سیلاب اور وبائی امراض
سیلابی صورتحال سے لاکھوں کی تعداد میں افراد متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں مکان اور فصلیں تباہ اور مویشی ہلاک ہوئے ہیں
دریائے ستلج سے ملحقہ علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ سیلاب سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں 480 دیہات اور موضع جات زیر آب آئے ہیں۔
سیلابی صورتحال سے لاکھوں کی تعداد میں افراد متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں مکان اور فصلیں تباہ اور مویشی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلانے سے متاثرین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ یہ سیلابی پانی سندھ میں بھی جاتا ہے اور وہاں بھی سیلاب کی صورتحال ہے۔
بھارت اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لیے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں میں تواتر کے ساتھ پانی چھوڑ رہا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے اور الگ سے ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے ساتھ معلومات ڈیٹا فراہم کرنے کا پابند ہے۔
بھارت ایسا کررہا ہے یا نہیں اس کا جواب تو پاکستان کے متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں، البتہ سامنے کامنظر یہ ہے کہ پنجاب میں سیلاب ہے اور یہ سندھ تک جائے گا۔
دنیا آج پانی کا قطرہ قطرہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت خرچ کر رہی ہے جب کہ ہم ہر برس 36 ملین ایکڑ فٹ پانی کو اپنی ہنستی بستی آبادیوں اور کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور پھر وہ ہمیں منہ چڑاتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
ادھر سیلاب زدہ علاقوں میں ہزاروں افراد ڈائریا اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں جب کہ ان بیماریوں کا شکار ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے، جب کہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان اور بے گھر لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں بد انتظامی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
ریلیف اور بحالی میں تاخیر کے باعث لوگوں بالخصوص بچوں اور بوڑھوں کے لیے صحت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ وبائی امراض سے انسانی المیہ جنم لینے لگا ہے۔ شدید گرمی میں ملیریا، جلدی امراض اور گیسٹرو سے تباہ حال متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
متاثرین کو ادویات، پینے کے صاف پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، سیکڑوں خاندان پانی اور سڑکوں کے کنارے ضروریاتِ زندگی اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ سیلابی علاقوں میں بھی پانی کا اخراج نہ ہونے سے ڈینگی، ملیریا اور جلدی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، مچھر دانیوں اور صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے۔
پاکستان کی موجودہ ڈوبتی معیشت کی کچھ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ سیلاب بھی ہے، لیکن انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اس صورتحال سے بچنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس کوششیں کی گئیں۔
حکومتی غفلت و لاپرواہی، انتظامی ڈھانچے میں خرابی، قومی یکجہتی اور قومی ذمے داری کا فقدان بھی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں پچھلے سال سیلاب کی صورت ایک ہولناک آفت آئی تھی۔ قومی معیشت اور دیگر نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً 28 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔ تقریباً 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور ان میں سے اکثریت گھر و املاک تباہ ہونے پر بے گھر ہوئے تھے۔
پاکستان میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچنے کے لیے آج تک کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔جب بھی کوئی ناگہانی قدرتی آفت تباہی پھیلاتی ہے تو اس وقت سوائے بیان بازی کرنے کے کوئی کام نہیں کیا جاتا۔
وفاقی حکومت سے لے کر ضلع اور تحصیل کی سطح تک انتظامی مشینری سوائے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کے کچھ نہیں کر پاتی' بلدیاتی ادارے غیرفعال ہو چکے ہیں ' ویسے تو کئی ادارے ایسے ہیں جو کسی آفت یا مصیبت سے بچاؤ کی غرض سے معرض وجود میں آئے، ان میں '' نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی'' اور اس کے صوبوں کی سطح پر ذیلی ادارے شامل ہیں۔
اس ادارے کی بنیاد اس بنا پر رکھی گئی تھی کہ ملک کو قدرتی آفات کی صورت میں ناقابل تلافی نقصانات سے بچایا جاسکے، لہٰذا اس کے بنیادی منشور میں ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے پہلے سے تیاری اور بروقت اقدامات کرنا شامل ہیں۔
