بجلی کے ہوشربا بل اور عوامی احتجاج

بجلی محکمے کے خلاف عوامی احتجاج میں اب تشدد بھی شامل ہونے لگا ہے

بجلی کی قیمت میں انتہائی اضافے کے بعد عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یوں لگتا ہے کہ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد چھلکنے لگا ہے۔ اور اب عوام احتجاج کے بعد تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوامی پریشانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگوں نے بجلی محکمے کے نچلے عملے کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔


تشدد کا ایسا ہی ایک واقعہ جمعرات کو کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں پیش آیا جہاں پر خود ساختہ آل سٹی تاجر اتحاد کے رہنما شرجیل گوپلانی کی سربراہی میں ایک گروہ نے کے الیکٹرک کی فیلڈ ٹیم پر حملہ کیا اور انہیں تشدد کے بعد یرغمال بنالیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ سوشل میڈیا پر ملتان سے بھی سامنے آرہا ہے، جہاں ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے اور لوگ بلوں کی ادائیگی روکنے اور بل جلا کر احتجاج کررہے ہیں۔


اس عوامی احتجاج میں سیاسی جماعتیں بھی شریک ہونے لگی ہیں جس سے صورتحال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اسی لیے احتجاج نے نگراں حکومت کو بھی جگا دیا ہے۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں اضافے پر کابینہ اجلاس بھی طلب کیے مگر یوں لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف کی شرائط کے ہاتھوں بندھے ہوئے ہیں اور وہ عوام کو کسی طور بھی ریلیف دینے کے قابل نہیں۔ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط میں یہ بات طے کی تھی کہ توانائی کے شعبے میں پیدا ہونے والے گردشی قرضے کو ختم کرنا اور بجلی گیس کو اس کی اصل لاگت پر فروخت کرنا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والی تقریباً 30 فیصد بجلی کی قیمت حکومت کو موصول نہیں ہوتی۔ 20 فیصد تک بجلی ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن میں ضائع یا چوری ہوجاتی ہے، جبکہ 10 فیصد صارفین بجلی کے بل ادا نہیں کرتے، جس سے حکومت کو خسارہ ہوتا ہے اور بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑتے ہیں۔


بجلی کے بلوں میں اضافے کی متعدد وجوہ شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی ہے۔ کیونکہ بجلی کی پیداوار کےلیے زیادہ تر ایندھن درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئی پی پیز سے معاہدے میں ڈالر ریٹ شامل ہیں۔ روپے کی قدر کے علاوہ پالیسی ریٹ میں اضافہ بھی اہم ہے۔ جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی 22 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ ان دونوں وجوہ کی بنیاد پر ملک میں افراط زر یا مہنگائی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت کوئی مالیاتی گنجائش موجود نہیں کہ عوام کو رعایت یا سبسڈی فراہم کرسکے۔ اس لیے حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کی ہے۔


بجلی کے یونٹس مہنگے ہونے کے باوجود بھی بجلی اس قدر مہنگی نہیں ہوئی کہ صرف دو یونٹ بجلی کے استعمال پر بل 3872 روپے وصول ہو۔ یہ بل ہمارے دوست محمد رضوان بھٹی نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس پر بھی مختلف نوعیت کے کمنٹس آئے۔ مگرحقیقت ہے کہ بجلی کے مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے ماضی میں رہ جانے والے واجبات کی وصولی نیپرا اور حکومت کی منظوری سے آنے والے مہنیوں میں کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی بلوں میں کبھی کبھی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔


ہمارے دوست رضوان بھٹی چند ہفتے قبل اپنے نئے گھر منتقل ہوئے اور ان کا سابقہ گھر خالی ہوگیا، اس گھر میں آنے والے بل پر بجلی کے صرف دو یونٹ استعمال ہوئے تھے۔ جس پر انہیں زیادہ سے زیادہ 32 روپے کی ادائیگی کرنا تھی مگر ان کا بل 3747 روپے موصول ہوا، یعنی 1873 روپے کا ایک یونٹ پڑا۔ بل کے عقب میں دی گئی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں ستمبر 2022 میں استعمال کردہ 210 یونٹ بجلی پر سہ ماہی ایڈجسمنٹ میں 326 روپے کی ادائیگی کرنا پڑی، اس کے علاوہ جون 2023 کے ایف سی کی مد میں 2.31 روپے، اور 2022 مئی، جون جولائی کے ایف سی اے کی مد میں 832 روپے کی ادائیگی کرنا پڑی، اسی طرح سیلز ٹیکس کی میں 223.71 روپے اور ٹی وی لائسنس کی مد میں 35 روپے کی ادائیگی کرنا ہے۔ اس طرح رضوان بھٹی کا دو یونٹ کا بل 1510 ہوگیا ہے۔ اسی طرح اس بل میں جولائی میں کیے گئے اضافے کا بل بھی شامل کیا گیا جوکہ 2246.27 روپے تھا۔ اس طرح دو یونٹ استعمال پر بل 3872 روپے ہوگیا۔


