اسلامی بینکاری پاکستان دنیا کی رہنمائی کرسکتا ہے
دنیا میں سترویں صدی میں یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی جدید بینکاری نظام قائم ہوا جوکہ سودی لین دین پر منحصر تھا۔ یورپی ملکوں میں جس وقت جدید بینکاری کی بنیاد ڈالی جارہی تھی اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا کہ بائبل میں سود کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔ تو اس وقت یہ جواب دیا گیا کہ وہ سود غریبوں سے وصول کیا جاتا تھا، اس والے سود کی مدد سے مالدار لوگ صنعتیں لگائیں گے اور معاشی ترقی کےلیے ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
بات معیشت کی تھی اور بات مضبوطی کی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے سودی نظام نے دنیا کی معیشت کو سنبھالا ہے، تب سے معاشی طور پر دنیا میں متعدد مقامی اور عالمی نوعیت کے اقتصادی بحرانوں کا سامنا ہوا ہے۔
امریکا میں 1930 کو ہونے والی عظیم کساد بازاری نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے اثرات نے طویل عرصے تک عالمی معیشت کو متاثر کیے رکھا۔ ماضی قریب میں معاشی بحران نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور اب اس وقت یعنی 2023 میں دنیا ایک مرتبہ پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں سے آگے بڑھنے کےلیے نئے راستوں کی تلاش ضروری ہے۔
عوامی سطح پر آمدن سے زائد اخراجات، بلند شرح سود کے علاوہ ایک طرف کاروباروں کو مالیاتی لحاظ سے تیزی سے فروغ دیا جارہا تھا، تو دوسری طرف بینکوں کی قرض پر قرض جاری کرنے کی پالیسی بظاہر منافع بنا رہی تھی مگر معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی تھی۔ اسی حرص و ہوس کی دوڑ میں بینک دیوالیہ ہوگئے، اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار بھی محفوظ نہ رہے اور پورا مالیاتی نظام زمین بوس ہوتا محسوس ہوا۔ عوام اربوں ڈالر کی بچتوں سے محروم ہوگئے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے اور زر کا پھیلاؤ سکڑ گیا۔ اس بحران کو حل کرنے کےلیے امریکا اور یورپ نے بنیادی شرح سود کو کم کیا اور یہ تقریباً صفر کی سطح کے قریب پہنچ گئی۔
اس وقت جاری مالیاتی بحران کے اثرات گزشتہ سال ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ مگر دنیا کو کووڈ 19 کی وبا کے بعد پیدا ہونے والے طلب کے رجحان نے ایک مرتبہ پھر کساد بازاری میں دھکیل دیا ہے۔ آج ہم سب کو طلب و رسد کے مسائل کا سامنا ہے اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے معیشتوں میں انفلیشن، زر کا پھیلاؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ افراط زر 2 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ عام آدمی کےلیے گزارا مشکل ہوگیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تمام مشکل حالات میں جہاں روایتی بینکاری زمین بوس ہوتی نظر آئی، وہیں اسلامی بینکاری مستحکم رہی بلکہ اس نے فروغ بھی حاصل کیا۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں اور سکوک کے ذریعے قرض لینے والے سب کے سب محفوظ رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ روس نے بھی اپنے ملک میں اسلامی بینکاری کو تجرباتی بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ستمبر سے پہلا اسلامی بینک روس میں کام شروع کردے گا۔
معیشت کا پھر حل کیا ہے؟ اہل دانش یہ سوال لیے کھڑے تھے، مگر انہیں جاری نظام کوئی بھی حل فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ اسی لیے مسیحی فرقہ کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ کے ترجمان اخبار Osservatore Romano نے 4 مارچ 2009 کو ایک مضمون میں لکھا ''اسلامی مالیات کا نظام کاروباری اخلاقیات پر قائم ہے۔ جو بینکوں کو اس کے کلائنٹس (قرضہ لینے والے اور کھاتیداروں) کو قریب لاسکتا ہے۔ جو کہ مالیاتی خدمات میں ایک نئی اور حقیقی روح کے مترادف ہے۔ مغربی بینک اسلامی بانڈز جن کو سکوک کہتے ہیں، کو اپنا سکتے ہیں۔ ان سکوک کے ذریعے کار سازی کی صنعت اور آئندہ سال ہونے والے لندن اولمپکس کے مالیاتی اخراجات کو پورا کیا جاسکتا ہے''۔