اسی طرح کچھ ایسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فلڈ کی روک تھام کے لیے موثر پالیسی بنانے میں معاونت کرنا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ادارہ مکمل طور پر سود مند ثابت نہ ہوسکا اور اس کی بڑی وجہ ان کا مکمل طور پر فعال نہ ہونا ہے۔جو ادارے انگریز کے دور میں قائم کیے گئے تھے ' انھیں فعال بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے' آج بھی کاغذات کی حد تک یہ ادارے موجود ہیں۔
ان اداروں میں افسر اور ملازمین بھی تعینات ہیں' انھیں تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی مل رہی ہیں لیکن عملاً ان اداروں کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی' بلدیاتی نظام مختلف تجربات کی نظر کر دیا گیا ہے۔
آج اس کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ بلدیاتی ادارے ہیں بھی اور نہیں بھی'پوری دنیا میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بلدیاتی ادارے کلیدی کردارادا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ ادارے مفلوج کر دیے گئے ہیں اور ان کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔
سیلاب اور قدرتی آفات سے بچنے کے لیے ان اداروں کو فعال کرنے کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
نیز ہنگامی اور مستقل بنیادوں پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے، جو اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جانے چاہئیں ان میں وارننگ سسٹم کو فعال بنانا، لوگوں کو آگاہی دینا، کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے متعلقہ محکمہ جات کی اجازت لینا، ماحولیات پر توجہ اور خصوصاً جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو روکنا، اس کے علاوہ بین الاقوامی فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، جب کہ مستقل اقدامات میں سب سے اہم پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز کا بنانا ہے کیونکہ پاکستان میں اگر مستقل بنیادوں پر ڈیم بنا دیے جائیں تو اس کے اچھے اثرات حاصل ہوسکتے ہیں اور اس سے نہ صرف ہم قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کو روک سکتے ہیں بلکہ ذخیرہ کردہ پانی سے اپنی گھریلو اور زرعی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔
مزید برآں مستقل حل میں دریاؤں کے کنارے مضبوط بند یا حفاظتی دیواروں کا بنانا اور پانی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اندرونی ٹنل بنانے کی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے۔
کچھ امور میں ہمیں دوسرے ممالک کی بھی تقلید کرنی ہوگی تاکہ ہم اس عفریت کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکیں۔ جاپان، انڈونیشیا، جرمنی اور کئی دوسرے ممالک جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہوں پر واقع ہیں جہاں ہمیشہ سیلاب کے خطرات رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک نے اپنے آپ کو ان کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اس کی وجہ ان کی بہتر حکمت عملی اور فرض شناسی ہے۔ بنگلہ دیش بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پر سیلاب بکثرت آتے رہتے ہیں لیکن وہاں پر بہت سے ادارے مل کر بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب کے اثرات ان کی معیشت پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں '' لوکل یونین ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیونٹی'' بنائی گئی ہے جو کہ نچلی سطح پر کام کرتی ہے اور اس کمیونٹی کا مقصد بروقت اقدامات کرکے مختلف قدرتی آفات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور کسی آفت یا سیلاب کی صورت میں، جلد از جلد بحالی کی کوششیں کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس نوعیت کی مقامی سطح پر کمیٹی بناکر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک عزیز میں ان ممالک کے مروجہ ماڈلز کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان ماڈلز کو اپنایا جائے جن کا اطلاق ملک میں کیا جاسکتا ہے۔
نیک نیتی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشش کی جائے کیونکہ یہ پاکستان کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اگر موجودہ سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسائل کی اتنی وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود بھی کوئی سیاسی پارٹی اس وقت یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ موجودہ موسم کی صورتحال بھی نوشتہ دیوار کی طرح معلوم ہورہی ہے۔ گرمی کی شدت فروری کے ماہ سے ہی شروع ہوجانا نیک شگون نہیں ہے۔
گرمی کی شدت اگر اسی طرح برقرار رہی تو گلیشیئرز زیادہ پگھلنے کے خدشات ہیں، لہٰذا ہمیں پیشگی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور سیلاب آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان کا اندیشہ ہو۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس طرح کی قدرتی آفات بہت مہلک ثابت ہوتی ہیں اور معیشت کو بہت حد تک متاثر کرتی ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سیلاب سے مکمل بچاؤ انسانی بس میں نہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی سے اس عفریت کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
