اور کتنا صبر کریں … مہاراج
آپ نے دنیا کے کسی ملک سے مانگ تانگ کر یہ منصوبہ لے تو لیا کہ اس سے آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا …
KALGOORLIE, AUSTRALIA:
اخبار اٹھاتے ہی سرخی پر نظر پڑی، ''عوام بجلی بحران پر صبر سے کام لیں...'' جیسے ہم عوام تو بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے جانے کیا کر رہے ہیں۔ اگلے روز کی سرخی تھی، ''لوڈ شیڈنگ کم کر کے چھ سے سات گھنٹوں تک لائی جائے...'' یونہی ہے کہ جیسے مہاراج کے منہ سے حکم جاری ہوتا ہے اور اس کی فوراً تعمیل ہو جاتی ہے اور بجلی بحران کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے سیکڑوں مسائل حل ہو جائیں گے۔
گزشتہ ویک اینڈ کے بعد... کام پر جانے کے لیے حسب معمول نکلی، شاہراہ فیصل سے بائیں مڑی کہ ایف الیون کی طرف جانا تھا، دور سے ہی سڑک پر مٹی کے پہاڑ نظر آئے، یاد نہ آ رہا تھا کہ خبروں میں کسی ایسے زلزلے کا ذکر کیا گیا ہو کہ جس کے نتیجے میں یوں یہ پہاڑ نمودار ہو گئے تھے۔ اس سے پچھلی سڑک پر کوئی نشاندہی نہ تھی کہ اگلے موڑ پر ہمیں کیا نظر آ سکتا تھا، باقی گاڑیوں کی قطاروں کے بہاؤ کے ساتھ اس اہم شاہراہ کی دائیں بائیں جانیوالی ساری سڑکوں پر مڑ کر، کسی نہ کسی مقام پر ایسے ہی کسی پہاڑ کا سامنا ہوتا تو واپسی کا رخ اختیار کیا جاتا۔ بالآخر گھومتے گھماتے، مارگلہ روڈ پر جا کر وہاں سے ایف الیون کی سمت روانہ ہوئی، منزل تک پہنچتے پہنچتے، پچیس منٹ اور لگ بھگ اٹھارہ کلومیٹر فالتو لگ چکے تھے اور جو مفت میں بے عزتی ملتی ہے اسے ماپنے کو کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا۔
اسلام آباد میں جانے والے اور وہاں سے آنے والے لاکھوں کار سوار ایسے ہیں جنھیں اس ''میٹرو بس'' منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں مگر اس سے وابستہ زحمت کا مداوا حکومت کے پاس نہیں ... وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ یہ پچاس کروڑ کسی اور کام پر صرف ہو سکتا تھا۔ کئی بار سہرے باندھ کر بھی کچھ لوگوں کی ہر کام کا سہرا اپنے سر باندھنے کی حسرتیں پوری نہیں ہوتیں۔ وہ شاید ماضی قریب میں ''واران بس سروس'' کے انجام کو بھلا بیٹھے ہیں، آپ کے اس میٹرو منصوبے کا بھی یہی انجام ہوگا جناب! کسی کو اس سے افادیت تو بعد میں پہنچے گی مگر اس منصوبے پر کام کے دوران جتنے لوگوں کی بد دعائیں آپ سمیٹیں گے، جتنے حادثات کی ذمے داری آپ کے سر ہو گی، جتنے مریض اس لیے بر وقت اسپتالوں میں نہیں پہنچ سکیں گے کہ آپ نے یک مشت پورے اہم علاقے کی سڑکیں کھدوا کر رکھ دی ہیں... اس کی جواب دہی کی فکر کریں۔
آپ نے دنیا کے کسی ملک سے مانگ تانگ کر یہ منصوبہ لے تو لیا کہ اس سے آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا ... دنیا بھر میں ہمارے حکمران طبقے کے لوگ سفر کرتے ہیں، وہاں کے منصوبوں کو دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ وہاں کسی سڑک کو کام کے لیے بند کرنے سے پہلے اس کا متبادل، عارضی راستہ یا سڑک پہلے تیار کی جاتی ہے اور اس کے بعد نئے منصوبے پر کام اس طرح مرحلہ وار کیا جاتا ہے کہ ان راستوں پر سفر کرنے والوں کو ذرا سی بھی کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر ہاں... ایسا دنیا کے مہذب ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں فلاح کے منصوبوں پر باقاعدہ غور کیا جاتا ہے، ترجیحات سیٹ کی جاتی ہیں، جہاں پچاس فیصد عوام کو تن ڈھانکنے کو کپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو سوکھی روٹی کے لالے پڑے ہوں، غربت اور افلاس انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑوں جیسے لوگوں کو پیدا کر رہی ہو، جہاں لہو سستا اور روٹی مہنگی ہو...
