خود انحصَاری
مشکلات سے گھبرانے کے بہ جائے ان کاحل ڈھونڈیں۔ تکلیفوں اورمصیبتوں کومختلف طریقوں سے دوریا ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں
دینِ اسلام ہمیں خود انحصاری یعنی اپنی ضروریات خود اپنی محنت سے پوری کرنے کا درس دیتا ہے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے منع کرتا ہے۔
ہمیں اپنی غریبی و مفلسی کا رونا رونے کے بہ جائے خود پر اِنحصار کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ، اپنی قابلیت کا بھرپور استعمال کرکے، سخت محنت و مشقت برداشت کرتے ہوئے حلال مال کا حصول ممکن بنانا چاہیے، تاکہ ہم اپنے مستقبل کو روشن و تاب ناک بنا سکیں۔ اس کے لیے کوئی چھوٹا سا کاروبار کرلیں۔
ترقی کرنی ہے تو کسی ملازمت کو عار مت سمجھیں یا کوئی ہنر سیکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مختلف مہارتیں سیکھیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں جائز طریقوں سے پیسا کمائیں۔
یوں بھی کرسکتے ہیں کہ بچت کے راستوں سے کچھ مناسب رقم جمع کرکے پارٹ ٹائم کوئی مختصر اور چھوٹا کام شروع کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترجیح دینی ہے تاکہ محنت و مشقت کی عادت پڑے، اگر آپ طالب علم یا نوجوان ہیں تو محض والدین کی کمائی پر نہ رہیں یا ان پر بوجھ نہ بنیں بل کہ خود انحصاری کو شعار بنائیں۔
خود انحصاری کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم قناعت سے کام لیں ، اپنے پاس دست یاب وسائل پر انحصار کریں، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ، آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھیں ، اگر ہم یہ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے کثیر فوائد و منافع چاروں طرف سے ہمارا رُخ کرلیں گے ، جس کی برکت سے ہماری روز مرہ مشکلات قابو میں آجائیں گی اور زندگی آسان ہوجائے گی۔ اِن شآء اﷲ
خود انحصاری کے تقاضے:
٭ اپنے ربِّ کریم پر بھروسا رکھیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنے پروردگار پر توکل مضبوط تر ہونا چاہیے اور دل میں یہ بات پختہ کرلیں کہ ہمارے پاس محدود وسائل میں برکت دینے والی ذات اُسی ربِّ ذْوالجلال کی ہے۔
وہی ذرّے کو آفتاب کرتا ہے۔ بے وقعت کو رشکِ قمر بناتا ہے۔ دانے کو درخت میں بدل دیتا ہے۔ عام دھات کو سونا بنا دیتا ہے۔ سِیپ کے اندر داخل ہونے والے بارش کے قطرے کو موتی سے بدل دیتا ہے۔ ال غرض ساری طاقت و قدرت اُسی کے قبضہ و اختیار میں ہے، لہٰذا خود انحصاری میں پہلا کام اﷲ پاک پر بھروسا ہے۔
٭ خودانحصاری تب ہی فائدہ مند ہوگی جب ہم اپنا کام پوری ذمے داری کے ساتھ انجام دیں گے اور اس کے لیے وقت کا استعمال عقل مندی کے ساتھ ہو۔ فارغ وقت کو قابلِ استعمال بنایا جائے اور مزید ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جن سے اپنے کام میں بہتری و ترقی آئے۔
٭ مشکلات سے گھبرانے کے بہ جائے اُن کا حل ڈھونڈیں۔ پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو مختلف طریقوں سے دُور یا ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں، اگر خود مسئلہ حل کرنے میں کام یاب نہ ہوں یا درست سمت سوچ نہ سکیں تو کسی مخلص و خوفِ خدا رکھنے والے سے مشورہ کرلیں۔
قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی مثال ہماری راہ نمائی کرتی ہے کہ قحط کے سات برسوں سے گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے بل کہ اپنی فہم و فراست اور خود انحصاری کو بُروئے کار لاتے ہوئے اِس پریشانی کا بہترین و بے مثال حل نکال لیا۔