سیلابی صورتحال سے لاکھوں کی تعداد میں افراد متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں مکان اور فصلیں تباہ اور مویشی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلانے سے متاثرین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ یہ سیلابی پانی سندھ میں بھی جاتا ہے اور وہاں بھی سیلاب کی صورتحال ہے۔
بھارت اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لیے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں میں تواتر کے ساتھ پانی چھوڑ رہا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے اور الگ سے ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے ساتھ معلومات ڈیٹا فراہم کرنے کا پابند ہے۔
بھارت ایسا کررہا ہے یا نہیں اس کا جواب تو پاکستان کے متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں، البتہ سامنے کامنظر یہ ہے کہ پنجاب میں سیلاب ہے اور یہ سندھ تک جائے گا۔
دنیا آج پانی کا قطرہ قطرہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت خرچ کر رہی ہے جب کہ ہم ہر برس 36 ملین ایکڑ فٹ پانی کو اپنی ہنستی بستی آبادیوں اور کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور پھر وہ ہمیں منہ چڑاتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
ادھر سیلاب زدہ علاقوں میں ہزاروں افراد ڈائریا اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں جب کہ ان بیماریوں کا شکار ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے، جب کہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان اور بے گھر لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں بد انتظامی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
ریلیف اور بحالی میں تاخیر کے باعث لوگوں بالخصوص بچوں اور بوڑھوں کے لیے صحت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ وبائی امراض سے انسانی المیہ جنم لینے لگا ہے۔ شدید گرمی میں ملیریا، جلدی امراض اور گیسٹرو سے تباہ حال متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
متاثرین کو ادویات، پینے کے صاف پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، سیکڑوں خاندان پانی اور سڑکوں کے کنارے ضروریاتِ زندگی اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ سیلابی علاقوں میں بھی پانی کا اخراج نہ ہونے سے ڈینگی، ملیریا اور جلدی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، مچھر دانیوں اور صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے۔
پاکستان کی موجودہ ڈوبتی معیشت کی کچھ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ سیلاب بھی ہے، لیکن انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اس صورتحال سے بچنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس کوششیں کی گئیں۔
حکومتی غفلت و لاپرواہی، انتظامی ڈھانچے میں خرابی، قومی یکجہتی اور قومی ذمے داری کا فقدان بھی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں پچھلے سال سیلاب کی صورت ایک ہولناک آفت آئی تھی۔ قومی معیشت اور دیگر نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً 28 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔ تقریباً 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور ان میں سے اکثریت گھر و املاک تباہ ہونے پر بے گھر ہوئے تھے۔
پاکستان میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچنے کے لیے آج تک کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔جب بھی کوئی ناگہانی قدرتی آفت تباہی پھیلاتی ہے تو اس وقت سوائے بیان بازی کرنے کے کوئی کام نہیں کیا جاتا۔
وفاقی حکومت سے لے کر ضلع اور تحصیل کی سطح تک انتظامی مشینری سوائے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کے کچھ نہیں کر پاتی' بلدیاتی ادارے غیرفعال ہو چکے ہیں ' ویسے تو کئی ادارے ایسے ہیں جو کسی آفت یا مصیبت سے بچاؤ کی غرض سے معرض وجود میں آئے، ان میں '' نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی'' اور اس کے صوبوں کی سطح پر ذیلی ادارے شامل ہیں۔
اس ادارے کی بنیاد اس بنا پر رکھی گئی تھی کہ ملک کو قدرتی آفات کی صورت میں ناقابل تلافی نقصانات سے بچایا جاسکے، لہٰذا اس کے بنیادی منشور میں ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے پہلے سے تیاری اور بروقت اقدامات کرنا شامل ہیں۔
اسی طرح کچھ ایسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فلڈ کی روک تھام کے لیے موثر پالیسی بنانے میں معاونت کرنا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ادارہ مکمل طور پر سود مند ثابت نہ ہوسکا اور اس کی بڑی وجہ ان کا مکمل طور پر فعال نہ ہونا ہے۔جو ادارے انگریز کے دور میں قائم کیے گئے تھے ' انھیں فعال بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے' آج بھی کاغذات کی حد تک یہ ادارے موجود ہیں۔