...کہاں گئے آپ کے سستی روٹی کے تنوروں کے منصوبے؟
...کبھی آٹے دال کا بھاؤ جانا ہے آپ لوگوں نے؟
...کبھی سوچا کہ غریب عوام کس طرح قانون کے حصول کے لیے رلتے ہیں؟
...کبھی جانا کہ عام انسان کا جائز کام کروانے کے لیے کیا حشر ہوتا ہے؟
...کبھی دیکھا کہ اس ملک کی پولیس لوگوں کی حفاظت کی بجائے آپ کی ناک کے نیچے کیا کر رہی ہے؟
...کبھی سوچا کہ جن کے ووٹوں کی طاقت سے آپ اس وقت اقتدار کی بے وفا کرسی پر براجمان ہیں انھیں جواب میں کیا دے رہے ہیں آپ؟
...کبھی سوچا کہ مزدور طبقہ کس طرح اپنی حیات کے دن مشقت کی چکی میں پس کر بھی نہیں گزار پاتا، کہیں اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہے تو کہیں ان سمیت خود کشی کر لینے پر؟...کبھی تجربہ کیا آپ نے ایک گھنٹے کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ کا؟ کبھی جانا کہ بلڈ پریشر کے مریضوں پر گرمی میں کیا گزرتی ہے، کبھی جانا کہ بجلی یا گیس نہ ہونے کے باوجود بھی ان کے بھاری بلوں سے ہم عوام کے ناتواں دلوں پر کیا گزرتی ہے؟
رہی بات ہماری... ہم تو وہی کریں گے، جو آپ کہہ رہے ہیں، یعنی صبر۔ اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک آپ کا حکم ہو، مگر کیا ہر آنیوالے حکمران کے پاس یہی دلاسے کے الفاظ ہیں، کوئی تین سال کا عرصہ کہتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی!!! آپ کے اس لازوال بیان سے تو لوگ دعائیں کرنا شروع ہو گئے کہ آپ کی کل جاتی حکومت... آج چلی جائے کیونکہ آپ نے ہی کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے سے قبل۔
اسلام آباد کی فضاؤں میں تو یوں بھی گرمی اور گھٹن بڑھتی ہے تو بادل گھر آتے ہیں، آج کل بھی کچھ ایسا ہی موسم ہو رہا ہے ... حقیقتاً پڑھے لکھے لوگ بھی لطیفوں کے ذریعے بتا رہے کہ بادل خوب گھن گرج سے آ رہے ہیں، عوام نڈھال مگر اعلان کیے گئے جلسوں کے منتظر ہیں کہ شاید ان کے ذریعے ان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ حکومتی ارکان بھی سودے بازی اور مذاکرات کی میز پر بلا رہے ہیں، دیکھیں آج اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے! وہ جو کہتے ہیں کہ پچھلی دفعہ تکبیر کہی تھی اور اب اقامت ہو گی ... جانے اب کے کیا ہوگا؟
گزشتہ دھرنے کے بعد جب نظر آ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ مقصد حاصل ہو جائے گا اسی وقت حکومتی مہروں نے کھیل میں بھر پور حصہ لیا۔ نئے مہرے بساط پر اترے اور ایک بند کنٹینر میں شطرنج کی یہ ساری بازی پلٹ گئی، وہ جو کئی روز سے شدید سردی اور برستی بارش میں کسی انقلاب کی علامت بن کر ڈٹے ہوئے تھے، وہ خود ہی سوالیہ نشان بن گئے اوربے مراد پلٹ گئے... اس دھرنے سے کیا حاصل ہوا؟ کسی کو علم ہو تو بتائے!!!