٭ خود اِنحصاری کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اَخراجات پر قابو رکھیں تاکہ زندگی خوش حال اور پُرسکون رہے۔ اگر خرچ کو منظم انداز میں نہ چلایا جائے، بچت پر توجہ نہ دی جائے تو بے سکونی، بے اطمینانی، بے برکتی، شکوہ و شکایت، گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مفتی احمد یار خانؒ فرماتے ہیں: ''خوش حالی کا دار و مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا اور خرچ کرنا مگر ان دونوں میں خرچ کرنا بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِن شآء اﷲ ہمیشہ خوش رہے گا۔''
آج ہم محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کبھی فیشن کے نام پر، کبھی مہنگے ریستوران میں کھانا کھا کر، کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے، کبھی بلاضرورت گھر کی تزئین و آرائش کرکے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات و جیولری کے نام پر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر نت نئے مسائل کا شکار ہوتے اور لوگوں سے ادھار مانگتے نظر آتے ہیں۔
٭ اپنی تعلیم میں اضافہ کریں۔ غور و فکر اور دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ ممکن ہو تو مختلف کورسز اور ڈپلومے کریں۔ کتابوں اور کام یاب لوگوں سے ترقی کرنے، آگے بڑھنے کے طریقے سیکھیں کیوں کہ بسا اوقات مسائل کا حل تجربہ و مہارت نیز مضبوط یا مزید تعلیم میں ہوتا ہے، جتنا زیادہ یا پختہ علم ہوگا اور جتنا تجربہ و مہارت ہوگی اتنی ہی آپ کو ترجیح دی جائے گی۔ ال غرض آپ کے پاس قابلِ فروخت مہارت ہونی چاہیے۔
٭ دیانت داری، امانت داری اور ایمان داری ہر وقت اور ہر جگہ پیشِ نظر رکھیں۔ مال و دولت دیکھ کر بے ایمانی و خیانت نہ کریں۔ مشکل وقت میں بھی ہمارے اخلاقیات پر حرف نہ آئے۔ ہمارے معیار اور حوصلے میں کمی نہیں آنی چاہیے۔
اﷲ ربّ العزّت ہمیں خودانحصاری، قناعت، توکّل اور دیانت داری کی دولت سے نوازے۔آمین
ہمیں اپنی غریبی و مفلسی کا رونا رونے کے بہ جائے خود پر اِنحصار کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ، اپنی قابلیت کا بھرپور استعمال کرکے، سخت محنت و مشقت برداشت کرتے ہوئے حلال مال کا حصول ممکن بنانا چاہیے، تاکہ ہم اپنے مستقبل کو روشن و تاب ناک بنا سکیں۔ اس کے لیے کوئی چھوٹا سا کاروبار کرلیں۔
ترقی کرنی ہے تو کسی ملازمت کو عار مت سمجھیں یا کوئی ہنر سیکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مختلف مہارتیں سیکھیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں جائز طریقوں سے پیسا کمائیں۔
یوں بھی کرسکتے ہیں کہ بچت کے راستوں سے کچھ مناسب رقم جمع کرکے پارٹ ٹائم کوئی مختصر اور چھوٹا کام شروع کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترجیح دینی ہے تاکہ محنت و مشقت کی عادت پڑے، اگر آپ طالب علم یا نوجوان ہیں تو محض والدین کی کمائی پر نہ رہیں یا ان پر بوجھ نہ بنیں بل کہ خود انحصاری کو شعار بنائیں۔
خود انحصاری کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم قناعت سے کام لیں ، اپنے پاس دست یاب وسائل پر انحصار کریں، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ، آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھیں ، اگر ہم یہ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے کثیر فوائد و منافع چاروں طرف سے ہمارا رُخ کرلیں گے ، جس کی برکت سے ہماری روز مرہ مشکلات قابو میں آجائیں گی اور زندگی آسان ہوجائے گی۔ اِن شآء اﷲ
خود انحصاری کے تقاضے:
٭ اپنے ربِّ کریم پر بھروسا رکھیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنے پروردگار پر توکل مضبوط تر ہونا چاہیے اور دل میں یہ بات پختہ کرلیں کہ ہمارے پاس محدود وسائل میں برکت دینے والی ذات اُسی ربِّ ذْوالجلال کی ہے۔
وہی ذرّے کو آفتاب کرتا ہے۔ بے وقعت کو رشکِ قمر بناتا ہے۔ دانے کو درخت میں بدل دیتا ہے۔ عام دھات کو سونا بنا دیتا ہے۔ سِیپ کے اندر داخل ہونے والے بارش کے قطرے کو موتی سے بدل دیتا ہے۔ ال غرض ساری طاقت و قدرت اُسی کے قبضہ و اختیار میں ہے، لہٰذا خود انحصاری میں پہلا کام اﷲ پاک پر بھروسا ہے۔
٭ خودانحصاری تب ہی فائدہ مند ہوگی جب ہم اپنا کام پوری ذمے داری کے ساتھ انجام دیں گے اور اس کے لیے وقت کا استعمال عقل مندی کے ساتھ ہو۔ فارغ وقت کو قابلِ استعمال بنایا جائے اور مزید ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جن سے اپنے کام میں بہتری و ترقی آئے۔
٭ مشکلات سے گھبرانے کے بہ جائے اُن کا حل ڈھونڈیں۔ پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو مختلف طریقوں سے دُور یا ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں، اگر خود مسئلہ حل کرنے میں کام یاب نہ ہوں یا درست سمت سوچ نہ سکیں تو کسی مخلص و خوفِ خدا رکھنے والے سے مشورہ کرلیں۔
قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی مثال ہماری راہ نمائی کرتی ہے کہ قحط کے سات برسوں سے گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے بل کہ اپنی فہم و فراست اور خود انحصاری کو بُروئے کار لاتے ہوئے اِس پریشانی کا بہترین و بے مثال حل نکال لیا۔
٭ خود اِنحصاری کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اَخراجات پر قابو رکھیں تاکہ زندگی خوش حال اور پُرسکون رہے۔ اگر خرچ کو منظم انداز میں نہ چلایا جائے، بچت پر توجہ نہ دی جائے تو بے سکونی، بے اطمینانی، بے برکتی، شکوہ و شکایت، گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مفتی احمد یار خانؒ فرماتے ہیں: ''خوش حالی کا دار و مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا اور خرچ کرنا مگر ان دونوں میں خرچ کرنا بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِن شآء اﷲ ہمیشہ خوش رہے گا۔''
آج ہم محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کبھی فیشن کے نام پر، کبھی مہنگے ریستوران میں کھانا کھا کر، کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے، کبھی بلاضرورت گھر کی تزئین و آرائش کرکے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات و جیولری کے نام پر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر نت نئے مسائل کا شکار ہوتے اور لوگوں سے ادھار مانگتے نظر آتے ہیں۔
٭ اپنی تعلیم میں اضافہ کریں۔ غور و فکر اور دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ ممکن ہو تو مختلف کورسز اور ڈپلومے کریں۔ کتابوں اور کام یاب لوگوں سے ترقی کرنے، آگے بڑھنے کے طریقے سیکھیں کیوں کہ بسا اوقات مسائل کا حل تجربہ و مہارت نیز مضبوط یا مزید تعلیم میں ہوتا ہے، جتنا زیادہ یا پختہ علم ہوگا اور جتنا تجربہ و مہارت ہوگی اتنی ہی آپ کو ترجیح دی جائے گی۔ ال غرض آپ کے پاس قابلِ فروخت مہارت ہونی چاہیے۔
٭ دیانت داری، امانت داری اور ایمان داری ہر وقت اور ہر جگہ پیشِ نظر رکھیں۔ مال و دولت دیکھ کر بے ایمانی و خیانت نہ کریں۔ مشکل وقت میں بھی ہمارے اخلاقیات پر حرف نہ آئے۔ ہمارے معیار اور حوصلے میں کمی نہیں آنی چاہیے۔
اﷲ ربّ العزّت ہمیں خودانحصاری، قناعت، توکّل اور دیانت داری کی دولت سے نوازے۔آمین