ہیوسٹن
ایک تو میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ یہ لوگ Housten کو ہیوسٹن کیوں بولتے ہیں۔
ایک تو میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ یہ لوگ Housten کو ہیوسٹن کیوں بولتے ہیں۔ بہت سے احباب سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے بعد ایک دیسی محاورے کے مطابق یہی سمجھ میں آیا ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے' اس کی مرضی وہ انڈے دے یا بچے دے۔
ٹورانٹو سے ہیوسٹن تک تقریباً ساڑھے 3گھنٹے کی پرواز ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی کے باعث کینیڈا سے امریکا جانے والوں کی امیگریشن کا عمل بھی روانگی کے وقت ہی مکمل کر لیا جاتا ہے یعنی آپ امریکا اترنے کے بعد اندرون ملک پرواز کی طرح اپنا سامان لے کر سیدھے باہر نکل جاتے ہیں البتہ امریکا سے کینیڈا آتے ہوئے یہ سہولت نہیں دی جاتی۔ شاید اس کا جواب بھی اوپر دی گئی ''شیر کی مرضی'' سے وابستہ ہو۔ گزشتہ تین دنوں میں یہ ہماری تیسری پرواز تھی جس کا دورانیہ 3گھنٹے سے زیادہ کا تھا یعنی ہر روز ہمارے تقریباً سات آٹھ گھنٹے ایئرپورٹ آنے جانے میں گزرے۔
ہیوسٹن جانے کا مقصد میں گزشتہ کالم میں غالباً درج کر چکا ہوں کہ وہاں پیرزادہ قاسم کا جشن منایا جا رہا تھا جس کا اہتمام رامپور سے تعلق رکھنے والے ان کے پرستار اور ادب دوست فیاض خان اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا لیکن اس تقریب کی روداد سے پہلے نیاگرا آبشار کی ایک بار پھر زیارت کا ذکر ضروری ہے کہ ٹورانٹو جا کر نیاگرا فال نہ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے آدمی بیجنگ جائے اور دیوار چین دیکھے بغیر واپس لوٹ آئے۔ انٹرنیٹ سے موسم کا حال دیکھا گیا تو معلوم ہوا آئندہ دو دن بارش ہمارے ساتھ ساتھ رہے گی اور یوں ہم نیاگرا کے حسن سے اس طرح بہرہ ور نہ ہو سکیں گے جو اس کا حق ہے مگر ہمارے پاس وقت اس قدر محدود تھا کہ یہ رسک لینا ہی پڑا۔
مجھے یاد ہے 1984ء میں جب پہلی بار نیاگرا فال پر جانے کا اتفاق ہوا تو نومبر کا مہینہ تھا اور چاروں طرف برف کا سکہ چل رہا تھا اور ہم پہنچے بھی وہاں تقریباً شام کے ڈھلے تھے۔ سو جو کچھ دیکھا جا سکا اس میں مشاہدہ کم اور اندازہ زیادہ تھا۔ اس کے بعد دو مرتبہ کینیڈا اور ایک بار امریکا کی سرزمین سے قدرت کے اس عجیب و غریب' شاندار اور سانس روک دینے والے منظر کی زیارت کا موقع مل چکا ہے لیکن ہر بار اسے دیکھتے وقت احمد ندیم قاسمی مرحوم کے اس شعر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
حسب توقع تیز بارش کی وجہ سے کھلی جگہ سے نظارگی کا صحیح لطف لینا ممکن نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ ٹکٹ لے کر لفٹ کے ذریعے 120 فٹ نیچے جا کر مخصوص مقامات سے آبشار کے حسن اور دہشت کو ایک ساتھ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں بارش سے حفاظت کے لیے سروں پر چھت موجود ہوتی ہے۔ سو ایسا ہی کیا گیا۔ سامنے کے بجائے نیچے سے آبشار کو گرتا دیکھنے کا مزا بلاشبہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ ذکیہ اور وسیم نے میری اور پیرزادہ قاسم کی ڈھیروں تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ واپسی پر ہم لوگ بذل الرحمن سروری صاحب کے موٹل پر رکے جہاں وہ اور ان کی بیگم لنچ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