اب مختلف حکومت مخالف پارٹیاں ایک ہی تاریخ کو میدان میں اتر رہی ہیں، کس پارٹی کا کیا مقصد ہے... اللہ جانے یا وہ پارٹی۔ ہم تو یہی سنتے ہیں کہ کس کو کون سپانسر کر رہا ہے، کیا کھیل ہو گا، اب کے کون مہرے کس اسٹیج پر بساط پر اتریں گے اور کس انجام سے اس تحریک کو دو چار کر کے اب قائد کینیڈا کو لوٹیں گے... کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت اور ساری پارٹیاں مل کر حالات ایسے کر رہی ہیں کہ فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی، اللہ نہ کریں کہ کوئی بھی ادارہ اپنے اہم مقصد سے ہٹ کر اس کام میں ملوث ہو جس سے اس ادارے کی اپنی نیک نامی کو دھبہ لگ جاتا ہے۔
مومن ایک سوراخ سے دو باور نہیں ڈسا جاتا، یہ دلیل کافی ہے ہمارے مومن نہ ہونے کی... بار بار کے ڈسے ہوئے سادگی میں ہم لوگ پھر آپ کو ووٹ دے کر اپنے سروں پرمسلط کر لیتے ہیں اور سالوں نہیں بلکہ دنوں میں آپ کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ایک برس بیت گیا، سوائے اس ملک کو مزید تاریکیوں میں دھکیلنے، جرائم میں کئی گنا اضافہ ہونے اور مہنگائی کے عفریت کو پال پال کر تگڑا کرنے کے آپ کچھ خاص نہیں کر سکے جہاں پناہ!!! مجھے کسی نے مذاق سے پیغام بھیجا مگر میں اسے پوری سنجیدگی کے ساتھ آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں ... تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر ہم میں سے بہت سے لوگ تاریخ کو ماضی سمجھ کر بھول جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جو اپنی تاریخ کو بھول جاتا ہے، حالات اسے جغرافیہ بھولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ تلخ حالات سے گزرا ہوا انسان تو تجربے کی بھٹی میں پک کر عموما عقلمند ہو جاتا ہے، مگر آپ نے نہ سخت حالات سے کچھ سیکھا ہے نہ تجربہ حاصل کیا ہے نہ اپنی سوچ کو بدلا ہے... آپ کو علم ہے کہ آپ کے پاس کئی options ہیں مگر ہمارے پاس تو کوئی آپشن نہیں ہے... آپ کے کہے پر عمل کرنے کے سوا... ''عوام صبر سے کام لیں!''
یہ مت بھولیں کہ اللہ تعالی اپنی کتاب حکمت میں خود فرماتا ہے ... ''ان اللہ مع الصابرین ... (بے شک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔
اخبار اٹھاتے ہی سرخی پر نظر پڑی، ''عوام بجلی بحران پر صبر سے کام لیں...'' جیسے ہم عوام تو بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے جانے کیا کر رہے ہیں۔ اگلے روز کی سرخی تھی، ''لوڈ شیڈنگ کم کر کے چھ سے سات گھنٹوں تک لائی جائے...'' یونہی ہے کہ جیسے مہاراج کے منہ سے حکم جاری ہوتا ہے اور اس کی فوراً تعمیل ہو جاتی ہے اور بجلی بحران کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے سیکڑوں مسائل حل ہو جائیں گے۔
گزشتہ ویک اینڈ کے بعد... کام پر جانے کے لیے حسب معمول نکلی، شاہراہ فیصل سے بائیں مڑی کہ ایف الیون کی طرف جانا تھا، دور سے ہی سڑک پر مٹی کے پہاڑ نظر آئے، یاد نہ آ رہا تھا کہ خبروں میں کسی ایسے زلزلے کا ذکر کیا گیا ہو کہ جس کے نتیجے میں یوں یہ پہاڑ نمودار ہو گئے تھے۔ اس سے پچھلی سڑک پر کوئی نشاندہی نہ تھی کہ اگلے موڑ پر ہمیں کیا نظر آ سکتا تھا، باقی گاڑیوں کی قطاروں کے بہاؤ کے ساتھ اس اہم شاہراہ کی دائیں بائیں جانیوالی ساری سڑکوں پر مڑ کر، کسی نہ کسی مقام پر ایسے ہی کسی پہاڑ کا سامنا ہوتا تو واپسی کا رخ اختیار کیا جاتا۔ بالآخر گھومتے گھماتے، مارگلہ روڈ پر جا کر وہاں سے ایف الیون کی سمت روانہ ہوئی، منزل تک پہنچتے پہنچتے، پچیس منٹ اور لگ بھگ اٹھارہ کلومیٹر فالتو لگ چکے تھے اور جو مفت میں بے عزتی ملتی ہے اسے ماپنے کو کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا۔