اس سے قبل پوپ بینی ڈکٹ نے بھی اپنی تقریر میں مالیاتی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیسہ ایسے غائب ہورہا ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں۔
بار بار آنے والے مالیاتی اور معاشی بحرانوں سے تنگ سیاستدان، بینکار، صنعت کار، تاجر اور عوام میں متبادل معاشی نظام کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے اسلامی بینکاری یا سود سے پاک بینکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی مالیاتی صنعت کا مجموعی حجم 2.2 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور تیزی سے مغربی بینکوں کے اسلامی فائنانس کو اپنانے کا رجحان دیکھتے ہوئے اب یہ کہا جارہا ہے کہ سال 2025 کے اختتام تک اسلامی مالیاتی صنعت 4.94 ہزار ارب ڈالر کی ہوجائے گی۔ مگر روایتی بینکاری کے مقابلے میں یہ اعدادوشمار بہت کم ہیں کیونکہ سودی بینکاری کا مجموعی حجم 486 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔
اسلامی بینکاری اور مالیاتی نظام مسلم دنیا میں، جیسا کہ ایران، سعودی عرب، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، ترکیہ، بنگلہ دیش انڈونیشیا، بحرین سمیت پاکستان میں تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ مگر مسلم اکثریتی ملکوں کے علاوہ وہ مغربی ممالک جہاں روایتی بینکاری مضبوط بنیادوں پر قائم ہے وہاں بھی اسلامی بینکاری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، سوئٹزرلینڈ کے علاوہ چین اور جاپان سمیت دنیا کے 80 سے زائد ملکوں میں اسلاممی بینکاری کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ وہاں پر اسلامی مالیاتی ادارے بھی تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے والے کثیر ملکی مالیاتی ادارے عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ، ایشیائی ترقیاتی فنڈ اور دیگر ادارے بھی اسلامی فنانسنگ کو فروغ دے رہے ہیں۔ مغربی مارکیٹوں میں اسلامی بانڈز یعنی سکوک تیزی سے مقبول ہورہے ہیں اور خود پاکستان نے سکوک کے ذریعے عالمی منڈی سے قرض لیا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ 2.5 ہزار ارب ڈالر کی مالیاتی صنعت کیا 486 ہزار ارب ڈالر کی صنعت کو ختم کرسکے گی؟ کیا اس قدر بڑی روایتی سودی بینکاری کی صنعت کو ختم کیا جاسکے گا؟
میرے خیال میں اس حوالے سے مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان ایک ایسی مثال قائم کرسکتا ہے بلکہ اس حوالے سے ایک قائدانہ کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ جس میں دنیا سے روایتی بینکاری کو ختم کرتے ہوئے مکمل اسلامی بینکاری کو اپنایا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے دنیا میں سب سے بڑی کوشش پاکستان میں کی گئی، جس میں پہلے مرحلے پر روایتی بینکوں کے مخصوص آپریشنز کو اسلامی کیا گیا۔ قرضے سودی سے اسلامی پر منتقل کیے گئے۔
پاکستان میں بینکوں کے روایتی سے اسلامی پر منتقل ہونے اور ان بینکوں کے کاروبار میں کمی کے بجائے بہتری آنے سے یہ نظریہ کہ اسلامی بینک منافع بخش نہیں ہوسکتے، یہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب اگر دنیا میں کوئی بھی بینک روایتی سے اسلامی پر منتقل ہونا چاہ رہا ہے تو پاکستان اس کو وہ افرادی قوت فراہم کرسکتا ہے جوکہ اس قسم کے کاروباری عمل کرنے کی بہترین مہارت رکھتی ہے۔
امید ہے کہ جلد ہی حکومت بھی اپنا تمام کاروبار سودی سے اسلامی پر منتقل کردے گی اور اس سے حاصل کردہ تجربے کی روشنی میں پاکستان دنیا کو غیر سودی بینکاری نظام کے قیام کےلیے قائدانہ کرادار ادا کرسکے گا۔
بات اب صرف ایک مختلف سمت کی نہیں ہے، آسودگی اور خوشحالی کی بھی ہے۔ سود سے پاک نظام ہی اس کا بہترین جواب ہے۔ یہ وہ معاشی نظام ہے جس نے مدینے کو عالمی ریاست بنایا، اور یہی نظام امیہ، عباسی اور عثمانی خلافت کی شان و شوکت کی وجہ بنا۔ اس سے دوری ہمیں بحرانوں سے قریب کرتی رہی۔ بات سچ ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے اصول ہی انسانی فلاح کےلیے بہترین ہیں۔ اسلامی بینکاری میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو آج کو بہتر اور کل کو روشن رکھیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