہ بھی ہیں ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ''ماتہ ھیندارہ'' (ٹوٹا ہوا آئینہ) چند سال قبل چھپ کر مارکیٹ میں آیا اور پڑھنے والوں سے خوب داد و تحسین وصول کی ۔ کچھ عرصہ قبل نغمہ افغانستان کے آریانہ ٹیلی وژن کی خصوصی دعوت پر کابل آئی ہوئی تھیں ۔
امریکہ واپس جاتے ہوئے اسلام آباد میں دو دن قیام کے دوران ان سے ایک صحافی دوست کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ اس نشست کے دوران ان سے جو خصوصی گفتگو ہوئی۔ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی ذات اور موجودگی کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں میرا وجود ایک طعنہ ہے کیونکہ قدرت نے مجھے عورت ذات پیدا کیا ہے اور عورت کا مقام اب بھی اس معاشرے میں جوتے کے برابر ہے، اب بھی میرے خاندان اور قبیلے کے لوگ مجھے اپنے ماتھے پر ایک بدنما داغ سمجھتے ہیں۔
میری آواز اور چہرے کو پسند کرنے والے میرے وجود کو ایک انسان کی شکل میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اسی تضاد اور دوغلا پن کی وجہ سے میں نے اپنا وطن افغانستان چھوڑ کر امریکہ میں مسافرت کی زندگی اختیار کی ہے ۔
قدرت نے میرے دل ودماغ میں روشنی کا ایک ایسا چشمہ پیدا کیا ہے جس پر کوئی تاریکی اپنا قبضہ نہیں جما سکتی ۔ فن اور سیاست کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیاست لوگوںپر اپنی حاکمیت زبردستی یا دولت کے ذریعے کرتی ہے جبکہ فن اپنا پیغام پیار اور محبت کی زبان میں پہنچاتا ہے ۔ مشرق اور مغرب کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے نغمہ نے بتایا کہ مشرق ہمیشہ علم وتہذیب کا مرکز رہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے جوروشنی اور اُجالے کی زندہ مثال اور نمونہ ہے ۔
شاعری اور موسیقی کے درمیان تعلق کے بارے میں نغمہ نے کہا کہ شاعری اور موسیقی کا آپس میں وہی رشتہ ہے جو رشتہ روح اور تن کے درمیان ہے اس لیے روح اور وجود کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے دونوں کی موت فطری امر ہے۔
ماضی اور حال کے کابل کے حالات کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج اپنے ملک افغانستان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، پچھلے چالیس سال سے مسلسل جنگوں نے افغانستان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے، کابل اب وہ کابل نہیں رہا اس کے لوگ بدل گئے ہیں، اس کا کلچر تبدیل ہو چکا ہے، لوگوں میں پہلے والی محبت نہیں رہی ، صحت اور تعلیم کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، سب سے بڑی تباہی لوگوں کی ذہنی تباہی ہے ۔
کابل میں مختلف ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلوں کے بارے میں نغمہ نے بتایا کہ اچھی بات ہے آج ان چیزوں کی ضرورت ہے لیکن ان چینلوں کو جس چیز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے اسے پیش نہیں کرتے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دوسروں کا کلچر اور زبان افغانیوں پر تھوپا جا رہا ہے حالانکہ افغانیوں کااپنا کلچر ' اپنی زبان ، ادب اور موسیقی ہے لیکن آج وہاں ہندی 'تاجکی ' عربی اور ایرانی زبان اورکلچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، پورے ہندوستان میں کوئی ایک افغان گلوکار اور فنکار کو نہیں جانتے جبکہ افغانستان کا بچہ بچہ شاہ رخ خان سنجے دت ' مادھوری، ایشوریہ رائے اور دیگر ناموں سے واقف ہیں ۔
افغانستان میں 75 فیصد آبادی پشتو بولنے والوں کی ہے لیکن آج وہاں ان کی زبان پشتو آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ افغانستان کی ملی زبان پشتو اور سرکاری زبان دری اور پشتو دونوں ہیں لیکن آج وہاں ازبکی ' تاجکی اور دیگر زبانوں کا طوطی بول رہا ہے ، میں نے اس لیے افغانستان کا ملی ترانہ گانے سے انکار کیا تھا کہ اس میں سولہ زبانوں کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو خود بے اتفاقی کی نشانی ہے، ملی ترانے میں تو وطن کی عظمت ' محبت ' تاریخ اور کارناموں کا ذکر ہونا چاہئے جبکہ موجودہ ترانے میں ازبک 'تاجک اور پنچ شیری کی تعریف بیان کی جاتی ہے ۔