اسلام آباد میں جانے والے اور وہاں سے آنے والے لاکھوں کار سوار ایسے ہیں جنھیں اس ''میٹرو بس'' منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں مگر اس سے وابستہ زحمت کا مداوا حکومت کے پاس نہیں ... وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ یہ پچاس کروڑ کسی اور کام پر صرف ہو سکتا تھا۔ کئی بار سہرے باندھ کر بھی کچھ لوگوں کی ہر کام کا سہرا اپنے سر باندھنے کی حسرتیں پوری نہیں ہوتیں۔ وہ شاید ماضی قریب میں ''واران بس سروس'' کے انجام کو بھلا بیٹھے ہیں، آپ کے اس میٹرو منصوبے کا بھی یہی انجام ہوگا جناب! کسی کو اس سے افادیت تو بعد میں پہنچے گی مگر اس منصوبے پر کام کے دوران جتنے لوگوں کی بد دعائیں آپ سمیٹیں گے، جتنے حادثات کی ذمے داری آپ کے سر ہو گی، جتنے مریض اس لیے بر وقت اسپتالوں میں نہیں پہنچ سکیں گے کہ آپ نے یک مشت پورے اہم علاقے کی سڑکیں کھدوا کر رکھ دی ہیں... اس کی جواب دہی کی فکر کریں۔
آپ نے دنیا کے کسی ملک سے مانگ تانگ کر یہ منصوبہ لے تو لیا کہ اس سے آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا ... دنیا بھر میں ہمارے حکمران طبقے کے لوگ سفر کرتے ہیں، وہاں کے منصوبوں کو دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ وہاں کسی سڑک کو کام کے لیے بند کرنے سے پہلے اس کا متبادل، عارضی راستہ یا سڑک پہلے تیار کی جاتی ہے اور اس کے بعد نئے منصوبے پر کام اس طرح مرحلہ وار کیا جاتا ہے کہ ان راستوں پر سفر کرنے والوں کو ذرا سی بھی کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر ہاں... ایسا دنیا کے مہذب ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں فلاح کے منصوبوں پر باقاعدہ غور کیا جاتا ہے، ترجیحات سیٹ کی جاتی ہیں، جہاں پچاس فیصد عوام کو تن ڈھانکنے کو کپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو سوکھی روٹی کے لالے پڑے ہوں، غربت اور افلاس انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑوں جیسے لوگوں کو پیدا کر رہی ہو، جہاں لہو سستا اور روٹی مہنگی ہو...
...کہاں گئے آپ کے سستی روٹی کے تنوروں کے منصوبے؟
...کبھی آٹے دال کا بھاؤ جانا ہے آپ لوگوں نے؟
...کبھی سوچا کہ غریب عوام کس طرح قانون کے حصول کے لیے رلتے ہیں؟
...کبھی جانا کہ عام انسان کا جائز کام کروانے کے لیے کیا حشر ہوتا ہے؟
...کبھی دیکھا کہ اس ملک کی پولیس لوگوں کی حفاظت کی بجائے آپ کی ناک کے نیچے کیا کر رہی ہے؟
...کبھی سوچا کہ جن کے ووٹوں کی طاقت سے آپ اس وقت اقتدار کی بے وفا کرسی پر براجمان ہیں انھیں جواب میں کیا دے رہے ہیں آپ؟
...کبھی سوچا کہ مزدور طبقہ کس طرح اپنی حیات کے دن مشقت کی چکی میں پس کر بھی نہیں گزار پاتا، کہیں اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہے تو کہیں ان سمیت خود کشی کر لینے پر؟...کبھی تجربہ کیا آپ نے ایک گھنٹے کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ کا؟ کبھی جانا کہ بلڈ پریشر کے مریضوں پر گرمی میں کیا گزرتی ہے، کبھی جانا کہ بجلی یا گیس نہ ہونے کے باوجود بھی ان کے بھاری بلوں سے ہم عوام کے ناتواں دلوں پر کیا گزرتی ہے؟
رہی بات ہماری... ہم تو وہی کریں گے، جو آپ کہہ رہے ہیں، یعنی صبر۔ اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک آپ کا حکم ہو، مگر کیا ہر آنیوالے حکمران کے پاس یہی دلاسے کے الفاظ ہیں، کوئی تین سال کا عرصہ کہتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی!!! آپ کے اس لازوال بیان سے تو لوگ دعائیں کرنا شروع ہو گئے کہ آپ کی کل جاتی حکومت... آج چلی جائے کیونکہ آپ نے ہی کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے سے قبل۔
