پٹرول اور بجلی قیمتوں میں اضافے کے اثرات

ملک کی حالت معاشی طور پر مخدوش ہو یا خوشحال اُن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا

ملک کی حالت معاشی طور پر مخدوش ہو یا خوشحال اُن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ فوٹو: فائل

نگران حکومت نے ایک بار پھر پٹرول کی قیمت میں 14 روپے 91 پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 18 روپے 44 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول 305.36 روپے اور ڈیزل 311.84 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔

دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر نے ایک چھلانگ لگاتے ہوئے 326 روپے کی نئی بلند ترین سطح کو چھو لیا جب کہ 16روز میں ریلوے کے کرایوں میں دوسری بار اضافہ کیا گیا ہے، 16 اگست کو ریلوے نے مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں 10 فیصد اور مال بردار ٹرینوں کے کرایوں میں 5 فیصد اضافہ کیا تھا۔

پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں حیران کن اضافے نے بڑے پیمانے پر عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو پہلے ہی معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گھٹ رہی ہے اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ عوام میں اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ کے زیر اثر ہوا ہے اس وقت تو عوام کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔

دراصل آئی ایم ایف عوام کو ریلیف دینے سے نہیں روکتا، اگر حکومت اس کے ساتھ لاجک سے بات کرے ان کو بتائے کہ ان سے شرائط طے کرتے وقت حالات مختلف تھے، اب روپے کی قیمت میں کمی آنے اور دیگر عوامل کی وجہ سے مشکلات بڑھ چکی ہیں، ہم بجلی کے بلوں میں دیے جانے والے ریلیف میں ہونے والے نقصان کو ٹیکس نیٹ بڑھا کر پورا کر لیں گے تو آئی ایم ایف پاکستانی حکومت کی بات ضرور سنے گا، لیکن شاید نگران حکومت کا یہ ایجنڈا نہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے بات کرے۔

اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی کیونکہ بیشتر ایندھن درآمد ہوتا ہے۔

مقامی قدرتی گیس کی قیمت میں بھی ازحد اضافہ کیا جا چکا۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔

پٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں وہ پٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہوتے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ آیندہ بجلی کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔

بجلی کی قیمت تو صرف ایک مثال ہے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، جو چیز پٹرول سے دور کی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ قیمتیں بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو دھچکا لگے گا بلکہ معاشرت بھی متاثر ہوگی، رویے بھی متاثر ہونگے اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوگی۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گا جب کہ پاکستان میں 40 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرایع انتہائی محدود ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے جس کے اثرات سے زندگی کا کوئی شعبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔

ایک زمانہ تھا کہ ملک میں بھوک اور غربت سے تنگ آ کر کوئی خود کشی کرتا تھا تو میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا تھا، حکومت بھی وضاحتیں دینے پر مجبور ہو جاتی تھی، اپوزیشن بیانات داغتی تھی کہ حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں، اب ایسے واقعات بھی معمول کی شکل اختیارکر گئے ہیں، حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ میڈیا ہی اہمیت دیتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے، بے حسی ہے۔


زندہ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ آج ہم اپنے اردگرد سے اتنے بے خبر ہو چکے ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی ہمارے محلے میں، ہمارے ساتھ والے گھر میں کتنے دِنوں کا فاقہ ہے اور ہمسایہ کس حال سے گزر رہا ہے۔ نگراں حکومت اور اُس کے ادارے تو عوام کی حالت سے ویسے ہی لاتعلق ہو چکے ہیں انھیں صرف عوام کی جیبوں سے روپیہ نکلوانا آتا ہے، انھیں سُکھ پہنچانا، سہولتیں فراہم کرنا اُن کی ذمے داری نہیں، اُن سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

آج تک صرف پن بجلی کے منصوبے لگائے گئے ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے تھرمل پروجیکٹس نجی شعبے یعنی انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے پاس ہیں۔ پاکستان میں پاور سیکٹر کے اہم مسائل میں سے ایک کپیسٹی پیمنٹس (capacity payments) کا مسئلہ بھی ہے جس کا تعلق آئی پی پیز کے لیے ریٹ آف ریٹرن (rate of return)سے ہے جس کی گارنٹی حکومت نے دی تھی اور اس کا بوجھ بھی سرکاری خزانے پر ہے۔

اسی پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے کہ حکومت ادائیگیوں کے قابل ہے یا نہیں۔ مسلسل بڑھتی طلب کے ساتھ حکومتیں بجلی کی پیداوار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور پانی سر سے گزرنے پر گھبراہٹ میں آئی پی پیز سے رجوع کرتی رہی ہیں۔ اس کے لیے تھر کا کوئلہ بھی کام میں لایا گیا جو آلودگی پھیلانے کی وجہ سے اپنے آپ میں ایک اور بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دنیا گرین انرجی کی طرف جا رہی ہے۔ اسی طرح فرنس آئل درآمدی بل پر بوجھ ڈالتا ہے۔