افغانستان کو آج سب سے زیادہ امن ، محبت ، اتفاق اور ملی یکجہتی کی ضرورت ہے اور جس طرح یہ ملک غریب اور پسماندہ ہے اس طرح اس کے فنکار بھی غریب ہیں ۔ ہم دنیا کے دیگر فنکاروں کی طرح اپنے ملک اور غریب عوام کی خدمت اس لئے نہیں کر سکتے کہ وہ لوگ ہم سے اقتصادی طور پر بہت مضبوط اور خوشحال ہیں ان کے ایک ایک پروگرام اور شو کو دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ ہزاروں روپے کا ٹکٹ خرید کر آتے ہیں ، میرا دل بھی چاہتا ہے کہ اپنے ملک کے غریب لوگوں کے لئے کچھ کروں لیکن خود ہر وقت مالی مشکلات میں پھنسی رہتی ہوں ۔
مجھے جب اپنی والدہ اور رشتہ دار کہتے ہیں کہ نغمہ حج پر چلی جائیں تو میں ہنس دیتی ہوں اور انہیں کہتی ہوں کہ ٹھیک ہے حج پر چلی جاؤں گی لیکن افغانستان میں تو آج بھی سینکڑوں لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں اگر وہ رقم جس پر حج کرتی ہوں اپنے ان غریبوں میں بانٹ دوں تو حج سے کئی گنا زیادہ ثواب مل سکتا ہے ۔
ہجرت اور پناہ گزینی کی زندگی نے افغانیوں کی زندگی اور طور طریقوں پر کیا اثرات مرتب کئے ؟ اس سوال کے جواب میں نغمہ نے بتایا کہ مجبوری اور غربت نے ہی ان لوگوں کو ایک دنیا دکھائی دوسروں کی زبان ، بودو وباش اورکلچر سے آشنا ہوئے اور اس ہجرت کی زندگی میں افغانیوں نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ میں اکثر اپنے لوگوں کو پنجابیوں کی مثال دیتی ہوں جو بہت نرم دل اور اپنے ملک اور مٹی سے پیار کرنے والے لوگ ہیں ، اگر ہمارے لوگوں نے پاکستانیوں کی تقلید شروع کر دی تو وہ دن دور نہیں جب افغانستان ایک بار پھر خوشحال اور آباد افغانستان ہو گا۔
نغمہ نے بتایا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوا اور حالات سازگار ہو گئے تو ارادہ ہے کہ واپس آکر یہاں عورتوں کے لئے موسیقی سیکھنے کی ایک اکیڈمی قائم کر لوں ۔ نغمہ نے بتایا کہ میرے گائے ہوئے گیت اور نغمے خود اچھے ہیں اس لئے ان گیتوں کے ساتھ کسی ناچنے والی لڑکیوں کی ضرورت نہیں اور جو لوگ میرے گائے ہوئے گیتوں کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں وہ میرے فن اور شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ نغمہ نے بتایا '' میں اپنی زبان اپنی قوم اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اپنے فن کے ذریعے اپنی زبان اور اپنی مٹی کا قرض اتار دوں ۔''
جو بالکل اسم بامسمیٰ اور سراپا نغمہ ہے جسے قدرت نے ایک سریلی میٹھی اور جادو بھری آواز کے علاوہ ایک ایسی خوبصورت قدوقامت بھی بخشی ہے جس کے انگ انگ میں نغمگی ، لے اور سُر بول رہا ہے افغانستان کے صوبہ قندہار میں ایک روایتی پختون گھرانے میں جنم لینے والی اس گائیکہ کا اپنا اصل نام ''خاپیرئی''( پر ی) ہے اور جن آنکھوں نے صرف ایک بار بھی اسے قریب سے دیکھا ہو وہ اعتراف کریں گے کہ نغمہ واقعی کسی پرستان سے آئی ہوئی پری ہے۔
انہیں بچپن ہی سے گلوکاری کا شوق تھا مگر اپنے گھر اور خاندان کے خوف سے خاپیرئی نے اپنے اندر کے'' نغمہ'' کے ہونٹ سی لیے تھے لیکن بقول غالب ''نغمہ پابند نے نہیں ہے'' کے مصداق جس وقت وہ ایف اے کرنے کے بعد افغانستان کی وزارت داخلہ میںخاتون پولیس میں بھرتی ہو گئیں جہاں منگل نامی خوبصورت نوجوان شوقیہ گلوکار بھی ملازمت کر رہا تھا اور صوبہ لغمان کے گاؤں ''گومین'' کے رہنے والے تھے ۔
دونوں کی ایک ساتھ محکمہ پولیس میں ملازمت اور دونوں کا فن گائیکی سے گہرے لگاؤ نے ایک ایسی دوستی کی شکل اختیار کر لی جو چلتی چلتی شادی پر منتج ہوئی اور اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف نغمہ نے اپنے جیون ساتھی کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں کی شادی میں اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب زئی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا ۔