ان کے بچے بھی یہاں پر مستقل آباد ہونے والوں کے بچوں کی طرح اپنے اپنے روزگار سے بندھے مختلف شہروں میں مقیم ہیں اور یہ عمر رسیدہ جوڑا ان کی اور ان کے بچوں کی تصویروں اور یادوں کے ساتھ ایک عجیب سے عالم تنہائی میں زندگی گزار رہا ہے۔ 45 کمروں پر مشتمل موٹل کی ملکیت کی وجہ سے انھیں کوئی معاشی مسئلہ تو درپیش نہیں لیکن اس عمر میں ایسا مشکل اور محنت طلب کاروبار چلانا یقینا کوئی آسان کام نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب کوئی جاننے والا یا بیرون وطن سے آیا ہوا مہمان نیاگرا دیکھنے کو آتا ہے تو وہ بڑی خواہش اور چاؤ سے اس کی خاطرداری کرتے ہیں۔ سروری صاحب کی بیگم صاحبہ ایک طویل اور خطرناک بیماری سے کچھ عرصہ قبل ہی صحت یاب ہوئی ہیں۔ اپنے شوہر کی طرح انھیں بھی شعر و ادب سے گہرا شغف ہے اور وہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت برصغیر کی ادبی فضا اور الیکٹرانک میڈیا سے اپنا رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ہیوسٹن کا اب تک کا پہلا اور آخری سفر 2000ء کے مشاعراتی دورے سے منسلک تھا جس کا اہتمام اردو ٹائمز والے خلیل الرحمن' ڈاکٹر تقی عابدی' ڈاکٹر عبدالرحمن عبد اور وکیل انصاری نے مل کر کیا تھا۔ اس سفر میں دو موجودہ ہمسفروں یعنی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور ذکیہ غزل کے علاوہ منیر نیازی (مرحوم)' انور مسعود اور وسیم بریلوی (انڈیا) بھی ہمارے ساتھ تھے۔ مقامی میزبان فیاض خان نے ہمیں رسیو کیا جو ایک خوش شکل' خوش مزاج اور مخلص ادب دوست ہیں۔ وہ پہلی بار کسی بین الاقوامی سطح کے مشاعرے کا اہتمام کر رہے تھے۔ سو بیک وقت خوش بھی تھے اور فکر مند بھی کہ اب یہ کام بوجوہ روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارا قیام ہیوسٹن شہر کے ایک نئے مضافات رچمنڈ نامی ٹاؤن میں تھا۔ ٹورانٹو کی طرح ہیوسٹن بھی اب بہت پھیل گیا ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ رات کی کم ٹریفک اور فیاض خان کی تیز ڈرائیونگ کے باوجود ہمیں ندیم ملک کے گھر تک پہنچنے میں تقریباً سوا گھنٹہ لگ گیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں رہائش کا انتظام ندیم ملک کے بے حد اصرار پر کیا گیا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے کے قریب جب ہم ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ہمارے انتظار میں ڈنر ٹیبل سجائے بیٹھے تھے جو حدنظر تک سامان خور و نوش سے بھری ہوئی تھی۔
موصوف پکے لاہوریے ہیں اور زندگی میں ان کی پہلی دو ترجیحات اچھا کھانا اور اچھا کھلانا تھیں البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ مقدار اور معیار کس پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ جتنا عرصہ بھی ہم ان کے مہمان رہے وہ ہمیں کچھ نہ کچھ کھلانے کا اہتمام ہی کرتے نظر آئے۔ ان کی والدہ بھی پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ میرے ددھیالی خاندان سے بہت گہری واقفیت رکھتی ہیں۔