ایک زمانے میں یہ درآمدی بل برآمدات کی وجہ سے متوازن کر لیا جاتا تھا لیکن برآمدات میں کمی کے ساتھ یہ ذریعہ بھی ختم ہو گیا۔ فرنس آئل کی درآمدات گردشی قرضے میں اضافے کا باعث بھی ہیں، یہ قرض بہت بڑا ہے۔

اس قرض کے پیچھے بھی کپیسٹی پیمنٹس کا ہاتھ ہے، یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف گردشی قرضے کی ادائیگی چاہتا ہے اور حکومت مجبور ہے کہ یہ پیسہ صارفین کی جیبوں سے نکلوائے۔ بجلی کے بل پر پندرہ روپے ریڈیو ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے، اِس سے پہلے ٹی وی کے35روپے بھی بجلی کے بل میں شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کا بل نہ ہوا جادو کی چھڑی ہو گئی، جسے گھما کر حکومت اپنے معاملات بھی چلا رہی ہے اور اب اُس نے مختلف محکمے بھی چلانے شروع کردیے ہیں۔

ابھی تو ایک اور مد بھی ہے جس سے کئی خسارے پورے کیے جا سکتے ہیں اور وہ ہے سوئی گیس کا بل، سوئی گیس کے بلوں میں بھی مختلف محکموں کی امداد کے لیے سرچارج لگایا جا سکتا ہے، رہے عوام تو اُن کی سنتا کون ہے، اُن کے لیے تو یہی کافی ہے کہ انھیں بجلی اور گیس مل جاتی ہے، خواص جو حکمران ہیں یا اوپر سے نیچے تک حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں انھیں تو ہر چیز مفت مل جاتی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، مکان، نوکر چاکر سب سرکار کے خرچ پر، یعنی اُن کا بوجھ بھی عوام اٹھاتے ہیں۔

ملک کی حالت معاشی طور پر مخدوش ہو یا خوشحال اُن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اتحادی حکومت نے جاتے جاتے پنجاب کی بیورو کریسی کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کی خاطر ساڑھے تین ارب روپے کی منظوری دی، کیا پرانی گاڑیاں چل نہیں رہی تھیں، کیا گزارا نہیں ہو رہا تھا۔ ایک ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس چھ چھ گاڑیاں ہوتی ہیں۔

اُن سے اُس کا کام نہیں چلتا تو ساتویں گاڑی سے کیسے چلے گا، سرکاری گاڑی سے جب سرکاری افسر گوشت کا ریٹ چیک کرنے اترتے ہیں تو اُن کی شان ہی علیحدہ ہوتی ہے، گوشت عوام کو سستا ملے نہ ملے، افسر کی دھاک ضرور بیٹھ جاتی ہے۔اگر حکومت بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کرے، تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں بیس سے تیس فی صد کمی آ سکتی ہے۔

ریوینیو میں آنے والی اس کمی کو ان سیکٹرز پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جا سکتا ہے، جو یا تو ٹیکس ہی نہیں دیتے یا پھر بہت ہی کم دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پراپرٹی، زراعت، بیوٹی سیلون اور انفرادی پروفیشنل لوگوں پر ٹیکس لگا کر یہ ہدف با آسانی پورا کیا جا سکتا ہے۔

اقتصادی ماہر کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کے نام پر خزانے میں جو اربوں روپے پڑے ہیں انھیں استعمال میں لا کر بھی عوام کو کافی ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کے خاتمے سے عوام کو اس بات کا اطمینان ضرور ہوگا کہ وہ مشکلات کا اکیلے سامنا نہیں کر رہے ہیں، اصل کام یہ ہے کہ ٹرانسمیشن لاسز کم کریں، بجلی چوری روکیں اور بنیادی اصلاحات کریں۔ بجلی میں سولر انرجی اور پن بجلی کی مقدار بڑھائیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نجی پاور پلانٹس کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

نجی اداروں کو اپنی بجلی بنانے اور نجی شعبے میں بیچنے کی اجازت ہونی چاہیے اور ملک میں بجلی کے پری پیڈ میٹرز لگائے جانے چاہییں۔ مہنگی بجلی بنا کر سستی بجلی حاصل کرنے پر اصرار کریں گے تو پاور سیکٹر برباد ہو جائے گا۔ حکومت اپنی نا اہلی اور غفلت کا ملبہ صارفین پر نہ ڈالے، طاقتور نجی شعبہ ایکسپورٹ کے نام پر بجلی کے شعبے سے رعایتیں لینا بند کرے، اشرافیہ کو مفت بجلی نہیں ملنی چاہیے، ہم سب کو چادر دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانے ہوں گے۔
Load Next Story