اگر چہ اب دونوں کے مابین طلاق واقع ہوئی ہے اور نغمہ نے دوسری شادی امریکا میں کی ہے اور اب بھی وہاں مقیم ہیں ۔ افغانستان میں روسی فوج کی آمد سے دیگر افغانیوں کی طرح یہ گائیک جوڑی بھی وہاں سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئی ، کچھ عرصہ پشاور گزارا اور بعد میں اسلام آباد منتقل ہو گئے ، یہاں بھی دونوں میاں بیوی نے ریڈیو پاکستان پشاور کے علاوہ پشاور ٹیلی وژن اور دیگر مشہور آڈیو سنٹروں کے لیے اپنی آواز میں کئی البم تیار کیے ۔
یہاں کافی عرصہ گزارنے کے بعد امریکہ چلے گئے جہاں اپنے چار بچوں کے ساتھ (جن میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں) زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں سے نغمہ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد پختونوں کی خصوصی دعوت پر پروگراموں میں شرکت کرنے آتی جاتی ہیں ۔
گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں نغمہ افغانستان کے موجودہ طالبان کے امیر اور حکمران ملا برادر سے مخاطب تھیں کہ خدارا افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر سے لگائی ہوئی پابندی ہٹا دیں ۔ ہمیں آپ کی حکمرانی سے اور کچھ لینا دینا نہیں بس صرف یہی ایک گزارش ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم سے منع مت کریں ۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک گیت بھی گایا ہے جس کے بول یہ ہیں کہ خدارا ان آزاد پرندوں (لڑکیوں) کو پرواز کرنے دو ۔ ان کے پروں کو مت باندھیں ۔
نغمہ ایک خوبصورت گلوکارہ کے علاوہ پشتو زبان کی ایک بہترین شاعرہ بھی ہیں ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ''ماتہ ھیندارہ'' (ٹوٹا ہوا آئینہ) چند سال قبل چھپ کر مارکیٹ میں آیا اور پڑھنے والوں سے خوب داد و تحسین وصول کی ۔ کچھ عرصہ قبل نغمہ افغانستان کے آریانہ ٹیلی وژن کی خصوصی دعوت پر کابل آئی ہوئی تھیں ۔
امریکہ واپس جاتے ہوئے اسلام آباد میں دو دن قیام کے دوران ان سے ایک صحافی دوست کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ اس نشست کے دوران ان سے جو خصوصی گفتگو ہوئی۔ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی ذات اور موجودگی کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں میرا وجود ایک طعنہ ہے کیونکہ قدرت نے مجھے عورت ذات پیدا کیا ہے اور عورت کا مقام اب بھی اس معاشرے میں جوتے کے برابر ہے، اب بھی میرے خاندان اور قبیلے کے لوگ مجھے اپنے ماتھے پر ایک بدنما داغ سمجھتے ہیں۔
میری آواز اور چہرے کو پسند کرنے والے میرے وجود کو ایک انسان کی شکل میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اسی تضاد اور دوغلا پن کی وجہ سے میں نے اپنا وطن افغانستان چھوڑ کر امریکہ میں مسافرت کی زندگی اختیار کی ہے ۔
قدرت نے میرے دل ودماغ میں روشنی کا ایک ایسا چشمہ پیدا کیا ہے جس پر کوئی تاریکی اپنا قبضہ نہیں جما سکتی ۔ فن اور سیاست کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیاست لوگوںپر اپنی حاکمیت زبردستی یا دولت کے ذریعے کرتی ہے جبکہ فن اپنا پیغام پیار اور محبت کی زبان میں پہنچاتا ہے ۔ مشرق اور مغرب کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے نغمہ نے بتایا کہ مشرق ہمیشہ علم وتہذیب کا مرکز رہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے جوروشنی اور اُجالے کی زندہ مثال اور نمونہ ہے ۔
شاعری اور موسیقی کے درمیان تعلق کے بارے میں نغمہ نے کہا کہ شاعری اور موسیقی کا آپس میں وہی رشتہ ہے جو رشتہ روح اور تن کے درمیان ہے اس لیے روح اور وجود کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے دونوں کی موت فطری امر ہے۔
ماضی اور حال کے کابل کے حالات کے حوالے سے نغمہ نے بتایا کہ آج اپنے ملک افغانستان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، پچھلے چالیس سال سے مسلسل جنگوں نے افغانستان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے، کابل اب وہ کابل نہیں رہا اس کے لوگ بدل گئے ہیں، اس کا کلچر تبدیل ہو چکا ہے، لوگوں میں پہلے والی محبت نہیں رہی ، صحت اور تعلیم کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، سب سے بڑی تباہی لوگوں کی ذہنی تباہی ہے ۔