ندیم ملک کی بیگم عائشہ ہمارے گوالمنڈی لاہور والے ملک شعیب کی بھانجی نکلیں جن سے برادرم لالہ جلال دین کے گھر پر بہت سی ملاقاتیں رہ چکی ہیں اور یوں ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ اتنی عظیم وسعت کے باوجود انسانی رشتوں کے اعتبار سے یہ دنیا کس قدر چھوٹی ہے۔ ندیم ملک کے دو نوں نوجوان بیٹے کسی بہت پراسرار بیماری کی وجہ سے دس بارہ سال کی عمر تک نارمل بچوں جیسی زندگی گزارنے کے بعد اب ویل چیئر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی دماغی قابلیت قابل رشک ہے اور دونوں تعلیمی اعتبار سے بہترین کارکردگی کے حامل ہیں۔ اس امتحانی صورت حال کے باوجود جس محبت اور ہمت سے یہ خاندان زندگی گزار رہا ہے وہ یقینا بے مثال بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔
مشاعرہ پاکستان سینٹر کے ہال میں تھا۔ شعرأ میں ہمارے اور مقامی شعرأ کے علاوہ پاکستان سے آئے ہوئے غضنفر ہاشمی اور مدت سے یہاں مقیم فرحت شہزاد بھی شامل تھے۔ یہاں نوجوت (زویا) اور رفیعہ سے بھی ملاقات ہوئی جو خاص طور پر ہم سے ملنے کے لیے آئی تھیں۔ ان دونوں سے پہلی ملاقات بھی چودہ برس قبل والے مشاعرے میں ہوئی تھی۔ ہال بہت بڑا اور خوبصورت تھا لیکن زیادہ پرانا نہ ہونے کے باوجود اس کے ایئرکنڈیشنگ سسٹم میں کوئی خرابی تھی جس کی وجہ سے اکثر سامعین دعوتی کارڈوں سے ہوا لیتے نظر آئے مگر جلد ہی مشاعرے کی گرمی موسم کی گرمی پر غالب آ گئی اور مشاعرہ بہت کامیابی سے تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں بہت سے احباب سے ملاقات ہوئی اور ایک بار پھر یہ احساس ابھر کر سامنے آیا کہ ادب اور تہذیب کا رشتہ بے شمار اختلافات کو حل اور ختم کر سکتا ہے۔
ٹورانٹو سے ہیوسٹن تک تقریباً ساڑھے 3گھنٹے کی پرواز ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی کے باعث کینیڈا سے امریکا جانے والوں کی امیگریشن کا عمل بھی روانگی کے وقت ہی مکمل کر لیا جاتا ہے یعنی آپ امریکا اترنے کے بعد اندرون ملک پرواز کی طرح اپنا سامان لے کر سیدھے باہر نکل جاتے ہیں البتہ امریکا سے کینیڈا آتے ہوئے یہ سہولت نہیں دی جاتی۔ شاید اس کا جواب بھی اوپر دی گئی ''شیر کی مرضی'' سے وابستہ ہو۔ گزشتہ تین دنوں میں یہ ہماری تیسری پرواز تھی جس کا دورانیہ 3گھنٹے سے زیادہ کا تھا یعنی ہر روز ہمارے تقریباً سات آٹھ گھنٹے ایئرپورٹ آنے جانے میں گزرے۔
ہیوسٹن جانے کا مقصد میں گزشتہ کالم میں غالباً درج کر چکا ہوں کہ وہاں پیرزادہ قاسم کا جشن منایا جا رہا تھا جس کا اہتمام رامپور سے تعلق رکھنے والے ان کے پرستار اور ادب دوست فیاض خان اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا لیکن اس تقریب کی روداد سے پہلے نیاگرا آبشار کی ایک بار پھر زیارت کا ذکر ضروری ہے کہ ٹورانٹو جا کر نیاگرا فال نہ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے آدمی بیجنگ جائے اور دیوار چین دیکھے بغیر واپس لوٹ آئے۔ انٹرنیٹ سے موسم کا حال دیکھا گیا تو معلوم ہوا آئندہ دو دن بارش ہمارے ساتھ ساتھ رہے گی اور یوں ہم نیاگرا کے حسن سے اس طرح بہرہ ور نہ ہو سکیں گے جو اس کا حق ہے مگر ہمارے پاس وقت اس قدر محدود تھا کہ یہ رسک لینا ہی پڑا۔