یہ بل اپنی جگہ مگر جولائی میں بجلی کی قیمت میں اضافے نے بجلی کے بلوں میں اچانک اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ کتنا تھا، اس پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ حکومت نے بجلی کے بلوں پر 27 جولائی 2023 میں اضافے کا نوٹس جاری کیا، جس میں 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین کے بجلی کے نرخ نہ بڑھائے جبکہ ایک سو سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے عام صارف پر 4 روپے 23 پیسے سرچارج عائد کردیا ہے۔ جس کے بعد ان کی 12 روپے 6 پیسے اور 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کی فی یونٹ قیمت 14 روپے 38 پیسے ہوگئی ہے۔



وہ صارفین جو لائف لائن صارف نہیں کہلاتے، انہیں بجلی کے بیس ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرچارج کا بھی سامنا ہے۔ ایک سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کا ٹیرف 13.48 روپے تھا جس میں بیس ٹیرف میں تین روپے اور سرچارج میں 4.22 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں ایک یونٹ 20.70 پیسے میں پڑ رہا ہے، یعنی یکمشت 7.22 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح اگر 100 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں تو آپ کا بل 1348 روپے آتا تھا وہ بڑھ کر اب 2070 روپے ہوگیا۔ یعنی بجلی کے حقیقی بل میں 722 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔


اسی طرح اگر ایک متوسط طبقے کا گھر جہاں 400 یونٹ بجلی استعمال کی جاتی ہے، اس کے بیس ٹیرف جو کہ 25.53 پیسے تھا، اس بیس ٹیرف میں 6.5 روپے اور سرچارج میں 6.23 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس طرح فی یونٹ بل میں یکمشت 12.73 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ اور فی یونٹ بجلی کا بل 38.26 روپے ہوگیا۔ اسی طرح پیک آور ریٹ 48.12 روپے اور آف پیک ریٹ 41.8 روپے ہوگیا ہے۔


صارفین کو بیس ریٹ کے علاوہ فیول چارجز ایڈجسمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسمنٹ کی بھی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ نیپرا قوانین کے مطابق اگر بجلی کی پیداوار میں ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن سے کم ہو تو یہ رقم واپس کی جاتی ہے۔ اور اگر ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن کی لاگت سے زائد ہو تو اسے صارف سے وصول کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کے الیکٹرک کے صارفین کو سات ماہ تک منفی فیول چارجز ایڈجسمنٹ جبکہ دیگر ڈیسکوز کے صارفین کو تین ماہ تک منفی فیول چارج ایڈجسمنٹ موصول ہوئی۔ یعنی ڈیسکوز اور کے الیکٹرک نے صارفین سے ایندھن کی مد میں رقم وصول کرنے کے بجائے واپس کی۔


اسی طرح سہ ماہی ایڈجسمنٹ بجلی کی قیمت خرید میں سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں ہونے والے نقصانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور پورے پاکستان میں تمام صارفین سے یکساں سہ ماہی چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔


بجلی کے بلوں پر مختلف نوعیت کے ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں، جس میں رہائشی اور صنعتی صارفین سے مجموعی بجلی کے بل پر حکومت سندھ الیکٹریسٹی ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ گھریلو صارفین کےلیے 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی، تجارتی اور بلک صارفین سے 2 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 18 فیصد سیلز ٹیکس، ٓصنعتی صارفین جن کا بل 20 ہزار روپے سے اوپر ہو، 10 سے 12 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ گھریلو صارفین جن کا بل 20 ہزار سے زائد ہو، سے 7.5 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ٹی وی فیس 35 روپے اور 60 روپے وصول کی جاتی ہے۔ عوام پر یکمشت ڈالے گئے اس بوجھ کی وجہ سے اب عوام کی بل ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور اسی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج کے ساتھ چند ایک مقامات پر بجلی کے بلوں سے ستائے عوام میں تشدد بھی دیکھنے میں آیا ہے۔


تشدد کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جاسکتی، مگر کیا نگران حکومت بجلی کے بلوں پر عوام کو کوئی ریلیف دے پائے گی؟ مگر اس کا جواب نفی میں لگتا ہے۔ کابینہ نے اپنے اجلاس میں بجلی کے بلوں میں کمی کے حوالے سے جو بھی بات چیت کی، اس کا لب لباب یہ ہے کہ کمی اس طرح کی جائے کہ اس سے قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے، یعنی کوئی سبسڈی دے نہیں سکتے۔


موجودہ حکومت کو اس حوالے سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور عوام کو ریلیف دلوانے کےلیے رعایت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر احتجاج نگراں حکومت کےلیے الیکشن سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story