کابل میں مختلف ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلوں کے بارے میں نغمہ نے بتایا کہ اچھی بات ہے آج ان چیزوں کی ضرورت ہے لیکن ان چینلوں کو جس چیز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے اسے پیش نہیں کرتے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دوسروں کا کلچر اور زبان افغانیوں پر تھوپا جا رہا ہے حالانکہ افغانیوں کااپنا کلچر ' اپنی زبان ، ادب اور موسیقی ہے لیکن آج وہاں ہندی 'تاجکی ' عربی اور ایرانی زبان اورکلچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، پورے ہندوستان میں کوئی ایک افغان گلوکار اور فنکار کو نہیں جانتے جبکہ افغانستان کا بچہ بچہ شاہ رخ خان سنجے دت ' مادھوری، ایشوریہ رائے اور دیگر ناموں سے واقف ہیں ۔
افغانستان میں 75 فیصد آبادی پشتو بولنے والوں کی ہے لیکن آج وہاں ان کی زبان پشتو آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ افغانستان کی ملی زبان پشتو اور سرکاری زبان دری اور پشتو دونوں ہیں لیکن آج وہاں ازبکی ' تاجکی اور دیگر زبانوں کا طوطی بول رہا ہے ، میں نے اس لیے افغانستان کا ملی ترانہ گانے سے انکار کیا تھا کہ اس میں سولہ زبانوں کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو خود بے اتفاقی کی نشانی ہے، ملی ترانے میں تو وطن کی عظمت ' محبت ' تاریخ اور کارناموں کا ذکر ہونا چاہئے جبکہ موجودہ ترانے میں ازبک 'تاجک اور پنچ شیری کی تعریف بیان کی جاتی ہے ۔
افغانستان کو آج سب سے زیادہ امن ، محبت ، اتفاق اور ملی یکجہتی کی ضرورت ہے اور جس طرح یہ ملک غریب اور پسماندہ ہے اس طرح اس کے فنکار بھی غریب ہیں ۔ ہم دنیا کے دیگر فنکاروں کی طرح اپنے ملک اور غریب عوام کی خدمت اس لئے نہیں کر سکتے کہ وہ لوگ ہم سے اقتصادی طور پر بہت مضبوط اور خوشحال ہیں ان کے ایک ایک پروگرام اور شو کو دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ ہزاروں روپے کا ٹکٹ خرید کر آتے ہیں ، میرا دل بھی چاہتا ہے کہ اپنے ملک کے غریب لوگوں کے لئے کچھ کروں لیکن خود ہر وقت مالی مشکلات میں پھنسی رہتی ہوں ۔
مجھے جب اپنی والدہ اور رشتہ دار کہتے ہیں کہ نغمہ حج پر چلی جائیں تو میں ہنس دیتی ہوں اور انہیں کہتی ہوں کہ ٹھیک ہے حج پر چلی جاؤں گی لیکن افغانستان میں تو آج بھی سینکڑوں لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں اگر وہ رقم جس پر حج کرتی ہوں اپنے ان غریبوں میں بانٹ دوں تو حج سے کئی گنا زیادہ ثواب مل سکتا ہے ۔
ہجرت اور پناہ گزینی کی زندگی نے افغانیوں کی زندگی اور طور طریقوں پر کیا اثرات مرتب کئے ؟ اس سوال کے جواب میں نغمہ نے بتایا کہ مجبوری اور غربت نے ہی ان لوگوں کو ایک دنیا دکھائی دوسروں کی زبان ، بودو وباش اورکلچر سے آشنا ہوئے اور اس ہجرت کی زندگی میں افغانیوں نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ میں اکثر اپنے لوگوں کو پنجابیوں کی مثال دیتی ہوں جو بہت نرم دل اور اپنے ملک اور مٹی سے پیار کرنے والے لوگ ہیں ، اگر ہمارے لوگوں نے پاکستانیوں کی تقلید شروع کر دی تو وہ دن دور نہیں جب افغانستان ایک بار پھر خوشحال اور آباد افغانستان ہو گا۔
نغمہ نے بتایا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوا اور حالات سازگار ہو گئے تو ارادہ ہے کہ واپس آکر یہاں عورتوں کے لئے موسیقی سیکھنے کی ایک اکیڈمی قائم کر لوں ۔ نغمہ نے بتایا کہ میرے گائے ہوئے گیت اور نغمے خود اچھے ہیں اس لئے ان گیتوں کے ساتھ کسی ناچنے والی لڑکیوں کی ضرورت نہیں اور جو لوگ میرے گائے ہوئے گیتوں کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں وہ میرے فن اور شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ نغمہ نے بتایا '' میں اپنی زبان اپنی قوم اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اپنے فن کے ذریعے اپنی زبان اور اپنی مٹی کا قرض اتار دوں ۔''