اسلام آباد کی فضاؤں میں تو یوں بھی گرمی اور گھٹن بڑھتی ہے تو بادل گھر آتے ہیں، آج کل بھی کچھ ایسا ہی موسم ہو رہا ہے ... حقیقتاً پڑھے لکھے لوگ بھی لطیفوں کے ذریعے بتا رہے کہ بادل خوب گھن گرج سے آ رہے ہیں، عوام نڈھال مگر اعلان کیے گئے جلسوں کے منتظر ہیں کہ شاید ان کے ذریعے ان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ حکومتی ارکان بھی سودے بازی اور مذاکرات کی میز پر بلا رہے ہیں، دیکھیں آج اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے! وہ جو کہتے ہیں کہ پچھلی دفعہ تکبیر کہی تھی اور اب اقامت ہو گی ... جانے اب کے کیا ہوگا؟
گزشتہ دھرنے کے بعد جب نظر آ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ مقصد حاصل ہو جائے گا اسی وقت حکومتی مہروں نے کھیل میں بھر پور حصہ لیا۔ نئے مہرے بساط پر اترے اور ایک بند کنٹینر میں شطرنج کی یہ ساری بازی پلٹ گئی، وہ جو کئی روز سے شدید سردی اور برستی بارش میں کسی انقلاب کی علامت بن کر ڈٹے ہوئے تھے، وہ خود ہی سوالیہ نشان بن گئے اوربے مراد پلٹ گئے... اس دھرنے سے کیا حاصل ہوا؟ کسی کو علم ہو تو بتائے!!!
اب مختلف حکومت مخالف پارٹیاں ایک ہی تاریخ کو میدان میں اتر رہی ہیں، کس پارٹی کا کیا مقصد ہے... اللہ جانے یا وہ پارٹی۔ ہم تو یہی سنتے ہیں کہ کس کو کون سپانسر کر رہا ہے، کیا کھیل ہو گا، اب کے کون مہرے کس اسٹیج پر بساط پر اتریں گے اور کس انجام سے اس تحریک کو دو چار کر کے اب قائد کینیڈا کو لوٹیں گے... کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت اور ساری پارٹیاں مل کر حالات ایسے کر رہی ہیں کہ فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی، اللہ نہ کریں کہ کوئی بھی ادارہ اپنے اہم مقصد سے ہٹ کر اس کام میں ملوث ہو جس سے اس ادارے کی اپنی نیک نامی کو دھبہ لگ جاتا ہے۔
مومن ایک سوراخ سے دو باور نہیں ڈسا جاتا، یہ دلیل کافی ہے ہمارے مومن نہ ہونے کی... بار بار کے ڈسے ہوئے سادگی میں ہم لوگ پھر آپ کو ووٹ دے کر اپنے سروں پرمسلط کر لیتے ہیں اور سالوں نہیں بلکہ دنوں میں آپ کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ایک برس بیت گیا، سوائے اس ملک کو مزید تاریکیوں میں دھکیلنے، جرائم میں کئی گنا اضافہ ہونے اور مہنگائی کے عفریت کو پال پال کر تگڑا کرنے کے آپ کچھ خاص نہیں کر سکے جہاں پناہ!!! مجھے کسی نے مذاق سے پیغام بھیجا مگر میں اسے پوری سنجیدگی کے ساتھ آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں ... تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر ہم میں سے بہت سے لوگ تاریخ کو ماضی سمجھ کر بھول جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جو اپنی تاریخ کو بھول جاتا ہے، حالات اسے جغرافیہ بھولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ تلخ حالات سے گزرا ہوا انسان تو تجربے کی بھٹی میں پک کر عموما عقلمند ہو جاتا ہے، مگر آپ نے نہ سخت حالات سے کچھ سیکھا ہے نہ تجربہ حاصل کیا ہے نہ اپنی سوچ کو بدلا ہے... آپ کو علم ہے کہ آپ کے پاس کئی options ہیں مگر ہمارے پاس تو کوئی آپشن نہیں ہے... آپ کے کہے پر عمل کرنے کے سوا... ''عوام صبر سے کام لیں!''
یہ مت بھولیں کہ اللہ تعالی اپنی کتاب حکمت میں خود فرماتا ہے ... ''ان اللہ مع الصابرین ... (بے شک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