ان اداروں میں افسر اور ملازمین بھی تعینات ہیں' انھیں تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی مل رہی ہیں لیکن عملاً ان اداروں کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی' بلدیاتی نظام مختلف تجربات کی نظر کر دیا گیا ہے۔
آج اس کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ بلدیاتی ادارے ہیں بھی اور نہیں بھی'پوری دنیا میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بلدیاتی ادارے کلیدی کردارادا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ ادارے مفلوج کر دیے گئے ہیں اور ان کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔
سیلاب اور قدرتی آفات سے بچنے کے لیے ان اداروں کو فعال کرنے کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
نیز ہنگامی اور مستقل بنیادوں پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے، جو اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جانے چاہئیں ان میں وارننگ سسٹم کو فعال بنانا، لوگوں کو آگاہی دینا، کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے متعلقہ محکمہ جات کی اجازت لینا، ماحولیات پر توجہ اور خصوصاً جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو روکنا، اس کے علاوہ بین الاقوامی فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، جب کہ مستقل اقدامات میں سب سے اہم پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز کا بنانا ہے کیونکہ پاکستان میں اگر مستقل بنیادوں پر ڈیم بنا دیے جائیں تو اس کے اچھے اثرات حاصل ہوسکتے ہیں اور اس سے نہ صرف ہم قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کو روک سکتے ہیں بلکہ ذخیرہ کردہ پانی سے اپنی گھریلو اور زرعی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔
مزید برآں مستقل حل میں دریاؤں کے کنارے مضبوط بند یا حفاظتی دیواروں کا بنانا اور پانی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اندرونی ٹنل بنانے کی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے۔
کچھ امور میں ہمیں دوسرے ممالک کی بھی تقلید کرنی ہوگی تاکہ ہم اس عفریت کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکیں۔ جاپان، انڈونیشیا، جرمنی اور کئی دوسرے ممالک جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہوں پر واقع ہیں جہاں ہمیشہ سیلاب کے خطرات رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک نے اپنے آپ کو ان کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اس کی وجہ ان کی بہتر حکمت عملی اور فرض شناسی ہے۔ بنگلہ دیش بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پر سیلاب بکثرت آتے رہتے ہیں لیکن وہاں پر بہت سے ادارے مل کر بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب کے اثرات ان کی معیشت پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں '' لوکل یونین ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیونٹی'' بنائی گئی ہے جو کہ نچلی سطح پر کام کرتی ہے اور اس کمیونٹی کا مقصد بروقت اقدامات کرکے مختلف قدرتی آفات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور کسی آفت یا سیلاب کی صورت میں، جلد از جلد بحالی کی کوششیں کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس نوعیت کی مقامی سطح پر کمیٹی بناکر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک عزیز میں ان ممالک کے مروجہ ماڈلز کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان ماڈلز کو اپنایا جائے جن کا اطلاق ملک میں کیا جاسکتا ہے۔
نیک نیتی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشش کی جائے کیونکہ یہ پاکستان کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اگر موجودہ سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسائل کی اتنی وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود بھی کوئی سیاسی پارٹی اس وقت یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ موجودہ موسم کی صورتحال بھی نوشتہ دیوار کی طرح معلوم ہورہی ہے۔ گرمی کی شدت فروری کے ماہ سے ہی شروع ہوجانا نیک شگون نہیں ہے۔
گرمی کی شدت اگر اسی طرح برقرار رہی تو گلیشیئرز زیادہ پگھلنے کے خدشات ہیں، لہٰذا ہمیں پیشگی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور سیلاب آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان کا اندیشہ ہو۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس طرح کی قدرتی آفات بہت مہلک ثابت ہوتی ہیں اور معیشت کو بہت حد تک متاثر کرتی ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سیلاب سے مکمل بچاؤ انسانی بس میں نہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی سے اس عفریت کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