مجھے یاد ہے 1984ء میں جب پہلی بار نیاگرا فال پر جانے کا اتفاق ہوا تو نومبر کا مہینہ تھا اور چاروں طرف برف کا سکہ چل رہا تھا اور ہم پہنچے بھی وہاں تقریباً شام کے ڈھلے تھے۔ سو جو کچھ دیکھا جا سکا اس میں مشاہدہ کم اور اندازہ زیادہ تھا۔ اس کے بعد دو مرتبہ کینیڈا اور ایک بار امریکا کی سرزمین سے قدرت کے اس عجیب و غریب' شاندار اور سانس روک دینے والے منظر کی زیارت کا موقع مل چکا ہے لیکن ہر بار اسے دیکھتے وقت احمد ندیم قاسمی مرحوم کے اس شعر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
حسب توقع تیز بارش کی وجہ سے کھلی جگہ سے نظارگی کا صحیح لطف لینا ممکن نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ ٹکٹ لے کر لفٹ کے ذریعے 120 فٹ نیچے جا کر مخصوص مقامات سے آبشار کے حسن اور دہشت کو ایک ساتھ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں بارش سے حفاظت کے لیے سروں پر چھت موجود ہوتی ہے۔ سو ایسا ہی کیا گیا۔ سامنے کے بجائے نیچے سے آبشار کو گرتا دیکھنے کا مزا بلاشبہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ ذکیہ اور وسیم نے میری اور پیرزادہ قاسم کی ڈھیروں تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ واپسی پر ہم لوگ بذل الرحمن سروری صاحب کے موٹل پر رکے جہاں وہ اور ان کی بیگم لنچ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
ان کے بچے بھی یہاں پر مستقل آباد ہونے والوں کے بچوں کی طرح اپنے اپنے روزگار سے بندھے مختلف شہروں میں مقیم ہیں اور یہ عمر رسیدہ جوڑا ان کی اور ان کے بچوں کی تصویروں اور یادوں کے ساتھ ایک عجیب سے عالم تنہائی میں زندگی گزار رہا ہے۔ 45 کمروں پر مشتمل موٹل کی ملکیت کی وجہ سے انھیں کوئی معاشی مسئلہ تو درپیش نہیں لیکن اس عمر میں ایسا مشکل اور محنت طلب کاروبار چلانا یقینا کوئی آسان کام نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب کوئی جاننے والا یا بیرون وطن سے آیا ہوا مہمان نیاگرا دیکھنے کو آتا ہے تو وہ بڑی خواہش اور چاؤ سے اس کی خاطرداری کرتے ہیں۔ سروری صاحب کی بیگم صاحبہ ایک طویل اور خطرناک بیماری سے کچھ عرصہ قبل ہی صحت یاب ہوئی ہیں۔ اپنے شوہر کی طرح انھیں بھی شعر و ادب سے گہرا شغف ہے اور وہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت برصغیر کی ادبی فضا اور الیکٹرانک میڈیا سے اپنا رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ہیوسٹن کا اب تک کا پہلا اور آخری سفر 2000ء کے مشاعراتی دورے سے منسلک تھا جس کا اہتمام اردو ٹائمز والے خلیل الرحمن' ڈاکٹر تقی عابدی' ڈاکٹر عبدالرحمن عبد اور وکیل انصاری نے مل کر کیا تھا۔ اس سفر میں دو موجودہ ہمسفروں یعنی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور ذکیہ غزل کے علاوہ منیر نیازی (مرحوم)' انور مسعود اور وسیم بریلوی (انڈیا) بھی ہمارے ساتھ تھے۔ مقامی میزبان فیاض خان نے ہمیں رسیو کیا جو ایک خوش شکل' خوش مزاج اور مخلص ادب دوست ہیں۔ وہ پہلی بار کسی بین الاقوامی سطح کے مشاعرے کا اہتمام کر رہے تھے۔ سو بیک وقت خوش بھی تھے اور فکر مند بھی کہ اب یہ کام بوجوہ روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارا قیام ہیوسٹن شہر کے ایک نئے مضافات رچمنڈ نامی ٹاؤن میں تھا۔ ٹورانٹو کی طرح ہیوسٹن بھی اب بہت پھیل گیا ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ رات کی کم ٹریفک اور فیاض خان کی تیز ڈرائیونگ کے باوجود ہمیں ندیم ملک کے گھر تک پہنچنے میں تقریباً سوا گھنٹہ لگ گیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں رہائش کا انتظام ندیم ملک کے بے حد اصرار پر کیا گیا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے کے قریب جب ہم ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ہمارے انتظار میں ڈنر ٹیبل سجائے بیٹھے تھے جو حدنظر تک سامان خور و نوش سے بھری ہوئی تھی۔
موصوف پکے لاہوریے ہیں اور زندگی میں ان کی پہلی دو ترجیحات اچھا کھانا اور اچھا کھلانا تھیں البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ مقدار اور معیار کس پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ جتنا عرصہ بھی ہم ان کے مہمان رہے وہ ہمیں کچھ نہ کچھ کھلانے کا اہتمام ہی کرتے نظر آئے۔ ان کی والدہ بھی پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ میرے ددھیالی خاندان سے بہت گہری واقفیت رکھتی ہیں۔
ندیم ملک کی بیگم عائشہ ہمارے گوالمنڈی لاہور والے ملک شعیب کی بھانجی نکلیں جن سے برادرم لالہ جلال دین کے گھر پر بہت سی ملاقاتیں رہ چکی ہیں اور یوں ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ اتنی عظیم وسعت کے باوجود انسانی رشتوں کے اعتبار سے یہ دنیا کس قدر چھوٹی ہے۔ ندیم ملک کے دو نوں نوجوان بیٹے کسی بہت پراسرار بیماری کی وجہ سے دس بارہ سال کی عمر تک نارمل بچوں جیسی زندگی گزارنے کے بعد اب ویل چیئر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی دماغی قابلیت قابل رشک ہے اور دونوں تعلیمی اعتبار سے بہترین کارکردگی کے حامل ہیں۔ اس امتحانی صورت حال کے باوجود جس محبت اور ہمت سے یہ خاندان زندگی گزار رہا ہے وہ یقینا بے مثال بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔
مشاعرہ پاکستان سینٹر کے ہال میں تھا۔ شعرأ میں ہمارے اور مقامی شعرأ کے علاوہ پاکستان سے آئے ہوئے غضنفر ہاشمی اور مدت سے یہاں مقیم فرحت شہزاد بھی شامل تھے۔ یہاں نوجوت (زویا) اور رفیعہ سے بھی ملاقات ہوئی جو خاص طور پر ہم سے ملنے کے لیے آئی تھیں۔ ان دونوں سے پہلی ملاقات بھی چودہ برس قبل والے مشاعرے میں ہوئی تھی۔ ہال بہت بڑا اور خوبصورت تھا لیکن زیادہ پرانا نہ ہونے کے باوجود اس کے ایئرکنڈیشنگ سسٹم میں کوئی خرابی تھی جس کی وجہ سے اکثر سامعین دعوتی کارڈوں سے ہوا لیتے نظر آئے مگر جلد ہی مشاعرے کی گرمی موسم کی گرمی پر غالب آ گئی اور مشاعرہ بہت کامیابی سے تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں بہت سے احباب سے ملاقات ہوئی اور ایک بار پھر یہ احساس ابھر کر سامنے آیا کہ ادب اور تہذیب کا رشتہ بے شمار اختلافات کو حل اور ختم کر سکتا ہے۔